وجود

... loading ...

وجود

گر تم نہ کرو گے تو جفا کون کرے گا؟ اچّھے بُرے افسروں کے قصّے - قسط 2

جمعرات 04 فروری 2016 گر تم نہ کرو گے تو جفا کون کرے گا؟ اچّھے بُرے افسروں کے قصّے - قسط 2

چارلس جیمز نیپئر۔ یہ تصویر ولیم ایڈورڈ کلبرن نے 1849ء میں لی تھی

چارلس جیمز نیپئر۔ یہ تصویر ولیم ایڈورڈ کلبرن نے 1849ء میں لی تھی

بات افسر شاہی کے طور اطوار کی تھی۔ 1988 ء میں وہ کیسے ضابطے اور قانون سے کام لیا کرتے تھے ،تب تک جب جمہوریت نے بے حیائی کا اپنا گھونگٹ دوبارہ نہ اٹھایا تھا ۔افسر شان بے نیازی سے لوٹ مار سے بلند و بالا ہوکر نوکری کیا کرتے تھے۔ان کی گفتگومیں جہاں اختر حمید خان ،مسعود احمد کھدر پوش، آغا شاہی،نیاز نائیک،ایس کے محمود، فتح محمد بندیال،مظفر حسین ،قدرت اﷲ شہاب، فدا حسین،غلام اسحق خان کے طرز عمل کی مثالیں ہوتی تھیں وہیں ویلیم میری ویدر ، جان جیکب فرئیر بارٹل اور سر چارلس نیپئر جیسے ناموں پر جرات اور معاملہ فہمی کی تان ٹوٹ جاتی تھی۔

ان اسمائے مبارکہ کا ہر وقت ورد کرنے والے کراچی کے اس ڈی ایم جی افسر حسنات احمد (فرضی نام) کے بڑوں کا پیچھے سے تعلق فرخ آباد بھارت سے تھا۔مزاج بھی بہت کھڑا کھیل فرخ آبادی (فرخ آباد کے لوگ معاملات کو سیدھا رکھتے تھے یوں یہ محاورہ بولا جاتا تھا) قسم کا تھا۔

سی ایس پی ہونے کا تفاخر خون میں ایسے ہلکورے لیتا تھا کہ 1863 میں رابندر ناتھ ٹیگور کے بڑے بھائی ستیندر ناتھ ٹیگور جوپہلے مقامی ہندوستانی آئی سی ایس افسر بنے تھے وہ بھی کیا اپنی افسری اور اس گروپ پر نازاں نہ ہوتے ہوں گے جتنے یہ حضرت۔ حالانکہ بھٹوصاحب کی انتظامی اصلاحات کے بعد ان کا سی ای پی گروپ کسی بیوہ کی جوانی لگتا تھا۔پولیس گروپ والے اپنی براہ راست طاقت اور کسٹم والے انہیں اپنی ناجائز دولت کی بدولت اپنا ہم پلہ نہ گردانتے تھے۔

شام کو ململ کا ڈھل مل کرتا، علی گڑھ پاجامہ پہنتے،پان نہیں کھاتے تھے مگر گفتگو سے قوام کی خوشبو آتی تھی ۔ والد صاحب کو اب بھی اباحضور پکارتے تھے۔سندھی افسر جو ا ُن کے دوست تھے وہ اس کا مذاق بناتے تو یہ حضرت انہیں جتاتے کہ تم بھی تو بابا سائیں بولتے ہو۔اب تک کی نوکری کراچی کی تھی مگر ڈپٹی کمشنر اندرون سندھ میں لگنا چاہتے تھے۔حیدرآباد ، ٹھٹھہ، بدین اور نواب شاہ تک کے خواب دیکھتے تھے کیوں کہ یہ سب اضلاع کراچی تک دن دن کا پھیرا تھے۔

1918ء میں جب جنگ عظیم جاری تھی کوئی غلام قادر صاحب رتو ڈیرو (لاڑکانہ) سے اپنی قوم کے کسی فرد کو انگریز فوج میں بھرتی کرابیٹھے۔ان کی خدمات سے خوش ہوکر ڈی سی صاحب نے انہیں ایک یہ تعریفی سند بطور آفرین نامے کے جاری کی تھی۔

