... loading ...
کشمیری پنڈت اعلیٰ ذات کا ہندو تصور کیا جاتا ہے۔ تر دماغ اور خوبصورت مکھڑے والی یہ پنڈت برادری، وادی کشمیر کی جنت سے جگ موہن کی مہربانیوں سے نکل کر بھارت کے مختلف گرم علاقوں کی تپتی اور آگ اگلتی ہوئی سرزمین میں مقیم ہے۔ 1947ء میں جب پورے برصغیر میں ہندو اور مسلم کے نام پر خون بہایا گیا، وادی کشمیر میں ان کشمیری پنڈتوں کو مسلمانوں نے نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی عزت و آبرو کا تحفظ بھی کیا۔ گاندھی جی کواسی بنیاد پر یہ اعتراف کرناپڑاکہ” کشمیر سے مجھے روشنی کی کرن نظر آرہی ہے”کشمیری پورے بر صغیر کو احساس دلاتے رہے کہ کسی نہتے انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ چاہے مقتول کا تعلق کسی بھی مذھب سے ہو۔
1987ء کے انتخابات میں بھارتی حکومت کی بدترین دھاندلی کے نتیجے میں کشمیری قوم میں یہ احساس شدت سے ابھرا کہ ان کا حق خودارادیت کا خواب انتخابات میں شرکت سے کبھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ بھارت آئین و قانون کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس انتخاب نے کشمیری عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی حکمرانوں کے خلاف ایک شدید نفرت نے جنم لیا،1989ء میں اس نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔۔ بھارتی ایوانوں کو آگ لگانے کی نعرہ بازی شروع ہوئی۔ “ہم کیا چاہتے۔ ۔ آزادی”کے فلک شگاف نعروں کی گونج ہر طرف سے سنائی دینے لگی۔ گلی کوچوں، گاؤں شہروں میں صرف ایک آواز کا غلغلہ تھا “بھارتی غاصبو! وطن ہمارا چھوڑ دو،چھین کے لیں گے آزادی”
کشمیری پنڈت برادری ان نعروں سے خوفزدہ نہیں تھی کیونکہ یہ نعرے نئے نہیں تھے۔ شیخ عبداللہ نے22 سال تک ایک بے مثال تحریک چلائی تھی اور گلی گلی قریہ قریہ اس دوران یہی نعرے لگتے تھے۔ پنڈت لوگ خوشی خوشی زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں انتظار تھا اس تحریک کی کامیابی کا، کیونکہ کشمیرصرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ جموں کشمیر میں رہنے والی ہندو برادری بھی کشمیری ہی کہلاتی ہے اور وہ ان کی بھی سرزمین ہے۔
1990ء میں یہ تحریک اپنے عروج کی طرف جارہی تھی اور بھارت سرکار نے حقائق تسلیم کرنے کے بجائے اس تحریک کو آہنی ہاتھوں سے کچلنے کا فیصلہ لیا،اور یہ بھی طے ہوا کہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر، دنیا کی نظروں میں اپنی سفاک روش کو جائز بھی قرار دلوائے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھ کر ریاستی گورنر جگموہن کو کام سونپا گیاکہ وادی سے پوری ہندو آبادی کو جموں او ربھارت کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل کرے اور پھر بزور طاقت مسلم آبادی کو اپنا حق آزادی مانگنے کے جرم سے باز رکھے۔ جگ موہن کیلئے یہ مشکل کام نہیں تھا۔ بلکہ انہیں اس کا خوب تجربہ اس وقت حاصل ہوا تھاجب 1975ء میں دہلی کے گورنر کی حیثیت سے ایمرجنسی قوانین کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکمان گیٹ دہلی میں ہزاروں مسلمانوں کو اس نے بے گھر کردیا تھا اور بستیوں کی بستیاں بلڈوز کی تھیں۔
جگ موہن نے کشمیر ی ہندو تنظیوں کو اعتماد میں لیا، ان کے ساتھ وعدے کئے گئے کہ انہیں باہر آرام و آسائش کے ساتھ زندگی گذارنے کا موقع فراہم کیا جائیگا۔۔ دنیا کی ہر نعمت انہیں فراہم کی جائیگی۔ انہیں صرف چند مہینے باہر گذارنے ہونگے۔ پھر وہ ہوں گے اور ان کا وطن ہوگا۔ چند مہینوں کا معاملہ ہے۔
بھارتی حکمرانوں کو اس سے دو طرح کے فائدے حاصل ہونے کی توقع تھی۔ ایک یہ کہ تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکے گا اور دوسرا آزادی پسندوں کا بلا کسی امتیاز کے خاتمہ کیا جاسکے گا۔ بعض مہاجر پنڈتوں کے خطوط سے جو سرینگر کے ایک مؤ قر” اخبار الصفاء” میں شائع ہوئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کس طرح اس انخلا کو اپنے حق می استعمال کرنے کی سازش میں مصروف رہا۔
