وجود

... loading ...

وجود

جمعرات 24 دسمبر 2015 ﷺ

Masjid-Nabvi

درونِ دل میں ایک گدگداہٹ ہے، ایک مضطرب تمنا بھی!پھر ایک سوال بھی!

اب صدیاں بیتتی ہیں، ستاروں کواپنی گزرگاہ بنا دینے والا ’’انسان‘‘ الم چشیدہ ، ستم رسیدہ اپنی عمرِ رائیگاں کا نوحہ لکھنے لگا ہے!جلووں کی بہتات میں وہ نظروں کی محدودیت کا ماتم کرنے لگاہے۔ اب اُسے سیاہ سفید ایک لگنے لگا ہے۔ اُس کی صبح کھوئی کھوئی ہے ، اُس کی شام انبوہِ آلام ہے۔ ژولیدہ افکار میں پیچیدہ جذبات کی پرپیچ کہانی کا وہ اب انجام دیکھنے لگا ہے۔ وحشت کا راج ، دہشت کا ناچ ،ہرطرف آلام و آفات !کیا حضرت ِ انسان کی نوعِ انسان پر حکمرانی کا یہی انت ،یہی آخر ہے؟رازورموز کے شغل اور حیلہ وتاویل کی لذتوں میں یہ سوال کہیں گم کیوں نہیں ہوتا؟

یوں ہی روزنِ خیال سے ایک تصور جھانکتا ہے!کہیں انسان اپنے انسان ہونے کی وجہ سے ہی تو الم چشیدہ اور ستم رسیدہ نہیں ہوا؟ کیا خالق کون ومکاں نے اسے انسان کی صورت میں تخلیق کیا تھا؟ یا یہ خود انسان کی اپنی دریافت ِ فکرہے کہ وہ انسان کہلائے؟ اس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو خود اپنی خالق ہو۔ سائنس کسی خالق کا علم نہیں مخلوق کا علم ہے۔ یہ علم کائنات کو پیدا نہیں کرتا ، بلکہ ایک پیدا شدہ دنیا کو دریافت کرنے یا اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک غیر حتمی علم کے شید ا اُسے کے غیر حتمی اور قابل تغیر نتائج پر کتنے حتمی انداز سے اِتراتے ہیں۔بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ انسان کیا ہے؟ انسان اپنی اصل میں ایک ہی ہے مگر اس کو سمجھنے کے حوالے سے دورِ جدید کے خدا بیزار مغربی مفکرین نے ایک کامیاب مغالطہ پیدا کردیا ہے، جسے مغربی فلسفے سے لے کر دستوری جمہوریت تک ہر جگہ تسلیم کر ا لیا گیاہے۔ یہ مغالطہ انسان کے ایک آزاد یعنی ’’AUTONOMOUS‘‘انسان کے طور پر اس کی شناخت کے تصور کا ہے۔ ایک آزاد انسان کا مطلب کیا ہوتا ہے؟یہ ایک ایسا تصور ہے جس میں حضرتِ انسان خود کو خدا کے مقام پر خود بخود فائز کرلیتا ہے۔ کیونکہ ایک آزاد انسان دراصل ہر اعتبار سے خو د مختار اور اپنے ہی نفس کا پیروکار ہوتا ہے۔ وہ خود قائم بالذات ہے یعنی’’ اللہ الصمد‘‘ کے بجائے وہ ’’انسان الصمد‘‘ پر یقین رکھتا ہے۔ ایک انسانی معاشرے کی تشکیل میں انسانیت کو قدرِ مشترک قرار دینا مغربی فکر وفلسفے کی سب سے بڑی کاریگری ہے جو اُس نے اس کائنات کی غلط تفہیم کے ساتھ مسلم معاشروں تک پر مسلط کردی ہے۔اسی تصور کی ماتحتی میں انسانی معاشرے کو سیکولر اور خود انسان کو لبرل بنایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت معاشروں کی تشکیل میں انسانی ارادے کو آزادرکھا جاتا ہے اور معاشرے کو اسی آزادی کے شکار انسان کی اعلیٰ ترین قدر یعنی انسانیت کی بنیاد پر تشکیل دیا جاتا ہے۔ یہ دورِ جدید کی مغربی فکر کا سب سے بڑا منتر ہے جس نے انسانوں کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے۔دنیا کے تما م حقوقِ انسانی کے چارٹر ، بنیادی انسانی حقوق کے منثور اور قوانین دراصل مغربی فکروفلسفے کی اسی کجی کے آئینہ دار ہے۔

رسالت اسی الٰہی منصوبے کی شکل ہے جس میں انسان کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ اپنے تصورات کا انسان نہیں اپنے خالق کے ارادے کا عبد ہے، مخلوق ہے، تابع اور پیروکار ہے

مگر اس انسان کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ یہ انسان بطور نوع انسان اپنی تخلیق کا فیصلہ خود نہیں کرتا،وہ اپنی تخلیق کے بعد اپنے وجود میں آنے کا فیصلہ بھی خود نہیں کرسکتا۔ پھروہ اپنے وجود میں آنے کے بعد اپنے مرنے کا فیصلہ بھی خود نہیں کر تا۔ بطور انسان اُس کا وجود اور بعد ازوجود اپنی زندگی اور موت کے بنیادی فیصلوں سے لاچار انسان اپنی آزاد حیثیت ، اپنے قائم بالذات ہونے کا اصرار اور اپنے خودمختار ہونے کا اعلان کیسے کر سکتا ہے؟ وہ ان تمام اعتبارات سے کسی کی بندگی میں ہے۔ اس طرح وہ ہر اعتبار سے مغربی فکر وفلسفے کا انسان نہیں الٰہی منصوبے کا ایک بندہ یعنی عبد ہے۔ انسان اپنے آزاد ہونے کا جھوٹا بھرم پال سکتا ہے مگر ایک عبد اپنے ارادے کی مہیا کی گئی آزادی میں بھی اپنی لاچاری کا اعتراف واعتبار رکھتا ہے۔ عبد کی حیثیت میں انسان کسی بھی منصوبے میں جا کر اپنا اظہار کرے ، وہ مخلوق ہی ہوگا۔ رہنمائی کا محتاج ہوگا، روشنی کا طالب ہوگا، عاجز اور مجبور ہوگا۔ وہ نہ جانتا ہو مگر اس کا خالق جانتا ہے ۔ اسی لئے وہ اُن کے درمیان اپنے منصوبے سے اپنے بندوں کو ہی برگزیدگی دے کر اُنہیں ممتاز حالت میں اُن کے درمیان بھیجتا ہے۔ رسالت اسی الٰہی منصوبے کی شکل ہے جس میں انسان کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ اپنے تصورات کا انسان نہیں اپنے خالق کے ارادے کا عبد ہے، مخلوق ہے، تابع اور پیروکار ہے۔ سائنس انسانوں کاعلم ہے مگر رسالت اللہ کا علم ہے جس کے ذریعے رب دوعالم انسان کے مادی وروحانی وجود میں ایک یکجہتی پیدا کردیتا ہے۔ اُس کے انسانی ارادوں کو عبد کے ضابطہ اخلاق کی تہذیب دیتا ہے۔الہیٰ علم و منصوبے کی آخری کڑی کے طور پر جب بنی نوعِ انسان کو عبدیت کا مفہوم بتانے کے لئے حضرت محمدمصطفیٰﷺ دنیا میں تشریف لائے تو کائنات کے رب نے وضاحت سے فرما دیا کہ

وَمَایَنطِقُ عَنِ الھَوٰی،اِن ھُوَ اِلّاوَحی یُوحٰی

(سورہ النجم ۔۔آیات ۳، ۴)

(اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو صرف وحی ہے جواتاری جاتی ہے۔)

بات کہاں ختم ہوئی ! عالم کے پروردگار نے یہ دوٹوک اعلان بھی کردیا کہ اگر انسان سے عبدیت کے سفر کو طے کرنا چاہتے ہو، نفس کی پیروی کے بجائے ارادہ الہی کی اتباع میں رہنا چاہتے ہوتو پھر

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ

(سورہ الاحزاب ۔۔آیت ۲۱)

(درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔)

رسالت ِ ماب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے’’ انسان ‘‘کو اُس کے ہمہ وقت ’’عبد‘‘ ہونے کا شعور دیا۔انسان ہونے کا مغربی شعور آزادی کے نام پر نفس کی پیروی سکھاتا ہے مگر خاتم النبیﷺ کا اُسوہ حسنہ بیداری کی حالت میں عبد کے تقاضوں میں ضبطِ نفس کی تعلیم کرتا ہے۔ جمہوریت کے فرعونوں ، آمریت کے نمرودوں، حقوقِ انسانی کے تخت پر بیٹھنے والے شدادوں اور انسانیت کی تسبیح پڑھ کر چنگیزیت کی شمشیریں لہرانے والوں کو اُن کے حال پر چھوڑئیے! اُس پیغمبر ﷺ پر درود بھیجئے جس نے ہمیں عبد آشنا بنا کر مفتخر کیا۔ پیغمبر کا اسوہ حسنہ انسان کو خود اپنی خدائی کے زعم ِ باطل سے نکال کر اُسے حقیقی خدا کی بندگی میں دینے کا واحد راستہ ہے۔ عبدیت کا یہی سفر انسان کی ابدیت کا بھی سفر ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر