... loading ...
اگرچہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے غیر متعین شدہ مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ مضطرب رہی ہے لیکن پاک چین اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد اس کی بے چینی میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔قرائن سے عیاں ہے کہ اب وہ کوئی دوٹوک فیصلہ کرنے جارہی ہے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی آخری مراحل میں ہے۔اطلاعات کے مطابق اس کمیٹی نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت مکمل کرلی ہے جن میں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ جناب حفیظ الرحمان بھی شامل ہیں۔دلچسپ اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ی لیڈر شپ کو جان بوجھ کر مشاورتی عمل سے دور رکھاگیا ہے ۔اس حکمت عملی نے کنٹرول لائن کے دونوں جانب سخت ردعمل جنم دیا۔اور تواور پاکستان نوازحلقوں میں بھی سخت اضطراب پیداہوااور انہوں نے حکومت پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو جموں وکشمیر سے علیحدہ نہ کرے۔آزادکشمیر اسمبلی میں سینئر سیاستدان چودھری لطیف اکبر کی پیش کردہ قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیاگیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے بغیر تمام حقوق دیئے جائیں۔
حکومت کی ناتدبیری کی بدولت پہلی بار کنٹرول لائن کے دونوں اطراف میں آباد کشمیریوں کی تنقید کا رخ اسلام آباد کی موڑدیاگیاہے۔اگرچہ حکومت پاکستان اصولی طور پر ان علاقوں کو متنازع ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تصور کرتی آئی ہے لیکن انہیں آزادکشمیر کا حصہ قرارنہیں دیتی اور نہ ہی اس کا آزادکشمیر سے کسی بھی قسم کا سرکاری تعلق قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔ اسٹریٹیجک اہمیت اور محل وقوع کی بدولت اس خطے کی اہمیت میں کوئی کلام نہیں۔1300کلومیٹر طویل شاہراہ ریشم چین اور وسطی ایشیا ئی ممالک کے ساتھ پاکستان کے رابطے کا یہ واحد ذریعہ ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک نئی بحث نے سرا ٹھایا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنادیا جائے تاکہ چین بلاخوف وخطر اس خطے میں انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کرسکے۔یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ اس فیصلے سے مسئلہ کشمیر کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے قانونی راستہ تلاش کیاجائے۔قانون دان اور سفارت کاروں نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ 1963ء کے پاک چین سرحدی معاہدے کی طرز پردستور میں ترمیم کرکے لکھ دے کہ جب بھی جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا تو گلگت بلتستا ن کے عوام اپنے مستقل کا ازسرنو تعین کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔
گلگت بلتستان کے عوام چاہتے ہیں کہ جلد ازجلد ان کے مستقبل کا تعین کیا جائے ۔لگ بھگ گزشتہ سات دہائیوں تک آزادکشمیر اور جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ ان کا کوئی براہ راست رابطہ نہیں رہا۔وہ شاہراہ قراقرم کے ذریعے پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا اور پنجاب سے نہ صرف مربوط ہیں بلکہ ان کے تمام سیاسی،سماجی اور معاشی رشتے پاکستانیوں سے استوار ہوچکے ہیں۔تقریباً پچاس ہزار سے زائد پختون اور پنجابی ان علاقوں میں جاکر آباد بھی ہوچکے ہیں جو زیادہ تر کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی لگ بھگ تمام بڑی سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کی پارلیمنٹ ، سینیٹ اور دیگر پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی دی جائے۔ان کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی اور دیگر اداروں میں نمائندگی ملنے سے ان کا احساس محرومی ختم ہوجائے گا اور وہ نوکرشاہی کی گرفت سے بھی آزادہوجائیں گے۔
گزشتہ چھ عشروں میں پاکستانی حکام نے شعوری طور پر کوشش کی کہ ان علاقوں کا آزادجموں وکشمیر سے کوئی تعلق قائم نہ ہوسکے۔ آزادکشمیر کی لیڈر شپ نے جب بھی ا ن علاقوں کے شہریوں کے ساتھ تعلقات کار استوار کرنے کی کوشش کی انہیں حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔بتدریج دونوں خطوں میں ذہنی اور سیاسی تفاوت گہراہوتاگیا۔گلگت بلتستان میں عمومی طور پرکشمیریوں بالخصوص آزادکشمیر کی لیڈرشپ کے بارے میں سخت بیزاری بلکہ کسی حد تک نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔عام شہریوں ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کا بھی خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے انہیں سیاسی اورآئینی حقوق سے محروم رکھاگیا اور وہ پسماندہ رہ گئے ۔وہ آزادکشمیر اور بھارت کے زیرانتظام جموں وکشمیر کی حکومتوں کو زیادہ بااختیار اور نمائندہ تصور کرتے ہیں۔حالانکہ انہیں حقوق کشمیر یوں نے نہیں بلکہ اسلام آباد کو دینے تھے لیکن بدقسمتی سے ان کی توپوں کا رخ اسلام آباد کے بجائے مظفرآباد کی جانب موڑ دیاگیا۔اس طرح گلگت اور مظفرآباد میں ناقابل عبور خلیج پیدا کردی گئی۔
آزادکشمیر کی سیاسی لیڈرشپ اور رائے عامہ میں یہ اتفاق رائے پایاجاتاہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے۔اپریل1949ء میں حکومت پاکستان اور آزادکشمیر کے مابین ہونے والا معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کا انتظام سنبھالا تھاـ‘جو کہ ایک عبوری معاہدہ تھا ۔آزادکشمیر کے صدر ،وزیراعظم اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ہی نہیں بلکہ اب مقبوضہ جموں وکشمیر کے راہنما بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت کررہے ہیں۔ اب آزادکشمیر اسمبلی بھی ایک قرارداد کے ذریعے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی مخالفت کرچکی ہے۔
ایسے امکانات پیدا ہوچکے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایاگیا تو اس کا سخت ردعمل آزادکشمیر ہی نہیں بلکہ سری نگر او ربیرون ملک آباد کشمیریوں میں بھی متوقع ہے جو ریاست جموں وکشمیر کی تقسیم کے کٹر خلاف ہیں۔علاوہ ازیں کشمیری رائے عامہ بہت بیدار اور متحرک ہوچکی ہے۔خاص کر قوم پرست حلقے گلگت بلتستان کے موجودہ اسٹیٹس میں تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے۔کشمیری رائے عامہ کے متوقع اور سخت ردعمل کاحکومت پاکستان کے ایک حصے کو احساس ہے۔ اسی لیے وہ محتاط ہیں۔دوسری جانب انہیں معلوم ہے کہ اگر گلگت بلتستان کے اسٹیٹس کو تبدیل کیاگیا تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی اخلاقی پوزیشن بُری طرح متاثر ہوگی۔کشمیری رائے عامہ اس کے خلاف ہوجائے گی۔گلگت بلتستان کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرتے کرتے وہ کشمیریوں کی حمایت کھوسکتاہے۔
پاکستان کی حکومت ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان نہیں۔اسے یہ بھی احساس ہے کہ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری عالمی سطح پر اس کے مقدمے کو اس فیصلے کے بعدآسانی کے ساتھ پچھاڑ لے گی اور اس کے پاس بھارتی اعتراضات کا کوئی جواب نہ ہوگا۔
بدقسمتی سے کشمیراور گلگت بلتستان کے عوام کے مابین زبردست خلیج پیداہوچکی ہے۔حکومت پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ دونوں خطوں کی لیڈرشپ کے ساتھ خفیہ یا اعلانیہ مشاورت کرتی اور کوئی درمیانی راستہ نکالتی لیکن انہوں نے کشمیریوں کی ناک رگڑانے کی کوشش کی جس کا سخت ردعمل سامنے آیا۔اتفاق سے آزادکشمیر میں عام انتخابات چند ماہ بعد متوقع ہیں لہٰذا پیپلزپارٹی کو موقع مل گیا کہ نون لیگ کو کشمیر یوں اور جموں وکشمیر کی وحدت کا دشمن بناکر عوام کے سامنے پیش کرے تاکہ انتخابات میں اس کی پوزیشن بہتر ہوسکے۔پی پی پی نے نون لیگ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی پوزیشن کافی بہتر کرلی ہے۔
جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے اس کے تناظر میں قوی امکان ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے بجائے اسے آزادکشمیر کے طرز پر مزید بااختیار بنایا جائے گاتاکہ گلگت بلتستان کے عوام کے مطالبات بھی پورے ہوسکیں اور مسئلہ کشمیر کو بھی کوئی گزندنہ پہنچے اور کشمیری رائے عامہ کے جذبات کو بھی ٹھیس نہ پہنچے۔
خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5.3ریکارڈ کی گئی،جس کے باعث شہری خوف میں مبتلا ہو گئے۔ خیبرپختونخوا کے علاقے پشاور، سوات، نوشہرہ، شبقدر، مہمند، صوابی، مردان، باجوڑ، بونیر، شانگلہ، لوئردیر سمی...