... loading ...
سیموئل جانسن نے 7؍ اپریل 1775ء کی ایک شام کو وہ فقرہ کہا تھا جسے دنیا کی قومی ریاستوں کی کشاکشِ تاریخ میں ایک دوام ملنا تھا کہ
“Patriotism is the last refuge of a scoundrel.”
( حُب الوطنی ایک بدمعاش کی آخری جائے پناہ ہے۔)
تاریخ میں واضح نہیں کہ انگریز ادیب سیموئل جانسن نے جب یہ الفاظ کہے تو اُن کے ذہن میں کیا پس منظر تھا ۔ مگر ہمارے سامنے تو اب تلخ حقائق کی ایک دنیا آباد ہے اور شاعر کی یہ بغاوت بھی کہ
وقت آگیا کہ سب سے حساس سوال کا اب سامنا کیا جائے۔ ہم نے وطن سے محبت کو کسی ارزل سطح پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ الامان والحفیظ! بنگلہ دیش سے افغانستان تک اور کشمیر سے کراچی تک ایک ہی تو ماجرا ہے۔ ہمارا اپنے شہریوں کے ساتھ کیا سلوک رہا ہے اور ہما را اب بھی اُن سے مطالبہ کیا ہے؟ کسی نے جاکر شاہ زیب خانزادہ کی زبان نہیں روکی، وہ کیا بکواس کررہا تھا؟ متحدہ جہاد کونسل کا وجود پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے بار بار اسی نوع کی بات دہرائی ۔اچھا کب کھلا تجھ پر یہ رازاقتدار سے پہلے کے بعد ۔۔۔۔؟ الطاف حسن ندوی کشمیری نے اس حوالے سے کتاب چہرہ(فیس بک) پرکشمیر کے حریت پسند رہنما سید صلاح الدین سے ایک بالکل سادہ اور سامنے کا سوال کیاہے کہ
’’آپ نے یقینی طور پر جیو ٹی وی پر رات کو نشر ہونے والے پروگرام’’ آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ دیکھاہو گا،
جس میں پٹھان کوٹ حملے پر گفتگو کے دوران میں یہ بات بار بار دہرائی گئی کہ متحدہ جہاد کونسل کا وجود پاکستان کے
لئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔اس کے برعکس آپ نے پچیس برس کی جدوجہد میں ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ کشمیری
مجاہدین پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 11؍ستمبر کے بعد جب طالبان اورالقائدہ کا بے رحمی کے ساتھ قتل عام شروع
ہوا تھا، توہم نے پورے پانچ برس تک مسلسل اپنے مضامین میں یہ لکھا کہ کشمیری پاکستان کے لئے کوئی خاص مہمان
نہیں ہیں۔ بلکہ جب تک ان کی ضرورت رہے گی بس تب ۔۔۔۔۔اب شاید ہمارے لئے بھی سوچنے کا موقع ہے کہ
اگر کہیں سب سے پہلے پاکستان ہے تو ہمارے لئے بھی سب سے پہلے کشمیر!!!
کتاب چہرہ پرا س تحریر کے ٹنگتے ہی اس پر تبصروں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ جس میں زیادہ تر لوگ یہ باور کرتے ہیں کہ پاکستان بنگلہ دیش اورافغانستان کے بعد اب کشمیر پر بھی دورخے پن سے دوچار ہونے جارہا ہے۔ اور اچھے طالبان اور بُرے طالبان کی طرح کشمیر میں بھی اچھے اور بُرے کشمیری کی بدبودار تقسیم سے دوچار ہونے والا ہے۔ عملاً اس کا بدترین مظاہرہ حریت کانفرنس کے اندر ایک متوازی درجہ بندی کی شکل میں پہلے بھی کیا جاچکا ہے۔ جنرل (ر) امجد شعیب نے اسی ذہنیت کے عملی مظاہرے کے بعد یہ کہا کہ ’’کشمیری حریت پسندوں میں اب بھارتی ایجنٹ داخل ہو چکے ہیں۔‘‘ آخر اس سے مراد کیا ہے؟ کشمیری جب تک پاکستانی اداروں اور کسبی کی حیا رکھنے والے سیاست دانوں کی مرضی سے چلتے ہوں تو وہ بھارتی ایجنٹ نہیں ہوں گے مگر جُوں ہی وہ اپنی تحریک کے بارے میں اپنے ہی نقطۂ نظر سے حرکت میں آئیں گے تو اُن کی قربانیوں کو ایک طرف رکھ کر اُنہیں بھارت سے کسی تال میل کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ یہ بیان دراصل کوئی سوچا سمجھا نہیں بلکہ ہماری قومی عادت کے باعث خود بخود ایک بیانیہ بن جاتا ہے۔ کشمیریوں نے ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کا خون دیا ہے۔ یہاں آٹھ ہزار عورتوں کی آبروریزی ہوئی ہیں۔ دس ہزار افراداب بھی لاپتہ ہیں۔ بھارتی فوجوں کی گولہ باری اور مختلف آپریشنز سے کشمیر کی ایک لاکھ عمارتیں زمیں بوس ہوئی ہیں۔ تو کیا یہ شاہ زیب خانزادہ اور خواجہ آصف طے کریں گے، کہ کشمیری کیسے حرکت میں آئیں؟کیا وہ اپنی جنگِ حریت لڑنے کے لئے نظام الاوقات کا تعین دوکوڑی کی اوقات نہ رکھنے والے اینکرز اور سیاست دانوں سے کرائیں گے؟
الطاف حسن کشمیری کا یہ طرزِ فکر ہمارے طرِ ز عمل کی پیداوار ہے۔ جس میں افراد کے قومی مفاد کے لئے بہیمانہ استعمال کے بعد اُنہیں ریاست پر بوجھ سمجھ کر جب چاہا اُتار پھینکا گیا۔ انسان کوئی مشین نہیں ہوتے جنہیں جب چاہا بٹن دبا کر چالو کر دیا جائے اور جب ضرورت نہ ہو تو بٹن دبا کر بند کردیا جائے۔ انسانی قافلے جب کسی نظریئے ،کسی مقصد یا کسی بھی ہدف کے لئے حرکت میں آتے ہیں تو وہ اُس نظریئے ، مقصد اور ہدف کے لئے ایک بیانیہ، ایک نفسیات اور ایک نوع کی اپنی حرکیات کا دائرہ بنا لیتے ہیں۔ اِسی پر اُن کی حیات انحصار کرتی ہے۔ وہ اس دائرے میں زندگی اور موت کو گلے لگاتے ہیں۔ اسی مدار میں اُن کا ایثار ، اُن کی زورآوری، اُن کی برداشت ،اُن کی فیصلہ سازی ، اُن کی رعایت اور اُن کی سخت کوشی کی عکس وبرعکس جبلتیں حرکت کرتی ہیں۔ اُنہیں استعمال کرنے والے اپنے اہداف سے الگ بھی ہو جائیں تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ اپنے اہداف بدل دیں۔ وہ پھر بغاوت کرتے ہیں۔کشمیر کے باب میں اب ہماری قومی نفسیات آخری درجے کی بہیمت اور خود غرضی کا مظاہرہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ مگر کیا یہی ہمارا قومی رویہ نہیں ہے؟
بنگلہ دیش میں پاک فوج کا ساتھ دینے والوں پر جو کچھ بیت رہی ہے ، اُس نے پاکستان کے اندر کوئی حرکت پیدا نہیں کی۔وہاں ایک کے بعد ایک رہنما کو سولی پر چڑھایا جارہا ہے ،بنگلہ دیش کو یہ ہمت اس لئے ہو سکی ہے کہ اُسے اس دیدہ دلیری پر کسی بھی تحّدی کا سامنا نہیں ۔ چنانچہ وہ اس گنجائش کا پورا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اس پر پاکستان نے او آئی سی ، اقوام عالم اور خطے میں کیا سفارتی حکمت عملی اب تک اختیار کی ہے؟کچھ نہیں تو پاکستان بنگلہ دیش سے اپنے ہر قسم کے سفارتی تعلقات توڑنے کا تو اعلان کر ہی سکتا تھا۔ یہ بات بھی کتاب چہرہ(فیس بک) پہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ’’مطیع الرحمان نظامی کے خلاف 665صفحات کی عدالتی رپورٹ میں 435مرتبہ پاکستان کا لفظ استعمال ہو اہے، کیا یہ پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے؟‘‘افغانستان کے اندر اب عام لوگوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا ہے۔ اس کاپیغام نہایت خطرناک ہے۔ پاکستان ایک ناقابل اعتبار ملک کے طور پر اپنے ہر تعلقدار کے سامنے اُبھر رہا ہے۔یہ بات صرف بیرون ملک پاکستان کے تعلقداروں تک محدود نہیں۔ خود ملک کے اندر بھی بہت تیزی سے یہی رائے جنم لے رہی ہے۔ اس پر رائے اگلی تحریر کیلئے اُٹھارکھتے ہیں۔یہاں تو بس ایک نکتہ بیان کرنا ہے کہ پنجاب کے ایک دانشور نے کہا تھا کہ جب حقانی گروپ کوبھی پاکستان تنہا چھوڑ دے گا تو پھر یہ رائے بنائی جاسکے گی کہ ہم ناقابل ِ اعتبار لوگ ہیں۔ اب یہ بات اس سے بھی کہیں آگے بڑھتی جارہی ہے بنگلہ دیش کی بات تو چھوڑئیے اس کائنات کا کوئی خد اہے تو وہ اس کا ہم سے حساب بھی لے ہی لے گا،مگر اب کشمیری بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اُن کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جا رہا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا حب الوطنی کے کاروبار میں پاکستان خسارے میں رہا؟سیموئل جانسن کو خود کلامی کے انداز میں بڑبڑا لیجئے!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...