... loading ...
اسٹیبلشمنٹ کے انداز بھی نرالے ہیں۔معاف کرنے پر آئے تو انتھونی بلنٹ، گائے برجس ، جیسے مشہور غدار جاسوس( جو برطانیا کی اشرافیہ سے متعلق تھے اور جنہوں نے امریکا اوربرطانیاکے راز روس کو فراہم کرکے وہاں فراراورپناہ حاصل کی ) سے چشم پوشی کرلے۔ لارڈ راجر ہولس(ایم آئی فائی کے سربراہ ) لارڈ پروفمو اور ہیرلڈ میکملن جیسے اہم اور ذمہ دار مجرمان کو معاف کردے(آپ بلاوجہ ہی دور مشرفی کے این آر او کی کشادہ دلی اور جرائم پروری پر رنجیدہ ہوتے ہیں) اور الزام دینے پر آئے تو لارڈ ایسٹر جیسے سہولت کار کے بیٹے ولیم ایسٹر کی طرح سارا بار ملامت اپنی گھوڑی Ambiguity (ابہام ) کی کمر پر لاد دے ۔
وہ کہا کرتا تھا کہ سارا فتنہ ان کی ریس کی گھوڑی کا تھا نہ کم بخت ریس جیتتی، نہ گھر میں فالتو پیسے آتے ،نہ ان کی خاندانی جاگیر House Cliveden والا سوئمنگ پول کے پانی گرم رکھنے کا اہتمام ہوتا نہ جولائی1961 کی اس امگی ہوئی، جذبات کو ہوا دیتی رات کو برطانیا کے وزیر جنگ اور مستقبل کے ممکنہ وزیر اعظم لارڈ پروفمو اپنے دوست صدر ایوب خان کے ساتھ پانی میں اترتے، نہ یہ تعلقات اس نہج پر آتے نہ ہی اگلی صبح لارڈ ایسٹر کا دوست ڈاکٹر اسٹیفن وارڈ ان کے گھر کی لائبریری سے وزیر جنگ کے بریف کیس سے وہ اہم دستاویزات چراتا جن میں ان مقامات اور تاریخوں کی تفصیل تھی جہاں برطانیا کی مدد سے امریکانے روس کے خلاف ایٹمی میزائل نصب کرنے تھے۔یہ اہم دستاویزات وہ ہر وقت ساتھ لیے گھومتے تھے کہ مبادا بطور وزیر جنگ انہیں اچانک کہیں میٹنگ میں جانا پڑے۔
بیس برس کی معصومہ کرسٹین کیلر یہ بھی شکوہ بیجا کرتی رہی کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس اسکینڈل میں ملوث اپنے چہیتوں کی ایسی اندھی مدد کی کہ جو محبت نامے اسے اس دوران وزیر موصوف لارڈ جان پروفمونے لکھے تھے وہ جب بھی عدالتی کمیشن کو اور پریس کے مختلف صحافیوں کو بطور ثبوت فراہم کیے گئے ،وہ وزیر موصوف کو بحفاظت لوٹا دیے گئے۔
برطانیا اور امریکا جیسے جمہوری نظام میں یوں تو اسٹیبلشمنٹ سے مراد، وہ چھوٹے طاقتور گروپ ہوتے ہیں جنہیں ہمہ وقت اپنے مفادات کا تحفظ عزیز ہوتا ہے۔ یہ سب اس لیے کہ جمہوری نظام میں ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔یوں ان گروپس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جمہوریت ان کے مفادات پر کوئی ضرب نہ لگائے، یوں آپ اسٹیبلشمنٹ کو ایک طرح کی دیوار حفاظت firewall سمجھ لیں ،جس کا منتہا و مقصد بالاخر اپنی سرمایہ کاری کا فروغ اور تحفظ ہے۔
امریکا میں صدر آئزن آور نے (جو فوج میں خود بھی پانچ ستاروں والے جنرل تھے) سن 1961 میں قوم سے الوداعی تقریر میں ایسے خطرناک اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے باخبر کیا تھا جس میں فوج اور فوجی ساز سامان بنانے والے ادارے جمہوریت کے لیے خطرہ بننے والے ہیں۔
اس میں سن 1990کے بعد سے تیل کی بڑی بڑی کمپنیاں ذرا کھل کر سامنے آگئی ہیں گو کہ یہ کمپنیاں بہت پہلے سے1933 امریکا سے باہر مشرق وسطی کی سیاست میں اہم کردار ادا کررہی تھیں جس کا سب بڑا ثبوت دنیا کی سب سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنی سعودی آرامکو ہے۔
