... loading ...
ہندوستان کے نریندر داموداس مودی وہاں کے پندرھویں وزیر اعظم ہیں ۔موصوف کا تعلق گجرات کے گھانچی تیلی گھرانے سے ہے۔یہ سماجی اونچ نیچ کی پادان (سیڑھی) پر ذرا کم حیثیت کی گوت (ذات ) ہے ۔حضرت جی نے کم عمری میں ہی تین فیصلے کرلیے اوردو اہم سبق بھی سیکھ لیے۔یہ ان کی طبعیت میں استقامت ، یکسوئی اور خود اعتمادی کی علامات ہیں ۔انگریزی میں رجحانات کے اس غلبے کو single mindedness کہتے ہیں۔ وہ جو ان سے معاملات دل و دنیا رکھتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ ان کی طبعیت کی اس کیمسٹری کو ہمہ وقت پیش نظر رکھیں۔
مودی جی کا پہلا فیصلہ والد صاحب کے چائے کے اسٹال پر جو شمالی گجرات کے قدیم شہر واڈ نگر کے ریلوے اسٹیشن میں مدد کرنے کا تھا۔ دوسرا فیصلہ یعنی اپنی یشودھا بین سے بچپن کی شادی کا تھا، اس پر انہیں اعتراض تھا مگر والدہ محترمہ کی ضد پر محمد علی جناح کی ایمی بائی سے شادی کی طرح بادل ناخواستہ مان گئے۔ دونوں گجراتیوں کے اس بندھن میں ایک مماثلت اور بھی ہے ۔ جناح صاحب تو شادی کے بعد لندن اعلیٰ تعلیم کے لیے سدھار گئے مگر مودی جی بھارت کے طول و عرض میں پھیلے مندر ،پاٹھ شالوں اور آشرموں کی یاترا میں دھرم اور راج نیتی (مذہب اور سیاست ) کو سمجھنے کے لیے دوار ،دوار (در در )بھٹکے ۔تیسرا فیصلہ بی جے پی کے عسکری ونگ آر ۔ایس ۔ایس سے وابستگی کا تھا۔
اپنے سیاسی کیرئیرکی ابتدا میں ہی مودی جی نے دو اہم سبق یہ سیکھ لیے کہ ہندوستان جیسے ملک میں مذہب ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور سیاست میں اس کی اہمیت ہمیشہ ہی رہے گی۔ ان کی عقابی نگاہ کوکانگریس کے سیکولر چولے میں برہمن ورچا ( برہمن راج )کے شریر کی آکرتی (جسم کے خط و خال) بہت کھل کر دکھائی دیتے تھے۔وہ لاطینی امریکا ، فلپائن میں کیتھولک چرچ اور پوپ کی مداخلت اور آئرلینڈ میں چرچ کے جھگڑوں کا احوال ان ہیرے جواہرات اور وکلاء صاحبان سے سنتے تھے جو گجراتی تھے اور دنیا بھر میں گھومتے پھرتے تھے۔ افغانستان میں سویت یونین کی بربادی کا سبب یہی دین اور جہاد بنا تھا۔ گجرات کے وزیر اعلی سے بھارت کے وزیر اعظم بننے تک کا سفر طے کرتے کرتے یہ بھی جان چکے تھے کہ مذہب ،قتل و غارت گری اور سرمایہ کاری ایک ہی طاقت ور ساس کی چالباز بہویں ہیں جو مشترکہ خاندان میں ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے بھی ساتھ ساتھ رہتی ہیں ۔
دوسرا سبق یہ تھا کہ سیاست ،میں دھن کی یعنی مال کی بہت ضرورت ہے، اب مال کا مسئلہ یہ ہے کہ دولت کماؤ تو نام نہیں کماسکتے اور نام چاہیے تو مال سے دور رہنا ہوگا۔مودی جی کو آپ کچھ بھی کہہ لیں ان پر ذاتی بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں۔ یہ دوسرا سبق انہیں اس نہج پر لے گیا ہے کہ ان کے حوالے سے ہندوستان میں سرمایہ دوستاں برائے سیاست اور سیاست برائے اضافہء سرمایہ دوستاں کا چھو منتر بن چکا ہے ۔ جسے انگریزی میں جوعربی کی طرح اختصار کی زبان ہے، Crony Capitalism کہتے ہیں۔
اپنی گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ان پر یہ الزام بھی لگتا رہا کہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کا حوصلہ انہیں دراصل 1984 ء میں دہلی میں سکھوں کے قتل عام سے ملا۔ کانگریس نے نفرت کی یہ آگ سلگا کر ہی اقتدار پر بھی قبضہ کیا تھااور اس کے بڑے لیڈروں کی کوئی پکڑ بھی نہیں ہوئی۔ جو اب دہی کے کمزور عمل سے وہ گھر کے شیر بن گئے، مسلمان گجرات میں صدیوں سے ایسی زمین پر قابض تھے جو رفتہ رفتہ کراچی میں لیاری کی زمین کی طرح پورٹ سے قربت کی بنیاد پر قیمتی ہوچلی تھی(اب آپ کو پانچ سو ایکڑ اور چار تھانوں کی زمین لیاری کے پیچھے فسادات کی ایک بڑی وجہ سمجھ میں آگئی ہوگی۔) اسے خالی کراکے اپنے من بھاؤنے کاروباری گھرانوں میں بانٹنا تھا ۔مودی پر لگنے والے الزامات میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے امبانی ،آڈانی، ٹاٹا جیسے کاروباری افراد کو سرکاری قرضے، سرکاری زمین اور سرکاری بجلی اور گیس بے حد کم قیمت پر دی۔
