... loading ...
رومانوی تحریک کے سرکردہ رہنما اور انگریز شاعر لارڈ بائرن نے شاید پہلی مرتبہ اس ضرب المثل کا استعمال کیا کہ
’’truth is stranger than fiction‘‘
( حقیقت ناول سے زیادہ حیران کن ہوتی ہے)
خلیل جبران کے ہاں کوئی ابہام نہیں تھا، حقیقت کا تجزیہ کرتے ہوئے اُنہوں نے یہی بات ایک اور اُسلوب میں لکھی کہ ’’حقیقت کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘واقعات کے وقوع پزیر ہونے کی حالت میں بھی ایک مسئلہ ہمیشہ یہ رہتا ہے کہ اس کے پیچھے ارادے کی طاقت کیا ہے۔ دنیا میں بہت سے درست واقعات اپنے غلط ارادے کے باعث غلط بیان نہیں کئے جاسکے۔ اور بہت سے غلط واقعات درست ارادے کی تحریک کے باوجود صحیح نہ سمجھے جاسکے۔ انسانوں کا خالق ہی سب سے بہتر جانتا ہے ۔ چنانچہ عالم کا پروردگار انسانوں کے متعلق فیصلوں کا انحصار اعمال اور واقعات پر نہیں نیت پر رکھتا ہے۔ اب ذرا دیکھئے کہ خلیل جبران نے ضمیر کے ایک مسئلے کو ’’ضمیر کی بیداری‘‘ کے عنوان سے کس طرح واضح کیا ہے!
’’ ایک اندھیری رات میں ایک شخص اپنے ہمسائے کے باغ میں داخل ہوا، اور اپنی سمجھ سے بڑا تربوز چرایا اور اُسے گھر لے آیا۔ جب اُس نے اسے چیرا تو دیکھا کہ وہ ابھی کچا ہی تھا۔تب ایک معجزہ رونما ہوا۔ اس شخص کا ضمیر بیدار ہوا، اُسے ندامت ہوئی اور وہ تربوز چُرانے پر پچھتانے لگا۔‘‘
کچے تربوز کو دیکھ کر ضمیر کی بیداری عام طور پر پکے تربوز کو دیکھ کر خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگتی ہے۔ پاکستانی سیاست بھی ایسے ہی ’’ضمیر صاحب‘‘ والی ندامت اور پچھتاوے رکھتی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کی افتادِ طبع کو سمجھنے کی ایک مشق ان دنوں جاری ہے۔ اور سیاسی وعسکری قیادت کے درمیان پائی جانے والی فضا پر اپنی اپنی نوعیت کے تجزیئے بھی جاری ہیں۔ مگر ان تجزیوں میں حالات کے جبر کو ایک فیصلہ کن عامل کے طور پر جگہ نہیں مل رہی ۔ اور اِسے واقعات کے ایک بہاؤ میں موضوع بنایا جارہا ہے۔ بنیادی طور پر اصل ارادہ جو ان واقعات کے پیچھے کہیں متحرک دکھائی دیتا ہے، مفقود الخبر بنتا جارہا ہے۔
پہلی اور بنیادی بات یہی ہے کہ ابھی کچھ نہیں ہوگا! ابھی بنجارہ لاد چلنے کوتیار نہیں۔ ایک تین سالہ توسیع ! پر اکتفا ہو گا۔ مگر ایک کتاب کی یہ بابِ تمہید بن سکتا ہے۔یہ صحیح و غلط کی بحث سرے سے نہیں ہے۔ وقت کے فیصلے اور نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں وہی کچے تربوز والے ضمیر صاحب بھی کہیں نہیں پائے جاتے۔ اطلاع صرف یہ نہیں کہ پیشکش کی جاچکی، بات اس سے آگے بڑھ کر ہے کہ وہ قبول بھی کی جاچکی۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ تین سالہ مدت کی توسیع کی پیشکش سے پہلے اُنہیں یہ اطلاع چین کے ذرائع سے دی گئی تھی۔ ابھی ان اہم معلومات کے صرف اسی ایک گوشے پر اکتفا کیجئے! مگر یہ ماجرا کیا ہے؟
فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کی بدن بولی میں ایک بدلاؤ امریکا کے دورے سے واپسی کے بعد سے دیکھا جارہا ہے۔ وہاں جو کچھ ہوا اور اُن کے دورے سے قبل میاں نوازشریف کے امریکی دورے میں جن امور پر فیصلہ کن بات چیت ہوئیں۔ اُس کا ایک گہرا تجزیہ انتہائی اہم اور بااثر حلقوں میں زیر گردش ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے ارادوں کے لئے فوج کا تائیدی کردار پانے کی خواہش کا اظہار سیاسی قیادت کی جانب سے کیا گیا۔ اور پھر عسکری ارادوں کو تھامنے باندھنے کے لئے ’’بیرونی امداد‘‘ پر انحصار کیا گیا۔
کوئی مانے یا نہیں! اگلے کئی برسوں تک پاکستان میں شریف خاندان یا زرداری جنتا نہیں، اقتصادی راہداری حکومت کرے گی۔جو اس کے ساتھ چلے گا، وہ چلے گا۔ جو اس کے ساتھ نہیں چلے گا وہ پھر چلتا بنے گا۔ اس ضمن میں جس تحریک ، سیاسی داؤ پیچ، اندرونی اُتھل پتھل یا سیاسی استحکام کی ضرورت ہوگی۔وہ مہیا رہے گا۔ امریکا اور بھارت اِسے سبوتاژ کرنا چاہیں گے۔ براک اوباما نے صدر کی حیثیت سے اپنے آخری’’ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب ‘‘میں پاکستان کے اندر اگلے کئی برسوں تک انتشار کی جو پیش گوئی کی ہے، وہ دراصل پیش گوئی نہیں بلکہ انکل سام کے ارادے ہیں۔ جو پاک چین اقتصادی راہداری کے بعد بھیانک رخ پر آگے بڑھنے جارہے ہیں۔ امریکا تلا بیٹھا ہے کہ وہ پاکستان میں کسی ایڈونچر کی بنیاد پر پابندیاں عائد کردے۔ یہ بات نوازشریف اور فوجی سربراہ دونوں جانتے ہیں۔ امریکا نے بھارت کو اس کے اشارے نہیں دے رکھے،بلکہ اس منصوبہ بندی میں شریک کر رکھا ہے اور اُس نے زیادہ تہہ دار پالیسی بنا رکھی ہے۔گزشتہ دنوں ایک انتہائی باخبر بھارتی صحافی سے تفصیلی گفتگو کے دوران میں اس کی پرتیں مزید واضح ہوئیں۔
بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کا دماغ پوری طرح حرکت میں ہے اور ایک ہدف حاصل کرنے کے لئے بے تاب ۔ کسی طرح فوج کو نوازشریف سے اتنا متنفر کردیا جائے کہ وہ غصے میں کچھ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ تب امریکا اپنا کام کرے ۔ بھارت کا ہدف بھی امریکا کی طرح پاکستان کی اقتصادی راہداری ہے۔ دونوں اسے نشانا بنانے پر تُلے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کی سیاسی حکومت کے ساتھ انتہائی پُرکاری اور مہارت سے تال میل کے جال پھیلائے ہیں۔ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اُس کے ساتھ تعلقات کا معاملہ پاکستان کے لئے کتنا حساس ہے۔ اور یہ کس طرح شکوک کی گھمن گھیریاں پیدا کرتا ہے؟بھارت پاکستان میں سیاسی و عسکری فاصلوں کو پیدا کرنے کے جو جال بچھا رہا ہے اُس کا زیادہ بہتر انداز ا سیاسی وفوجی قیادتوں کے الگ الگ امریکی دوروں میں ہوسکا۔ جس پر سب سے زیادہ دھیان چین نے دے رکھا تھا۔ کسی بھی ابہام کے بغیر ان دوروں میں فوجی قیادت کو یہ واضح ہو چکا تھا کہ امریکی رہنماوؤں کی بدن بولی مکمل طور پر پاکستان کو اقتصادی راہداری کے محاذ پر پابندیوں میں جکڑنے کی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے اندر ایسے کسی حالات کی حوصلہ افزائی ہرگز مناسب نہ ہوگی جو امریکا کو کسی قسم کا موقع فراہم کرے۔ ہمالہ کے اُبلتے چشموں سے بھی یہی پیغام ملا۔ جو خطے میں امن کے لئے اس قدر حساس ہیں کہ پہلی مرتبہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعات میں خاموش سفارتکاری کے ذریعے دونوں ممالک کو صبر وتحمل کے مشورے سے نوازا۔ یہ کوئی معمولی تحریک نہ تھی۔ پاکستان کے معاملات میں تو چین براہِ راست اقتصادی راہداری کے ذریعے شریک ہے۔
چنانچہ فیصلہ یہی ہے کہ محض ایک تین سالہ توسیع پر قناعت کی جائے گی۔ اور پھر اندرونِ ملک زیادہ طاقت کے ساتھ بہتری کے لئے زور آزمائی کی جائے گی۔ مکرر عرض ہے کہ یہ صحیح وغلط کی بحث نہیں بلکہ حالات کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ جس میں فیصلہ کن عامل خود حالات کا ایک جبر ہے۔ نوازشریف اور اُن کے دستر خوانی قبیلے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اِسے اُن کی ذہانت اور حالات پر غیر معمولی گرفت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جسے موزوں طور پر زیرِ بحث لانا ضروری ہے۔ مگر ابھی تو صرف یہ خبر ہے کہ توسیع کی پیشکش ہی نہیں ہوئی بلکہ یہ قبول بھی کی جاچکی ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...