... loading ...
سازشی نظریات، جنہیں انگریزی میں Conspiracy theories کہتے ہیں، کا نام سنتے ہی ذہن میں یہی آتا ہے کہ یہ کوئی بے وقوفانہ سی بات ہوگی، جو ایک حقیقت کو جھٹلانے کے لیے استعمال کی گئی ہوگی۔ یعنی ان نظریات کا حقیقت سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ واقعی چند ایسے “سازشی نظریات” وجود رکھتے ہیں، جن کا ابتدا میں تو بہت مذاق اڑایا گیا، لیکن بعد میں یہ حقیقت ثابت ہوئے۔
امریکی محکمہ صحت نے 1932ء میں ٹسکیجی انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے سیاہ فام مردوں میں آتشک کے مرض کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا، اس امید کے ساتھ کے ان کا علاج شروع کیا جائے گا۔ تحقیق میں 600 سیاہ فام باشندوں کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے 399 میں یہ مرض پایا گیا اور 201 اس سے محفوظ تھے۔ گو کہ ان افراد پر ظاہر یہ کیا گیا کہ انہیں علاج فراہم کیا جا رہا ہے لیکن درحقیقت انہیں کبھی درست ادویات اور علاج دیا ہی نہیں گیا بلکہ ان پر 40 سال تک مختلف تجربات کیے جاتے رہے۔ حالانکہ اس وقت پنسلین موجود تھی، جو اس مرض میں ترجیحی دوا بھی ہے اور دستیاب بھی تھی، لیکن محققین نے مریضوں کو اندھیرے میں رکھا اور انہیں کبھی یہ دوا نہیں لگائی گئی۔
اس منصوبے کو صرف چھ ماہ جاری رکھنے کا ارادہ تھا، لیکن یہ 40 سال تک چلتا رہا یہاں تک کہ 1972ء میں ذرائع ابلاغ نے حقیقت آشکار کردی۔ نتائج سامنے آنے کے بعد زبردست عوامی ردعمل کی وجہ سے اس پروگرام کو روک دیا گیا اور بعد میں اس تحقیق کو “اخلاقی طور پر غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا گیا۔
100 ملین سے زیادہ امریکی باشندوں کو پولیو کی ایک ایسی ویکسین لگا دی گئی، جو ایسے وائرس سے آلودہ تھی، جو کینسر کا سبب بنتا ہے۔
1954ء سے 1961ء کے دوران امریکا میں جو پولیو ویکسین استعمال کی گئی اس میں ایس وی 40 کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ محققین کا اندازہ ہے کہ اس عرصے میں 98 ملین افراد پر یہ ویکسین استعمال کی جا چکی تھی۔ تحقیقات میں بتایا گیا کہ ویکسین کے خالق یوناس سالک نے اس کی تیاری کے دوران ایسے بندروں کے خلیات استعمال کیے تھے، جن میں ایس وی 40 موجود تھا۔ یوں یہ لاکھوں ویکسینز میں چلی گئی۔ وفاقی حکومت نے اسی سال پولیو ویکسین کو تبدیل کردیا، البتہ کہا جاتا ہے کہ مزید دو سال تک کسی نہ کسی سطح پر یہ آلودہ ویکسین مختلف مقامات پر استعمال ہوتی رہی۔
ایس وی 40 کے بارے میں سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ جانوروں میں کینسر کا سبب بنتا ہے، البتہ انسان میں اس وائرس کی موجودگی اور کینسر کے مرض کے براہ راست کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہوئی ہے۔ البتہ آزاد تحقیق بتاتی ہے کہ ایس وی 40 بچوں اور بالغان میں دماغ اور پھیپھڑوں کی رسولی کا سبب ضرور بنتی ہے۔
خلیج ٹونکن واقعہ امریکا کی ویت نام میں براہ راست مداخلت کا سبب بنا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا تھا۔ امریکی بحری جہاز یو ایس ایس میڈوکس کو 2 اور 4 اگست 1964ء میں خلیج ٹونکن میں شمالی ویت نام کی تین جنگی کشتیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گو کہ اس واقعے میں کسی کی جان نہیں گئی لیکن مبینہ جارحانہ کارروائی کانگریس کو ایک قرارداد منظور کرنے کے لیے کافی تھی جس کے بعد صدر لنڈن جانسن نے جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک پر چڑھائی کا حکم دیا۔
اس واقعے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکا ویت نام جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور ایک نہ ہونے والے واقعے کو جواز بنایا گیا۔ گو کہ ابتدا ہی سے اس واقعے پر شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے تھے لیکن دہائیوں تک مزاحمت کرنے کے بعد بالآخر 2005ء میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آ گئیں جن میں قبول کیا گیا تھا کہ 4 اگست والا واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا تھا۔ امریکا کا دعویٰ رہا ہے کہ شمالی ویت نام کی کشتیوں نے امریکی جہاز پر فائرنگ کی تھی جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
امریکا کے فوجی رہنماؤں نے دہشت گرد حملوں کا ایک ایسا منصوبہ بنایا تھا جس کے بعد الزام کیوبا پر لگایا جا سکے۔ 1962ء میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے “آپریشن نارتھ ووڈز” کی منظوری دی تھی۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس میں کیوبا کے خلاف جنگ کے لیے حمایت اکٹھی کی جانی تھی اور آخر کار کمیونسٹ رہنما فیڈل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا۔
حکومت کی خفیہ دستاویزات، جو اب منظر عام پر آ چکی ہیں، بتاتی ہیں کہ اس منصوبے میں دہشت گردی کے واقعے کے شکار افراد کی آخری رسومات تک شامل تھیں اور یہ سب جعلی ہوتا، یعنی تابوت خالی۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر افواہیں پھیلانا اور خلیج گوانتانامو میں ایک امریکی بحری جہاز کو دھماکے سے اڑا دینا بھی شامل تھا تاکہ الزام کیوبا پر لگایا جا سکے۔
یہ “عظیم” مشورے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے وزیر دفاع رابرٹ میک نمارا کو پیش کیے گئے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ میک کا پہلا ردعمل کیا تھا، لیکن انہوں نے چند دن بعد ان تجاویز کو مسترد کردیا تھا۔
امریکی سی آئی کے سائنٹیفک ریسرچ ڈویژن نے “ایم کے الٹرا” کے نام سے ایک آپریشن کا آغاز کیا، جس میں انسانوں پر تحقیق کی گئی۔ اس میں محققین نے خواب آوری، احساسات سے محرومی، تنہائی، تشدد اور سب سے اہم ایل ایس ڈی نامی منشیات کے شہریوں پر پڑنے والے اثرات پر تجربات کیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کو علم نہیں تھا کہ وہ دراصل تجربے سے گزر رہے ہیں۔
یہ تجربات کرنے کے لیے سی آئی اے نے جیلوں، ہسپتالوں اور دیگر اداروں کا رخ کیا اور انہیں اس بارے میں مکمل طور پر خاموش رہنے کا کہا گیا۔ محکمہ نے ہیروئن کے عادی افراد کو پروگرام میں شمولیت کے لیے ہیروئن فراہم کرنے تک کے لالچ دیے۔
جب تک یہ معاملہ منظر عام پر آیا، تب تک کل 30 جامعات تحقیق کے لیے اس منصوبے میں شامل ہو چکی تھیں۔ ان تجربات کے دوران کم از کم ایک شخص کی جان تو چلی گئی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایل ایس ڈی ہضم کرلی تھی۔
معاملے کی سنگینی کا اندازہ سی آئی اے کو بھی شروع سے تھا یہی وجہ ہے کہ جنوری 1973ء میں اس وقت کے ڈائریکٹر سی آئی اے رچرڈ ہیلمس نے ایم کے الٹرا پروگرام کی تمام دستاویزات تلف کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ جب بعد ازاں کانگریس نے معاملے کی تحقیقات شروع کیں تو کسی کو کچھ “یاد” نہیں تھا، یہاں تک کہ ہیلمس کو بھی۔ بڑی مشکل سے کچھ دستاویزات کو مل گئیں لیکن آج تک اس معاملے کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔
1974ء میں سی آئی اے نے خفیہ طور پر ایک ڈوبی ہوئی سوویت آبدوز کو نکالا، جس میں تین جوہری بیلسٹک میزائل نصب تھے۔ کے 129 نامی یہ آبدوز 8 مارچ 1968ء کو بحر الکاہل میں ڈوب گئی تھی اور اس کو تلاش کرنے کی تمام روسی مہمات ناکام ہوئیں۔ 1974ء میں امریکا نے ایک خفیہ منصوبہ شروع کیا جس کا نام ‘پروجیکٹ ایزوریئن’ رکھا گیا۔ اس کا مقصد اس آبدوز اور اس میں نصب جوہری ہتھیاروں کو نکالنا تھا۔ تین بیلسٹک میزائلوں میں سے ہر ایک میں ایک میگاٹن نیوکلیئر وارہیڈ تھا۔
صدر رچرڈ نکسن نے اس منصوبے کی منظوری دی اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمس نے اس منصوبے کو ایک انتہائی خفیہ فائل کا حصہ بنایا، جس تک صرف حکومت کے مخصوص عہدیداران کی رسائی تھی۔
فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت بالآخر یہ دستاویزات منظر عام پر آئیں اور معلوم ہوا کہ محکمہ اس آبدوز کے چند حصے نکالنے میں کامیاب بھی ہوگیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اہم منصوبے میں شریک بحری جہاز ہیوز گولمار ایکسپلورر کے بارے میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ سمندر میں مینگنیز کی تلاش کر رہا ہے جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ اس معاملے کی مکمل تفصیلات اب بھی منظر عام پر نہیں ہیں اور کافی رازوں پر سے پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے۔
1985ء میں ریگن انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں نے ایران کو اسلحہ فروخت کرنے کی سہولت دی، جس اس وقت پابندی کی زد میں تھا۔ حکومت نے اسلحے کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کو بعد ازاں نکاراگوا کے حکومت مخالف باغیوں کونٹراس کی مدد میں استعمال کیا۔
معاملے کا آغاز اس وقت ہوا جب لبنان میں ایک گروپ نے سات امریکی باشندوں کو یرغمال بنا لیا۔ معاملے پر تفصیلی گفتگو کے بعد، جس میں اسرائیل بھی شامل تھا، امریکا نے یرغمالی آزاد کرانے میں مدد کے بدلے ایران کو اسلحہ فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بیشتر یرغمالی رہا کرلیے گئے، لیکن 1986ء میں ایرانی ذرائع سے یہ خبر سامنے آئی۔ ریگن انتظامیہ نے بار ہا تردید کی اور کانگریس میں ان کے خلاف سماعت بھی ہوئی۔ جس کے بعد حکومتی دستاویزات کو جزوی طور پر کھولا گیا اور کئی دستاویزات کی خفیہ حیثیت ختم کرکے معاملے کی حقیقت جانی گئی۔ صدر ریگن اس کام میں شامل تھے یا نہیں اور انہیں کتنا علم تھا، اس بارے میں ابھی تک وضاحت سے کچھ نہیں کہا جا سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معاملے کی سماعت کے دوران ایران کو اسلحے کی فروخت کو سرے سے کوئی جرم سمجھا ہی نہیں گیا ، بلکہ الزام کونٹراس کی مدد کا لگا۔ سماعت میں انتظامیہ نے چند دستاویزات پیش کرنے سے انکار بھی کیا۔
1990ء میں کویت پر عراق کے حملے کے بعد عراق کو سبق سکھانے اور جنگ کے لیے عوامی رائے کو ہموار کرنے کے لیے ایک ڈرامہ رچایا گیا۔ نیّرہ نامی ایک 15 سالہ کویتی لڑکی نے کانگریس کے روبرو شہادت دی کہ اس نے عراقی فوجیوں کو کویت کے ایک ہسپتال میں بچوں کو انکیوبیٹرز سے نکال کر زمین پر پٹختے دیکھا ہے۔
بعد ازاں تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ سارا منصوبہ پبلک ریلیشنز کے معروف ادارے ہل اینڈ نولٹن نے تیار کیا تھا۔ کویتی انجمن سٹیزن فار اے فری کویت کے کہنے پر اس کی تیاری کی گئی تھی اور نیّرہ دراصل امریکا میں کویتی سفیر کی بیٹی تھیں۔
بہرحال، نیّرہ کا بیان اپنا کام کر چکا تھا، اس نے جس خوبصورتی کے ساتھ اپنے ڈائیلاگ ادا کیے، اس نے سب کے دل پسیج لیے اور عراق پر فوری چڑھائی کردی گئی۔
اس لیے اگر کوئی نائن الیون اور دیگر بڑے واقعات کے بارے میں حکومت کے موقف پر یقین نہیں رکھتا، تو اس کا مذاق مت اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ حقیقت وہی ہو جو آپ کو پسند نہیں آ رہی اور آپ اس پر ‘سازشی نظریہ’ کی پھبتی کس رہے ہیں۔
زبانی جمع خرچ سے مسلمان حکمران اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے ،مسلم ممالک کی فوجیں کس کام کی ہیں اگر وہ جہاد نہیں کرتیں؟ 55 ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟ عالمی عدالت انصاف سمیت تمام ادارے مفلوج و بے بس ہوچکے ہیں۔ شرعاً الاقرب ...
پی ڈی ایم حکومت کررہی ہے اور صدر اپوزیشن میں ہے ، بجائے اس کے وہ صدر کی مانیں معلوم نہیں کس کی مان رہے ہیں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ضروری ہے مسلمان اہل غزہ اور فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر...
پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے جمعرات کو پارلیمنٹ میں 6نہروں کے منصوبے کے خلاف ایک قرارداد کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر احتجاج کیا، ترجمان پی پی دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف قرارداد کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر پیپلزپار...
غیر ملکیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی، فیصلہ کچھ زمینی حقائق پر کرنا پڑا دہشت گردی کے بہت سے واقعات افغان شہریوں سے جڑ رہے ہیں، طلال چودھری وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی، افغا...
ہیوی ٹریفک کے نظام پر آواز اٹھائی توالزام لگا آفاق شہر میں مہاجر اور پختونوں کو لڑوا رہا ہے کراچی میں گزشتہ روز منصوبہ بندی کے تحت واقعات رونما ہوئے ، سربراہ مہاجر قومی موومنٹ مہاجرقومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ آفاق احمد نے شہر کے سنگین مسائل حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہ...
مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پر بھی عاطف خان اور علی امین گنڈا آمنے سامنے آگئے پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی وٹس ایپ گروپ میں ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنماؤں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں جبکہ سیکریٹری اطلاعات پی ٹی آئی نے اس کو پار...
تمام چھوٹے بڑے شہروں میں فلسطین یکجہتی مارچز ،مرکزی مارچ مال روڈ لاہور پر ہو گا ٹرمپ کے غزہ کو خالی کرانے کے ناپاک منصوبے کی مذمت میں گھروں سے نکلیں، بیان امیر جماعت اسلامی کی اپیل پر آج ملک بھر میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے مارچ کا انعقاد کیا جائے گا۔مرکزی مارچ مال روڈ لا...
متعدد نوٹسز کے باوجود وقاص اکرم، حماد اظہر، زلفی بخاری، عون عباس، میاں اسلم، فردوس شمیم، تیمور سلیم، جبران الیاس، خالد خورشید، شہباز گل، اظہر مشوانی اور شامل ، جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے معاملے میں آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں قائم جے آئی...
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی نے چند روز قبل حیدر آباد ، سکھر موٹروے کو ترجیح نہ دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کراچی سکھر موٹروے شروع نہ ہونے تک تمام منصوبے روکنے کا کہا تھا حیدرآباد ، سکھر موٹروے پر وفاق اور سندھ کے درمیان جاری تنازع میںوزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ کو ...
مصنوعی ذہانت کو کسی نئے مقابلے کے میدان میں تبدیل ہونے سے روکا جائے مصنوعی ذہانت کا استعمال نئے اسلحہ جاتی مقابلوں کا آغاز کر سکتا ہے، عاصم افتخار پاکستان نے اقوام متحدہ میں عسکری مصنوعی ذہانت کے خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ عسکری میدان میں آ...
جی ایچ کیو حملہ کیس تفتیشی ٹیم کو مکمل ریکارڈ سمیت اڈیالہ جیل میں پیش ہونے کا حکم سپریم کورٹ کی 4 ماہ کی ڈائریکشن کے مطابق کیس کا فیصلہ ہو گا ،التوا نہیں ملے گا جی ایچ کیو حملہ کیس کی آئندہ سماعت پر بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ ش...
اڈیالہ میں پولیس نے بانی کی بہنوں اور دیگر قائدین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا پی ٹی آئی کے قائدین کو ویرانے میں چھوڑنا انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ اڈیالہ میں پولیس کی جانب سے عمران خان کی بہنوں اور دیگر قائدین کے...