وجود

... loading ...

وجود

الیکشن کے بعد’’ ایکشن‘‘ کا مرحلہ۔۔۔؟

جمعرات 17 دسمبر 2015 الیکشن کے بعد’’ ایکشن‘‘ کا مرحلہ۔۔۔؟

election 122

پاکستان میں عوام بلدیاتی انتخابات اور اس سے ظاہر ہونے والے نتائج میں بری طرح مدہوش ہیں ۔ مگر خطے میں کئی اہم واقعات نے جنم لے لیا ہے۔جس میں سب سے پہلے افغان طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کی جھوٹی خبر پھیلانا، اس سے پہلے نواز حکومت کی جانب سے اے این پی کے رہنماوؤں پر مشتمل ایک وفد کو عازم کابل کرنا تاکہ اشرف غنی حکومت کو قائل کیا جاسکے کہ وہ افغان طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ نواز حکومت کو ترجیح دے۔ اس کے کچھ نتائج چند دنوں بعد پیرس کی ماحولیاتی کانفرنس میں بھی نظر آگئے تھے لیکن یہ اثرات اس وقت ضائع ہوتے محسوس ہوئے جب افغان حکومتی نمائندوں کی جانب سے ملا اختر منصور کی موت کی خبر پھیلائی گئی۔اس سارے معاملے کی حساسیت کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کی نشاندہی پاکستانی شہر کوئٹہ کے مضافات میں کی گئی اور خبر کابل سے افشاء کی گئی۔۔۔!! یعنی پاکستانی ادارے اس اہم ترین واقعے سے بالکل بے خبر تھے۔۔۔ بہرحال اس خبر سے کیا مقاصد حاصل کئے جانے تھے وہ اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ مشرق وسطی سے لیکر ہمارے اس خطے میں دنیا کے تیزی سے بدلتے سردو گرم کے حوالے سے کیا کچھ تغیر پذیر نہیں ، لیکن ہماری قوم ہے کہ سیاسی رسہ گیروں کے ہتھے چڑھ کر گلی محلے کی سیاست میں الجھ چکی ہے ۔ دوسری جانب حکومتی اداروں کا یہ حال ہے کہ ریاستی اداروں کی عسکری دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر تو واہ واہ کرتے ہیں لیکن جب ہاتھ ’’معاشی دہشت گردوں‘‘ پرپڑتاہے تو یہی حکومت اوراُس کے بزرجمہرجمہوریت خطرے میں آجانے کا شور مچانے لگتے ہیں اس میں کیا حکومتی اور کیا اپوزیشن کے ارکان سب ایک ہیں کیونکہ اس میں کھرا حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان کی جانب جا نکلتا ہے۔

حالات کی سنگینی کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں کیلیفورنیا کے واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی ابتدا کی جاچکی ہے کیونکہ مبینہ طور پر اس حملے میں ملوث خاتون کے خاندان کا تعلق تیس برس قبل جنوبی پنجاب کے علاقے لیہ سے تھا۔ ایک تصویر کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کہ وہ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے ساتھ ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق مولانا عبدالعزیز نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔ بہرحال اس واقعے کے ملزمان امریکی سیکورٹی فورس کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں، ا س لئے جو کہانی بھی گھڑ لی جائے مردے اپنے صفائی میں تو بول نہیں سکتے۔ باقی رہی سہی کسر نکالنے کے لئے پاکستان کا ’’آزاد میڈیا‘‘ کافی ہے جس نے اجمل قصاب کے معاملے میں ـ’’دیگ سے زیادہ چمچہ گرم‘‘ کے مصداق کردار ادا کیا تھا۔اس لئے اب اس ’’نئے کھیل‘‘ کی اٹھان دیکھیں کہاں جاکر کر ختم ہوتی ہے۔

جس وقت افغانستان میں امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحاد نیٹو نے حملہ کیا تو روس اور چین کی جانب سے ذرا بھی جنبش نہ کی گئی۔

سوال یہ ہے کہ کیا مشرق وسطی کے حالات دوبارہ اسی نہج پر آسکیں گے جو دو دہائیوں پہلے تھے؟ یقینا نہیں۔۔۔ دو دہائیوں پہلے کا مشرق وسطی مضبوط حکومتی نظام کی وجہ سے خاصا مستحکم تصور کیا جاتا تھا ۔ تیل اور دیگر معدنیات کی بہتات نے اس خطے میں ایسی صورتحال پیدا کردی تھی جیسے زمین سونا اگل رہی ہو۔صدام حسین، حسنی مبارک، بشار الاسد، بن علی اور عبداﷲ صالح جیسی مضبوط میخیں اس استحکام میں گڑی ہوئی تھیں ۔اس لئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تغیر کی ہوا کا اس خطے سے گزر ہی ممنوع ہے لیکن پھر اچانک کیا ہوا کہ مضبوط نظام کی یہ میخیں باری باری ایسی اکھڑیں کہ سارا نظام تلپٹ ہوگیا۔ عراق اور شام کھنڈر بن گئے، یمن میں نہ بجھنے والی آگ نے سر اٹھا لیا تیونس اور مصر سیاسی ناہمواری کا بری طرح شکار ہوگئے۔ لیبیا حکومت سے نکل کر تنظیموں کی باہی رشہ کشی کا شکار ہوگیا۔ ان ملکوں پر حکومت کرنے والے آمر کس انجام کو پہنچے وہ سب کے سامنے ہے۔ وہ روس جس نے امریکا اور نیٹو کو عراق اور لیبیامیں الجھ جانے کی خواہش پر خاموشی اختیار کی تھی اسی امریکا اور اسرائیل نے اسے شام کے معاملے میں عملًا کود جانے پر مجبور کردیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شام پر تمام دنیا کی توجہ بشار الاسد کے خونی اقتدار سے زیادہ داعش پر مرکوز ہوچکی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے ہی ایران اور ایران نواز تنظیموں کے ساتھ مل کر داعش کو نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ اس میں اب روس، فرانس اور برطانیا بھی عملًا شامل ہوچکے ہیں جبکہ خطے کے وہ عرب ممالک جو پہلے عالمی اتحاد کا حصہ بنے ہوئے تھے خاموشی کے ساتھ الگ ہوچکے ہیں اور بشار مخالف تنظیموں کو امداد دے کر اس پراکسی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں بہت پہلے یہ کہا تھا کہ امریکا ، برطانیا اور اسرائیل کسی طور بھی بشار کے اقتدار کو آرام سے ختم نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اسی کی وجہ سے مشرق وسطی کے آتش فشاں کو ہوا دی جائے گی ۔ورنہ کیا ان مغربی طاقتوں نے مل کر صدام حسین کے عراق کو اسیر نہیں بنا لیا تھا؟

عراق اور لیبیا کے معاملے میں خاموش رہنے والے روس اور چین شام کے معاملے میں کیوں حرکت میں آگئے؟ دراصل روس اور چین شام کو عالم عرب کی جانب ایران کی ایکسٹینشن سمجھتے ہیں۔

2011ء میں نائن الیون کا ڈرامہ درحقیقت امریکا اور صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کو مسلم دنیا پر یلغار کی خاطر دھکیلنے کے لئے تھا۔سو یہ مرحلہ کامیابی سے پورا کیا گیا۔مشرف دور میں پاکستان نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے اور اب اس پاکستان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے یہ بات بعد میں کریں گے لیکن اس سارے کھیل میں روس اور چین کا کردار بڑا عجیب اور پراسرار رہا۔ جس وقت افغانستان میں امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحاد نیٹو نے حملہ کیا تو روس اور چین کی جانب سے ذرا بھی جنبش نہ کی گئی۔ اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران ہیں جن میں سے تین ممالک صیہونی ہیں یعنی امریکا، برطانیا اور فرانس جبکہ دو ارکان روس اور چین غیر صیہونی ریاستیں ہیں۔ لیکن جس وقت امریکا نے اقوام متحدہ جیسے صیہونی ادارے کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان پر چڑھائی کا اعلان کیا تو ان دو غیر صیہونی ریاستوں روس اور چین نے زیادہ مزاحمت نہیں کی غالباًیہ امریکااور اس کے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کے افغانستان میں حشر سے واقف تھے اس کے بعد امریکا اور اس کے صیہونی یورپی اتحادیوں نے عراق کو نشانے پر لیا اور پھر اقوام متحدہ کو اس کام کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس وقت بھی روس اور چین نے زیادہ مزاحمت نہ دکھائی اور پھر وہی ہوا جو روس اور چین نے پہلے سوچ رکھا تھا امریکا اور اس کے صیہونی عسکری اتحاد نیٹو کی چولیں افغانستان اور عراق میں بری طرح ہل گئیں۔ افغان مجاہدین اور عراقی مجاہدین نے امریکا اور نیٹو کی عسکری برتری کو خاک چٹا دی۔عراق ماضی میں بھی روس کے خاصا قریب رہا ہے لیکن امریکا کی تمام تر بربریت کے باوجو د روس نے امریکا کو عراق کی دلدل میں پھنسنے دیا اور اس کے لئے اپنے پرانے اتحادی صدام حسین کی قربانی تک دے دی نتائج سب کے سامنے ہیں۔ جب تک امریکا اور نیٹو افغانستان اور عراق میں جارحیت کا ارتکاب کرتے رہے ۔اس دوران میں روس نے سوویت یونین کے زمانے میں تباہ ہونے والی اپنی اقتصادیات کو سنبھالا دیا اور چین تیزی کے ساتھ ایشیا اورامریکا ویورپ کی مارکیٹ پر چھاتا چلا گیابلکہ اس نے شمالی اور وسطی افریقا میں بھی اپنا اقتصادی اثرورسوخ قائم کرلیا۔نائن الیون کے بعد سے لیکر اب تک اس سارے کھیل کو پندرہ برس ہوچکے ہیں اور اب یہ کھیل ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ایران روس اور چین کے لئے امریکا اور مغرب کی جانب ایک ’’بفر اسٹیٹ‘‘ بن چکا ہے ۔اس لئے وہ ایران پر ہونے والے امریکا اور اسرائیل کے کسی بھی اقدام کے لئے بھرپور تیاری رکھتے ہیں۔ امریکی صیہونی دانشور ہنری کسنجر اور بریزنسکی کے خیال میں ماسکو اور بیجنگ کا راستہ اب تہران سے ہوکر کر گزرتا ہے۔ برزنسکی اور کسنجر کا شمار امریکا کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ روس اور چین کو زیر کرنے کا خواب دیکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ایران کو دھمکیاں لگانا درحقیقت روس کو پیغام دینے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ جس طرح ہم پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں کہ عالمی صہیونی دجالی قوتیں اب اپنے منصوبے کے آخری مرحلے میں عالمی حکمران ریاست کا اسٹیٹس واشنگٹن سے یروشلم منتقل کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل عالمی سطح پر یہ منصب حاصل کرنے سے پہلے ہمسایہ عرب ریاستوں پر اپنا تسلط جمانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی جانب سے شمالی افریقا میں لیبیا کے خلاف نیٹوکی کارروائی سے نئے کھیل کا آغاز کیا گیا۔ قذافی کا لیبیا بھی سوویت یونین کے زمانے سے موجودہ روس تک کا قریبی حلیف تصور ہوتا رہا ہے لیکن جس وقت امریکا اور نیٹو کے صیہونی عسکری اتحاد نے سلامتی کونسل میں لیبیا کے خلاف قرارداد منظور کروائی تو روس اور چین نے اس میں بڑی رکاوٹ نہیں ڈالی جبکہ اصولی طور پر روس کو قذافی کے تحفظ کے لئے آگے آنا چاہئے تھا لیکن روس اور چین اس بات سے واقف تھے کہ نیٹو کو لیبیا میں پھنسانے کے لئے قذافی کی قربانی دینا پڑے گی اور فی الواقع ایسا ہی ہوا ۔ لیبیا میں نیٹو کی موجودگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ جس وقت مصر میں انتہاپسند اسلام کا بہانہ بناکر مشرق کی جانب سے زمینی حملہ کیا جائے تو لیبیا میں موجود نیٹو فورسز اسے مغرب کی جانب سے فضائی کور دیں گے جبکہ روس اور چین کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو نیٹو لیبیا اور مصر کی دلدل میں اس بری طرح سے پھنسے گا کہ اس کی مثال شاید افغانستان اور عراق میں بھی نہ مل سکے۔دوسری جانب جس وقت شام کی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ میں رائے شماری کرائی گئی تو روس اور چین نے اس کے خلاف ووٹ دیا ۔۔۔!! ایسا کیوں ہوا؟ اور اس کے کیا عوامل تھے ؟کہ عراق اور لیبیا کے معاملے میں خاموش رہنے والے روس اور چین شام کے معاملے میں حرکت میں آگئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس اور چین شام کو عالم عرب کی جانب ایران کی ایکسٹینشن سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں شامی حکومت کا کمزور پڑ جانا خطے میں ایران کو ایک بڑے محاذ پر شکست سے دوچار کردینے کے مترادف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شام کے معاملے میں روس نے آخری وقت تک پورا زور لگانے کا عندیہ دیا تھا اور بعد میں اس نے عملی طور پر شام میں مداخلت کرکے اسے ثابت بھی کردیا۔ اسرائیلی اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ روس نے جارجیا میں امریکی اور اسرائیلی فوجی مشیروں کی موجودگی میں ہونے والی عسکری بغاوت کو بری طرح کچل دیا تھا ۔اس سے پہلے پولینڈ میں امریکا کے میزائل شیلڈ پروگرام کو پوری قوت کے ساتھ ناکام بنوایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے توکھیل شروع ہوچکا، امریکا اور اسرائیل کی پوری کوشش تھی کہ روس کو کسی طور بھی شام میں عسکری طور پر الجھا دیا جائے تاکہ بشار کی حمایت میں اسے عرب حکومتوں اور عرب عسکری تنظیموں سے واسطہ پڑ جائے۔

اس ساری صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے وطن عزیز میں کیا تیاریاں ہوئی ہیں تو افسوس صد افسوس تاریخ عالم کے اس نازک ترین دور میں ہمیں جس قسم کے دور اندیش اور مخلص حکمران درکار تھے وہ سزا کے طور پر اس قوم کو میسر نہ آسکے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے روپ میں نوسرباز اس قوم کے حاکم بن چکے ہیں جو نہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اور نہ آئین کی پاسداری ان کا شیوا ہے۔امریکا اور اس کا صیہونی عسکری اتحاد نیٹو اس ملک کی سرحدوں کی پامالی کرتا رہا لیکن ڈررون حملوں میں بے گناہ پاکستانیوں کی ہلاکتوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی جاتی رہی کیونکہ بدلے میں ڈالر ملتے رہے۔۔۔

بابل کا حکمران بخت نصر کوئی مومن بندہ نہیں تھا بلکہ اس وقت کی متمدن اور طاقتورترین ریاست کا مشرک حکمران تھا لیکن قدرت نے کوڑے کی طرح اسے بنی اسرائیل کی پیٹھ پر دے مارا تھا۔ کیا آج امریکا بخت نصر کی مانند ہماری پیٹھ پر کوڑے کی طرح نہیں برسا رہا؟ اﷲ کے نام لیواؤں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرکے زندگی تنگ کی جارہی ہے اور امریکا کی کھلی حمایت کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔ کیا ہم اﷲ تعالی کے بیان کے مطابق خود ان یہود ونصاری کی مانند نہیں ہوگئے ہیں جو آپس میں امت مسلمہ کے خلاف اتحاد کرچکے ہیں اور اﷲ رب العزت نے ڈیڑھ ہزار برس قبل ہمیں آج کے اس شیطانی اور دجالی دور سے خبردار کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ اس وقت اس دجالی اتحاد سے بچنا ورنہ ان میں ہی شمار کئے جاؤ گے۔ جس قوم کے امور رسہ گیروں کے ہاتھ میں آجائیں تواس کا حال کیا ہوگا۔۔ہم نے شمالی افریقا اور مشرق وسطی سے لیکر جنوبی ایشیا تک کے حالات میں تیزی کے ساتھ تغیر پذیری کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں ہر خطے کے حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں نے اپنی اپنی جگہ قیمت ادا کرنا ہے۔۔۔


متعلقہ خبریں


کابل سے القدس تک محمد انیس الرحمٰن - پیر 03 اکتوبر 2016

سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...

کابل سے القدس تک

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں محمد انیس الرحمٰن - جمعرات 29 ستمبر 2016

عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں

لیڈراور کباڑیا محمد انیس الرحمٰن - هفته 24 ستمبر 2016

ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...

لیڈراور کباڑیا

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 18 ستمبر 2016

جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری محمد انیس الرحمٰن - هفته 03 ستمبر 2016

دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات محمد انیس الرحمٰن - منگل 16 اگست 2016

ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں محمد انیس الرحمٰن - جمعه 22 جولائی 2016

گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش محمد انیس الرحمٰن - بدھ 13 جولائی 2016

امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 26 جون 2016

گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟ محمد انیس الرحمٰن - جمعه 17 جون 2016

خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟

افغان مسئلے کا حل۔۔۔ جنگ یا مذاکرات؟ محمد انیس الرحمٰن - هفته 11 جون 2016

ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...

افغان مسئلے کا حل۔۔۔ جنگ یا مذاکرات؟

جزیہ محمد انیس الرحمٰن - پیر 30 مئی 2016

میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...

جزیہ

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر