وجود

... loading ...

وجود

امن اور استحکام کی کنجی

بدھ 17 فروری 2016 امن اور استحکام کی کنجی

PakAfghan

وفاقی وزیراحسن اقبال نے ایک افغان وفد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ پاکستان تین ہزار افغان طلبہ کو تعلیمی وظائف دے گا ۔ ایک سو افغان طلبہ کو لمز لاہور جیسے معیاری تعلیمی ادارے میں حکومت پاکستان کے خرچ پر داخلہ ملے گا ۔انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان افغانستان کے اندر 500 ملین ڈالر تعلیم ،صحت اور انفراسڑکچر کی تعمیر پر خرچ کررہاہے۔ ایک مدت بعد افغانستان کے حوالے سے مثبت خبریں مل رہی ہیں۔

پاکستان کو اپنے تعلیمی اداروں کے دروازے افغان طلبہ کے لیے پہلے ہی کھول دینے چاہیے تھے تاکہ ہزاروں افغان نوجوان پاکستان میں زیورتعلیم سے آراستہ ہوتے اور اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں کردارادا کرتے۔بہرحال دیر آید درست آید۔جنگوں اور خفیہ لڑائیاں لڑنے کے لیے بھاڑے کے ٹٹو پالنے کا زمانہ لد گیا ۔فتح اور شکست کے روایتی تصورات بدل چکے ہیں۔آج دنیا کے اکثر ممالک دوسرے ملکوں میں اثر ورسوخ تعلیم ،کلچر اور صحت کے منصوبو ں پر سرمایہ کاری کرکے پیدا کرتے ہیں۔ سافٹ امیج کی اصطلاح اسی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

جنگوں اور خفیہ لڑائیاں لڑنے کے لیے بھاڑے کے ٹٹو پالنے کا زمانہ لد گیا ۔فتح اور شکست کے روایتی تصورات بدل چکے ہیں۔آج دنیا کے اکثر ممالک دوسرے ملکوں میں اثر ورسوخ تعلیم ،کلچر اور صحت کے منصوبو ں پر سرمایہ کاری کرکے پیدا کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں گزشتہ چھتیس برس سے افغانستان کے معاملات کو دفاع اور سلامتی کے تناظر میں دیکھا گیا۔چنانچہ پاکستان میں آباد یا مہاجرت کی زندگی گزارنے والے لاکھوں افغانوں کی تعلیم اورتربیت پر خاطرخواہ توجہ نہ دی جاسکی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان ،القاعدہ اور اب داعش جیسے دہشت گرد گروپ ابھرے جنہوں نے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ اسلام کا اعتدال پسندانہ چہرہ بھی بری طرح مسخ کیا۔وہ اسلام جو دنیا میں تیزی سے پھیلتاہوا مذہب تصور کیاجاتاہے اور جس کے بارے میں قیاس کیا جاتاہے کہ اگلے چند عشروں میں وہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا ۔ عیسائیت کے پیروکاروں کو عددی اعتبار سے کوسوں پیچھے چھوڑ دے گا۔ اب عالم یہ ہے کہ ان شدت پسندگروہوں کی کارروائیوں کی وجہ سے دنیامسلمانوں کے نام سے ہی خوف زدہ ہوگئی ‘اسلام کا ذکر ہی کیا!

پاکستان کی موجودہ حکومت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ افغانستان کے بارے میں اس کے مجموعی نقطہ نظر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔اسی پس منظر میں پاکستان نے گزشتہ دنوں افغانستان کے بارے میں چارملکی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں امریکا، چین ، افغانستان اور پاکستان کے سرکردہ حکام سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے افغانستان میں متحارب گروہوں بالخصوص طالبان دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے امور پر متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں تیسری کانفرنس 23 فروری کو کابل میں ہوگی جس میں امکان ہے کہ طالبان کو مذاکرات اورنظام کا حصہ بننے کی مشترکہ طور پر پیشکش کی جائے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانافضل الرحمان گزشتہ افغان الیکشن کے مابعد طالبان کو سیاسی نظام کا حصہ بننے کا مشورہ دے چکے ہیں۔عمران خان بھی مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کی اپیل کرچکے ہیں۔افغانستان کے پاکستان میں تعینات سفیر گزشتہ چند ماہ کے دوران دومرتبہ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کا دورہ کرچکے ہیں جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔خفیہ مذاکرات کاروں اور ٹریک ٹو والوں نے پاکستان میں طالبان کے حامیوں کو قائل کرلیا ہے کہ وہ طالبان کو سیاسی نظام کا حصہ بننے پر آمادہ کریں۔