جب مغربی بنگال نے ٹاٹا کمپنی کو اس کی چھوٹی کار نانو (گجراتی اور انگریزی زبان میں چھوٹی چیز کو نانو کہتے ہیں ) کا کارخانہ لگانے سے روکا تو مودی جی نے صرف جگہ جگہ ویلکم ٹو گجرات کے بینر لگادئے ۔رتن جی کا خود سواگت کیا اور نہ صرف ٹاٹا کمپنی کو سند گجرات میں کارخانہ لگانے کی اجازت دی بلکہ پلانٹ کی منتقلی کے لیے 456 کروڑ روپے بے حد سستا سرکاری قرضہ بھی دیا۔
مودی جی کو جب وزیر اعظم کے راج سنگھاسن پر بٹھانے کا وقت آیا توگجرات آڈانی ، امبانی ، ،عزیز پریم جی ، برلا، ٹاٹا نے ان کی مہم پر دل کھول کر سرمایہ لگایا ۔ان کے مخالف اور ان کی اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں میں بی جی پی کے سندھی شرنارتھی (مہاجر) ایل کے ایڈوانی اور راجھستان سے وشونت سنہا کو (جو اس عہدے کی خواہش دل میں لئے بیٹھے تھے )وہ سرمایہ دارانہ پشت پناہی نہ مل پائی جو جمہوریت کا حسن بن چلی ہے ۔ گوتم آڈانی جی کاذاتی ہوائی جہاز تین ماہ تک اس الیکشن مہم میں مودی کو لے کر ہندوستان کے طول و عرض میں پھرتا رہا ۔یوں عمر عزیز کے آخر حصے میں بی جے پی کے یہ دونوں گرگ باراں دیدہ سیاست کی اجڑی بیوہ بن کر ایوان کی پچھلی بینچو ں پر بیٹھ گئے۔
مودی جی اپنے گجراتی دوستوں کو جہاں بے حد نوازتے ہیں وہیں ہریانہ کے ساجن جندل کو بھی وہ دل سے لگائے رکھتے ہیں ان کی کوششوں سے ہی مودی جی لاہور تشریف لائے۔ اگر برکھا دت کی بات کو سچا مان لیں تو نومبر سن 2014 ء میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات ساجن جی کی کٹھمنڈو ہوٹل کے کمرے میں ہی ہوئی تھی،دونوں نے تب بھی ایک دوسرے کو ساجن ساجن کہہ کر گلے لگایا تھا۔
دھن کی دھنو جمہوریت کے متوالے یہ بات خوب جانتے ہیں کہ الیکشن اور سیاست غریبوں کا کھیل نہیں ۔پاکستان میں تو نظریاتی سیاست مودودی اور بھٹو کے ساتھ ہی داخلِ گور ہوگئی ہے ۔ بھارت میں پرائمری اسکول کی ایک استانی مایا دیوی جو دلّت قوم سے تعلق رکھتی ہے اور اداکارہ جے للیتاجو بالترتیب یوپی اور تامل ناڈو کی چیف منسٹر رہی ہیں اور لالو پرشاد یادو جو بہار کے چیف منسٹر رہے ،وہ براہ راست میگا کرپشن کے الزامات میں ملوث رہے ۔اس لیے کہ چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیوں کے یہ سربراہان سیاست میں سرمائے کے زورپر تادیر میدان میں رہنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ کو جو خواب تعبیر کے لیے سنایا گیا ،اس میں سات ایسے برس بھی ہوں گے جب غلہ نہیں ہوگا اور پس ماندہ ذخیرے کو ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ اسی لیے امریکا کی بلا کی حسین اداکارہ ایوا گارڈنر نے اپنے سوانح نگار سے اس کی زندگی پر کتاب مکمل کرنے پر عجلت کے حوالے سے یہ جملہ کہا تھا:ـ
’’And let’s make it a fast one, because pretty damn soon there’s gonna be no corn in Egypt, baby‘‘
’’جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے میں ہی مصر میں غلہ غائب ہوجائے۔‘‘
خط تقسیم کے اس طرف والے جنتا کے نیتاؤں نے پاکستانی سیاست کے غریبانِ چمن کے لیے یہ سبق پیچھے چھوڑا ہے کہ سکھ مسلمانوں کی سینکڑوں کی تعداد میں قتل و غارت گری ہو یا اربوں روپے کا کرپشن ،دونوں ممالک کا عدالتی اور انتظامی نظام احتساب اور جواب دہی کے حوالے سے اس قدر ماٹھے اور بے حوصلہ ہیں کہ چاہے وہ راجیوگاندھی، جنرل ضیاء ہو کہ پرویز مشرف ،من موہن سنگھ ہو کہ مودی اور اس پائے کے سبھی سیاست دان ،مفاہمت کے نام پر اپنے ہم پیشہ افراد کو کبھی سزاوار نہیں ٹہرائیں گے۔ رہ گئے ،خون خاک نشیناں اور قوم کی دولت تو اس کے بہانے اور لوٹنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔باز پرس چھوٹے جرائم کی ہوتی ہے۔
امریکا میں تو سرمائے اور جمہوریت کے اس گٹھ جوڑ کو Incestuous Relationship یعنی سیاست اور کارپوریشن جیسی محرم اکائی کا جنسی تعلق سمجھا جانے لگا ۔وہاں یہ حقیقت بھی بہت کھل کر بیان ہوتی ہے کہ کارپوریشن کے بڑے جب ان کے در پر دستک دیتے ہیں تو ڈیموکریٹ اور ری پبلکن پارٹی دونوں کے بڑے لیڈران میں صرف اُن کے سرمایہ کاروں کے قدموں میں گرنے کی رفتار کا فرق ہے۔
اس بھیانک بگاڑ میں ان کی سب سے بڑی سہولت کار وہاں کی سپریم کورٹ بنی ہے جس نے سن 2010 میں ریاست بمقابلہ فیڈرل الیکشن کمیشن میں کارپوریشنوں کو اپنے پسندیدہ امیدوار کی مالی اعانت پر عائد پابندی ہٹالی۔یوں بھی مشرق وسطی سے لے کر دنیا بھر میں جنگوں کے پس پشت امریکاکی وہ مذہبی اشرافیہ ہے جو ان کے خفیہ کلبوں اسکل اینڈ بونز اور بوہیمین گرو کی ممبر ہے اور جارج شلٹز سے بش تک بڑے بڑے کاروباری اداروں میں براہ راست پارٹنر بھی رہے ہیں۔آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ نوگیارہ کے سانحے کے وقت اسامہ بن لادن کے بڑے بھائی اور بن محفوظ گروپ کے خالد بڑے بش جو سی آئی اے کے چیف اور صدر بھی تھے جائے حادثہ سے چند گلیاں پرے وارلڈوف آسٹریا ہوٹل میں اطمینان سے ناشتہ کی میز پر ساتھ بیٹھے تھے۔
سن 1973ء سے امریکامیں ایک ایسی انجمن بن چکی ہے جس میں ریاست کے قانون ساز وں اور کاروبار کے حیلہ سازوں کا بہت بڑا گٹھ جوڑ ہے، اس کا نام( American Legislative Exchange Council ALEC). ہے اس کے ممبران کے نام خفیہ رہتے ہیں اور اس کے ممبرز میں صرف حالیہ اور سابقہ قانون سازوں کی تعداد دو ہزار ہے۔اس کے علاوہ ہر بڑی امریکی کمپنی کے نمائندے بھی اس کے ممبر ہیں اور یہ سب مل کر پالیسیاں اور ماڈل قوانین بناتے ہیں۔اس کا شدید جھکاؤ قدامت پسندی مذہب پرستی کی جانب ہے۔ اسے اب آپ امریکا کا نیا Establishment سمجھیں۔پہلے اس گھمن پھیری میں امریکی یونی ورسٹییوں کے بڑے بھی شامل ہوتے تھے مگر اب وہ آؤٹ ہوچکے ہیں۔ اس لیے کہ جامعات کو اپنے وجود کی خاطر فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا انہیں اب فیصلہ سازی سے پرے کرکے عملیات کے دوسرے درجے پر ڈال دیا گیا ہے۔سو اب وہاں بقول فرازؔ ع
پاکستانی Establishment اس حوالے سے 9 ویں مارچ 2007ء سے افتخار چوہدری کی برطرفی کے بعد سے کچھ دوڑی دوڑی اور بھاگی بھاگی سی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ساجھے دارایک اہم ترین اور نسبتاً طاقت ور اکائی اب تک اس حقیقت سے بھی کم آگاہ دکھائی دیتی ہے کہ سیاست کار کے پاس دھن ہے اور یہ دھن ، یہ سرمایہ کار اب میڈیا کنٹرول کررہا ہے اور میڈیا کا دباؤ ہر شام ایک تحریر اسکوائر سجا دیتا ہے۔ چمت کار اور فریب کے اس سونامی کو اس کا اپنا ایک باوردی درست ادارہ نہیں سنبھال سکتا۔ عدلیہ بھی اس کی نہ ہم سفر رہی ہے نہ ہی ہم نوا ۔ کڑے احتساب اور مالیاتی دہشت گردی کے حوالے سے دھوپ چھاؤں کے اس منظر میں جدائی نہیں ایک مربوط اور برق رفتار پالیسی اور اس پر عمل درآمد ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ساکنان اسٹیبلشمنٹ نے تازہ ہوا کی چاہ میں اتنے در بنادیے ہیں کہ دیوار نہیں سنبھل پارہی۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...