وجود

... loading ...

وجود

گلگت بلتستان:گلے کی ہڈی

هفته 16 جنوری 2016 گلگت بلتستان:گلے کی ہڈی

gilgit

اگرچہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے غیر متعین شدہ مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ مضطرب رہی ہے لیکن پاک چین اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد اس کی بے چینی میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔قرائن سے عیاں ہے کہ اب وہ کوئی دوٹوک فیصلہ کرنے جارہی ہے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی آخری مراحل میں ہے۔اطلاعات کے مطابق اس کمیٹی نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت مکمل کرلی ہے جن میں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ جناب حفیظ الرحمان بھی شامل ہیں۔دلچسپ اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ی لیڈر شپ کو جان بوجھ کر مشاورتی عمل سے دور رکھاگیا ہے ۔اس حکمت عملی نے کنٹرول لائن کے دونوں جانب سخت ردعمل جنم دیا۔اور تواور پاکستان نوازحلقوں میں بھی سخت اضطراب پیداہوااور انہوں نے حکومت پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو جموں وکشمیر سے علیحدہ نہ کرے۔آزادکشمیر اسمبلی میں سینئر سیاستدان چودھری لطیف اکبر کی پیش کردہ قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیاگیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے بغیر تمام حقوق دیئے جائیں۔

گلگت بلتستان کے مستقبل پر تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ی لیڈر شپ کو جان بوجھ کر مشاورتی عمل سے دور رکھاگیا ہے ۔اس حکمت عملی نے کنٹرول لائن کے دونوں جانب سخت ردعمل جنم دیا۔اور تواور پاکستان حامی حلقوں میں بھی سخت اضطراب پیداہوا۔

حکومت کی ناتدبیری کی بدولت پہلی بار کنٹرول لائن کے دونوں اطراف میں آباد کشمیریوں کی تنقید کا رخ اسلام آباد کی موڑدیاگیاہے۔اگرچہ حکومت پاکستان اصولی طور پر ان علاقوں کو متنازع ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تصور کرتی آئی ہے لیکن انہیں آزادکشمیر کا حصہ قرارنہیں دیتی اور نہ ہی اس کا آزادکشمیر سے کسی بھی قسم کا سرکاری تعلق قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔ اسٹریٹیجک اہمیت اور محل وقوع کی بدولت اس خطے کی اہمیت میں کوئی کلام نہیں۔1300کلومیٹر طویل شاہراہ ریشم چین اور وسطی ایشیا ئی ممالک کے ساتھ پاکستان کے رابطے کا یہ واحد ذریعہ ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک نئی بحث نے سرا ٹھایا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنادیا جائے تاکہ چین بلاخوف وخطر اس خطے میں انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کرسکے۔یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ اس فیصلے سے مسئلہ کشمیر کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے قانونی راستہ تلاش کیاجائے۔قانون دان اور سفارت کاروں نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ 1963ء کے پاک چین سرحدی معاہدے کی طرز پردستور میں ترمیم کرکے لکھ دے کہ جب بھی جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا تو گلگت بلتستا ن کے عوام اپنے مستقل کا ازسرنو تعین کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔

حکومت کی ناتدبیری کی بدولت پہلی بار کنٹرول لائن کےدونوں اطراف میں آباد کشمیریوں کی تنقید کا رخ اسلام آباد کی موڑدیاگیاہے۔

گلگت بلتستان کے عوام چاہتے ہیں کہ جلد ازجلد ان کے مستقبل کا تعین کیا جائے ۔لگ بھگ گزشتہ سات دہائیوں تک آزادکشمیر اور جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ ان کا کوئی براہ راست رابطہ نہیں رہا۔وہ شاہراہ قراقرم کے ذریعے پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا اور پنجاب سے نہ صرف مربوط ہیں بلکہ ان کے تمام سیاسی،سماجی اور معاشی رشتے پاکستانیوں سے استوار ہوچکے ہیں۔تقریباً پچاس ہزار سے زائد پختون اور پنجابی ان علاقوں میں جاکر آباد بھی ہوچکے ہیں جو زیادہ تر کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی لگ بھگ تمام بڑی سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کی پارلیمنٹ ، سینیٹ اور دیگر پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی دی جائے۔ان کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی اور دیگر اداروں میں نمائندگی ملنے سے ان کا احساس محرومی ختم ہوجائے گا اور وہ نوکرشاہی کی گرفت سے بھی آزادہوجائیں گے۔

گزشتہ چھ عشروں میں پاکستانی حکام نے شعوری طور پر کوشش کی کہ ان علاقوں کا آزادجموں وکشمیر سے کوئی تعلق قائم نہ ہوسکے۔ آزادکشمیر کی لیڈر شپ نے جب بھی ا ن علاقوں کے شہریوں کے ساتھ تعلقات کار استوار کرنے کی کوشش کی انہیں حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔بتدریج دونوں خطوں میں ذہنی اور سیاسی تفاوت گہراہوتاگیا۔گلگت بلتستان میں عمومی طور پرکشمیریوں بالخصوص آزادکشمیر کی لیڈرشپ کے بارے میں سخت بیزاری بلکہ کسی حد تک نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔عام شہریوں ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کا بھی خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے انہیں سیاسی اورآئینی حقوق سے محروم رکھاگیا اور وہ پسماندہ رہ گئے ۔وہ آزادکشمیر اور بھارت کے زیرانتظام جموں وکشمیر کی حکومتوں کو زیادہ بااختیار اور نمائندہ تصور کرتے ہیں۔حالانکہ انہیں حقوق کشمیر یوں نے نہیں بلکہ اسلام آباد کو دینے تھے لیکن بدقسمتی سے ان کی توپوں کا رخ اسلام آباد کے بجائے مظفرآباد کی جانب موڑ دیاگیا۔اس طرح گلگت اور مظفرآباد میں ناقابل عبور خلیج پیدا کردی گئی۔

آزادکشمیر کی سیاسی لیڈرشپ اور رائے عامہ میں یہ اتفاق رائے پایاجاتاہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے۔اپریل1949ء میں حکومت پاکستان اور آزادکشمیر کے مابین ہونے والا معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کا انتظام سنبھالا تھاـ‘جو کہ ایک عبوری معاہدہ تھا ۔آزادکشمیر کے صدر ،وزیراعظم اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ہی نہیں بلکہ اب مقبوضہ جموں وکشمیر کے راہنما بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت کررہے ہیں۔ اب آزادکشمیر اسمبلی بھی ایک قرارداد کے ذریعے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی مخالفت کرچکی ہے۔

ایسے امکانات پیدا ہوچکے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایاگیا تو اس کا سخت ردعمل آزادکشمیر ہی نہیں بلکہ سری نگر او ربیرون ملک آباد کشمیریوں میں بھی متوقع ہے جو ریاست جموں وکشمیر کی تقسیم کے کٹر خلاف ہیں۔علاوہ ازیں کشمیری رائے عامہ بہت بیدار اور متحرک ہوچکی ہے۔خاص کر قوم پرست حلقے گلگت بلتستان کے موجودہ اسٹیٹس میں تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے۔کشمیری رائے عامہ کے متوقع اور سخت ردعمل کاحکومت پاکستان کے ایک حصے کو احساس ہے۔ اسی لیے وہ محتاط ہیں۔دوسری جانب انہیں معلوم ہے کہ اگر گلگت بلتستان کے اسٹیٹس کو تبدیل کیاگیا تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی اخلاقی پوزیشن بُری طرح متاثر ہوگی۔کشمیری رائے عامہ اس کے خلاف ہوجائے گی۔گلگت بلتستان کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرتے کرتے وہ کشمیریوں کی حمایت کھوسکتاہے۔

پاکستان کی حکومت ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان نہیں۔اسے یہ بھی احساس ہے کہ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری عالمی سطح پر اس کے مقدمے کو اس فیصلے کے بعدآسانی کے ساتھ پچھاڑ لے گی اور اس کے پاس بھارتی اعتراضات کا کوئی جواب نہ ہوگا۔

بدقسمتی سے کشمیراور گلگت بلتستان کے عوام کے مابین زبردست خلیج پیداہوچکی ہے۔حکومت پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ دونوں خطوں کی لیڈرشپ کے ساتھ خفیہ یا اعلانیہ مشاورت کرتی اور کوئی درمیانی راستہ نکالتی لیکن انہوں نے کشمیریوں کی ناک رگڑانے کی کوشش کی جس کا سخت ردعمل سامنے آیا۔اتفاق سے آزادکشمیر میں عام انتخابات چند ماہ بعد متوقع ہیں لہٰذا پیپلزپارٹی کو موقع مل گیا کہ نون لیگ کو کشمیر یوں اور جموں وکشمیر کی وحدت کا دشمن بناکر عوام کے سامنے پیش کرے تاکہ انتخابات میں اس کی پوزیشن بہتر ہوسکے۔پی پی پی نے نون لیگ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی پوزیشن کافی بہتر کرلی ہے۔

جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے اس کے تناظر میں قوی امکان ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے بجائے اسے آزادکشمیر کے طرز پر مزید بااختیار بنایا جائے گاتاکہ گلگت بلتستان کے عوام کے مطالبات بھی پورے ہوسکیں اور مسئلہ کشمیر کو بھی کوئی گزندنہ پہنچے اور کشمیری رائے عامہ کے جذبات کو بھی ٹھیس نہ پہنچے۔


متعلقہ خبریں


خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے، شدت 5.3ریکارڈ وجود - اتوار 02 جنوری 2022

خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5.3ریکارڈ کی گئی،جس کے باعث شہری خوف میں مبتلا ہو گئے۔ خیبرپختونخوا کے علاقے پشاور، سوات، نوشہرہ، شبقدر، مہمند، صوابی، مردان، باجوڑ، بونیر، شانگلہ، لوئردیر سمی...

خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے، شدت 5.3ریکارڈ

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر