... loading ...
اچھے بُرے کا بظاہر تاثر کی سطح پر ہونا اُس کی اصل حقیقت کا اعلان نہیں کرتا۔ایک زیادہ گہرے تجزیئے میں اچھی نظر آنے والی بعض بظاہر چیزیں زیادہ بُری بھی ثابت ہوتی ہیں ۔ نجکاری کا معاملہ اپنے بعض پہلووؤں میں کچھ اسی حقیقت کا عکاس ہے۔
نجکاری کے موقف کی حمایت بہت وسیع ہے۔ مگر اس موقف کا درست جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلا سوال نجکاری کے اُصولی موقف پر اُٹھتا ہے۔اس ضمن میں پہلی بات باربار ، بتکرار اور بصد اصرار یہ کہی جاتی ہے کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا۔ یہ جملہ سننے میں تو بہت ولولہ انگیزلگتا ہے، مگر یہ ریاستوں کے ساتھ شہریوں کے تعلق کے عمرانی اور سماجی معاہدے سے متصادم ہے۔ جدید ریاستوں نے اپنے جواز کے لئے جو موقف معاہدوں کی صورت میں اختیار کئے ہیں اُس میں افراد کی فلاح اور شہریوں کی خدمت کلیدی نکتہ ہے۔یہاں تک کہ شہریوں کی فلاح کے معاملے کو ریاست کے تحفظ پر بھی ایک نوعی تقدم حاصل رہا ہے۔ مثلاً قدیم ایتھنز میں جب چاندی کے نیے ذخائر دریافت ہوئے تو524برس قبل مسیح میں پیدا ہونے والے جرنیل سیاست دان تھیمس ٹوکلیز(Themistocles) نے کہا کہ اِسے دوسو نیے جنگی جہازوں کو بنانے کے لئے استعمال کیا جائے، مگر اس کے مقابل زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ تھی کہ پہلے چاندی کے ذخائر میں سے ہر خاندان کو دس دس سکے تقسیم کر دیئے جائیں۔اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جب مغربی حکومتوں نے علم و تعقل کی عینک سے حقیقتوں کے سراغ کی جستجو کی تو یورپی آئین کی تمہید میں یہ تصورات شامل کئے گیے۔ جس کے تحت انجینئرنگ ، شہری منصوبہ بندی، صحت عامہ ، تعلیم اور مواصلات سمیت متعدد پیشے ریاست کی ذمہ داری میں آگیے۔ اور ریاست نے اپنے جواز کی جڑیں ان مقاصد میں رکھیں۔ ان مقاصد کی تکمیل کی خاطرہی ریاستیں عمومی نوعیت کے کچھ اداروں کے انتظامات ہمیشہ خود سنبھالتی رہی ہیں۔
اس ضمن میں ریاستیں تین نوعیت کے اداروں کے انتظامات سے نجکاری کے عمل میں بھی دستبردار نہیں ہوتیں۔ تحفظ عامہ کے ایسے ادارے جو بڑے پیمانے پر ریاستی نظم کو متاثر کرسکتے ہوں۔ اس ضمن میں مواصلات اور دیگر سیکورٹی اداروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ دوسرے وہ ادارے جو قومی وقار کی علامت بن گیے ہوں یا پھر جو عالمی برادری میں تعارف کا مستقل وسیلہ ہوں۔ اس ضمن میں تقریباً تمام اہم ممالک نے اپنے جھنڈے والے جہازوں کی ائیرلائن کو اختیار کئے رکھا ہے۔ ائیر انڈیا ، قطر اور ایمریٹس ائیر لائنز اسی نوع کی تصور پر قومی جھنڈے کے ساتھ محو پرواز رہتی ہیں۔ تیسرے وہ ادارے ہیں جو بڑے پیمانے پر خدمات کی فراہمی کے ریاستی وعدے کی عکاسی کرتے ہیں، جن میں تعلیم اور صحت کے ادارے شامل سمجھے جاتے ہیں۔نجکاری کے پورے عالمی ماحول میں ان تین نوعیت کے اداروں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش وہ ریاستیں بھی کرتی ہیں جو گردن گردن قرضوں میں دھنسی ہوئی ہو۔
دوسری طرف جدید ریاستوں میں حکومتوں کے اختیارات کو کم کرنے کے لئے کارپوریشنز کو تقویت دی جارہی ہے۔ عالمی قوتیں جو طاقت کے فرمان پر بین الاقوامی برادری میں حرکت پزیر ہیں ، وہ امکان بھر کوشش کرتی ہیں کہ زیردست ریاست میں ادارے مکمل طور پر نجی افراد کی ملکیت میں چلے جائیں۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ مختلف قومی ادارے اپنے اثرات اور وسعت کے ساتھ دراصل ایک قومی ارادے کی طاقت کے لئے قابل پیمائش بنتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ہتھیاروں کی نجی صنعت نے دنیا کے سب سے طاقت ور شخص یعنی صدرِ امریکا کو ہتھیاروں پر پابندی کا ایک سادہ قانون بنانے سے روک رکھا ہے۔ کیا یہ کوئی مذاق کی بات ہے کہ امریکی صدر بندوق سے مرنے والے امریکیوں کی ہوش ربا سالانہ تعداد پر آبدیدہ ہو کر یہ فرماتے ہیں کہ وہ خود کو ایک بے بس شخص پاتے ہیں۔ جدید ریاستوں میں قومی اداروں کی نجکاری کا پورا عمل دراصل ریاستی اقتدار کی تحدید کا ایک عالمی تجربہ ہے۔ جسے بدعنوانی اور خسارے کے دو منتروں پر ہی رچایا جاتا ہے۔ پی آئی اے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا جو پہلے نہیں ہوا۔ یہ موقف اُصولی طور پر ٹھیک ہے کہ حکومتیں کاروبار نہیں کرتیں۔مگر جدید ریاستوں کی بناوٹ میں کچھ اور پہلو بھی ہیں جنہیں دھیان میں رکھے بغیر اس موقف کو پورے کا پورا قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ریاستیں کچھ ادارے اپنے پاس رکھ کر اُسے افتخار، اپنے تحفظ اور فلاحی تصورات کی آبیاری میں علامتوں کے طور پر فروغ دیتی ہیں۔ ہر چیز نجی ہاتھوں میں دینے سے بعض اہم نوعیت کے ریاستی فیصلے بھی تاجروں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ریاستوں میں یہ تصورفروغ پارہا ہے کہ ریاستی اقتدار کارپوریشنز کے ہاتھوں تحلیل ہو رہا ہے۔ اور یہ بھیانک صورت ریاست کے اندر جاری تمام معاشی سرگرمیوں سے بتدریج ریاستی عمل داری کے خاتمے سے سامنے آرہی ہے۔
پاکستان میں اس کے بھیانک تجربات آئے دن ہوتے رہتے ہیں، مگر ابھی اس کی گمبھیرتا پر ایک عمومی توجہ مبذول نہیں ہوسکی۔ کچھ ہی
دن پہلے کی مثال سامنے رکھیں۔پنجاب حکومت نے باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد جب تعلیمی اداروں کو کھولنے کا فیصلہ کیا تو نجی اداروں میں تعلیم مہیا کرنے والے بارہ اداروں نے اس فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ اور حکومت سختی کی تمام دھمکیوں کے باوجود کچھ بھی نہیں کر سکی۔ پاکستان میں افراد اتنے طاقت ور ہو رہے ہیں کہ وہ پوری ریاست کے لئے چیلنج بن جانے کے قابل ہوچکے ہیں۔ ہماری قومی قوت کے اندازے زیادہ تر مبالغہ آمیز جذباتی سطح سے اُبھرے ہوئے ہیں۔
پاکستان ایسے معاشروں میں تو نجکاری کا عمل اس سے کہیں زیادہ غوروفکر اور احتیاط کا طالب ہے۔ یہ ایک ایٹمی ریاست ہے ، اس کے قومی معاملات اکثر اُس کی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسے بہت سے دشمنوں کا سامنا ہے۔ اور خود یہ ریاست پاکستان کے اندر ایسی تحریکوں سے دوچار ہے جو اُس کے وجود پر سوال اُٹھاتی ہیں۔ لہذا مسلم لیگ نون کی حکومت میں جاری نجکاری کے عمل کو انتہائی احتیاط سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اِسے محض ’’ریاستیں کاروبار نہیں کرتیں ‘‘ کے رٹے رٹائے جملے سے سندِ تائید نہیں دی جاسکتی۔ پی آئی اے کی نجکاری بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔مگر اس پر بحث اگلی تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔یہاں صرف ایک نکتے پر اصرار ضروری ہے کہ غیر شفاف معاشی سرگرمیوں پر نجکاری کاعمل ابھی تک خود کوئی شفاف معاشی سرگرمی ثابت نہیں ہوسکا۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...