11ستمبر 1990ء میں ایک مہاجر کشمیری پنڈت، کے ایل کول (ایم اے ایم ایڈ) چمن چھانپورہ سرینگر حال نگروٹہ کیمپ جموں کا خط سرینگر کے اخبار روزنامہ الصفاء میں شائع ہوا۔ خط کے چند اقتباسات:
“میں جانتا ہوں کہ ہمارے کشمیر سے بھاگنے پر کشمیری مسلم بھائیوں کو بڑا دکھ پہنچ چکا ہوگا اور مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہم ان کی محبت، عزت اور انسان دوستی سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ کیونکہ ہم غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مجھے اس بات پر شرم محسوس ہورہی ہے کہ میری کمیونٹی نے کشمیری مسلم بھائیوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا ہے۔ اور یہ سارا جگ موہن کے کہنے پر ہوا”
آگے وہ لکھتے ہیں:
“فروری کے پہلے ہفتے میں ہمیں چند خودساختہ رہنماؤں کے ذریعے گورنر جگ موہن کا ایک پیغام ملا جس میں ہمیں وادی چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ پیغام میں کہا گیا کہ تحریک دبانے کیلئے لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ مسلم نوجوانوں کو مارنے کا منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔ پنڈتوں سے یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں باہر ہر قسم کی آسائش بہم رکھی جائیگی اورمفت راشن،نوکریاں اور رہائش کا بھی انتظام ہوگا۔۔ پیغام میں یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ جونہی مجوزہ منصوبہ تکمیل کو پہنچے گا اور تحریک دم توڑے گی تو پھر آپ کو واپس اپنی جگہوں پر بسایایا جائیگا۔ میری کمیونٹی کو اب اندازہ ہورہا ہے کہ عوامی بغاوت کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے ہمیں استعمال کیا گیا”
آگے جاکر وہ مزید لکھتے ہیں:
“یہاں کی مقامی آبادی ہمیں حملہ آور سمجھتی ہے اور اسی انداز کا سلوک ہمارے ساتھ کرتی ہے۔ دودھ، سبزی اور روزمرہ کی دیگر اشیاء مہنگے داموں ہمیں خریدنی پڑتی ہیں۔ ۔ ہمارے بچے آوارہ بن چکے ہیں کیونکہ سڑکوں پر گھومنے کے سوا ان کے پاس کوئی کام نہیں۔ اس علاقے کے لوگوں کا ہماری خواتین کے بارے میں یہ قابل شرم تصور ہے کہ پیسے کی خاطر وہ اپنا عصمت بیچ سکتی ہیں۔ “اسی طرح کا ایک مشترکہ خط 22ستمبر1990کے الصفا میں شائع ہوتا ہے خط کا صرف ایک پیرا گراف پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیری پنڈت بھائی کس طرح اپنے وطن کو یاد کررہے ہیں اور اس دن کو کس طرح کوستے ہیں جس دن انہوں نے کشمیر چھوڑنے کی سازش کاحصہ بننے کی غلطی کی تھی۔۔ ملاحظ فرمائیں:
“ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ نہ صرف ہم نے اپنے مادر وطن کے ساتھ غداری کی بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی بے وفائی کی جنہوں نے صدیوں سے ہمیں عزت دی، پیار دیا۔ ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں میں ہم شامل رہے حالانکہ ہمیں اس تحریک کا ایک حصہ بننا چاہئیے تھا۔ ”
معروف کشمیری صحافی و مصنف مرحوم خواجہ ثنا ء اللہ بٹ اپنی کتاب “عہد نامہ کشمیر “صفحہ نمبر234-235میں کشمیری پنڈتوں کے اس انخلاء کے بارے میں لکھتے ہیں:
