... loading ...
سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان’’آنکھ مچولی‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ غیرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ چند دنوں میں حکومت شایدرینجرز کو با اختیار بنانے کی قرار داد سندھ اسمبلی سے منوالے۔ سندھ حکومت آج کل ہر کام میں آئین کا حوالہ دے رہی ہے۔ محکمہ اینٹی کرپشن رشوت خوروں کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہورہا۔ وجہ کیا ہے، ان کے ہاتھ کون روک رہا ہے ؟یا وہ بھی آئین کی فلاں فلاں شق کے تحت کسی کو پکڑ نے سے قاصرہیں؟جرائم پیشہ لوگ اور بھتہ خور دندنارہے ہیں ۔رشوت خوراہلکارپراپرٹیاں بنارہے ہیں۔ چالیس پچاس ہزارروپے تنخواہ لینے والا چھوٹا موٹا افسر کلفٹن اور ڈیفنس میں کوٹھیاں اور لگژری فلیٹ خرید رہا ہے۔ کیایہ سب آئین کے مطابق ہورہا ہے۔؟ حقیقت یہ ہے کہ جب یہ تمام محکمے سندھ میں ناکام ہوئے تو رینجرز کو بلایا گیا۔ تاکہ سندھ میں ا من وامان قائم ہو۔ لوٹ مار ختم ہو۔ بھتہ خوری اپنے انجام کو پہنچے اوراغوا برائے تاوان کا سلسلہ رکے۔ رینجرز نے آکر جب بریک لگایا تو انہیں پتہ چلا کہ اکثر وائٹ کالر جرائم میں مبتلا افراد حاکموں کی آنکھ کے تارے اور سرکار کے پیارے ہیں۔ رینجرز نے جیسے ہی ان کی طرف دیکھا توشور مچ گیا کہ رینجرز واپس بھیجی جائے۔ ہمیں سندھ پولیس اچھی لگتی ہے۔۔۔۔۔ان کی خواہش تھی کہ۔رینجرز کو بھی سندھ پولیس کی طرح مسکین اور کو آپریٹو(مددگار) ہو نا چاہیے۔’’یہ لوگ ‘‘مجھے کچا کھا جائیں گے والابیان دینے والے ڈاکٹر عاصم نے بھی کہا کہ میں سندھ پولیس کی تحویل میں خود کو کمفرٹیبل (آرام دہ ) محسوس کرتا ہوں۔
ڈاکٹر عاصم آج کل پورے ملک میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ان کا ٹی وی چینلز اوراخبارات میں ایان علی اور ریحام خان سے زیادہ تذکرہ ہے۔وہ میڈیا کیلئے’’ہاٹ کیک‘‘ ہیں ۔ ان کے حوالے سے آنے والی خبروں میں گرمی بھی ہے اور سسپنس بھی ۔کہانی دلچسپ بھی ہے اور سنسی خیز بھی ۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ اس اسٹوری کا انجام کیا ہوگا؟۔
ڈاکٹر عاصم حسین سندھ میں لوٹ مار کی داستان کا ایک بڑا کردار تھا۔ ان کا سینہ رازوں کا قبرستان ہے ۔ ان کے اسپتال سے دہشتگردوں کے علاج کی میڈیکل ہسٹری کا ڈھیروں ریکارڈ ملا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے فریال تالپور،عبدالقادر پٹیل، انیس قائم خانی ،رؤف صدیقی اوردیگرکے کہنے پرفلاں فلاں دہشتگرد کا علاج کیا ہے۔ ڈاکٹرعاصم حسین کو دور طالب علمی سے ’’ڈان‘‘ بننے کا بہت شوق تھا۔ وہ گزارتے تو معصومانہ زندگی تھے لیکن لڑاکا طالب علموں میں گینگ بنا کر رکھتے تھے۔ ایوان صدر میں ان کی رسائی نے انہیں اپنا ہرشوق پورا کرنے کا موقع دیا اور وہ کراچی سمیت ملک بھر میں اعلی حلقوں تک راہ ورسم بڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی خواہش تھی کہ ٹیلی ویژن چینل نکالیں،وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ اور ان کے ایک فرنٹ مین کے نام سے ٹیلی ویژن چینل بھی منظر عام پر آگیا جس کا دفتر انہی کے اسپتال کے ایک حصے میں بنایا گیا ہے یہ دنیا کا واحد چینل ہے جو اسپتال سے نکلتا ہے اس لئے اِس کے نام کی طرح اس کی’’ ہیلتھ‘‘ بھی اچھی رہتی ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین کی اصل لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب انہیں اچانک تعلیمی سرگرمیوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ وہ بیرون ملک مقیم تھے۔ پیپلز پارٹی کے کئی افراد نے انہیں منع بھی کیاکہ’’ ادھر مت ‘‘آنا حالات اچھے نہیں ہیں لیکن وہ نہ مانے اور کہا کہ’’ مجھے کون پکڑے گا‘‘ ؟ان کی اِس خود اعتمادی نے انہیں رینجرز کی تحویل تک پہنچادیا ۔
