... loading ...
امریکا میں مڈل کلاس یعنی درمیانہ طبقہ تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بھی مڈل کلاس فروغ پا رہی ہے اور چین اور بھارت جیسے ممالک میں تو ملک کی تیز ترقی میں حصہ ڈال رہی ہے، عین اسی دوران امریکا میں درمیانے طبقے کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں اب پہلا موقع آ گیا ہے کہ ملک کی غالب اکثریت کا تعلق مڈل کلاس سے نہیں ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق 42 ہزار سے ایک لاکھ 26 ہزار ڈالرز کمانے والے افراد کی تعداد 1970ء میں 61 فیصد کی بلند ترین سطح پرتھی لیکن 2015ء میں یہ 50 فیصد تک آ گئے ہیں۔ زیادہ آمدنی رکھنے والے افراد کی تعداد 14 سے 21 فیصد تک پہنچی ہے جبکہ کم آمدنی کے حامل افراد 25 سے 29 فیصد ہوگئے ہیں۔
تحقیق کہتی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ چار دہائیوں تک پھلنے پھولنے کے بعد اب مڈل کلاس کے زوال کا قوت آ چکا ہے۔ درمیانے طبقے کی تعداد میں کمی محض کسی سمت میں قدم نہیں، بلکہ اس کے امریکی معیشت پر خاصے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کی عدم موجودگی کی صورت میں صرف دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں، انتہائی غربت یا انتہائی امارت اور دونوں صورتیں معیشت کے لیے خطرناک ہیں۔
اب امریکا کا امیر ترین طبقہ مجموعی آمدنی کے بہت بڑے حصے پر قابض ہے، ان کی آمدنی تمام دیگر گھرانوں کی آمدنی سے زیادہ ہے اور اور دولت کی یہ یک رخی تقسیم زوال کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