... loading ...
؍ دسمبر کے بعد اب 20؍ جنوری!
یہ صرف تاریخ کا فرق ہے! اور کچھ نہیں۔ ایام کے اُلٹ پھیر میں ہم جہاں تھے وہیں پڑے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول سے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی تک ایک ہی کہانی ہے جو مسلسل چلی آتی ہے۔ کوئی غورو فکر نہیں۔ یکطرفہ بیانئے اور وہی پامال فقرے۔ بندوق زندگی کا سب سے بڑا فلسفہ ہمیں سکھانے پر اُتری ہوئی ہے اور ہم قلم سے گولیاں چلاتے ہیں۔ بے شرم صحافت کے یہ بے حمیت قلمکار، تجزیہ کار !!
ابھی یونیورسٹی میں دہشت گردوں کی بندوقیں خاموش نہیں ہوئیں،ابھی وہاں سے لاشیں اُٹھی بھی نہیں ، ہلاکتوں کی گنتی پوری نہیں ہوسکی۔ اور ایک دانشور چیخا ہے!’’اُن جاہلوں کو دیکھئے جو ملالہ جیسے واقعات میں آج بھی سازش ڈھونڈتے ہیں۔‘‘ عجیب طرزِ فکر ہے! گویا باچا خان یونیورسٹی پر حملہ اس لئے ہو گیا کہ ملالہ کے واقعے میں کوئی جاہل سازش کی بُو پاتا ہے۔یہ ایک پورا بیانیہ ہے جس میں لوگوں کے اندر پائے جانے والے شکوک کو تحقیر سے مسترد کیا جاتا ہے۔ اور اس پر غصہ کیا جاتا ہے کہ نوگیارہ کے بعد سے ریاست کی پوری طاقت اور ذرائع ابلاغ کی پوری حمایت کے باوجود عوام کے طرزِ فکر میں کوئی تبدیلی کیوں پیدا نہیں کی جاسکی؟ ابھی سوات میں ایک بچی کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو کے عدالتی فیصلے کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوئی کہ بے شرم تجزیہ کاروں نے اپنے الفاظ کی تیر چلانا شروع کر دیئے۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سیاسی ، عسکری اور صحافتی اشرافیہ کا رویہ ، بیانیہ اور پیرایہ بس ایک طرح کا بن چکا ہے۔یہ کسی بھی طرح کے متبادل طرزِ فکر و عمل کی طرف متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔ زبان و بیان اور کردار وعمل کے حوالے سے اس جمود نے قومی زندگی کو دہشت گردی کے نہ ختم ہونے والے گرداب میں ڈال دیا ہے۔ اور ہمیں قدیم یونانی افسانے کے نحوست زدہ بادشاہ سیسی فس(Sisyphus) کے انجام تک پہنچا دیا ہے۔ جسے دیوتاؤں نے ایک بھاری پتھر لے کر پہاڑ کی چوٹی تک پہنچانے کی سزا سنائی تھی۔ نحوست زدہ بادشاہ جب بھی بھاری پتھر کے لے کر پہاڑ کی اونچی چوٹی کے قریب پہنچتا تو پتھر ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے لڑھک جاتا۔ وہ پتھر لے کر پھر وہی مشق دُہراتا اور بار بار اسی انجام سے دوچار ہوتا۔ لعنت زدہ بادشاہ پتھر کو چوٹی تک پہنچانے میں ناکام رہتا اور یوں اُس کی نحوست بھی ختم نہ ہوپاتی۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں دہشت گردی کی نحوست میں مبتلا رکھنے کی کوئی سزا ملی ہے۔ جسے ختم کرنے کے لئے راست روی کے جس پتھر کر اُٹھاکر چوٹی تک پہنچانا چاہئے اُسے اُٹھانے میں پورا ملک ، مل کر بھی ناکام رہتا ہے۔ افسوس ہم سمجھ ہی نہ پائے کہ دہشت گردوں سے پہلے ہمیں خود سے نمٹنا ہے۔ ہماری بداعمالیوں کے چڑیا گھر میں جہاں دہشت گردوں سے بڑے عفریت وحشت کے دہلتے ساز پردہشت کے ننگے ناچ ناچتے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے پر سوال اُٹھانے والوں کو جہالت کا طعنہ سننا پڑتا ہے ۔ مگر دنیا میں اس معاملے کو سمجھنے کے لئے اب غیر روایتی مطالعے ہو رہے ہیں۔ مگر ہم اب بھی اِسے طالبان کے اعترافات کے درمیان رکھ کر واقعات کی صورت گری اور ردِ عمل کی تعبیر میں پھنسے ہوئے ہیں اور جتھہ بند ہو کر اِسے گروہی توجیہات اور ایک دوسرے کے خلاف بروئے کار آنے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر انتھونی اسٹیونز نے اپنی کتاب میں دہشت گردی کی ذہنیت کا انسان کی لاکھوں برسوں پر محیط حیاتیاتی اور نفسیاتی تاریخ میں جائز ہ لیا ہے۔ عالمی دہشت گردی سے جڑے مقامی دہشت گردی کے مظاہر میں اب یہ بات ایک عقیدے کے روپ میں ڈھل رہی ہے کہ اِس کے لئے روایتی طریقے ناکام رہتے ہیں۔ مگر پاکستان کے اندر اس ضمن میں دہشت گردوں کو بے رحمی سے مارکر دہشت گردی کو کچلنے کا وہی روایتی طریقہ لاگو ہے۔ جس پر سوال اُٹھانے کا مطلب ایک او رطرح کی دہشت گردی کو دعوت دینا ہے۔ پاکستان کے ایک مخصوص نوع کے کالم نگاری کی حد تک کے دانشور یا ٹیلی ویژن پر جگمگانے کی حد تک کے چندرٹے رٹائے جملوں کے تجزیہ کار دہشت گردی کے روایتی فہم پر سوال اُٹھانے کو اب قومی درجے کا جرم بنانے پر کمربستہ ہیں۔ مگر ہم میں سے کوئی اپنے گریبان کو ٹٹولنے کے لئے تیار نہیں کہ دہشت گردی کے حل کے لئے ہمارے پاس جتنے بھی حل ہیں وہ خو دبھی دہشت گردی کے بدترین نمونے بن کر سامنے آتے ہیں۔ یہ انسانوں کی اجتماعی دانش کے لئے ایک سوال بن چکا ہے کہ اُن کے پاس دہشت گردی کے مقابل تمام حل دہشت گردوں جیسے ہیں۔ ڈاکٹر انتھونی اسڑٹیونز کا مقدمہ ہماری روحوں کو گھائل کردیتا ہے ، وہ لکھتا ہے کہ
’’یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم کرہ ارض پر آج تک جنم لینے والی ظالم اور سفاک ترین نوع ہے ۔ اور
اگر چہ ہم اخبارات یا تاریخ کی کتب میں انسان کے خلاف انسان کے مظالم کے متعلق پڑھتے ہوئے خوف سے
سمٹ سکتے ہیں۔لیکن اپنے دل کی گہرائی میں جانتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اُسی وحشیانہ جذبے کو چھپائے
ہوئے ہے جو قتل ، تشدد اور جنگ کی جانب لے جاتا ہے۔‘‘
کیا ہم سوال اُٹھا سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری سرگرمیوں میں ہمارے’’ مقدس ‘‘قومی مشن نے جن’’ وحشیوں‘‘ کو لقمہ اجل بنایا، وہ کون تھے؟ اور ہزاروں کی تعداد میں مرنے والے یہ’ نامعلوم سفاک دہشت گرد‘‘ مرنے کے باوجود ہمیں جینے کیوں نہیں دے رہے؟
اس سوال کو تو چھوڑیئے! ہمارے پاس تو اس آسان سوال کا بھی کوئی سادہ جواب نہیں کہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گرد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے پر کیوں تُلے ہیں۔ دہشت گردوں کا 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر حملہ کسی تعلیمی ادارے پر کوئی پہلا حملہ نہیں تھا۔ اور ہمیں اپنے ریاستی اداروں کی جانب سے اس دعوے کہ ’’دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے‘‘ سے زیادہ اس بات پر یقین کیوں ہے کہ 20جنوری کو ہونے والا باچا خان یونیورسٹی پر حملہ بھی کسی تعلیمی ادارے پر آخری حملہ نہیں۔ ان دونوں تاریخوں کے درمیان روزوشب کی گردش میں قومی زندگی کے تمام معمولات جوں کے توں ہیں۔ البتہ ایک ذرا سا فرق یہ پڑا ہے کہ ہم آرمی پبلک اسکول پر حملے کے وقت کسی تعلیمی ادارے پر حملے کے حوالے سے جتنے حساس تھے ، باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملے تک آتے آتے ،ہم اُتنے بھی حساس نہیں رہے۔ ہمارے قومی شعور نے ان واقعات کو قومی معمولات کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ اور یہ دہشت گردی کے حملوں سے زیادہ دہشت ناک بات ہے،معلوم نہیں اس سے خطرے کی حقیقی گھنٹی بجے گی یا نہیں؟
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...