رینجرز کی تحویل اور نوے دن کی قید تنہائی نے ڈاکٹر عاصم کو خود بخود بہت کچھ اگلنے پرمجبور کردیا انہوں نے بہت سارے وہ گناہ بھی اگل دئیے جو برسو ں انہوں نے چھپا کر رکھے تھے۔ قید تنہائی میں انہو ں نے چار مرتبہ قرآن شریف پڑھا اور سچائی کے قریب پہنچ گئے ۔جیسے ہی رینجرز کی نوے روزہ قید سے باہر نکلے تو پھر دنیاداری شروع ہوگئی ۔وکیل سے ملاقات کے بعد وہ اپنی بتائی ہوئی ہر چیز سے مکرنے لگے ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ رینجرز نے انکے اعترافی بیانات کی ویڈیو بھی بنا رکھی ہے جو آگے چل کر ان کے خلاف استعما ل ہوگی۔ڈاکٹر عاصم حسین نے یہ بھی بتایا کہ وہ اکثر مال بنانے والے کام ایوان صدر کی اہم شخصیت کے اشارے پر کرتے تھے۔ انہوں نے کئی بار اس شخص کا نام بھی لیا ڈاکٹرعاصم کے بیانات کے چندحصے اخبارات میں شائع ہوئے توکئی لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے ۔ اسلام آباد اور کراچی سے لے کر دبئی تک خوف کی لہر دوڑگئی۔ بچاؤ بچاؤ کی آوازیں آنے لگیں۔ کہا گیا کہ’’یہ بھی مرے گا‘‘ اور ہمیں بھی مروائے گا۔ڈاکٹر عاصم حسین نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس نے دہشت گرد ی میں ملوث افراد کا علاج اپنے اسپتال میں کیا ۔اس اعترافی بیان میں ڈاکٹر عاصم حسین سچے تھے کیوں کہ جب ہسپتال پر چھاپہ مارا گیا تواسٹورسے انتہائی خطرناک شخصیت کی میڈیکل رپورٹوں کی پرانی فائلیں بھی ملیں۔ یہ اطلاعات ان لوگوں تک بھی پہنچیں جن کی گردن اب پھنسنے والی تھی۔ فیصلہ ہوا کہ ’’عاصم ‘‘کو بچا لو۔ اسکو کراچی سے نکالو۔ دبئی یا ملائیشیا پہنچا دو اسی دوران رینجرز کے خصوصی اختیارات کی معیاد ختم ہوگئی ۔
سندھ حکومت کی وزارت داخلہ نے اختیارات میں توسیع کا نیا حکم نامہ تیار کیا اور ڈاکٹر عاصم کا مقدمہ سندھ پولیس کو سونپنے کے اشارے دئیے۔ دبے لفظو ں میں کہا’’کچھ لو اورکچھ دو‘‘ ہر بات کرلو عاصم کو چھوڑ دو ،حکم نامے پر دستخط ہوجائیں گے ۔جواباوفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثا ر نے آنکھیں دکھائیں تو سندھ حکومت آئین کی آڑلے کر چھپ گئی اور ٹائم گین کرنے لگی۔ وفاقی حکام نے سندھ حکومت کو سمجھانے اورمنانے کی کوشش کی لیکن یہاں پھر کچھ اور ہو رہا تھا ،سندھ پولیس نے عدالتی فرائض سنبھال لیے ۔پراسیکیوٹر جنرل نے مقدمہ عدالت میں پیش کرنے کے بجائے اس بات کی تائید کردی کہ یہ کیس بنتا ہی نہیں ہے۔ پولیس کو دہشت گردی کے جرم کے شواہد نہیں ملے اس لئے ڈاکٹر عاصم کو رہا کیا جاتا ہے۔ جب رات آٹھ بجے عدالتیں بند تھیں پولیس کے اعلی افسران گھروں پر جاچکے تھے رینجرز گشت میں مصروف تھی۔اسی دوران ڈاکٹر عاصم کو گلبرگ تھانے سے ایئر پورٹ لے جانے کی تیاریاں بھی مکمل تھیں تاکہ ڈاکٹر عاصم پاکستان سے باہر چلے جائیں اور ان پر دہشت گردی کا مقدمہ نہ بن سکے۔ ڈر یہ تھا کہ اگر ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردی کا مقدمہ بن گیا تو ریڈ وارنٹ جاری کر کے ان کی گرفتاری کیلئے انٹر پول سے مدد لی جاسکتی تھی۔ اور ڈاکٹر عاصم کے بیان کی روشنی میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے لئے آسان تھا کہ وہ سابق صدر کو بھی دہشت گردی کے مقدمے میں شامل کرلیتے۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت دہشت گردی میں مطلوب کسی بھی مجرم کو اقوام متحدہ کا کوئی بھی رکن ملک پناہ نہیں دے سکتا۔ بلکہ مذکوہ ملک جہاں پر مطلوبہ دہشتگرد یااس کا سہولت کار مقیم ہو تو وہ ملک خوداسے گرفتار کرکے انٹرپول کے ذریعے حوالے کردے گا۔ ڈاکٹر عاصم وہ طوطا ہے جس میں اس کے ماسٹر مائنڈ کی جان ہے۔ کراچی میں کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے قبل یہ پلان بنایا گیاتھا کہ مسٹر زرداری کی کسی قریبی شخصیت کو گرفتار کیا جائے تاکہ ملزم خود کو قانون کے حوالے کردے۔ سندھ اور پنجاب پولیس مطلوبہ سنگین مجرموں کو پکڑنے کیلئے ماں باپ یا بھائی بہن کو گرفتار کرلیتی ہے لیکن رینجرز کے سینئر افسران نے اس طریقہ کار کو غلط قرار دیا اور کہا کہ کسی خاتون پر کسی اور کے مقدمے میں ہاتھ ڈالنا صحیح نہیں ہے اور جب مزید تفتیش کی گئی تو ڈاکٹر عاصم وہ شخص نکلا جسے سابقہ حکمرانوں کے ہر راز کا پتہ تھا۔ ہر ڈیل کا علم تھا اوروہ منی لانڈرنگ کے بہت سے کرداروں سے واقف تھا۔ اس لیے ڈاکٹر عاصم نے کہا تھا کہ’’یہ لوگ‘‘ مجھے کچاکھا جائیں گے انہوں نے نام لئے بغیر کہا کہ ’’کسی ‘‘اور کے جھگڑے میں مجھے خوامخواہ گھسیٹا جارہا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کا یہ اعترافی بیان پاکستان کے تمام الیکٹرانک میڈیا پر ریکارڈ ہوا اور پوری قوم نے سنا۔ ڈاکٹر عاصم کا کیس ایک ایسا معمہ ہے کہ وہ ہر طریقے سے خود بھی پھنستے جارہے ہیں اور اپنے ماسٹر مائنڈ کو بھی پھنسا رہے ہیں۔ آج ڈاکٹر عاصم کا یہ خدشہ بہر حال سچ لگتا ہے کہ یا تو ’’وہ مار ‘‘دیں گے یا ’’ یہ مار‘‘ دیں گے، اس لیے ان کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔
سندھ یونائٹیڈ پارٹی نے ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سرچ کمیٹی کا مجوزہ سربراہ بنانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سینئرنائب صدرروشن برڑو کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیاہے کہ ڈاکٹر عاصم پہلے بھی دو مرتبہ چیئر...
ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...
کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...
وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالآخر پاکستان پیپلزپارٹی کے عقابوں کو مجبو رکر ہی دیا کہ وہ اپنے نشیمن چھوڑ کر میدان میں آجائیں اور مسلم لیگ (ن) کو للکاریں۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے عوض پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ...
ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...
نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...
سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف دہشت گردوں کو علاج اور پناہ دینے سے متعلق مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ کے دو رہنماؤں وسیم اختر اور عبدالرؤف صدیقی جبکہ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی اور ...
عید گزر گئی ۔۔۔۔۔کہا جارہا تھا کہ ’’کراچی آپریشن‘‘کی رفتار ’’بلٹ ٹرین‘‘کی طرح تیز ہوجائے گی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا لیکن ایسا ’’گرجدارآپریشن ‘‘فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ’’سیاسی آپریشن‘‘ہوگا۔۔۔۔۔ ا...
عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس...