... loading ...
طاقت کی نفسیات سے امورِ ریاست طے کرنے والے یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ اس کا ہر ردِ عمل ریاست کے خلاف اُبھرتا ہے، حکومت کے خلاف نہیں۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت ملک کے خلاف نفرت میں نہیں ڈھلتی۔ مگر جب ریاست کے محافظ کسی غلطی سے دوچار ہو جائیں تو اس کا سیدھا نتیجہ مملکت کے خلاف جذبات کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ کیونکہ فوج کا پورا بیانیہ حب الوطنی اور ریاست کے محافظین کی واحد طاقت کا ہے۔
ریاست پر اس نوع کا اجارہ خود ریاست کے لئے کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ ملک کے جن حصوں میں بھی ریاست سے بغاوت کی تحریکیں طاقت یاسیاست کی بنیا دپر چل رہی ہیں وہاں اصل جذبات فوج مخالف پیدا کئے جانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سیاسی حکومتوں کو بے اختیار باور کرایا جاتا ہے۔ کیا فوج نے اس باطل تصور کو کبھی بھی اورکسی بھی سطح پر تحلیل کرنے کی کوشش کی؟ سیاست دان یہ باور کرانے میں کیوں کامیاب ہیں کہ اُنہیں حکومت کرنے نہیں دی جاتی؟ کیا وہ مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت نہیں کرتے؟ حیرت ہے کہ سیاست دانوں کو بدعنوانی کرنے کی تو پوری آزادی ہوتی ہے مگر ملک کی تعمیر وترقی میں وہ اپنی لاچاری کی کٹ حجتی کا سہارا لیتے ہیں۔ فوج کسی بھی سطح پر اپنے متعلق منفی خیالات کی اصل وجوہات پر غور نہیں کر پاتی اور ’’شکریہ راحیل شریف ‘‘جیسی مہمات کو ہی کامیاب سمجھ لیتی ہے۔ ٹیلی ویژن کے چند اینکرز ، اخبارات کے چند کالم نگار اور کچھ رپورٹرز کے ذریعے مملکت کی فضا کو اپنے حق میں ہموار نہیں کیا جاسکتا ۔ ریٹائرڈ فوجی افسران کی تجزیہ کاری اور اخبارات و ٹیلی ویژن کو دباؤ کی حرکیات سے منظم کرنا اس میں ایک اور طرح کا تڑکا لگاتا ہے۔ مگر کیا اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں؟ جب یہ کام مخصوص لوگ ، مسلسل کرنے لگتے ہیں تووہ لوگ ہی نہیں ، یہ موقف بھی بیزاری کا باعث بن جاتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے اس پورے عمل نے تمام نتائج منفی پیدا کئے ہیں جس کا پورا پورا فائدہ سیاست دانوں اور اُن کے زیر سایہ چلنے والے سوشل میڈیا کے اداروں نے اُٹھایا ہے۔
کراچی میں رینجرزکی مدتِ قیام اور اختیارات میں توسیع کا مسئلہ پوری طرح اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ایک بوجھ بن چکا ہے۔ اُن کے پاس ذہانت سے فیصلے کرنے اورخود کے پاس پہل کاری کا اختیار رکھنے کا موقع اب وفاقی حکومت سے اختیارات ملنے کے باوجود ضائع ہو چکا ہے۔رینجرز کے اختیارات ۶؍ دسمبر کو ختم ہوئے تو ایپکس کمیٹی کا ایک اجلاس ۷؍ دسمبر کو ہوا۔ اُسی روز ڈاکٹر عاصم حسین کی گونگی زبان کو قوت ِ گویائی مل گئی۔ اور وہ عدالت کے روبرو قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ایک فردِ جُرم عائد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تب وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی کسی رعایت کے بغیر دبئی کی اصلی سرکار (زرداری حکومت) کے حکم کے مطابق اپنا پورا مقدمہ کامیابی سے لڑا ۔اور کسی بھی مرحلے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کوئی رعایت نہیں دی۔ عسکری ذہن یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے پروپیگنڈے کی طاقت سے عوام کے ذہنوں میں یہ انڈیل دیا تھا کہ فوجی جمہوری حکومت کے خلاف کارروائی کے لئے خود جمہوری حکومت سے اختیارات مانگ رہے ہیں۔ تب وہ کیسے دیں گے؟ ٹھیک اُسی وقت عسکری ادارے اپنے’’ رٹے باز طوطوں‘‘ کے ذریعے ٹیلی ویژن اور اپنے منشی کالم نگاروں کے ذریعے اخبارات میں یہ سمجھانے میں ناکام رہے کہ امن وامان کے مسئلے کو ادارے ماورائے سیاست دیکھ رہے ہیں،اور سیاسی حکومتیں اِسے سیاست کی ذیل میں رکھ کر جمہوری مقدمے میں اُلجھا رہی ہیں۔ اس دوران میں ایک فوج مخالف پروپیگنڈا محفلوں اور مجلسوں میں چابک دستی کے ساتھ جاری تھا۔ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ۷؍دسمبر کو یہ موقع تھا کہ وہ اعلان کرتے کہ وہ خود کے دامن کوخارزارِ سیاست میں الجھانا نہیں چاہتے۔ اس لئے اس کھیل کی آلودگی میں پڑنے کے بجائے وہ واپس جارہے ہیں۔ اس طرح وہ قیام امن کے مقصد کے ساتھ مخلص نظر آتے۔ اور اُن کے حق میں ایک فطری اور جذباتی ردِ عمل جنم لیتا ۔ جو باقی ملک سے زیادہ خود کراچی میں زیادہ تیز اور موثر ہوتا۔ مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پورے کھیل میں سیاست کے اندر کیسے رگیدے جائیں گے،وہ اس کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ اور اب اُن کے پاس یہ اختیار بھی نہیں رہا۔ کیونکہ وہ اختیارات کی طلب میں خود کو بے چین ظاہر کر چکے ہیں۔رینجرز کے اختیارات کا معاملہ اسی لئے کسی بڑی عوامی پزیرائی سے محروم رہا ۔ اور اس کے حق میں جتنی بھی مہمات کراچی میں اُٹھائی گئیں وہ بے ساختہ نہیں تھیں ، بلکہ کچھ اشاروں کی پیدا کردہ تھیں ۔ یہ عمل کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔ اب اُنہیں اختیارات مل بھی گئے تو اُن کے لئے سب سے بڑا مسئلہ عوام کے اندر اُس چھوی کا ہوگا جس کا اُنہوں نے مقبولیت کے چکر میں پڑ کر بہت زیادہ اب تک خیال رکھا ہے اور جس کا اُنہیں بالکل خیال نہیں کرنا چاہئے۔ وہ یہ کیسے ثابت کریں گے کہ اُنہوں نے سیاسی حکومتوں سے کچھ محدودات کے سمجھوتے کے ساتھ اختیارات نہیں لئے؟
سیاسی حکومتوں نے اُنہیں اس پورے معاملے میں پہلے سے ہی حدود آشنا بنا دیا ہے۔ یاد کیجئے! بلدیاتی انتخابات سے پہلے ملک میں کیا باتیں ہو رہی تھیں ؟ یہ کہا جارہا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد بڑی مچھلیوں کو شکار کیا جائے گا۔ احتساب کا بے رحم عفریت پنجاب میں اپنی چھب دکھلائے گا۔ ایک وفاقی وزیر کے منی لانڈرنگ کے معاملات تفتیش کی چکی میں پیسیں جائیں گے۔ ماڈل ٹاؤں کا سانحہ بھی کرم خوردہ مسلوں کی نذر نہیں ہو گا۔ مگر اب کیا ہے؟ اب یہ پورا عمل صرف کراچی میں رینجرز کے اختیارات کا مقدمہ بن کر رہ گیا ہے۔ کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ اس کا اثر کراچی میں کتنا منفی پڑ رہا ہے اور اِسے کیسے ایک بڑے مقدمے میں تبدیل کیا جارہا ہے؟ ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنی پیشی میں اس کا ذکر کیا ہے مگر کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اس پر غور اگلی تحریر کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔مگر طاقت کی نفسیات سے امورریاست نمٹنانے کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک جائز احتسابی عمل بھی پورے کا پورا آلودہ ہو گیا ہے۔ اوراس کے بدترین نتیجے کے طور پر ظالم ،مظلوم اور لٹیرے ، بے چارے نظر آنے لگے ہیں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...
کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...
بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...