... loading ...
بدھ 13جنوری2016ء کی صبح ہی شہر کوئٹہ پولیس جوانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ حملہ خودکش تھا جو سیٹلائٹ ٹاؤن میں حفاظتی ٹیکوں کے مرکز کے سامنے ہوا ، یہاں سے پولیو ٹیموں نے روانہ ہونا تھا۔ ڈسٹرکٹ پولیس اور بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار ان کی حفاظت کیلئے ساتھ جانے کو تیار تھے۔ کسی ظالم نے خود کو اُڑا کر دھماکا کیا اور ٓان واحدمیں پندرہ لاشیں گرگئیں۔ ان میں ایک سیٹلائٹ ٹاؤن تھانے کاسب انسپکٹر تھا ،ایک فرنٹیئر کور کا اہلکار تھا ، باقی 11اہلکار بلوچستان کانسٹیبلری کے جوان تھے۔ ان شہیدوں میں تین سب انسپکٹر اور چاراسسٹنٹ سب انسپکٹر تھے۔ دوشہری تھے۔ حملہ یقینا پولیس پر تھا۔ ازیں پیش آٹھ جنوری کو ملتانی محلہ میں دو پولیس اہلکاروں اور اس سے قبل 4جنوری کو سریاب میں بی بی نانی زیارت کے مقام پر بھی دو اہلکار ہدف بنے ۔ بلاشبہ پولیو ٹیم پر بھی جان لیوا حملے ہوچکے ہیں۔ دہشت گرد زندگی کے نظام کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ خودکش حملہ اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ دہشتگرد وں کا گروہ پھر سے فعال اور سرگرم ہوچکا ہے۔
پاکستان کے اندر دہشتگردی ایک گمبھیر مسئلہ ہے ۔ خطے کی سیاست یعنی علاقائی اور بین الاقوامی سے ان گروہوں کے تانے بانے ملتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کی چپقلش ، پاک بھارت اور پاک افغان جیسے تنازعات سے دہشتگردی کو مہمیز مل رہی ہے۔ امریکی بالادستی اور مسلم دنیا کے استحکام کو متزلزل کرنے کی پالیسیاں ان گروہوں کو ایندھن فراہم کررہی ہیں۔ ریاست کے اندر حکومت اور اداروں کی کمزوریوں و خامیوں سے ان خطر ناک برائیوں کو بڑھا وا مل رہا ہے ۔ سعودی حکومت نے شیخ النمر کو پھانسی دی۔ ادھر ایران میں سعودی سفارتخانہ نذر آتش کیا گیا۔ ادھرپاکستان میں ’’شیعان سعودیہ ‘‘اور ’’شیعان ایران ‘‘ سڑکوں پر نکل آئے ۔ یہی گرما گرمی تو قتل و غارت گری کو شہ دیتی ہے ۔ بھارت پٹھان کوٹ حملے کا محرک بادی النظر میں پاکستان کو سمجھتا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع حملے کے بعد کہہ چکا ہے کہ ’’اب ہم اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے ‘‘۔ دشمن کو درد دینے کی دھمکی بھی دی۔ اب یہ دشمن ان کی نظر میں پاکستان ہی ہے۔ حالانکہ اب تک پٹھان کوٹ واقعہ کی مکمل تفتیش و تحقیق ہونا باقی ہے کہ آیا حملہ آوروں کے قدموں کے نشان کہاں جاتے ہیں ۔ چنانچہ افغانستان کے شہر جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے پر خودکش حملہ کرایا گیا۔ افغانستان امریکا کی کالونی ہے اور افغان حکومت بھارت کے بھی زیر اثر ہے۔ پاکستان کے خلاف افغانوں کے جذبات کو کمال حکمت عملی سے مشتعل کیا جارہاہے بلکہ اس میں کسی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔ سو ، جلال آباد خودکش حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ۔ افغانستان میں داعش کے چاہنے والے کون ہیں؟ سوال یہ ہے تحریک طالبان پاکستان کے گروہ آپریشن ضرب عضب کے بعد افغانستان میں روپوش ہیں ۔ گویا انہی لوگوں کا دوسرا نام داعش ہے ۔ چند کمانڈر افغان طالبان سے کٹ کر اس گروہ سے خود کو جوڑتے ہیں۔ افغان حکومت کی ایک بڑی شخصیت نے پارلیمنٹ میں الزام لگایا ہے کہ کابل کے اندر داعش کے کمانڈر رہائش پذیر ہیں۔ اگر فی الواقعی ایسا ہے تو افغان سرزمین پر موجود داعش کا لبادہ اوڑھے یہ گروہ بھارت کی سرپرستی میں پھل پھول رہا ہے اور جلال آباد حملے کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں کی کھوج لگانا بھی کوئی مشکل نہیں ۔ تحریک طالبان پاکستان کو کس نے گود لے رکھا ہے ، یہ بھی راز نہیں ۔ کوئٹہ کے اندر پولیس جوانوں کی شہادت خطے کی اسی سیاست کا شاخسانہ ہے۔
بلوچستان میں عسکریت پسندی کی پشت پر بھارت اور افغان حکومت ہے۔ ستر کی دہائی میں بلوچ پشتون عسکریت پسندوں کوافغانستان میں تربیت دی جاتی تھی۔ بڑے نامور بلوچ و پشتون قوم پرست رہنما افغانستان میں روپوشی و خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ نوجوانوں کو عسکری تربیت دی جاتی ، تربیت مکمل ہوتی تو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوتی ۔ اگرچہ بلوچستان اپنے حق سے محروم ہے۔ گوادر پورٹ کی مکمل فعالیت کے بعد کیا ہوگا ۔ اس بابت صوبے کے عوام خوف اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ بہر حال کسی کا خون کسی کے لئے بھی روا نہیں۔ بلوچستان میں مذہبی ، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر ہونے والی دہشتگردی کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں۔ خودکش حملے ، دھماکے ، راکٹ داغنے اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والے بلا تمیز دہشتگرد ہی ہیں گویا ان میں فرق کیا ہی نہیں جاسکتا ،یہ گروہ عوام کے مفادات پر ضرب لگا رہے ہیں ۔ مذہبی دہشتگردی پر گرفت اور باقیوں کیلئے جواز ڈھونڈنے والے دراصل ان کے حامی و مددگار ہیں۔ نیشنل پارٹی فاٹا میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتی اور بلوچستان کی عسکریت پسندی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی تھی گویا ایک قسم کی حمایت اور تعاون کا تاثر مل رہا تھا۔ اور پھر جب ان کی بندوقوں کا رخ نیشنل پارٹی کی طرف ہوا تو انہیں دہشتگرد کہنا شروع کردیا اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ان کے لئے نا گزیر بن چکا ہے ۔ آمر پرویز مشرف نے نواب بگٹی کو قتل کیا تو عسکریت پسندوں نے کئی سفید پوش زعماء کو موت کے گھاٹ اتارا۔ نوابوں کو ہٹ لسٹ پر رکھا ،حتیٰ کہ نوابزادوں کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف اور ان میں کوئی فرق باقی رہتا ہے ؟بات پولیس اہلکاروں کی شہادت کی ہو رہی تھی جن میں سات تو تازہ دم آفیسر تھے ۔پولیس کی لاکھ خامیاں سہی ،لیکن یہ ہمارے وجود کا حصہ ہی تو ہیں ۔
مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا ء لانگو نے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کے سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسنے کی تصدیق کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے تصدیق کی ک...
کوئٹہ میں ایف آئی اے سائبر کرائم نے کارروائی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پرچائلڈ پورنو گرافی پھیلانے والا ملزم گرفتار کرلیا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے مطابق ایف آئی اے نے کوئٹہ کے علاقے فقیر محمد روڈ پر کارروائی کرتے ہوئے واٹس ایپ پر چائلڈ پورنو گرافی پھیلانے والے ملزم جاوید اقبال و...
8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس ...
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں زرغون روڈ پر الخیر ہسپتال کے قریب دھماکا ہوا ہے، جس میں اینٹی ٹیررزم فورس (اے ٹی ایس) کے اسکواڈ کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ آخری اطلاعات کے مطابق اب تک دھماکے میں 14 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم کسی جا نی نقصان کی اطلاع نہیں۔ اطلاعات کے مطابق دھم...
سانحہ کوئٹہ کے بعد 10 اگست کو ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں ملکی سلامتی کی اندرونی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ۔ اور کوئٹہ دھماکے کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے اہم فیصلے کیے گئے۔ یہ اس اعتبار سے ایک اہم اجلاس تھا کہ سانحہ کوئٹہ کے ب...
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار مسلم لیگ نون کی حکومت میں مستقل ایک مسئلہ اور موضوع تنازع بنے رہتے ہیں۔ ملک میں کوئی بھی المنا ک واقعہ پیش آجائے، وہ منظر سے غائب ہوتے ہیں۔ اور اچانک خبر آتی ہے کہ وہ وزیراعظم نوازشریف سے یا وزیرا عظم نوازشریف اُن سے ناراض ہیں۔ اُن کا روٹھنا اور اُنہیں...
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الاحرار گروپ نے کوئٹہ میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے نام پر ذمہ داری قبول کرنے کا یہ عمل درست بھی ہے یانہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سول اسپتال کی ایمرجنسی میں کیے ج...
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ کے لرزہ خیز واقعے کے بعد فوراً ہی کوئٹہ کا دورہ کیا ۔ اور کور ہیڈکوارٹر میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ نے انٹیلی جینس اداروں کو ملک بھر میں اسپیشل کومبنگ آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ پا...
کوئٹہ دھماکے کے بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف فوراً ہی کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم نواز شریف بھی سانحہ کوئٹہ کے بعد اپنی تمام مصروفیات منسوخ کرکے کوئٹہ روانہ ہو رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ کوئٹہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس نے...
کوئٹہ میں سول ہسپتال کے اندر ہونے والے ایک دھماکے میں 97 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 171 ہے۔ یہ خوفناک دھماکا اس وقت ہوا جب بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی نامعلوم افراد کے حملے میں جاں بحق ہوئے اور ان کی لاش سول ہسپتال لائی گئی تھی۔ اس موقع پر وکل...
كوئٹہ كے علاقے ڈبل روڈ پر رئیسانی سینٹر كے باہر ایف سی اہلكار سوئی سے گاڑی مرمت كرانے كیلئے آئے تھے كہ نامعلوم موٹرسائیكل سواروں نے اچانك ان پر فائرنگ كردی جس سے چاروں اہلكار موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ پولیس کے مطابق جاں بحق اہلکاروں کی شناخت نائیك اول دراز خان، سپاہی شریف، نائ...
چند روز قبل یکے بعد دیگرے دو بڑی خبریں قومی میڈیا پر نشر ہوئیں۔ ایک سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے کی بازیابی اور دوسری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے انتہائی اہم کمانڈر اسلم اچھو کی آپریشن میں ہلاکت۔ شہباز تاثیر کا ساڑھے چار سال بعد کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں ظاہر ہون...