وجود

... loading ...

وجود

گن سیفٹی

بدھ 27 جنوری 2016 گن سیفٹی

Mark Hanbury Beaufoy

مارک ہینبری بوفوائے (Mark Hanbury Beaufoy) ایک برطانوی سیاستدان تھا ، وہ انتہائی مشاق نشانے باز اور اپنے زمانے کا مشہور شکاری تھا وہ دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے آتشیں اسلحے کے مضمرات سے تحفظ کے اصول وضع کئے ، اس کا تحریر کردہ مسوّدہ 1902میں شائع ہوا جسکا عنوان تھا A Father’s Advise یعنی ایک باپ کی نصیحت ۔ مارک نے گن سیفٹی کے جو اصول دنیا کے سامنے پیش کئے ان میں اہم ترین یہ تھا

Never Point a gun at anything you donot wish to shoot.

یعنی’’ کسی ایسی شے کو کبھی نشانے کی زد پر نہ لو جس پر آپ گولی چلانا نہیں چاھتے۔‘‘

مارک کے بعد گن سیفٹی کے حوالے سے آگہی بڑھتی گئی اور دنیا بھر میں مختلف اداروں اور تنظیموں نے گاہے بگا ہے بندوق رکھنے والوں کی رہنمائی کیلئے تجاویزشائع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ، اسپورٹنگ شوٹرز ایسوسی ایشن آف آسٹریلیا نے بھی اس حوالے سے ایک نکاتی منشور تیار کر رکھا ہے جسکا سب سے اہم نکتہ ہے کہ

The Trigger should never be pulled untill the identity of thing fired upon has been established beyound any doubt.

یعنی ’’ٹریگر پر انگلی کو اس وقت تک جنبش نہیں دی جانی چاہیے جب تک جسے نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکی شناخت کسی شک وشبے سے بالاتر نہ ہو جائے۔‘‘

بندوق کے زور پر امن قائم کرنے کی کوشش محض عارضی نتائج ہی دے سکتی ہے مگر ظلم کی نئی داستانیں انتقام کے بچوں کو جنم دینے کیلئے پیٹ پھلائے گھومتی رہیں گی ۔

گن سیفٹی دنیا کا ایک سنگین مسئلہ ہے چہ جائیکہ ذاتی ہتھیار رکھنا ایک انفرادی عمل ہے مگر اس کے دائرے صبح کی دھوپ کی طرح پھیلنا شروع ہو تے ہیں اور پھر ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ تک جا پہنچتے ہیں ۔عالمی اداروں کی درجہ بندی کے مطابق دنیا بھر میں فی سو افراد ہتھیاروں کی موجودگی کی شرح امریکا میں سب سے بلند ہے جہاں ہر سو افراد کے استعمال کیلئے اوسطاً 112آتشیں ہتھیار موجود ہیں ۔ امریکا میں ان ذاتی ہتھیاروں سے قتل ہونے والے افراد کی تعداد سالانہ ایک لاکھ سے زائد ہے ۔ ذاتی ہتھیار رکھنے کا یہ حق امریکا کے ہر شہری کو 1791میں منظور کئے گئے اس ’’بل آف رائٹس‘‘ کے تحت حاصل ہے جو امریکا کے آئین کا نا قابل تنسیخ حصّہ ہے تاہم موجودہ امریکی صدر بارک اوباما اپنے خصوصی صدارتی اختیارات کے ذریعے ہتھیاروں کی انفرادی خرید و فروخت کی روک تھام کے حوالے سے اصلاحات کرنے پر کمر بستہ ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ آج تک لڑی جانے والی تمام جنگوں میں اتنے امریکی قتل نہیں ہوئے جتنے خود اس ’’رائٹ ٹو کیری آرمز‘‘(بندوق برداری کے حق) کی وجہ سے مارے گئے ہیں ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹینیٹ جنرل عاصم باجوہ جب باچا خان یو نیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے سہولت رسانوں کی ’’کہانی‘‘ میڈیا کے سامنے پیش کر رہے تھے تو بارک اوباما کی اس حالیہ تقریر کے اقتباسات ذہن میں تازہ ہو گئے جو انہوں نے گن سیفٹی یا فائر آرمز وائیلینس کے حوالے سے 5جنوری کو وہائٹ ہاؤس کے ٹاؤن ہال میں کی۔جنرل باجوہ نے بتایا کہ چارسدہ کے حملہ آ وروں کے ایک سہولت رساں کی بیوی اور بھانجی بازار سے کلاشنکوفیں خرید کر اپنے برقعوں میں چھپا کر لائیں۔ اب بتائیے سننے میں ایسا نہیں لگتا کہ جیسے حلوائی کی دکان سے گرما گرم جلیبیاں خرید کر لانے کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ سہولت رسانی کی یہ صورت گری بذات خود ناکامی کی ایک داستان نہیں کہ کیسے چار دہشت گرد طورخم کے بارڑر سے ملک میں داخل ہوتے ہیں ، دورات ایک مکان میں قیام کرتے ہیں ، ایک مستری انہیں ٹارگٹ کی تمام جزیات سے آگاہ کرتا ہے ، دوسرا ان کیلئے ریکی کرتا رہتا ہے ، تیسرا ایک رکشے میں بٹھا کر پاس چھوڑ جاتا ہے ، ہتھیار خواتین خرید لاتی ہیں اور کشت و خون کا بازار گرم ہو جاتا ہے ۔ ریاستی ادارے شاید دشمن کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھے اور دشمن اسکول تو

کیا، کالج بھی چھوڑ سیدھا یونیورسٹی جا پہنچا، بس اب پی ایچ ڈی کی ڈگری لینا باقی ہے۔16دسمبر اور 20جنوری میں فرق ہے تو محض لاشوں کی تعداد کا ورنہ حزن دونوں کا مساوی ہی ہے تو پھر کیا ہو گا کیا ایک اور گانا ریلیز کرنے کی تیاری کی جائے گی؟

مرے لہو سے وضو، اور پھر وضو پہ وضو
ڈرتا ہوں زمانے تیری نماز سے میں

چار ،چھ یا دس خودکش حملہ آوروں کو مار دینا کامیابی نہیں نہ ہی ان کے معمولی معاونین کا گرفت میں آجانا کوئی بڑا کارنامہ ہے کارنامہ تو تب ہو جب کبھی حوروں کا لالچ، کبھی غربت کا فائدہ اٹھا کر اور کبھی انتقام کی آگ بھڑکا کر قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کو استعمال کرنے والے ماسٹر مائنڈز ہاتھ لگیں۔کہتے ہیں عقل بادام کھانے سے نہیں ٹھوکر کھانے سے آتی ہے۔ قبائلی علاقے آج 70سال بعد بھی اسی بندوبست سے چلائے جارہے ہیں جو گوری چمڑی والے آقاؤں نے کر رکھا تھا ، ذاتی ہتھیار رکھنا بنیادی حق ہے اور آتشیں ہتھیاروں کی خرید وفروخت ایسے کی جاتی ہے جیسے مہذب آبادیوں میں دودھ بکتا ہے ، ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل سرحد پر آمد ورفت کی روک تھام کا کوئی باضابطہ بندوبست نہیں اور 20لاکھ افغان باشندے وطن کی چھاتی سے پہلوٹی کے بچے کی طرح شیر مادر کشید کرنے میں مصروف ہیں ۔کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ نجانے عقل کب آئی گی۔ نہیں حضور معصوم بچوں اور پلے پلائے جوانوں کے لواحقین کو شہادت کے سرٹیفیکیٹس جاری کردینے اور معاوضے کے چیکس تھمادینے سے بات ختم نہیں ہو جاتی ، معاشرے کی بقا انصاف میں ہے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوتے کہیں دکھائی نہیں دے رہے ۔

سوشل میڈیا پر ایسے درجنوں ویڈیو کلپس موجود ہیں جن میں قبائلی علاقوں کے متاثرین دُہائیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں ، پاک فوج کے جیٹ طیاروں نے مظلوم قبائلیوں پر آسمان سے بارود کی بارش کا جو سلسلہ جاری رکھا ہو ا ہے وہ دہشت گردی کو کبھی ختم نہیں کر سکتا ۔ بندوق کے زور پر امن قائم کرنے کی کوشش محض عارضی نتائج ہی دے سکتی ہے مگر ظلم کی نئی داستانیں انتقام کے بچوں کو جنم دینے کیلئے پیٹ پھلائے گھومتی رہیں گی ۔ لوگ چیخ رہے ہیں کہ فضائی حملوں میں بے گناہ بچے ، گھریلو خواتین اور بزرگ بھی مارے جارہے ہیں، قبائلی علاقوں کے 65لاکھ افراد تباہ حالی کا شکار ہیں، کسی کے گھر پر میزائل لگا ہے، کسی کی گاڑی تباہ ہوئی اور کسی کی دکان ۔کوئی کان دھرنے والا نہیں ، آئی ایس پی آر محض ایک بیان جاری کرنے پر اکتفا کرتا ہے کہ فضائی حملے میں اتنے دہشت گرد ماردئیے گئے ،قصہّ ختم ۔ مرنے والوں کی شناخت تو درکناراس پر بات کرنے سے بھی ہمارے مین اسٹریم میڈیا اور سیاستدانوں کو لقوہ مارتا ہے ۔ قبائلی علاقوں میں تو سیاسی قیادت ویسے بھی ناپید ہے وہ پولیٹکل ایجنٹ اور ملک کے رحم و کرم پر ہیں ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کہتے ہیں آپریشن ضرب ِعضب کامیابی سے ہمکنار ہو ا ہے ، بجا ہے مگر اس میں اب تک مارے جانے والے ہزاروں دہشت گرد کی کوئی انفرادی تفصیل تو دستیاب ہے نہیں، کیا ضمانت ہے کہ انکی لاشیں آنے والے وقتوں میں نئی وحشتوں کو جنم نہ دیں گی۔ نہیں جناب دہشت گردی کا مسئلہ نہ بندوق سے حل ہو گا نہ گٹار سے ۔آپریشن جاری رہنا چاہیے مگر دہشت گردی کا عفریت اس سے پوری طری قابو میں نہیں آئے گا ۔ قبائلی علاقوں کے انتظام و انصرام کا اسٹرکچر بدلنا ہی ہو گا ، انہیں خیبر پختو نخواہ حکومت کا حصّہ بنانے اور وہاں مقامی سیاسی قیادت کی ایک نئی پود کی بھرپور آبیاری کرنی ہو گی، ترقیاتی فنڈز شفاف طریقے سے منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے استعمال کرنے کا راستہ اپنانا ہو گا ، نئے اسکولز ، کالجز، کھیلوں کے میدان ، ہسپتال اور سینما گھر تعمیر کرنے ہوں گے ، نوجوانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتیں دیکر انہیں قومی دھارے میں شامل کرنا ہو گا اور ان سب سے پہلے یہ اندھی فضائی کارروائیاں بند کرنا ہو ں گی تاکہ ’’وار انڈسٹری‘‘کو انتقام کے جذبے سے سرشار افرادی قوت کی دستیابی کا راستہ بند ہو ۔ امریکہ میں یہ فکاہیہ جملہ اب ایک ضرب المثل بن چکا ہے

The First rule of Gun safety is … don’t piss me off-

یعنی ’’بندوق سے حفاظت کا پہلا اصول یہ ہے کہ …مجھ سے چھیڑ چھاڑ نہ کرو‘‘

فضائی حملے ناگزیر ہوں تو بھی کم از کم جیٹ طیاروں کے پائلٹس کو گن سیفٹی کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہو نا ہو گا ۔ورنہ وطن دشمنوں کو بارود کھاتی اس دھرتی ماں کے بطن سے پیدا ہوتے بچے دہشت گردی میں استعمال ہو نے کیلئے ملتے ہی رہیں گے ۔جیٹ طیاروں اور جنگی ہیلی کاپٹرز کا کردار صرف زمینی افواج کو بیک اپ فراہم کرنے تک محدود ہو ناچاہیے نہ کہ اندھی گولہ باری کرنا جبکہ کسی بھی حملے کی صورت میں بے گناہ مارے جانے والوں کے ورثاء کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کو ایسے حملوں کی زد میں آنے والے بے گناہوں کے ورثاء کو قصاص و دیت ادا کرنے کے اصول پر بھی کاربند ہو نا ہو گا ۔ورنہ نفرت اور انتقام کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا ۔

باچا خان یونیورسٹی پھر سے کھل گئی ، چار سدہ کے تمام زخمیوں کو ہسپتالوں سے فارغ کر دیا گیا ،زندگی معمول کو لوٹنے لگی ہے مگر یہ دہشت گردی کی آخری واردات نہیں تھی ۔سیانے کہتے ہیں جو آج مفت کی نصیحت قبول نہیں کرے گا اسے کل مہنگے داموں افسوس خریدنا پڑے گا –


متعلقہ خبریں


چیلنج قبول کریں میاں صاحب! عبید شاہ - منگل 27 ستمبر 2016

اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...

چیلنج قبول کریں میاں صاحب!

مُردہ باد (حصّہ دوئم) عبید شاہ - اتوار 28 اگست 2016

یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...

مُردہ باد (حصّہ دوئم)

’’دو کشتیوں کا سوار‘‘ عبید شاہ - هفته 09 جولائی 2016

آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...

’’دو کشتیوں کا سوار‘‘

’’یوم ِ ظلم‘‘ عبید شاہ - اتوار 29 مئی 2016

طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...

’’یوم ِ ظلم‘‘

’’کرائے دار‘‘ عبید شاہ - جمعرات 19 مئی 2016

ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...

’’کرائے دار‘‘

سوشل کنٹریکٹ عبید شاہ - جمعه 22 اپریل 2016

اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔ ’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘ بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ...

سوشل کنٹریکٹ

گڈ مہاجر، بیڈ مہاجر (حصّہ دوئم) عبید شاہ - جمعه 18 مارچ 2016

ایک نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کر سکتا ہے ، اسکی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کیلئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، نشئی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء ...

گڈ مہاجر، بیڈ مہاجر (حصّہ دوئم)

گُڈ مہاجر ، بیڈ مہاجر (حصّہ اوّل) عبید شاہ - بدھ 16 مارچ 2016

فیض حیات ہو تے تو کہتے .... آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہا...

گُڈ مہاجر ، بیڈ مہاجر (حصّہ اوّل)

’’ایک عجیب سی کہانی‘‘ عبید شاہ - اتوار 06 مارچ 2016

یہ کہانی اسلام آباد کے میلوڈی پارک سے شروع نہیں ہوتی۔ یہ لاہور کی زنانہ جیل کے ڈیتھ سیل سے بھی شروع نہیں ہوتی البتہ اس جیل کا صدر دروازہ وہ مقام ضرور ہے جہاں سے کہانی میں’’ ٹوئسٹ‘‘ آیا۔ کہانی شروع ہو تی ہے لاہور سے 30میل دور پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے نواحی علاقے’’اِتا...

’’ایک عجیب سی کہانی‘‘

’’فیس ویلیو‘‘ عبید شاہ - منگل 23 فروری 2016

بعض لوگ جب بھی بولیں احساس شدید تر ہو جاتا ہے کہ خاموشی اس سے کہیں بہتر تھی، شاید بعض صوفیاء اسی لئے خاموشی کو عبادت بھی قرار دیتے آئے ہیں واقعہ مگر کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ الفاظ کی حرمت تب ہی مقدم ہے جب ادا کنندہ کا اپنا عمل ان کے مفاہیم سے تال میل رکھتا ہو ۔وزیر اعظم نے ایک بار...

’’فیس ویلیو‘‘

’’سمدھی صاحب‘‘ عبید شاہ - اتوار 31 جنوری 2016

نیو یارک شہر کے علاقے مین ہٹن میں ٹائم اسکوائر کے نزدیک بیالیسویں ایونیو(42nd) پر گیارہ بائی چھبیس فٹ کی ایک گھڑی نصب ہے پہلے یہ سکِستھ(6th)ایونیوپر نصب تھی ۔ یہ گھڑی سب سے پہلے 1989ء میں نصب کی گئی، اس وقت اسکی لاگت ایک لاکھ ڈالرز آئی تھی اور اسکی تیاری و تنصیب کے تمام اخراجات ا...

’’سمدھی صاحب‘‘

’’خالد چرَیا‘‘ عبید شاہ - جمعرات 10 دسمبر 2015

نوجوان گڑبڑا سا گیا۔ اس نے اپنے دائیں جانب نشست فرما دوست کی جانب استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ دوست فوراً سوال پوچھنے والے کی جانب براہ ِراست متوجہ ہوا۔ ’’سریہ اردو اسپیکنگ ہے ‘‘۔ اس نے گویا اپنے دوست کی خلاصی کرائی۔ ’’اوہو۔ اچھا اچھا تو ایسے بولو ناسائیں کہ مہاجر ہے ۔ چلو ...

’’خالد چرَیا‘‘

مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر