... loading ...
کُھلی سڑک پر ایک بس جا رہی ہو، دورانِ سفر انسان ہی کیا کسی حیوان کو بھی اس نے خراش تک نہ پہنچائی ہو، خراماں خراماں اپنی منزلِ مراد کی طرف جا رہی ہو کہ اسے ٹریفک پولیس روک لے، پھر ڈرائیور اور بس کنڈکٹر کو اتار کر یہ کہے کہ وہ بس کے سفر اور بیٹھے مسافروں کو نہیں روکنا چاہ رہی، اس نے تو صرف ڈرائیور اور کنڈکٹر کو پکڑا ہے تو بھلے کون ان اہلکاروں کی عقل پر ماتم نہ کرے گا کہ کسی بس کے ڈرائیور کو اتار لینے سے اوّل تو وہ بس چل نہیں پائے گی اور اگر گیئر لگا کر اسے چلنے کے قابل بنا کرچھوڑیں گے تو وہ چند ہی لمحوں میں سڑک سے اتر کر کسی گڑھے میں جا گرے گی۔ تنظیمِ اسلامی جیسی پُرامن جماعت کو محدود کرنے کے کچھ عرصہ بعد حال ہی میں پنجاب کے تعلیمی اداروں کے اندر تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کی گئی تو بظاہر یہ اطمینان دلانے کی کوشش کی جا رہی ہےکہ اسلامی تنظیموں اور جماعتوں یا کل کلاں مدارس کو محدود کرنے یا پابندی لگانے سے وہ اسلام کی بس کو نہیں روکنا چاہ رہے۔
گزارش ہے کہ اسلام نہ تو کوئی کالا جادو ہے کہ جسے مکہ و مدینہ کے والی رسول اللہ ﷺ نے پھونکا تھا اور اب تا قیامت انسانوں کے دلوں پر سحر گھولتا جائے گا، اور نہ اسلام ایسی کوئی خود کار مشین ہے کہ جوصفحہِ انسان کو کلمہ پڑھا کر ایک طرف سے داخل کرتی ہے تو دوسری طرف سے مسلمان پرنٹ ہو کر نکل آتا ہے۔ اسلام بھی دنیا کے باقی نظریات کی طرح ایک نظریہ حیات ہی ہے اس فرق کے ساتھ کہ یہ انسان کے خالق اور مالک اللہ رب العالمین کی طرف سے بھیجا گیا ہے لیکن ہر نظریے اور نظام کی طرح یہ انسانوں کے ذریعے ہی پھیلا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی اشاعت، تبلیغ اور نفاذ کے لیے ایک انسان کو ہی چنا۔ چونکہ اب قیامت تک اللہ تعالیٰ مزید کوئی انسان نہیں چنے گا لہٰذا اشاعت، تبلیغ اور نفاذ اسلام کا یہ فریضہ مسلمان پر ڈال دیا گیا ہے کہ قرآن و سنت کے ذریعے یہ ذمہ داری نبھائے، قرآن مجید ایسے لوگوں کو ‘انصار اللہ’ مطلب اللہ کے مددگار قرار دیتا ہے۔ مسلمان معاشروں میں اپنی اس ذمہ داری کو چند مسلمانوں نے محسوس کیا اور اپنے اپنے فہم کے مطابق جماعتوں اور پارٹیوں کی شکل اختیار کر لی۔ اپنے اپنے فہم کے مطابق انہوں نے طریقہ کار اور اقدامات بھی کیے، کسی نے مدارس بنا لیے تو کسی نے دعوتی و تبلیغی جماعتوں تشکیل دے دیں، کسی نے مذہبی جماعتیں بنا لیں تو کسی نے دینی سیاسی پارٹیوں کی بنیاد رکھی۔ اپنے اپنے فہم اور تعبیر کے مطابق یہ تمام عناصر اسی فریضہ دین کو اختیار کیے ہوئے ہیں جس کا مطالبہ قرآن مجید اُن سے کرتا ہے جس کے نتیجے میں ان معاشروں کے اندر اسلام کی اشاعت، تبلیغ اور نفاذ کی کوششیں جاری رہتی ہیں، اب اگر ان مدارس، تنظیمات یا جماعتوں کو روکنے یا محدود کرنے کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں تو بلاشبہ اس فریضہ ِ دین پر فرق آئے گا۔
اسلامی جماعتوں اور تنظیموں کو روکنے یا محدود کرنے سے فریضہِ دین کی تکمیل میں جو خلا پیدا ہو گا وہ آپ کیسے بھریں گے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ چند جماعتیں ایسی بھی ہیں جو ٹھیک طریقے سے اسلام کی خدمت کر رہی ہیں، لیکن آپ کا یہ مختلف برتاؤ، فرقہ واریت کی پہلی اینٹ ہے کہ جس کی بنیاد پر آپ جماعتوں اور تنظیموں کو اچھائی اور بُرائی میں تقسیم کر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مذہب کے نام پر بننے والی جماعتیں ہمیشہ ہی معاشرے میں انتشار پیدا کرتی ہیں بظاہر تو یہ شدید رویہ ہے لیکن اگر ہم اسے تسلیم بھی کر لیں تو کیا اس کےمتبادل ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی جیسی پارٹیاں اسلام کی خدمت کے لیے اٹھیں گی؟
لہٰذا دینی و مذہبی تنظیموں اور مدارس کو روکنے یا محدود کرنے سے کسی نہ کسی پیمانے میں اسلام کو ہی نقصان پہنچے گا، اگر مستقبل میں تنظیم اسلام اور تبلیغی جماعت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منہ پر کالک ہوگی، لیکن اس کی پہلی ذمہ دار خود یہ دینی و مذہبی تنظیمات اور مدارس ہوں گے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے نظری اختلافات صرف اپنے تک محدود کر لیں اور باہمی تعاون اور دوستی کی فضاء قائم کریں، اگر انہوں نے پُرخلوص باہمی قربت پیدا کر لی تو کسی کی ہمت نہیں کہ اسلام کے نام لیواؤں کو اس ملک میں مات دے سکے۔