جیکب آباد کے دورے پر اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق پہنچے تو بہت دبے دبے لہجے میں انہیں بتایا گیا کہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر جو ایک رینکر ہیں جب دو چار جام لنڈھا لیتے ہیں تو تلور کے شکار پر آئے بوڑھے عرب شیوخ، شہزادوں اور کم سن طوائفوں کی موجودگی میں بھٹو کو اچھا اور فوج کو برا کہتے ہیں، ان سے ملنے والے تحفے تحائف کو بھی توشہ خانے میں جمع نہیں کراتے،یہ سب ملکی سلامتی کی رو سے گناہ کبیرہ ہیں۔

سندھی کمشنر کے سامنے ان کے اس بدلحاظ ماتحت ڈپٹی کمشنرکے معاملے کو بطور شکایت رکھا گیا تو وہ بھی اس کے دفاع میں کہنے لگے ’’ رواجی افسر ہے ابھی بھلا شراب پی کر جنرل یحییٰ خان بھی تو شاہ ایران کی دعوت میں جھاڑیوں میں پیشاب کرنے کھڑا ہوگیا تھا۔وہ کونساشراب پی کر جنرل رانی، نورجہاں، بلیک بیوٹی اور دوسری عورتوں کو قصیدہ بردہ شریف سناتا تھا۔اس کو اگر معاف کردیا ہے تو اس کو بھی اگنور مارو۔ جس پر خفیہ ایجنسی کے افسر نے اپنے ڈیٹ کمانڈر کو جتایا کہ “Typical bloody civilian Response Sir”۔ ائیر پورٹ واپسی تک دونوں افسران کو Hot Plate پر بٹھانے کا فیصلہ ہوگیا عرف عام میں اسے رگڑا دینے کا پروگرام سمجھ لیں۔اگلے دن ڈی ایم ایل اے جنرل جہاں زیب ارباب کے پاس میٹنگ میں نئے افسروں کے لیے ناموں کی تلاش ہوئی تو کسی بریگیڈئیر نے جسے حسنات احمد کئی ماہ پہلے اپنے سیکرٹری فنانس کے دفتر آمد پر لینے اور چھوڑنے خود گیٹ تک گئے تھے ۔اسی احسان مند نے بطور ڈپٹی کمشنر ان کا نام تجویز کردیا۔وہ ان دنوں وہاں کا اے ایس ایم ایل تھا۔سچ ہے نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

سیکرٹریٹ کے بابوؤں والی بیوروکریسی ان دنوں ایسی نہ تھی کہ ابھی منگنی ہوئی نہیں اور لڑکی نے پسندیدہ میٹرنٹی ہوم کا محلے میں چرچا کرنا شروع کردیا۔انہیں اپنی تعیناتی کا اس وقت تک علم نہ ہوا جب تک نوٹیفکیشن ان کے ہاتھ نہ آیا۔بہت دیر تک سکتے میں رہے کہ یہ کیا داغ داغ اجالا ان کی گردن سے لپٹ گیا۔ کہاں پی ای سی ایچ ایس کی سن شائن قلفی اور طارق روڈ کی رنگ برنگی شامیں۔ کہاں وہ خاک میں لتھڑا ہوا خون میں نہلایا ہوا جیکب آباد۔

سورۃ مریم کی آیت نمبر دس میں مذکور ہے کہ حضرت ذکریا ؑ نے بڑھاپے میں اپنے لیے بیٹے کی پیدائش کی تمنا کی تو اپنی دعا کی قبولیت کی نشانی طلب کرنے پر انہیں تین دن تک عوام سے کنارہ کش ہوکر ان سے گفتگو کرنے سے مکمل پرہیز کا کہا گیا۔سو ہمارے مہربان عزیز نے دفتر سے تین دن پہلے ہی جان چھڑائی اور سیدھی برٹش کونسل لائبریری میں گوشہ نشین ہوگیے۔تب یہ موجودہ میرٹ ہوٹل سے جڑی ہوتی تھی۔ شا م کو ہم یا تو جم خانہ میں کھانا ساتھ کھاتے تھے یا نسرین روم میں جہاں افسر ہونے کے ناطے بینکویٹ مینجر خصوصی رعایت کرتا تھا۔تب تک یہ ہوٹل قدرے سرکاری تھا اور ائیر مارشل نور خان کی گل جی والی تصویر لابی میں ٹنگی دیکھ کر ریشم و اطلس و کم خواب میں لپٹی ہوئی خواتین اپنے ریں ریں کرتے بچوں کو ڈرایا کرتی تھیں۔ اپنے اس ایام گوشہ نشینی کے تین دنوں میں کونسی ایسی کتاب تھی جو گورے نے ہندوستان کی سول سروس پر لکھی ہو اور وہ انہوں نے نہ کھنگالی ہو۔