پاکستان میں تو بے چاری اسٹیبلشمنٹ تو عاشق کا وہ چار گرہ کا گریباں ہے جس پر غالب حیف کرتے تھے(افسوس کرنا) اس کے پہلی دفعہ منظر عام پر آنے کی خبر اس کے اہم کردار اور اس کے محرکات اور اجزائے ترکیبی پر غور فرمائیں تو آپ پر واضح ہوجائے گا کہ ہر دفعہ جب قافلہ اقتدار کے پڑاؤ کے بعد جب دھول بیٹھ جاتی ہے اور منظر واضح ہوجاتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کی گئی یہ ڈری ڈری سی فوجی مداخلت یا تو ایک فرد واحد کی ہوس اقتدار دکھائی دیتی ہے یا مکاری کا عبایا اوڑھی چڑیل جو جمہوریت کا بچہ اٹھا کر دو مضبوط گھرانوں میں سے ایک کی گود میں حکومت کی صورت میں ڈال دیتی ہے۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سے مراد خالصتاً فوجی بیوروکریسی اور اس کی معاون سویلین بیوروکریسی ہے۔ اس میں باقاعدہ کاروباری گروپ یا تھنک ٹینک شامل نہیں ۔البتہ گاہے بہ گاہے ایک نامور قانون دان جنہیں مشہور انگریزی صحافی آنجہانی اردشیر کاؤ س جی جدہ کا جادوگر کہا کرتے تھے۔ہمارے دوست افضل رضوی کا کہنا ہے کہ یہ وکیل صاحب اس مولوی کی مانند ہوتے تھے جو گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی یعنی غیر جمہوری حکومت کا نظریہ ضرورت کا عمامہ پہنے چیف جسٹس کے سامنے نکاح پڑھاتے تھے۔ اس گھمن پھیری میں ایک سابق صحافی اور کئی بار کے سینٹر ، ملتان ،جھنگ، گجرات اور سندھ کے چند خانوادے بطور بارات ضرور شامل ہوجاتے ہیں ۔
اس اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان میں پہلی دفعہ اپنا رخ روشن اس وقت دکھایا ،جب پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا اور اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ایوب خان کی غیر معمولی قربت منظر عام پر جلوے دکھانے لگی ۔ اسکندر مرزا نے بطور وزیر دفاع ایوب خان کو براہ راست بریگیڈئیرسے لیفٹیننٹ جنرل بنا کر 1950 میں نہ صرف فوج کا کمانڈر ان چیف بنا دیا ۔بلکہ چار سال بعد انہیں وزیر دفاع کی اضافی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔
امریکامیں جو خفیہ دستاویزات اب مطالعے کے لیے دستیاب ہیں ان میں ایک سیکرٹ ٹیلی گرام نمبر 474 بھی موجود ہے جو پاکستان میں امریکی سفارت خانے سے سیکرٹری دفاع جان ڈلس کی جانب سے 6 اکتوبر 1954کو بھیجا گیا تھا ۔اس برقیے میں ایوب خان کی جانب سے سویلین بساط لپیٹ کر اس کی جگہ فوجی حکومت ان کی سربراہی میں قائم کرنے کی تجویز بھیجی گئی تھی لیکن ساتھ ہی یہ خصوصی استدعا بھی کی گئی تھی کہ یہ رازکسی پاکستانی ہستی اور بالخصوص برطانوی حلقوں میں نہ عیاں کیا جائے کیونکہ قانون کے مطابق دولت مشترکہ کا سربراہ تاج برطانیہ کی جانب سے مقرر ہوتا تھا اور اس کی رو سے یہ قدم غداری کے مترادف تھا ۔
ان دو مقتدر ہستیوں کا یعنی گورنر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کا ساتھ اقتدار کی تکون میں اس وقت تبدیل ہوگیا جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر بھی اس میں شامل ہوگئے۔ جسٹس منیر نے ہی گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے اسمبلی کو برطرف کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا۔یہ تکون اس وقت اقتدار کے ایک طویل المیعاد اسکوائرمیں ڈھل گئی جب رفتہ رفتہ ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہوگئے ۔ان کی شادی ان دنوں اسکندر مرزا کی ایرانی نژاد اہلیہ ناہید مرزا کی بہت ہی قریبی عزیزہ سے ہوئی تھی۔
اسکندر مرزا جنہیں شہنشاہ ایران کی بڑی حمایت حاصل تھی ان کا خیال تھا کہ جنرل ایوب ان کے زیر دست رہیں گے مگر ایسا نہ ہوا ۔یہ امر بھی مقام عبرت اور دل چسپ ہے کہ ان کے لندن کے جلاوطنی کے ایام بہت تلخ تھے۔ مالی اعانت ان کے دوست یعنی اصفہانی فیملی اور برطانیا میں ایران کے سفیر ادرشیر زاہدی کیا کرتے تھے۔جنرل یحییٰ خان نے رحلت کے بعد جب ان کی پاکستان میں تدفین کی اجازت نہ دی تو شہنشاہ ایران نے اپنا ذاتی طیارہ بھیج کر ان کو پورے سرکاری اعزاز سے تہران میں دفن کیا۔
ایوب خان کے صدر بننے کے بعد سے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خد و خال بہت واضح ہوگئے۔ اب یہ خالصتاً فوجی مغل اعظم اور نو رتنوں کاسویلین اعلی سرکاری ملازمین کا ایک گروپ ہوتا تھا۔حیرت کی بات ہے کہ اس میں پیش پیش پختون اور مہاجر بیوروکریٹس ہوا کرتے تھے۔ قدرت اﷲ شہاب ،الطاف گوہر ، صاحب زادہ یعقوب علی خان ،اجلال حیدر زیدی، انور زاہد ، ایس ۔کے ۔محمود ،افضل آغا ، قاضی علیم اﷲ، وی اے جعفری ، غلام اسحق خان ،روئیدار خاں، فضل الرحمن ، قاضی برادران کے نام بہت مشہور ہوئے ۔ان میں صاحبزادہ یعقوب کے علاوہ سبھی سویلین تھے۔یہ مفت اور من بھاؤنے مشورے دیتے تھے۔ غلام اسحق خان کے ذاتی مطالعے میں ہر وقت رہنے والی آئین کی کاپی دیکھ لیتے تو آپ کو لگتا کہ یہ کسی کھلنڈرے لڑکے کا مدرسے کا نورانی قاعدہ ہے ۔ جس کے اوراق کونے اور جلد سبھی کثرت استعمال سے مخدوش ہوگئی ہے۔ پاکستان میں آئین کا ایسا گہرا مطالعہ تو حفیظ پیرزادہ کا بھی نہیں تھا جنہوں نے اس کو تحریر کیا تھا۔
اب پچھلی دو دہائیوں سے یہ ہوچلا ہے کہ پاکستان میں جو سویلین اور فوجی غزنوی اقتدار میں آتے ہیں ۔وہ صرف قومی خزانے کا سومنات لوٹنے آتے ہیں ۔رہ گئی ایاز کے خم والی غلام بیورکریسی تو اس کی اہلیت اور اخلاقی پستی دونوں کا حال وہی ہے جو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کا ہے۔کم بخت کی گرواٹ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ ایسے میں کبھی کوئی نادان کھلاڑی الیکشن سے پہلے ایسا بیان دیتا ہے کہ وہ اقتدار میں آن کر امریکی ڈرون گرادے گا تو یہ چیتاؤنی (ہندی میں وارننگ )سن کر روف کلاسرہ جیسے کھوجی صحافی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بس یہ ہی وہ تنکا تھا جس سے اونٹ کی کمر ٹوٹ گئی اور گمان غالب ہے کہ اس بیان کو سن کر اسٹیبلشمنٹ والے اداکارہ کاجل کرن کی طرح گٹار بجاتے ہوئے اٹھلا کر گنگنانے لگے کہ ع ’’یہ لڑکا ہائے اﷲ کیسا ہے دیوانہ‘‘ اور چپکے چپکے فیصلہ کیا کہ ابھی جھلاّ کملا رانجھا کچھ اور دن بانسری بجانے کی پریکٹس کرلے اور بہتر ہے کہ حاکمیت کی ہیر کی ڈولی کھیڑے لے جائیں ۔سو فی الحال گزارہ کریں اس لیے کہ کار جہاں دراز ہے!
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...