“گورنر جگموہن نے کشمیری پنڈتوں کو ورغلانے کیلئے ان میں یہ خیال بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا دیا کہ کشمیری پنڈتوں کو یہاں سے نکال لینے کے فوراََ بعد فوج سرینگر میں کریک ڈاون اور شہر کی ناکہ بندی کرکے بلا امتیاز لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گی۔ تاکہ اس مسلح بغاوت کا خاتمہ کردے جس پر قابو پانا حکومت کیلئیناممکن ہوگیا تھا۔ کشمیری پنڈتوں کے زیادہ ترگھرانے کرفیو کے نفازذ اوررات کے اندھیرے میں اپنے گھروں سے نکال کر گاڑیوں میں سوار کئے گئے، وہ لوگ کسی خوف میں مبتلا نہیں تھے۔ جس کا واضح ثبوت ہے کہ بہت سے کشمیری پنڈتوں نے اپنے گھر کی چابیاں اپنے ہمسایہ مسلمانوں کے حوالے کرکے ان سے کہا کہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں گے اور کشمیری مسلمانوں نے یقین دلایا اور ان سے کہاکہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں گے اور ان کے اس اعتماد پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے کشمیری پنڈت جموں سے سرینگرآکر بار بار اپنے علاقوں میں جانے اور اپنے گھروں وغیرہ کے محفوظ رہنے کایقین کرلیتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ درجنوں کشمیر ی پنڈت گھرانے گورنر جگموہن کی ترغیب و تحریک اور یقین دہانیوں کے باوجود کشمیر ہی میں رہے۔ ان میں سے جو گھرانے بہکاوے میں آکر جموں اور دوسرے علاقوں میں گئے وہ برابر اپنے کئے پر پچھتاتے رہے اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اعلانیہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کوکشمیری مسلمانوں نے وادی سے نہیں نکالا، بلکہ گورنر جگموہن اور اس کے ما تحتوں نے ہی ان کو وادی سے نکالا۔”
اب جہاں تک کشمیری مسلمانوں کا تعلق ہے توان کے ساتھ وہی ہوا جس کا خاکہ تیار کیا گیا تھا۔
“Committe For Initiative On Kashmir”کی چار رکنی کمیٹی کے اراکین جناب ٹپن بوس، دنیش موہن،گوتم نو لکھااور سمنتا بنرجی نے 12سے16 مارچ 90تک کشمیر کا دورہ کیا۔ ٹیم کے اراکین، زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ لوگوں سے ملے اور ایک تفصیلی رپورٹ تیا ر کی۔ رپورٹ کا ایک اقتباس:
جہاں یہ ٹیم اصولی طور پر ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے وہیں اس بات پر متفق ہے کہ کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی ہندوستانی ریاست کو یہ جواز فراہم نہیں کرتی کہ وہ ریاست کے کسی بھی حصے میں رہنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کے احترام اور تحفط فراہم کرنے کی ذمہ داری سے مبراہوسکیں۔ اس ٹیم پر حقائق کی روشنی میں یہ بات آشکارہ ہوئی کہ کشمیر میں ہندوستانی مسلح افواج اور سول انتظامیہ دہشت گردی کو روکنے میں با لکل ناکام رہے ہیں اور اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لئے وادی کے معصوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ٹیم نے جن ہندوستانی حکومت کے اہلکاروں سے بات کی وہ تمام کے تمام اسی نفسیاتی خوف کا شکار نظر آ ئے جس کے تحت وادی کا ہر شخص انہیں پاکستانی دہشت گرد نظر آتا ہے۔ انہی نفسیاتی کیفیات کے باعث وادی میں امن امان کے لئے جاری آپریشن اب وادی کے رہنے والوں کے لئے ذلت، مستقل خوف، عدم تحفط اور موت کا پیغام بن گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہاں کی آبادی کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں وہ سمجھتے ہیں کی بھارتی جبر و استبداد سے بچنے کا واحد راستہ نئی دہلی سے آزادی ہے۔ اس کیفیت کا اظہار کشمیری حکومت کے ایک افسر کے بیان سے ہوتا ہے جب وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ۔ انیس جنوری تک میں عسکریت پسندوں کے خلاف تھا لیکن آج میں انکے ساتھ ہوں۔”
انڈین پیپلز فرنٹ (IPF) کی سات رکنی ٹیم نے فرنٹ کے سربراہ ناگ بھوشن پٹنائیک کی سربراہی میں جون 1990میں کشمیر کا دورہ کیا۔ ٹیم کے دوسرے اراکین میں ممبر پارلیمنٹ رامیشور پرساد، جنرل سیکرٹری (IPF)جناب دیپنکار بٹاچاریہ اور وائس پریذیڈنٹ (IPF) راماجی راؤ شامل تھے۔ ٹیم کے اراکین تقریباً ایک ہفتے کشمیر میں رہے۔ ان کی دی گئی رپورٹ کا ایک اقتباس ملاحظ فرمائیں۔
“ہم جہاں بھی گئے، جس سے بھی ملے، ہم نے جگ موہن کے مظالم کی داستانیں سنیں بھی اور محسوس بھی کیں۔ وہ مظالم جو 19جنوری سے25فروری تک پوری شدت کے ساتھ جاری رہیں۔ ہم اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ سابق گورنر کو اپنے جرائم کا حساب دینے کیلئے عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہئیے۔ یہ صرف کشمیر میں سیاسی عمل شروع کرنے کیلئے ضروری نہیں بلکہ جمہوری اداروں پر اعتماد اور ان کی حفاظت کیلئے بھی یہ ضروری ہے۔”
29 مئی 1990ء کو انڈیپینڈنٹ اخبار لندن (Independent) کی یہ دلخراش کہانی بھی ایوارڈ یا فتہ بھارتی گورنر جگ موہن کی سفاکیت پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔
“ہندوستانی بربریت کے ایک چشم دید گواہ نے لوگوں کے ایک ہجوم پرہندوستانی پولیس (سنٹرل ریزرو پولیس فورس )کی اندھا دھند فائرنگ کا احوال اس طرح بیان کیا۔ فائر فائر فائر۔۔ ۔ لوگ گولیاں کھا کر گر رہے تھے۔ میں بھی نیچے گر پڑا۔ ہندوستانی پولیس نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں اور کراہتے ہوئے زخمی تھے۔ لیکن مجھے کوئی گولی نہ لگی میں زندہ اور محفوظ تھا۔ پھر ایک اہلکار بندوق تانے میرے پاس آیا۔ مجھ پر نشانہ تانا اور فائرنگ شروع کر دی۔ میں خوش قسمت تھا کہ اسکے جھکنے کے باعث گولی میری پشت کو چھوتی گزر گئی۔ اس نے چھ فائر کئے۔ ٹھک، ٹھک، ٹھک، ٹھک، ٹھکا ٹھک۔ میرا سر محفوز رہا اور میں نے اپنے ہوش بھی قائم رکھے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ پل پر ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ اس چشم دیدگواہ نے دیکھا کہ پولیس والے بندوق تانے لاشوں کے درمیان سے گزر رہے تھے اورزخمیوں کو مسلسل گولیاں مار رہے تھے۔ کسی بھی حرکت کرتے ہوئے جسم، کوئی بازو سر یا ٹانگ حرکت کرتی نظر آتی تو وہ فو راً گولیاں داغ دیتے۔ اور ساتھ ساتھ کہتے۔ ۔ ۔ تو تمھیں پاکستان چاہئے۔ تمھیں آزادی چاہئے۔ گولی داغتے اور کہتے۔ یہ لو اپنی آزادی۔۔ ۔ وہ جنوری کا آخری ہفتہ تھا۔ میں نے ایک ننھے لڑکے کو ایک سٹال کے نیچے کھڑا ا دیکھا۔ وہ اہلکار آیا اور اس معصوم بچے پر گولیاں داغ دیں جبکہ اس لڑکے نے ایک پتھر بھی پولیس والوں کی طرف نہیں پھینکا تھا۔”
مار دھاڑ، قتل و غارتگری، جلاؤ گھیراو کاسلسلہ صرف جگ موہن کے دور حکومت کا خاصہ رہا۔ یاد رہے گورنر جگمو ہن نے 20 جنوری 1990ء کو ریاستی گورنر کی حیثیت سے چارج سنبھالا، اور 22 مئی 1990ء کو انہیں فارغ کیا گیا۔ ان 123دنوں میں 74 دنوں کرفیو لگا رہا۔ ان 123دنوں میں پوری ریاست میں لوگوں کے مارنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہر روز لاشیں گرتی رہیں، جنازے اٹھتے رہے، جلاو گھیراو ہوتے رہے، پاکدامن خواتین کی عصمتوں کو داغدار بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اس سفاک گورنر نے کشمیری پنڈت بھائیوں کو تحریک آزادی کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے استعمال کیا گیا،اور اس آڑ میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے۔ ایسے شخص کو نریندر مودی کی حکومت نے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا۔ ایک کھلم کھلا پیغام ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پھر بھی سرنگ کے اس پار بعض لوگوں کو روشنی کی کرن نظر آرہی ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔
زبانی جمع خرچ سے مسلمان حکمران اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے ،مسلم ممالک کی فوجیں کس کام کی ہیں اگر وہ جہاد نہیں کرتیں؟ 55 ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟ عالمی عدالت انصاف سمیت تمام ادارے مفلوج و بے بس ہوچکے ہیں۔ شرعاً الاقرب ...
پی ڈی ایم حکومت کررہی ہے اور صدر اپوزیشن میں ہے ، بجائے اس کے وہ صدر کی مانیں معلوم نہیں کس کی مان رہے ہیں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ضروری ہے مسلمان اہل غزہ اور فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر...
پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے جمعرات کو پارلیمنٹ میں 6نہروں کے منصوبے کے خلاف ایک قرارداد کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر احتجاج کیا، ترجمان پی پی دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف قرارداد کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر پیپلزپار...
غیر ملکیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی، فیصلہ کچھ زمینی حقائق پر کرنا پڑا دہشت گردی کے بہت سے واقعات افغان شہریوں سے جڑ رہے ہیں، طلال چودھری وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی، افغا...
ہیوی ٹریفک کے نظام پر آواز اٹھائی توالزام لگا آفاق شہر میں مہاجر اور پختونوں کو لڑوا رہا ہے کراچی میں گزشتہ روز منصوبہ بندی کے تحت واقعات رونما ہوئے ، سربراہ مہاجر قومی موومنٹ مہاجرقومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ آفاق احمد نے شہر کے سنگین مسائل حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہ...
مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پر بھی عاطف خان اور علی امین گنڈا آمنے سامنے آگئے پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی وٹس ایپ گروپ میں ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنماؤں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں جبکہ سیکریٹری اطلاعات پی ٹی آئی نے اس کو پار...
تمام چھوٹے بڑے شہروں میں فلسطین یکجہتی مارچز ،مرکزی مارچ مال روڈ لاہور پر ہو گا ٹرمپ کے غزہ کو خالی کرانے کے ناپاک منصوبے کی مذمت میں گھروں سے نکلیں، بیان امیر جماعت اسلامی کی اپیل پر آج ملک بھر میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے مارچ کا انعقاد کیا جائے گا۔مرکزی مارچ مال روڈ لا...
متعدد نوٹسز کے باوجود وقاص اکرم، حماد اظہر، زلفی بخاری، عون عباس، میاں اسلم، فردوس شمیم، تیمور سلیم، جبران الیاس، خالد خورشید، شہباز گل، اظہر مشوانی اور شامل ، جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے معاملے میں آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں قائم جے آئی...
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی نے چند روز قبل حیدر آباد ، سکھر موٹروے کو ترجیح نہ دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کراچی سکھر موٹروے شروع نہ ہونے تک تمام منصوبے روکنے کا کہا تھا حیدرآباد ، سکھر موٹروے پر وفاق اور سندھ کے درمیان جاری تنازع میںوزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ کو ...
مصنوعی ذہانت کو کسی نئے مقابلے کے میدان میں تبدیل ہونے سے روکا جائے مصنوعی ذہانت کا استعمال نئے اسلحہ جاتی مقابلوں کا آغاز کر سکتا ہے، عاصم افتخار پاکستان نے اقوام متحدہ میں عسکری مصنوعی ذہانت کے خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ عسکری میدان میں آ...
جی ایچ کیو حملہ کیس تفتیشی ٹیم کو مکمل ریکارڈ سمیت اڈیالہ جیل میں پیش ہونے کا حکم سپریم کورٹ کی 4 ماہ کی ڈائریکشن کے مطابق کیس کا فیصلہ ہو گا ،التوا نہیں ملے گا جی ایچ کیو حملہ کیس کی آئندہ سماعت پر بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ ش...
اڈیالہ میں پولیس نے بانی کی بہنوں اور دیگر قائدین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا پی ٹی آئی کے قائدین کو ویرانے میں چھوڑنا انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ اڈیالہ میں پولیس کی جانب سے عمران خان کی بہنوں اور دیگر قائدین کے...