پاکستان بننے سے کچھ عرصے پہلے تک میٹروپول ہوٹل سے آگے کسی دیسی کو بلااجازت نہ آنے دینے کی وجہ یہی تھی کہ سندھ کے حاکم کا دفتر اور افواج انگلشیہ کے دفاتر اور رہائش گاہیں وہیں تھیں۔ اسی لیے اسے لائنز ایریا کہا جاتا تھا۔

ان کا خیال تھا کہ انگریز ہی کو افسری کرنا آتا تھا۔ پنجاب، خیبر پختون خواہ اور سند ھ کے سرکش جاگیرداروں، خوانین اور وڈیروں کا صحیح باجا تو گورے حاکم نے بجایا۔ خاکسار نے سمجھایا کہ سرکار وہ زمانے لد گئے ہیں۔چند دن بعد اس مارشل لاء کی غیر متوازن آنکھ میں جمہوریت کا پانی اتر آئے گا(موتیا آنکھ میں آنا) یہ سب سردار، وڈیرے شام سویر ے ’’ہن موجاں ہی موجاں ‘‘کرتے کراتے دوبارہ بااختیار ہوجائیں گے، دشمنیاں نکالیں گے ۔ لہذا آپ بھی عشق کو عشق ہی سمجھیں، مشغلہ دل نہ بنائیں مگر نہ مانے۔

آفرین نامہ

آفرین نامہ

مجھے کہنے لگے وہ جو انگریز’’ آفرین نامہ‘‘ جاری کرتا تھا وہ تو دکھاؤ۔ 1918ء میں جب جنگ عظیم جاری تھی کوئی غلام قادر صاحب رتو ڈیرو (لاڑکانہ) سے اپنی قوم کے کسی فرد کو انگریز فوج میں بھرتی کرابیٹھے۔ان کی خدمات سے خوش ہوکر ڈی سی صاحب نے انہیں ایک یہ تعریفی سند بطور آفرین نامے کے جاری کی تھی۔ کمشنر صاحب نے اس خدمت کو مزید تفاخر میں یوں بدل دیا کہ جب غلام قادر صاحب، ڈی سی صاحب کی کھلی کچہری جسے ان دنوں دربار کہا جاتا تھا( اور ہر ڈی سی آفس میں ایک دربار ہال ہوتا تھا) ْجب اُس میں یہ آتے تو ان کو کرسی پیش کی جاتی تھی۔ دیگر معززینِ شہر مثال سائل ِمبُرم (ڈھیٹ فقیر) دست بستہ کھڑے ہی رہتے تھے۔

chair privilege

اتنا پیار کرنے والا حاکم جب ناراض ہوتا تھا تو وہ شخص جس کو سزا ہوتی اس کا جرم اور قید کی معیاد ایک طوق ملامت کے طور پر اُسے گلے میں لٹکانی ہوتی تھی۔اسے وہ ’’ذلّت نامہ‘‘ کہتے تھے۔معتوب شخص اگر کسی وجہ سے سرکاری ملازم کے طلب کرنے پر یہ ذلت نامہ گردن میں حمائل نہ کرتا تو بہت مشکل پیش آتی۔سوچئے اگر پاکستان میں ایسا ہوتا تو تقریباً اکثرسیاسی قائدین اسی طرح کی سند گرواٹ اپنی جعلی ڈگری کی طرح گلے میں لٹکائے گھوم رہے ہوتے۔

نیپئر نے سندھ فتح کرنے کے بعد جو پہلی عمارت تعمیر کی وہ نیپئر بیرکس تھی

نیپئر نے سندھ فتح کرنے کے بعد جو پہلی عمارت تعمیر کی وہ نیپئر بیرکس تھی

حسنات صاحب کو سب سے پہلے تو سر چارلس نیپئر فاتح سندھ نے بڑا متاثر کیا ۔اس نے 1847ء میں سندھ فتح کرنے کے بعد جو پہلی عمارت سندھ میں تعمیر کی وہ نیپئر بیرکس تھی۔ (اسے آجکل لیاقت بیرکس کہہ کر پکارتے ہیں اور کور کمانڈر صاحب یہاں اپنا دفتر قائم کرتے ہیں۔۔۔ ایک سو ستر سال ہونے کو آتے ہیں وہ عمارت آج بھی اپنی شان و شوکت اور طاقت کے اعتبار سے بے نظیر ہے) ہم نے اس نیپئر کے نام کو پاکستان کی تیسری بڑی ہیرا منڈی والے نیپئر روڈ کے نام سے منسوب کرکے وہاں بلبل ہزار داستان، سنگیت محل اور رنگ محل نامی عمارات ایستادہ کردی ہیں۔ پاکستان بننے سے کچھ عرصے پہلے تک میٹروپول ہوٹل سے آگے کسی دیسی کو بلااجازت نہ آنے دینے کی وجہ یہی تھی کہ سندھ کے حاکم کا دفتر اور افواج انگلشیہ کے دفاتر اور رہائش گاہیں وہیں تھیں۔ اسی لیے اسے لائنز ایریا کہا جاتا تھا۔

ہم نے  کے نیپئر نام کو پاکستان کی تیسری بڑی ہیرا منڈی والے نیپئر روڈ کے نام سے منسوب کرکے وہاں بلبل ہزار داستان، سنگیت محل اور رنگ محل نامی عمارات ایستادہ کردیں

ہم نے کے نیپئر نام کو پاکستان کی تیسری بڑی ہیرا منڈی والے نیپئر روڈ کے نام سے منسوب کرکے وہاں بلبل ہزار داستان، سنگیت محل اور رنگ محل نامی عمارات ایستادہ کردیں

وہ کہا کرتا تھا کہ کسی ملک کو سیدھا کرنا ہو تو پہلے وہاں کی عوام کو سب سے پہلے سزاؤں کے ذریعے عبرت کا نشانہ بناؤ اور پھر ان پر آہستہ آہستہ مہربانیاں کرو۔ جب اس نے بطور گورنر بمبئی ( ان علاقوں میں سندھ بھی شامل تھا) ستی کی رسم (جس میں بیوہ کو اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ چتا میں زندہ جلنا پڑتا تھا) پرپابندی لگائی توہندو راجپوت ٹھاکروں اور برہمنوں کا ایک وفد احتجاج کرنے پہنچا تو ان کے حواس خطا کرنے کے لیے مقام ملاقات پر کئی بڑھئی لکڑی کی پھانسیاں تیار کرنے میں مصروف تھے۔

چارلس نیپئر نے بہت دھیرج (سکون) سے ان کی گزارشات سنیں اور آہستہ آہستہ اپنی ڈاڑھی میں خلال کرتے ہوئے کہنے لگا ’’یہ آپ کی رسم ہے تو میں اس کی ادائیگی سے آپ کو ہرگز نہیں روکوں گا۔لیکن یہاں ہم نے ایک قانون رائج کیاہے کہ اگر کوئی کسی عورت کو زندہ جلائے تو ہم اسے پھانسی پر لٹکاتے ہیں اور اس کی ساری جاگیر ضبط سرکار کرلیتے ہیں۔آؤ آپ اپنی رسومات کو پورا کرو ہم اپنے قانون پر عمل کرتے ہیں۔ پھانسی گھاٹ کم پڑیں گے تو اور بڑھئی منگوالیں گے۔

یہ قصہ 1849 ء کا ہے۔ سر چارلس نیپئر کو مرے ہوئے بھی ایک صدی سے اوپر ہوگئی۔ وی پی سنگھ ،گجرال، باجپائی اور مودی جیسے شدھی شنگھٹن وزرائے اعظم جو ہر وقت ہندووتا کو بغل میں دابے رہتے ہیں مگر کسی میں اتنی جرات نہ ہوپائی کہ جو دھرم ریت و رسم کو چارلس نیپئر پامال کرگیا وہ ستی کی رسم کا دوبارہ اجرا کرسکیں۔ یہ ہے قانون کی حکمرانی یعنی WRIT of THE STATE۔

napier barracks

اس سے پہلے کہ حسنات صاحب جیکب آباد اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے لیے ر وانہ ہوں ہم ویلیم میری ویدر کا قصہ بھی دہرالیں، اپنی جیکب آباد تعیناتی کے دوران میں ایک صبح جب وہ اپنے دو سندھی گارڈز کو ساتھ لے کر واک پر نکلا تو اس دوران گھات لگا کر ان گارڈز کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ کھرا نکالا گیا ۔تفتیش ہوئی تو علم ہوا کہ یہ شرارت چند بگٹیوں کی تھی جن سے ان کے محافظین کی ذاتی مخاصمت تھی۔

معافی کے لیے درمیان میں لوگ آئے تو ویلیم میری ویدر (جن کے نام کا ٹاور بھی ہے جسے اب ہم صرف ٹاور کہتے ہیں) نے کہا کہ میرے محافظین کو اگر سوتے میں ماردیا جاتا یا ان کی رہائش گاہ پر قتل کیا جاتا تو یہ ذاتی دشمنی سمجھا جاسکتا تھا مگر چونکہ یہ کار سرکار میں ڈیوٹی پر مصروف تھے یہ سرکار انگلشیہ پر حملہ ہے۔اس کا بھرپور بدلہ لیا جائے گا۔ اس نے 133 مقامی سندھیوں کی فوج لے کر 700 بگٹیوں پر حملہ کیا اور ان میں سے 566 کو قتل کیا۔ کمشنر صاحب پرنگل کا خیال تھا کہ مارے جانے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ بگٹیوں نے شرمندگی کے مارے یہ بتایا نہیں تھا۔( حوالہ Annexation and the Unhappy Valley: by Mathew Cook)

اسی لیفٹننٹ ویلم میری ویدر سے (جو بعد میں سندھ کا گورنر بنا) جب کمشنر سندھ فرئیر بارٹل (جن کے نام کے کئی باغ اور مارکیٹ ہیں ) نے پوچھا کہ’’ گورنر نیپئر نے بمبئی سے ایک خط کے ذریعے دریافت کیا ہے کہ جیکب آباد کے ان علاقوں کا جو سندھ بلوچستان اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہیں وہاں امن و امان کی صورت حال کیسی ہے ؟‘‘تو اس نے جواب میں اپنے ماتحت اسسٹنٹ کمشنرویلم میری ویدر کا وہ خط بطور سند بھیج دیا کہ جس میں لکھا تھا کہ
here on the frontier (with Punjab) under the mountains not a mouse stirs without Merewether’s permission” ــ’’ان علاقوں میں پہاڑوں کے نیچے بھی کوئی ایسا چوہا نہیں جو میری ویدر کی اجازت کے بغیر ہل جل سکے ـ‘‘

یہ انیسویں صدی کا آغاز تھا ۔ میری ویدر اپنے ملک سے مکمل اجنبی لوگوں میں چھ ہزار میل دور ہوتے ہوئے بھی ایسا بے خوف اور پر اعتماد تھا۔اس کے پاس نہ راکٹ لانچر تھے، نہ ٹینک، نہ فضائیہ، نہ بحریہ، نہ ایسے آلات جن سے جاسوسی ہوپائے، نہ ڈرون۔

ضیامارشل لاء کے دور میں جب ملک بھی آزاد تھا ،خیبر میل کے اے سی والے کوپے میں ڈپٹی کمشنر حسنات احمد بہت چپ چپ تھے۔آپ ذرا خوف زدہ بھی مان لیں۔ جیکب آباد کراچی سے صرف چار سو میل کی دوری پر تھا۔

فرق صرف اتنا تھا کہ وہ باصلاحیت، بے خوف، مقصد میں سچے لوگ تھے اور بعد کے آنے والے کم علم، بے صلاحیت، کم قیمت اور مقصد سے روگردانی کرنے والے حاکمان بے وقعت۔ہمارے شیخ احمد دیدات مرحوم اہل مغرب اور مسلمانوں کا موازنہ کرتے ہوئے بصد تاسف فرماتے
They are live people on dead path we are dead people on live path
وہ ایک مردہ شاہراہ پر زندہ قوم ہے اورہم ایک زندہ شاہراہ پر مردہ قوم ہے۔

چارلس نیپئر کی آخری آرام گاہ

چارلس نیپئر کی آخری آرام گاہ


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر