... loading ...
کیا ہم اپنی زندگی سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں، ہمارا سچ افراد پر کیوں انحصار کرتا ہے؟ یہ تو زوال کی کہانی اور موت کی نشانی ہے۔
کوئی بھی نظام اگر افراد پر انحصار کرتا ہے، اپنے اُصولوں پر نہیں تو یہ اسباب مرگ میں سے سب سے بڑا سبب ہوگا۔افراد پر منحصر اس پورے نظام کے لئے عزیر بلوچ ایک بہت بڑا موضوع ہے اور تازیانۂ عبرت بھی۔مگر اسے ذراد یر کے لئے موقوف رکھیے کہ اس بحث کے لئے ایک مکمل تناظر درکارہے۔ اگر احتساب کے لئے سارا انحصار جنر ل راحیل شریف پر ہے تو یقین جانیے اس میں سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔اِسے ایک ادارہ جاتی عمل بنانا ہوگا۔ یہی ماجرا جمہوریت کے ساتھ بھی ہے۔ اگر ہماری جمہوریت کا انحصار زرداروں اور شریفوں پر ہیں تو ایسی جمہوریت شب خون کے مہیب خطرات سے دائم دوچار رہے گی۔ افراد نہیں اُصول اور شخصیات نہیں مکمل ادارہ جاتی نظم وضبط پر اجتماعی آہنگ برقرار رہے گا۔ باقی جو کچھ ہے تعصبات ہیں ۔ اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔
غیر سیاسی قوتیں جن کی بقا کا انحصارعسکری بالادستی میں ہے وہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت میں فوجی اقتدار کا راستہ دیکھ رہی ہیں۔ اور نوازشریف اور آصف زرداری کے دسترخوان سے ہوس کے لقمے توڑنے والے اُن کا تحفظ ’’جمہوریت‘‘ کے راگ الاپ کر کرتے ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف ایک جیسی نفسیات ہیں، بیمار اوربیکار ۔اردو کی ضرب المثل ہے کہ ’’بھوندو بھاؤ نہ جانے پیٹ بھرنے سے کام‘‘ اس نفسیات میں جاری مکالمہ ایسا نہیں جو سقراط نے ایتھنز کی عدالت میں اُس وقت کے منصفین سے برسرِ عدالت اور ایام اسیری میں افلاطون ، کریٹو اور فائیڈو سے کیا تھا۔اور جس کا سواد ہمیں افلاطون کی کتابوں میں ملاتھا۔ یا جسے فقرہ فقرہ ’’اپالوجی‘‘ کی شہرہ آفاق کتاب میں محفوظ کیا گیا ۔ ہماری بحث تو اوچھی ذہنیت کی بھی اُتھلی نفسیات سے جنم لیتی ہے۔
جمہوریت سے وابستگی یا دل بستگی کا یہ مطلب کہاں سے ہوا کہ زرداروں یا شریفوں کی غیر مشروط حمایت کی جائے۔ جمہوریت اگر ایک نظم مملکت ہے تو پھر سوال اُٹھانے چاہئے کہ اس کے مطابق اجتماعی زندگی کا آہنگ کیوں ترتیب نہیں دیا جاتا؟ کیا ہماری ارفع جمہوریت کے پا س عوام کی حفاظت کے لئے دہشت گرد تو بہت دور کی بات ہے ،عزیربلوچوں سے تحفظ کا کوئی مضبوط اور محیط منصوبہ ہے یا اُنہیں اس حوالے سے مکمل فوج پر انحصار کرناہے؟اس کے قانونی ادارے کہاں ہیں؟ ایک سیاسی حکومت کا مطلب صرف عوام کو ہانکنا یا عوام میں ہانکنا نہیں ہوتا۔ وہ اجتماعی زندگی کے ہر معاملے میں رہنما ہوتی ہے۔ مگر کیوں اُس کا سارا انحصار فوج پرہے؟ جب فوج سے امن وامان سیاسی بنیادوں پر طلب کیا جائے گا۔ تو اُس کے دیئے ہوئے ’’امن وامان ‘‘کے نتائج امن وامان کی صورت میں بھی سیاسی ہلچل کی شکل میں نکلیں گے۔ کیونکہ پاکستان کی اجتماعی سیاسی بنت اور بناوٹ میں ان دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار ایک دوسرے کے حق میں نہیں ایک دوسرے کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ اب ذرا جمہوریت پسند ہمت فرماکر یہ سوال اُٹھائیں کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے پیش کئے گیے باچا خان یونیورسٹی کے مطلوب ملزمان آپ کے پاس کیوں ہیں؟ اس پر قانونی کارروائی کیا ہوئی ہے؟ یہ جتنے بھی اجنبی ہو مگر درست سوال ہیں۔مگر ظاہر ہے کہ یہ سوال کبھی نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ جمہوری نظام ان مسائل سے عہدبرآں ہونے کے لئے مطلوبہ قانونی غلاف دینے میں ناکام ثابت ہوتا ہے ۔ اور اس ناکامی کی گہری جڑیں ہیں۔
اب دیکھئے عزیر بلوچ کو کیسے پیش کیا گیا ہے؟جب مجرم کراچی سے بھاگ رہے ہیں تورینجرز نے ایک بھاگے ہوئے معروف مجرم کو مضافاتی راستوں سے کراچی میں داخل ہو نے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کرلیا۔اور اُسے ایسے پیش کیا گیا کہ اُس کی سرداری ٹوپی اور کپڑے تک بغیر سلوٹوں کے تھے۔ کیا کسی کو اس کہانی پر یقین آئے گا ؟ پاکستان میں شاید ہی کوئی شخص ہوگا جسے یہ معلوم نہ ہو کہ دسمبر 2014ء میں مسقط سے دبئی جاتے ہوئے عزیربلوچ کی گرفتاری کے بعد اُسے کیسے پاکستانی اداروں نے اپنی تحویل میں لیا تھا؟ اس سے قبل یہی ماجرا ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے معاملے میں مبینہ قاتلوں کا ہوا۔ جو ایک عرصے سے غیر قانونی تحویل میں تھے۔ پھر اُنہیں اچانک افغانستان سے چمن میں داخل ہوتے ہوئے پکڑ لیا گیا۔ اس سے متعلق عدالتوں میں ا ُٹھائے گیے سوالات کو منصفین ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکا ل دیتے ہیں۔ اب یہ باتیں کوئی معنی ہی نہیں رکھتیں۔ ایک منظم جبر روا ہے۔ کیونکہ ہم نے نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ جس میں جس کا جہاں بھی داؤ لگتا ہے وہ اپنی بازی کھیلتا ہے۔ اب ذرا دیکھئے ادارے کیا کرتے ہیں؟ کیا اُن کے پاس کوئی چارہ تھا کہ وہ اُنہیں ایک برف خانے میں رکھ کر بھول جاتے۔تب کے وزیر داخلہ رحمان ملک کے ہاتھ میں سارا معاملہ تھا۔ وہ تُلے ہوئے تھے کہ ان افراد کو لندن سرکار کی طشتری میں سجا کر پیش کردیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں دوسرا کوئی قانونی راستہ ہی نہیں تھا۔ پھر کیا کیا جاتا؟ ایک ایسے ملک میں جہاں ہر چیز پر مفاہمت کی جاسکتی ہو، ہر جرم نظر انداز کر دیا جاتا ہو،وہاں یہ لاچاری ہمارے ذہنوں میں ان چیزوں کاچپکے سے ایک جواز مہیا کردیتی ہے کہ ’’پھر ٹھیک ہے‘‘ ۔مگرآہستہ آہستہ ’’پھریہ ٹھیک ہے‘‘ کا جواز ہمیں بہت سے دیگر معاملات میں بھی بہت تنگ کرتا ہے۔ جب یہ عام لوگوں کے ساتھ دوسری گرفتاریوں میں بھی یہی روپ دھار کر ایک عمومی مشق بن جاتی ہے۔ یہاں ہر گروہ کا اپنے متعصبانہ نقطہ نظر کے مخالفین کے لئے قانون کے بہیمانہ استعمال کا ایک ’’پھر ٹھیک ہے ‘‘ پایا جاتا ہے۔ آج کل یہی ’’پھیر ٹھیک ہے‘‘ کا استعمال ہر ڈاڑھی والے اور مذہبی گروہ والے کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ’’ پھر ٹھیک ہے‘‘ کی نفسیات عسکری اداروں کے لئے زیادہ بڑے دائرے پیدا کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ جب 1999ء میں نواز شریف اور اُن کے بیٹوں کو بھی گرفتار کرکے کہیں رکھ دیا گیا تھاتو تب یہی اختیار ’’پھر ٹھیک ہے‘‘ کا استعمال کیا گیا تھا۔ معاف کیجئے گا! آج جن تجزیہ کاروں کے سینوں میں نوازشریف ساختہ جمہوریت کی محبت کا دودھ اُترا ہوا ہے، وہ تب نوازشریف کے لئے اسی ’’پھر ٹھیک ہے‘‘ کے جواز کے قائل تھے۔ اُن میں سے کچھ نے تو منظم جبر پر قائم مشرف کے استبدادی دور میں جنرل کو ’’قائد اعظم ثانی‘‘ تک کہا تھا۔
عزیر بلوچ کے لئے بھی اب یہی جواز ’’پھر ٹھیک ہے‘‘ انگرائیاں لے رہا ہے۔ کیونکہ ہم میں سے اکثر کی یہ خواہش ہے کہ آصف علی زرداری اور اُن کے ٹولے کی لوٹ مار کا زبردست محاسبہ ہو،اس لئے عزیربلوچ کے لئے اُٹھائے گیے تمام غیر قانونی اقدامات ’’پھر ٹھیک ہے‘‘ کا ازخود جواز بھی رکھتے ہیں۔ مگر ایسے تمام معاملات کے نتائج کیا نکلتے ہیں؟ کچھ بھی تو نہیں۔ اسی لئے تو عزیربلوچ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ دوسرا صولت مرزا ثابت ہوگا۔ کیوں ہمارے تصورات میں ہماری ناکامیوں کا تاثر اتنا گہرا ہے؟ کیا اس لئے نہیں کہ ہم نے سب کچھ افراد پر چھوڑ رکھا ہے۔ اور وہ اپنے مفادات کی روشنی میں تمام معاملات کو مرضی کا رخ دے دیتے ہیں۔ اس میں قانون ، انصاف اور سرکاری ادارے اُن کی چاکری کرتے نظر آتے ہیں ۔ اگر اُصولوں اور نظام کو طاقت دی جاتی تو ہم مجرموں کے انجام کی طرف دیکھتے۔ اپنے حکمرانوں کی طرف نہیں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
سابق صدر آصف علی زرداری نے چیئرمین تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک شخص ملک میں انتشار چاہتا ہے لیکن ہم اداروں پر حملہ برداشت نہیں کریں گے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایک شخص ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے ہر لائن عبور کر رہا ہے، اس شخ...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم الیکشن سے نہیں ڈرتے لیکن ہمارے گیم پلان میں انتخابی اور قومی احتساب بیورو (نیب)اصلاحات ہیں، جس کے بعد انتخابات ہوں گے۔ پہلی دفعہ اگر فوج ایک غیرسیاسی ہوتی ہے تو مجھے باجوہ کو سیلوٹ کرنا چاہیے...
سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے درمیان ملاقات ہوئی ،ملاقات میں عمران خان کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ زرداری ہاوس اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے ہمر...
اپوزیشن رہنماؤں نے کہا ہے کہ ارکان ایوان میں لائیں گے اور 172 سے زائد ووٹ لیں گے۔ اس بات کا اعلان سابق صدر آصف علی زرداری، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی ق...