مذاکراتی عمل میں چین کی موجودگی کے باعث پاکستان کے تحفظات اور خدشات کا بھی بڑی حد تک ازالہ ہوجاتاہے کہ امریکا اور افغانستان پاکستان کے مفادات کو نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے لیے بھی چین کی مذاکراتی عمل میں موجودگی باعث اطمینان ہے کیونکہ چین ابھی تک افغانستان کے داخلی تنازع میں غیر جانبدار رہاہے اور اس نے طالبان کے خلاف براہ راست مہم جوئی کی اور نہ کسی مہم جوئی کی پشت پناہی کی۔

چین اس خطے میں امن اور استحکام کی خاطر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی طرف بڑھ رہاہے۔وہ محض پاکستان میں ہی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں کررہا بلکہ افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کرچکاہے اور مزید کی تیاری جاری ہے۔ایک چینی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ابھی تک چین افغانستان میں براہ راست دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔افغانستان کی موجودہ حکومت سنکیانگ میں جاری شورش پر قابو پانے میں بھی چین کی مدد کررہی ہے۔افغان خفیہ اداروں نے درجنوں یوغر عسکریت پسندوں کو گرفتار کرکے چینی حکام کے حوالے کیا ۔چین کا خیال ہے کہ سرمایہ کاری سے ملازمتوں اور کاروبار کے جو مواقع پیدا ہوں گے وہ ان ممالک کے نوجوان کو اچھی زندگی بسر کرنے پر مائل کریں گے۔علاوہ ازیں افغانستان مستحکم ہوگا تو اس کے مثبت اثرات سنکیانگ پر بھی مرتب ہوں گے جو کہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور جہاں گزشتہ دودہائیوں سے مقامی نوجوانوں میں چین کی مرکزی حکومت کے خلاف زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔جو بعض اوقات پرتشدد کارروائیوں کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔

اگرچہ طالبان ابھی تک افغان حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات میں براہ راست شرکت سے گریز اں ہیں لیکن وہ ٹریک ٹو سرگرمیوں میں شامل ہوچکے ہیں۔جنوری کے تیسرے ہفتے میں پگواش نامی ایک بین الاقوامی تنظیم نے قطر میں ایک کانفرنس کا انعقاد کرایا جس میں طالبان کے نمائندوں نے شرکت کی۔کانفرنس میں متفقہ طور پر مطالبہ کیاگیا کہ طالبان پر عائد نہ صرف سفر کی پابندیاں ختم کی جائیں بلکہ افغانستان پر ہونے والے غیرسرکاری مذاکروں میں ان کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔55 مندوبین نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔پاکستان کے کچھ تھنک ٹینکس نے بھی اس سلسلے میں کافی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔صحافیوں اور دانشوروں کے مابین مکالمے کے کئی ایک دور کرائے گئے تاکہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر اور مشکلات کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد ملے۔

افغانستان کے حوالے سے مثبت پیش رفت سے پاکستان میں داخلی استحکام کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے ڈانڈے کابل سے جاملتے ہیں۔حال ہی میں آئی ایس پی آر کے سربراہ عاصم باجوہ نے کراچی میں دہشت گردوں کا ایک خوفناک نیٹ ورک پکڑنے کا انکشاف کیا ۔ان کا انکشاف یہ حقیقت ثابت کرتاہے کہ دہشت گردوں کی جڑیں بہت گہری ہیں اور پاکستان کے اندر ان کے سہولت کار غیرمعمولی طور پر بااثر اور جدید مہارتوں کے حامل ہیں۔چند دن قبل جنرل راحیل شریف نے بھی کہا ہے کہ پاکستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کو غیر ملکی سرپرستی حاصل ہے اورانہیں وافر سرمایہ بھی فراہم کیا جاتاہے۔یہ تلخ حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے کہ دہشت گردی کا مقابلہ محض پاکستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں پر قابو پاکر نہیں کیا جاسکتابلکہ افغانستان کو بھی ان کوششوں میں مخلص شراکت دار بناناہوگا۔شدت پسندوں سے مقابلے کے لیے علاقائی اتحاد کی ضرورت ہے ۔


متعلقہ خبریں


بھارتی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں لڑائی کیلیے جنگجوبھرتی کررہی ہیں وجود - جمعه 28 اکتوبر 2016

افغان نیشنل آرمی کے کمانڈرز اور ارکان پارلیمنٹ طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کو پرتعیش گاڑیوں میں بٹھاکر ان کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتے ہیں موجودہ افغان حکومت کے ساتھ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ ہواتھا،جس سے پاکستان کو اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوسک...

بھارتی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں لڑائی کیلیے جنگجوبھرتی کررہی ہیں

سانحہ کوئٹہ:"را" اورافغان خفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی، کَڑیاں ملنے لگیں وجود - جمعرات 27 اکتوبر 2016

کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے  بھاری ہتھیاروں  کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش  حم...

سانحہ کوئٹہ:

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

افغان یونیورسٹی حملہ: افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف الزامات غلط نکلے! وجود - جمعه 26 اگست 2016

کابل میں امریکی یونیورسٹی پر حملے میں پاکستان پر منصوبہ بندی کے افغان حکام کے الزامات غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ افغان حکام کی طرف سے جن سمز پر رابطوں کا الزام عائد کیا گیا تھا ، وہ افغان نیٹ ورک کا ہی حصہ نکلیں ، جب کہ اس کے تیکنیکی جائزے میں بھی حقائق افغان حکام کے الزامات کے برعکس نک...

افغان یونیورسٹی حملہ: افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف الزامات غلط نکلے!

پاک افغان سرحدی حکام کی فلیگ میٹنگ بے نتیجہ، باب دوستی کھل نہیں سکا! وجود - اتوار 21 اگست 2016

پاک افغان سیکورٹی حکام کے درمیان چمن سرحد پر "باب دوستی "دوبارہ کھولنے کے حوالے سے فلیگ میٹنگ بے نتیجہ ختم ہوگئی۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ اجلاس خود افغان حکام کی جانب سےدرخواست پر بلایاگیا تھا مگر اس کے باوجود افغان حکام نے اپنے سرحدی علاقوں میں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے اپن...

پاک افغان سرحدی حکام کی فلیگ میٹنگ بے نتیجہ، باب دوستی کھل نہیں سکا!

افغانستان میں پاک-بھارت پراکسی جنگ، امریکا بھارت کے شانہ بشانہ وجود - پیر 15 اگست 2016

اس ہفتے کی اہم لیکن ایسی خبر جسے نظر انداز کردیا گیا، افغانستان میں موجود امریکی کمان سے بھارت سے کہا ہے کہ وہ افغان فوج کے لیے فوجی امداد میں اضافہ کرے۔ بھارت نے دسمبر 2015ء میں افغانستان کو چار جنگی ہیلی کاپٹر دیے تھے، اب امریکی اور افغان حکام چاہتے ہیں کہ انہیں مزید بھی دیے جا...

افغانستان میں پاک-بھارت پراکسی جنگ، امریکا بھارت کے شانہ بشانہ

افغان طالبان نے پاکستانی ہیلی کاپٹر کا عملہ رہا کردیا، افغان حکومت غیر متعلق ثابت! وجود - اتوار 14 اگست 2016

افغانستان میں کریش لینڈنگ کرنے والے پنجاب حکومت کے ہیلی کاپٹر کے عملے کو افغان طالبان کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد پاکستان پہنچا دیا گیا۔ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار چھ افراد کے عملے کو قبائل کے درمیان معاہدے کے تحت رہا کیا...

افغان طالبان نے پاکستانی ہیلی کاپٹر کا عملہ رہا کردیا، افغان حکومت غیر متعلق ثابت!

قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد وجود - اتوار 07 اگست 2016

افغانستان کے ایک سینئر پولیس عہدیدار نے، جنہیں ملک کی طاقتور ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے، صوبہ قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ قندھار کے پولیس چیف جنرل عبد الرازق نے کہا کہ کاروباری سودوں میں پاکستانی روپے کے استعمال کو جرم قرار دے دیا ہے لیک...

قندھار میں پاکستانی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد

افغانستان میں پاکستانی ہیلی کاپٹر کی ہنگامی لینڈنگ، سات سوار یرغمال وجود - جمعه 05 اگست 2016

افغان صوبے لوگر میں پاکستانی ہیلی کاپٹر ایم آئی 17 کی ہنگامی لینڈنگ کا فائدہ اُٹھا کر وہاں موجود طالبان نے ہیلی کاپٹر میں سوار 7 افراد کو یرغمال بنا لیا۔جن میں ایک روسی اور چھ پاکستانی شامل ہیں۔تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت کا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر اپنی پروازکی مدت مکمل کر چکا تھا...

افغانستان میں پاکستانی ہیلی کاپٹر کی ہنگامی لینڈنگ، سات سوار یرغمال

طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کا کوئی ارادہ نہیں، افغانستان کے نخرے وجود - جمعه 15 جولائی 2016

افغانستان نے کہا ہےکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اسے پاکستان کی "نیم دلانہ کوشش" پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان خلیج کتنی وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے بارہا اسلام آباد پر الزام لگایا ہے...

طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کا کوئی ارادہ نہیں، افغانستان کے نخرے

افغان مہاجرین کے عارضی قیام کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع! وجود - جمعرات 30 جون 2016

وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پاکستان میں مندرج افغان مہاجرین کے عارضی قیام میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں افغان مہاجرین کے قیام میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی جو رواں ماہ 30 جون کو اختتام پذیر ہورہی تھی۔اب نئی توسیع شدہ مدت کے تحت پہلے سے من...

افغان مہاجرین کے عارضی قیام کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع!

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟ محمد انیس الرحمٰن - جمعه 17 جون 2016

خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر