... loading ...
ہمارے یہاں جنرل مشرف کے دور میں مارکیٹ سے اٹھائے ہوئے ایک افسر ایف بی آر کے چیئرمین جالگے۔ ایک رات ایوان صدر میں تقریب میں درجہ دوم کی ایک ناک نقشے کی گلوکارہ نے نورجہاں کے مشہور’’ سانوں نہر والے پل تے بلا کے‘‘ والے گیت کی دُھن چھیڑی تو وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ حفظِ مراتب کو دولتی مار کر بغیر گھنگرو کے، ہماری نہیں، ہندووں کی دیوداسی میرا کی مانند ناچ اٹھے۔ سن دو ہزار عیسوی میں ہماری بیوروکریسی اس گراوٹ کا شکار ہوگئی تھی۔ نگوڑی، اللہ ماری یہ پہلے ایسی نہیں تھی۔ لوگ اس پر اعتماد کرتے تھے۔ اس کوقابل اور اچھا سمجھتے تھے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شہاب الدین اور ان کی اہلیہ کی سن 1953ء میں کراچی سے ڈھاکہ سے جانے والی پرواز میں ایک زیر تربیت سی ایس پی افسر منیر حسین اور ان کی اہلیہ سے اچانک ملاقات ہوگئی۔ ائیر پورٹ سے باہر آتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر کی اہلیہ نے رسماً چیف جسٹس کی اہلیہ کو گھر چائے پر آنے کی دعوت دی۔ چند دنوں کے بعد ایک صبح چیف جسٹس بیگم صاحبہ بغیر کسی پروٹوکول کے لکڑی کی سیڑھیاں بمشکل چڑھ کر تیسری منزل پر ان کے چھوٹے سے فلیٹ میں چائے پینے پہنچ گئیں۔
اب اسی بیوروکریسی کی خود اعتمادی، تحریم ذات (self -respect) اور عوامی ساکھ کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی آئی جی یا چیف سیکرٹری یا فیڈرل سیکرٹری کو معاونت یا باز پرس کے لئے بلائے تو وہ شام سے ویلئم کی سکون بخش گولیوں کی آدھی بوتل پھانک کر شہر میں فوری دستیاب کسی پیر، فقیر یا مزار پر جاں بخشی کی دعا مانگنے پہنچ جاتا ہے۔
سردار اکبر بگٹی کے حوالے سے ایک پرانے افسر بتارہے تھے کہ یہ جو محاورہ ہے ’’گھوڑے کھول دیے‘‘ یہ اتنا بُرا نہیں جتنا مہاجروں نے اس کو بنادیا ہے۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے منعقد ہونے والے سالانہ شاہی سبی دربار کی صدارت گورا اسسٹنٹ کمشنر کیا کرتا تھا۔ بہت ہوا تو کمال مہربانی سے کبھی کبھار ڈپٹی کمشنر جیکب آباد بھی قدم رنجہ فرمایا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اس سبی دربار کی پہلی صدارت تو گورنر جنرل محمد علی جناح نے کی تھی اور آخری بار صدارت نوکر شاہی کی دیگ کے سب سے پرانے چاول صدر عالی مقام غلام اسحق نے کی۔ وہ بھی اس طرح کے اسلام آباد سے جلسے میں روشنی کی خاطر واپڈا نے ایک بڑا جنریٹر سبی بھجوایا۔ صدر چلے گئے جنریٹر واپس لے جانے کی ہمت سرکار میں نہ تھی۔ سو بحق سردار ضبط ہوگیا۔
گھوڑے کھولنے کی بات اس لیے ہوتی تھی کہ اس زمانے میں مائیک اورافسروں کے پاس کاریں نہیں ہوتی تھیں۔ کاریں تو سن 1985 تک خال خال دکھائی دیتی تھیں۔ ہم نے اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری این ایچ جعفری کو خود اسلام آباد سے پنڈی ویگنوں میں آتے جاتے دیکھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے بارے میں ان کا پیش کار بتا رہا تھا کہ جب وہ 1966میں سول لائنز کراچی کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ ہوتے تھے۔ ان کے پاس ایک پرانی سی ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل ہوتی تھی۔ علاقے میں وہ اسی پر بے خوف دندناتے پھرتے تھے۔ سول لائنزکا حدود اربعہ ان دنوں فش ہاربر سے کراچی ائیر پورٹ تک ہوتا تھا۔ اسی میں کے ڈی اے اسکیم (جو کارساز روڈ سے جڑی ہے) کے سونے جیسے پلاٹوں کی تقسیم بھی انہیں کے اختیارات کا حصہ تھی۔ اس میں اور کراچی کی دیگر اسکیموں میں جن کے وہ نگران تھے ان کا اپنا ایک پلاٹ تک نہ تھا۔ اس ہارلے ڈیوڈسن کا جب شور ایمپریس مارکیٹ کے پاس سنتے تو کراچی کے گرامر اسکول کے پرنسپل انہیں ملنے احتراماً اسکول کے باہر آجاتے تھے۔ جی ہاں وہی گرامر اسکول جس میں اپنے نواسے کے داخلے کے لیے ایک عارضی چیف منسٹر کو جب ٹکا سا جواب انکار کی صورت میں ملا تو انہوں نے اپنی نظام سقے جیسی دو دن کی بڑھیا وزارت پر تین حرف بھیجے۔
ایک پرانے افسر صاحب سردار بگٹی کی زبانی سنا قصہ بتارہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انگریز کا اسسٹنٹ کمشنر بہادر یا ڈپٹی کمشنر بہادر جب اپنی ٹم ٹم (چارگھوڑوں والی بگھی) میں سبی دربار کی صدارت کرنے پہنچتا تو پنڈال کے قریب آن کر گندگی سے محفوظ رہنے اور رسم کے حساب سے گھوڑے کھول کر علیحدہ کردیے جاتے۔ وہ گورا شان سے ٹم ٹم میں بیٹھا رہتا اور اس ٹم ٹم میں گھوڑوں کی جگہ بلوچ سردار جت جاتے اور کھینچ کر اسے اسٹیج تک لے جاتے۔ تب و ہ افسر اپنی بگھی سے اترتا۔ اس گاڑی کو کھینچنا ان کے ہاں علامت تفاخر اور کبریائی تھی۔ قصہ کو طول دیتے ہوئے وہ افسر فرمانے لگے کہ بگٹی صاحب کا کہنا تھا کہ’’ قیام پاکستان سے پہلے اگر میرے والد سردار محراب خان تمن دار کو اگر پٹواری کی زبانی تحصیلدار صاحب کا بلاوا موصول ہو تا تو ان کی بوکھلاہٹ اور ہڑبڑاہٹ کا یہ عالم ہوتا کہ چوپال کے باہر جس کسی کے بھی جوتے پاؤں میں آجائیں پہن کر ملاقات کو روانہ ہوجاتے اور اب یہ سن 1973ء کا سال ہے کہ میں وزیر اعظم بھٹو کی فون کال کا جواب نہ دوں تو وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘۔
ہمارے بیانیے کا آغاز نہر والے پل پر بلانے والے گیت اور اس پر ٹھمکے لگاتے افسر سے ہوا تھا لیکن انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے کہ پل کے نیچے سے بہت پانی گزر گیا ہے۔ یعنی بات پرانی ہوگئی ہے۔ اسی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ ہم پل اس وقت عبور کریں گے جب اس کے نزدیک پہنچ جائیں گے۔
سوچئے کیا وہ وقت نہیں آن پہنچا کہ ہم بطور مملکت بگاڑ، بدحالی، لوٹ کھسوٹ، جہالت، استحصال اور بے توقیری کے جس دلدلی کنارے پر کھڑے ہیں وہاں سے ایک مضبوط، قابل بھروسہ،بے خوف پل کے سہارے ایک موسی ؑبن کر اپنے بنی پاکستان کو ایسی ارض موعود اور سرزمین تحفظ اور خوش حالی کی جانب لے جائیں۔ ایسا کرنے کے لیے مثالیں بے شمار ہیں لیکن معاملہ تنگی ملاقات کا ہے جو رونے نہیں دیتی۔ ہماری اس مملکت میں ایسے افسر برطانوی راج میں آئے تھے جنہوں آج جو مملکت کے خدا بن کر بیٹھے ہیں انہیں رعایا بنا کر رکھا تھا۔
ہر وہ بڑا آدمی جو پاکستان میں قوت فیصلہ رکھتا ہے۔ وہ جو لوگوں کی زندگی پر کسی نہ کسی طور اثر انداز بھی ہورہا ہے وہ سوچ لے کہ امام حنبل نے خلیفہ مامون کو اس کے ظلم پر جو اس نے اپنے معتزلہ ساتھیوں کے ایما پر روا رکھا تھا قید خانے سے لکھا تھا کہ’’ ہر وہ دن جو گزر رہا ہے مجھ پر تمہارے ظلم میں کمی اور تمہاری اللہ کے سامنے جواب دہی میں اور تمہارے گناہوں میں اضافہ کررہا ہے۔ یہ جان تو آنی جانی ہے‘‘۔
وہ صاحب فیصلہ یہ بھی سوچ لے کہ بابر نے ہندوستان میں سلطنت بنائی اور اس کے گھرانے کے آخری فرمانروا بہادر شاہ نے ناشتے کے تھال میں بیٹوں کے سر خو ن میں لتھڑے ہوئے دیکھے۔ والی ٔ ہند نے رنگون کے ایک گیرج میں قید ہوکر موت کو گلے لگایا۔ دولت مارکوس، شہنشاہ ایران رضا شاہ جس کا کئی دفعہ کھانا پیرس کے میکسم ریسٹورانٹ سے آتا تھا اس کے کام نہ آئی۔ اس کے گھر انے کے تین افراد نے خود کشیاں کی۔ بیٹی لیلیٰ دوا ئیں چوری کرتی ہوئی پکڑی گئی۔ حسنی مبارک جانوروں والے پنجرے میں بند ہوکر عدالت میں پیش ہوا۔ سوکارنو، قدافی، صدام نشان عبرت بنے۔
ہمارے بڑے اربابِ بست و کشاد،صاحبانِ اختیار و رضا یہ سوچ لیں کہ دولت شاید انسان کو اوپر لے جاتی ہو مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی انسان بھی دولت اوپر لے گیا ہو۔ وہ یہ بھی سوچ لیں کہ ان میں سے اکثر کے والدین تو شاید کالج بھی نہ گئے ہوں مگر وہ کیسے باسلیقہ اور بابرکت لوگ تھے۔ گھر کا انتطام کیسا عمدہ چلتا تھا، کھانا وقت پر، کپڑے موسم کی مناسبت سے عید شب برات کو حلوے مانڈے،کسی غریب رشتہ دار کی مدد بھی ہوجاتی تھی، تعلیم، معالجے،سیر کوئی کسر نہ چھوڑی جاتی تھی۔ گو گھر کی آمدنی ویسی نہ تھی جیسی اب ہے پر ان کے ہاں سکون اور برکت زیادہ تھی۔ ایسا صرف دو وجوہات سے ممکن ہوتا تھا:
ایک تو وہ اپنے خاندان اور اس سے وابستہ معاملات کو own کرتے تھے.
دوسرے وہ اپنے خاندان اور اس سے وابستہ معاملات میں بہت خلوص نیت اور عمل رکھتے تھے۔
سو اے صاحبان اقتدار و منشا پاکستان کے بچوں کو بھی اپنا سمجھیں۔ ان کو بھی ویسی تعلیم، صحت، تحفظ اور عمدہ مستقبل کی سہولتیں فراہم کریں جن کے لیے آپ نے اللہ کے ہاں جواب دینے کے لیے سلگتی انگیٹھیاں ابھی سے گلے سے باندھ لی ہیں۔ سارا پاکستان آپ کا اپنا خاندان ہے۔ انسان کے چھوٹے ڈومیسائل جیسے ذاتی مفاد،گھر،محلہ شہر اس وقت کم حیثیت اختیار کرلیتے ہیں جب اللہ کا فضل بڑا ڈومیسائل عطا کرتا ہے جیسے صوبہ، فوج، ملک۔ تو چھوٹے ڈومیسائل چھوڑ دیں۔ مال اور منال کی محبت position of convenience یعنی مقام سہولت ہے جب اللہ مقام تفاخر position of privilege عطا کرے تو مقام سہولت سے بلند ہوکر سوچا جاتا ہے۔
اس بات کو اس مثال سے سمجھیں۔
تھامس جیفرسن امریکا کے پہلے صدر نے تو اپنی ساری جائیداد 76 برس کی عمر میں ورجینیا یونیورسٹی بناکر عطیہ کردی۔ ایسا ہی ایک مقام تفاخر تھا جہاں وہائٹ ہاؤس کے اسٹاف کو پرٹوکول کے حساب سے یہ دشواری تھی کہ ایک دعوت میں ہیڈ آف دی ٹیبل پر کس کو بٹھایا جائے موجودہ صدر کو یا پرانے صدر جیفرسن کو۔ ان کی مشکل موجودہ صدر نے یہ کہہ کر حل کردی کہ ٹیبل گول رکھو کیونکہ ہیڈ آف دی ٹیبل وہی ہوگا جہاں جیفرسن بیٹھے ہوں گے۔
کچھ لوگ جو باہر سے آئے تھے اور ایک ہمارے اپنے افسر ایسا کرچکے ہیں۔ اگلی نشست میں سر چارلس نپئیر، سر بارٹل فرئیر اور ہمارے اپنے ایک افسر کے قصے بیان ہوں گے۔ انہوں نے مطلوبہ نتائج کیسے حاصل کئے کہ بڑے بڑے گھوڑے کھل جانے پر خوف اور رضا سے حیوان بار برداری بن گئے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...
سابق امریکی صدر تھامس جیفرسن کی ملکیت نادر و نایاب قرآنی نسخے کو گزشتہ روز واپس امریکا روانہ کر دیا گیا ہے۔ یہ دو جلدی قرآن دبئی ایکسپو میں نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق مورخین نے کہا کہ امریکی آزادی کے اعلامیے اور امریکی آئین کی تشکیل میں اِسی قرآن پاک سے استفا...
دبئی ایکسپو میں 18ویں صدی کا قرآن پاک کا نادر نسخہ جو امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن کے پاس تھا نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔1764کا قرآن پاک کا یہ نسخہ واشنگٹن ڈی سی کی لائبریری آف کانگریس کے خزانوں میں سے ایک ہے۔عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق دو جلدوں پر مشتمل قرآن پاک کے ساتھ مکہ م...
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...