... loading ...
علامہ طاہر اشرفی علماء کے سرخیل ہیں۔ انہوں نے غالباً عربی بھی پڑھی ہوگی، ورنہ اردو تو ضرور پڑھی ہوگی۔ اب اگر اتنے کلّے‘ ٹھلے کے اور جسیم عالم بھی ملک کو ’’مولک‘‘ کہیں تو تھوڑی سی حیرت تو ہوگی۔ اگر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ علم کو ’’ایلم‘‘کہیں تو یہ اُن کو زیب دیتا ہے بلکہ اُن کی شخصیت سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔ ہم نے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو کبھی ’’ذمے وار‘‘ کہنے پر نہیں ٹوکا کہ انہیں ٹوکنے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کافی ہیں۔
ایک بہت پڑھے لکھے صحافی جناب خورشید ندیم ہیں جو مذہبی موضوعات پر بھی خوب بولتے اور لکھتے ہیں۔ 12 ربیع الاول کو پاکستان ٹی وی کے ایک پروگرام میں بڑی علمی گفتگو کررہے تھے۔ وہ گفتگو ہمیشہ سلجھی ہوئی کرتے ہیں۔ بس یہ ہوا کہ وہ اپنے پروگرام میں ایک بہت معروف صحابی حضرت انسؓ کے نام کا تلفظ غلط کررہے تھے۔ وہ انس کا تلفظ بروزن جبر، صبر وغیرہ کررہے تھے۔ جبکہ اَنَسْ کا تلفظ (ا۔نس) بروزن رقم‘ کرم وغیرہ ہے۔ یہ اور بات کہ کچھ لوگ جبر اور صبر کا تلفظ بھی غلط کرتے ہوں۔
اردو کے لیے ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہم خود بھی اُن کی تحریروں کے خوشہ چیں ہیں۔ ان کی کتاب ’’لغوی مباحث‘‘ بڑی اہم اور اپنے موضوع پر سند ہے۔ تاہم اس کتاب کے صفحہ 65 پر ’’سہوِکتابت‘‘ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ غالباً یہ سہو ہوا ہے۔ سہوِ کتابت کوئی چیز نہیں، اصل سہوِ کاتب ہے کہ سہو‘ کاتب سے ہوسکتا ہے کتابت سے نہیں۔ میر تقی میرؔ کے ایک مخالف شاعر نے ایک مصرع میں میر کے نام کو سہوِ کاتب قرار دیا ہے۔
طلبہ کے بارے میں اکثر بحث رہتی ہے کہ طالب کی جمع طلبا ہے یا طلبہ۔ عربی قاعدے سے تو اس کی جمع طلاب ہے جو عرب ممالک میں رائج ہے۔ لیکن اب طلاب کون سمجھے گا! وارث سرہندی اپنی کتاب ’’زبان و بیان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ طلبا دراصل ’’طلیب‘‘ کی جمع ہے۔ طالب کی جمع طلبہ ہے۔ اسی ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ لغت کے مطابق صنعت کی جمع صنعات ہے جو قاعدے کے لحاظ سے درست ہے لیکن مستعمل نہیں ہے۔ اس کی جمع صنائع مستعمل ہے۔ مگر ہم نے تو آسان سی جمع بنالی ہے ’’صنعتیں‘‘۔ صنائع مستعمل نہیں ہے البتہ شاعری کے حوالے سے ’’صنائع، بدائع‘‘ پڑھنے میں آتا ہے۔ وارث سرہندی نے ظلم کی جمع مظالم کو بھی نادرست قرار دیا ہے کہ مظالم جمع ہے مظلمہ کی۔ اب مظلمہ تو ’’قرون مظلمہ‘‘ یعنی DARK AGE کے لیے استعمال ہوتا ہے، وہ بھی عمومی نہیں۔ ہماری رائے میں تو مظالم ہی چلنے دیں، وارث سرہندی سے معذرت کے ساتھ۔ زبان کے معاملے میں یہ کلیہ تو معروف ہے کہ جو عوام کی زبان چڑھ گیا وہی صحیح ہے۔ چنانچہ اسی کتاب ’’زبان و بیان‘‘ میں ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اردو اپنی نوعیت میں ایک الگ زبان ہے، جس کو کسی بھی گروہ سے مکمل طور پر وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔ دراوڑی، آریائی اور سامی گروہوں کے اثرات اس کے خمیر میں شامل ہیں اور اس کی ساخت امتزاجی قسم کی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اردو بجائے خود ایک الگ گروہ ہے۔
ہم جب سعودی عرب کے ایک اخبار میں تھے تو سعودی حیران ہوکر پوچھتے تھے کہ تم لوگ جلوس کیسے نکالتے ہو! جلوس کا تعلق تو بیٹھنے سے ہے! ہمارا جواب یہ ہوتا تھا کہ یہ عربی نہیں ہماری اردو زبان ہے۔ ایک مثال ’’دارو‘‘ کی ہے۔ اردو میں دوا‘ دارو یعنی علاج معالجہ مستعمل ہے لیکن صرف ’’دارو‘‘ شراب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ ایران میں دواؤں کی دکان یا کیمسٹ کی دکان کے لیے ’’دارو‘‘ ہی مستعمل ہے۔
لغت میں دارو کے دونوں مطلب دیے گئے ہیں، یعنی شراب اور دوا۔ ایک شعر
یہاں ’دارو‘ شراب کے معنی میں ہے اور غالباً شاعر ٹھرّا طلب کررہا ہے۔ یہ وہم بھی ہے کہ دارو پی کر ذہن کھل جائے گا۔ جب کہ ہوتا اس کے برعکس ہے۔ ایک اور شعردیکھیے
اس شعر میں دارو کے دونوں معانی موجود ہیں۔
اردو کی ایک اور اصطلاح ’’دارو درمن‘‘ ہے یعنی دوا علاج ۔ یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ درمن: درمان: علاج کو کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ دارو گیرمیں بھی دارو موجود ہے، لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے جس کا مطلب ہے: پکڑ‘ دھکڑ‘ گرفتاری‘ ہنگامہ‘ لڑائی‘ نکتہ چینی وغیرہ۔ اب دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے‘ یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں۔
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل ...
فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے۔ یہ محاورہ یوں یاد آیا کہ کچھ قارئین غلطیوں کی نشاندہی کرکے یہی مثل سنا دیتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں کہ اپنے جن صحافی ساتھیوں کی زبان درست کرن...
ایک ہفت روزہ کے سرورق پر سرخی ہے ’’پیپلزپارٹی تتّر بتّر ہوسکتی ہے‘‘۔ یعنی دونوں جگہ ’ت‘ پر تشدید ہے۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، کیونکہ عموماً لوگ بغیر تشدید کے تتربتر کردیتے ہیں جب کہ تشدید کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ فرہنگ آصفیہ، فیروزاللغات وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے، اور اردو کی کلاسیکی ...
گزشتہ تحریر میں ہم نے ’دارو‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یاد رہے دارو گیر میں بھی دارو موجود ہے لیکن یہ ایک الگ لفظ ہے۔ دارو گیر کا دارو سے کیا تعلق ہے، یہ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں‘‘۔ یہ معاملہ ازراہِ تفنن ہم نے ماہرین پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو جسارت کے پروف ریڈر گزجن...
جناب پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور اس لحاظ سے تمام صحافیوں کے سرخیل ہیں۔ ان کا فرمانا ہمارے لیے سند ہے۔ لاہور کا معرکہ جیتنے پر وہ فرما رہے تھے کہ فلاں کی تو ضمانت تک ضَبَطْ (بروزن قلق‘ شفق‘ نفخ وغیرہ یعنی ضَ۔بَط) ہوگئی۔ اب جو مثالیں ہم نے دی ہیں نجانے ان کا تلفظ وہ کیا ک...
ہمارے وفاقی وزیر چودھری نثار تو ذمہ داری کو ذمہ واری کہتے رہیں گے، انہیں ان کی ذمہ واری پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف شمسی توانائی کی کارکردگی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے ’’اوسط‘‘ کو بروزن دوست‘ گوشت وغیرہ کہتے رہے اور بار بار کہتے رہے۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ ہے۔ اسے ز...
آئیے، آج ایک بچے کے خط سے آغاز کرتے ہیں جو غالباً بچوں کے رسالے ’ساتھی‘ کا قاری ہے۔ برخوردار نے لکھا ہے کہ ’’انکل‘ آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ ’’لالچ‘‘ مونث نہیں مذکر ہے، لیکن سنڈے میگزین (6 تا 12 ستمبر) میں ایک بڑے قلمکار نے صفحہ 6 پر اپنے مضمون میں کم از کم چھ بار لالچ کو مونث لک...
عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے غالباً 10 سال کی مدت طے ہوئی تھی۔ ایسے کئی دس سال گزر گئے۔ لیکن اب عدالت نے نہ صرف حکم جاری کیا ہے بلکہ نئے منصفِ اعلیٰ نے اپنا...
محترم عمران خان نیا پاکستان بنانے یا اسی کو نیا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک نیا محاورہ بھی عنایت کردیا ہے۔10 اگست کو ہری پور میں خطاب کرتے ہوئے سانحہ قصور کے حوالے سے انہوں نے پُرجوش انداز میں کہا ’’میرا سر شرم سے ڈوب گیا‘‘۔ انہوں نے دو محاوروں کو ی...
عزیزم آفتاب اقبال معروف شاعر ظفر اقبال کے ’’اقبال زادے‘‘ ہیں۔ اردو سے محبت اپنے والد سے ورثے میں پائی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کرتے ہیں۔ پروگرام کی نوعیت تو کچھ اور ہے تاہم درمیان میں آفتاب اقبال اردو کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات بھی کر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ...
چلیے، آغاز اپنی غلطی سے کرتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ آئندہ بھی کریں گے۔ پچھلے شمارے میں سرزد ہونے والے سہو کی نشاندہی روات سے ایک ذہین شخص ذہین احمد نے کی ہے۔ روات اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، ممکن ہے اب بڑا شہر ہوگیا ہو، اسلام آباد کی قربت کا فائدہ ضرور ہوا ہوگا۔...
صوبہ خیبرپختون خوا کے شہر کرک سے ایک اخبار ’’دستک‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ زبان کے حوالے سے یہ سلسلہ وہاں بھی شائع ہورہا ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ پشتو بولنے والے اُن بھائیوں سے بھی رابطہ ہورہا ہے جو اردو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو کو قومی سطح پر تو اب تک رائج نہیں کیا گیا لیکن ا...