... loading ...
وفاقی وزیراحسن اقبال نے ایک افغان وفد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ پاکستان تین ہزار افغان طلبہ کو تعلیمی وظائف دے گا ۔ ایک سو افغان طلبہ کو لمز لاہور جیسے معیاری تعلیمی ادارے میں حکومت پاکستان کے خرچ پر داخلہ ملے گا ۔انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان افغانستان کے اندر 500 ملین ڈالر تعلیم ،صحت اور انفراسڑکچر کی تعمیر پر خرچ کررہاہے۔ ایک مدت بعد افغانستان کے حوالے سے مثبت خبریں مل رہی ہیں۔
پاکستان کو اپنے تعلیمی اداروں کے دروازے افغان طلبہ کے لیے پہلے ہی کھول دینے چاہیے تھے تاکہ ہزاروں افغان نوجوان پاکستان میں زیورتعلیم سے آراستہ ہوتے اور اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں کردارادا کرتے۔بہرحال دیر آید درست آید۔جنگوں اور خفیہ لڑائیاں لڑنے کے لیے بھاڑے کے ٹٹو پالنے کا زمانہ لد گیا ۔فتح اور شکست کے روایتی تصورات بدل چکے ہیں۔آج دنیا کے اکثر ممالک دوسرے ملکوں میں اثر ورسوخ تعلیم ،کلچر اور صحت کے منصوبو ں پر سرمایہ کاری کرکے پیدا کرتے ہیں۔ سافٹ امیج کی اصطلاح اسی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اسلام آباد میں گزشتہ چھتیس برس سے افغانستان کے معاملات کو دفاع اور سلامتی کے تناظر میں دیکھا گیا۔چنانچہ پاکستان میں آباد یا مہاجرت کی زندگی گزارنے والے لاکھوں افغانوں کی تعلیم اورتربیت پر خاطرخواہ توجہ نہ دی جاسکی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان ،القاعدہ اور اب داعش جیسے دہشت گرد گروپ ابھرے جنہوں نے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ اسلام کا اعتدال پسندانہ چہرہ بھی بری طرح مسخ کیا۔وہ اسلام جو دنیا میں تیزی سے پھیلتاہوا مذہب تصور کیاجاتاہے اور جس کے بارے میں قیاس کیا جاتاہے کہ اگلے چند عشروں میں وہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا ۔ عیسائیت کے پیروکاروں کو عددی اعتبار سے کوسوں پیچھے چھوڑ دے گا۔ اب عالم یہ ہے کہ ان شدت پسندگروہوں کی کارروائیوں کی وجہ سے دنیامسلمانوں کے نام سے ہی خوف زدہ ہوگئی ‘اسلام کا ذکر ہی کیا!
پاکستان کی موجودہ حکومت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ افغانستان کے بارے میں اس کے مجموعی نقطہ نظر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔اسی پس منظر میں پاکستان نے گزشتہ دنوں افغانستان کے بارے میں چارملکی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں امریکا، چین ، افغانستان اور پاکستان کے سرکردہ حکام سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے افغانستان میں متحارب گروہوں بالخصوص طالبان دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے امور پر متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں تیسری کانفرنس 23 فروری کو کابل میں ہوگی جس میں امکان ہے کہ طالبان کو مذاکرات اورنظام کا حصہ بننے کی مشترکہ طور پر پیشکش کی جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانافضل الرحمان گزشتہ افغان الیکشن کے مابعد طالبان کو سیاسی نظام کا حصہ بننے کا مشورہ دے چکے ہیں۔عمران خان بھی مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کی اپیل کرچکے ہیں۔افغانستان کے پاکستان میں تعینات سفیر گزشتہ چند ماہ کے دوران دومرتبہ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کا دورہ کرچکے ہیں جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔خفیہ مذاکرات کاروں اور ٹریک ٹو والوں نے پاکستان میں طالبان کے حامیوں کو قائل کرلیا ہے کہ وہ طالبان کو سیاسی نظام کا حصہ بننے پر آمادہ کریں۔
مذاکراتی عمل میں چین کی موجودگی کے باعث پاکستان کے تحفظات اور خدشات کا بھی بڑی حد تک ازالہ ہوجاتاہے کہ امریکا اور افغانستان پاکستان کے مفادات کو نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے لیے بھی چین کی مذاکراتی عمل میں موجودگی باعث اطمینان ہے کیونکہ چین ابھی تک افغانستان کے داخلی تنازع میں غیر جانبدار رہاہے اور اس نے طالبان کے خلاف براہ راست مہم جوئی کی اور نہ کسی مہم جوئی کی پشت پناہی کی۔
چین اس خطے میں امن اور استحکام کی خاطر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی طرف بڑھ رہاہے۔وہ محض پاکستان میں ہی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں کررہا بلکہ افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کرچکاہے اور مزید کی تیاری جاری ہے۔ایک چینی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ابھی تک چین افغانستان میں براہ راست دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔افغانستان کی موجودہ حکومت سنکیانگ میں جاری شورش پر قابو پانے میں بھی چین کی مدد کررہی ہے۔افغان خفیہ اداروں نے درجنوں یوغر عسکریت پسندوں کو گرفتار کرکے چینی حکام کے حوالے کیا ۔چین کا خیال ہے کہ سرمایہ کاری سے ملازمتوں اور کاروبار کے جو مواقع پیدا ہوں گے وہ ان ممالک کے نوجوان کو اچھی زندگی بسر کرنے پر مائل کریں گے۔علاوہ ازیں افغانستان مستحکم ہوگا تو اس کے مثبت اثرات سنکیانگ پر بھی مرتب ہوں گے جو کہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور جہاں گزشتہ دودہائیوں سے مقامی نوجوانوں میں چین کی مرکزی حکومت کے خلاف زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔جو بعض اوقات پرتشدد کارروائیوں کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔
اگرچہ طالبان ابھی تک افغان حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات میں براہ راست شرکت سے گریز اں ہیں لیکن وہ ٹریک ٹو سرگرمیوں میں شامل ہوچکے ہیں۔جنوری کے تیسرے ہفتے میں پگواش نامی ایک بین الاقوامی تنظیم نے قطر میں ایک کانفرنس کا انعقاد کرایا جس میں طالبان کے نمائندوں نے شرکت کی۔کانفرنس میں متفقہ طور پر مطالبہ کیاگیا کہ طالبان پر عائد نہ صرف سفر کی پابندیاں ختم کی جائیں بلکہ افغانستان پر ہونے والے غیرسرکاری مذاکروں میں ان کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔55 مندوبین نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔پاکستان کے کچھ تھنک ٹینکس نے بھی اس سلسلے میں کافی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔صحافیوں اور دانشوروں کے مابین مکالمے کے کئی ایک دور کرائے گئے تاکہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر اور مشکلات کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد ملے۔
افغانستان کے حوالے سے مثبت پیش رفت سے پاکستان میں داخلی استحکام کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے ڈانڈے کابل سے جاملتے ہیں۔حال ہی میں آئی ایس پی آر کے سربراہ عاصم باجوہ نے کراچی میں دہشت گردوں کا ایک خوفناک نیٹ ورک پکڑنے کا انکشاف کیا ۔ان کا انکشاف یہ حقیقت ثابت کرتاہے کہ دہشت گردوں کی جڑیں بہت گہری ہیں اور پاکستان کے اندر ان کے سہولت کار غیرمعمولی طور پر بااثر اور جدید مہارتوں کے حامل ہیں۔چند دن قبل جنرل راحیل شریف نے بھی کہا ہے کہ پاکستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کو غیر ملکی سرپرستی حاصل ہے اورانہیں وافر سرمایہ بھی فراہم کیا جاتاہے۔یہ تلخ حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے کہ دہشت گردی کا مقابلہ محض پاکستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں پر قابو پاکر نہیں کیا جاسکتابلکہ افغانستان کو بھی ان کوششوں میں مخلص شراکت دار بناناہوگا۔شدت پسندوں سے مقابلے کے لیے علاقائی اتحاد کی ضرورت ہے ۔
افغان نیشنل آرمی کے کمانڈرز اور ارکان پارلیمنٹ طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کو پرتعیش گاڑیوں میں بٹھاکر ان کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتے ہیں موجودہ افغان حکومت کے ساتھ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ ہواتھا،جس سے پاکستان کو اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوسک...
کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش حم...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملے میں پاکستان پر منصوبہ بندی کے افغان حکام کے الزامات غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ افغان حکام کی طرف سے جن سمز پر رابطوں کا الزام عائد کیا گیا تھا ، وہ افغان نیٹ ورک کا ہی حصہ نکلیں ، جب کہ اس کے تیکنیکی جائزے میں بھی حقائق افغان حکام کے الزامات کے برعکس نک...
پاک افغان سیکورٹی حکام کے درمیان چمن سرحد پر "باب دوستی "دوبارہ کھولنے کے حوالے سے فلیگ میٹنگ بے نتیجہ ختم ہوگئی۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ اجلاس خود افغان حکام کی جانب سےدرخواست پر بلایاگیا تھا مگر اس کے باوجود افغان حکام نے اپنے سرحدی علاقوں میں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے اپن...
اس ہفتے کی اہم لیکن ایسی خبر جسے نظر انداز کردیا گیا، افغانستان میں موجود امریکی کمان سے بھارت سے کہا ہے کہ وہ افغان فوج کے لیے فوجی امداد میں اضافہ کرے۔ بھارت نے دسمبر 2015ء میں افغانستان کو چار جنگی ہیلی کاپٹر دیے تھے، اب امریکی اور افغان حکام چاہتے ہیں کہ انہیں مزید بھی دیے جا...
افغانستان میں کریش لینڈنگ کرنے والے پنجاب حکومت کے ہیلی کاپٹر کے عملے کو افغان طالبان کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد پاکستان پہنچا دیا گیا۔ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار چھ افراد کے عملے کو قبائل کے درمیان معاہدے کے تحت رہا کیا...
افغانستان کے ایک سینئر پولیس عہدیدار نے، جنہیں ملک کی طاقتور ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے، صوبہ قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ قندھار کے پولیس چیف جنرل عبد الرازق نے کہا کہ کاروباری سودوں میں پاکستانی روپے کے استعمال کو جرم قرار دے دیا ہے لیک...
افغان صوبے لوگر میں پاکستانی ہیلی کاپٹر ایم آئی 17 کی ہنگامی لینڈنگ کا فائدہ اُٹھا کر وہاں موجود طالبان نے ہیلی کاپٹر میں سوار 7 افراد کو یرغمال بنا لیا۔جن میں ایک روسی اور چھ پاکستانی شامل ہیں۔تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت کا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر اپنی پروازکی مدت مکمل کر چکا تھا...
افغانستان نے کہا ہےکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اسے پاکستان کی "نیم دلانہ کوشش" پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان خلیج کتنی وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے بارہا اسلام آباد پر الزام لگایا ہے...
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پاکستان میں مندرج افغان مہاجرین کے عارضی قیام میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں افغان مہاجرین کے قیام میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی جو رواں ماہ 30 جون کو اختتام پذیر ہورہی تھی۔اب نئی توسیع شدہ مدت کے تحت پہلے سے من...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...