وجود

... loading ...

وجود

سرتاج عزیز اور سشما سوراج کا مصافحہ

هفته 12 دسمبر 2015 سرتاج عزیز اور سشما سوراج کا مصافحہ

sushma-swaraj-sartaj-aziz

اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج سے پرجوش مصافے نے دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ،لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔سشما سوراج اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز نے اتفاق کیا ہے کہ نہ صرف ماضی میں کئے جانے والے مذاکرات اور پیش رفت کو آئندہ مذاکرات میں پیش نظر رکھاجائے گا بلکہ کچھ نئے اُموریا مسائل کو بھی زیر بحث لایاجائے گا ۔چنانچہ اب جو مذاکرات ہونے جارہے ہیں انہیں جامع دوطرفہ مذاکرات کا عنوان دیا گیاہے۔

اگرچہ ابھی سیکرٹری خارجہ کے مابین مذاکرات شروع ہوں گے جو مختلف امور پر ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات اور تاریخیں طے کریں گے لیکن غالب امکان ہے کہ اگلے برس ستمبر میں جب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائیں گے تو اس وقت تک کچھ مسائل پر کافی پیش رفت ہوچکی ہوگی تاکہ مودی اور نوازشریف کوئی معاہد ہ کرسکیں۔

مذاکرات کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ دونوں ممالک نے قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر ایک طرح کا سرکاری لیکن عملاً خفیہ سفارت کاری کا ایک نظام کار بھی طے کردیا ہے۔مشترکہ اعلامیہ میں حساس موضوعات بالخصوص دہشت گردی کے معاملات پر قومی سلامتی کے مشیروں کوبات چیت جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔مسئلہ کشمیر پوری طرح مذاکرات کا حصہ ہے اس طرح دونوں حکومتوں کو کوئی سبکی نہیں اٹھانا پڑی۔زبردست سفارتی مہارت سے دونوں ممالک کے خدشات اور تحفظات کو مشترکہ اعلامیہ میں جگہ دی گئی۔

اس وقت پاکستان اور بھارت میں مذاکرات کو کسی سمت لے جانے کے لیے ایک آئیڈیل نظام موجود ہے جس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر جنجوعہ کو عسکری لیڈرشپ میں غیرمعمولی صلاحیتوں اور اعتماد کی حامل شخصیت تصورکیا جاتاہے۔وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام کے صدر رہے اور پھر بلوچستان میں جنوبی کور کی دوسال تک سربراہی کر چکے ہیں۔سیاستدانوں کے ساتھ کام کا انہیں خوب تجربہ ہے اور دانشورانہ تبادلہ خیال اور شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے میں عسکری لیڈرشپ کو سب سے زیادہ اندیشے رہتے ہیں اور وہ سیاستدانوں کے فہم وفراست پر کم ہی اعتماد کرتی ہے۔اس پس منظر میں جناب ناصر جنجوعہ کی بطور سلامتی کے مشیر کے تقرری ایک صائب قدم ہے۔وہ سویلین حکومت اور عسکری قیادت کے مابین اسٹریٹیجک امور پر پل کا کردار اداکرسکتے ہیں۔علاوہ ازیں چونکہ وہ ایک ذہین اور دوراندیش شخصیت ہیں لہٰذا ان سے یہ بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ محض روایتی حساب کتاب میں قید ہونے کے بجائے نئے آئیدیاز پر کام کریں گے تاکہ پاک بھارت تعلقات کے بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی پیش رفت ہوسکے ۔ جنرل ناصر جنجوعہ کے بھارتی ہم منصب اجیت ڈول کا تعلق بھی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہے۔وہ سخت گیر لیکن نتائج پیدا کرنے سے دلچسپی رکھے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔اگرچہ حالیہ چند ماہ میں انہوں نے پاکستان کے خلاف کافی منفی گفتگو کی ہے لیکن وہ وزیراعظم مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے حقیقی نمائندے تصور کئے جاتے ہیں۔

مسلسل فروغ پزیر انتہا پسندی، دہلی کے بعد بہارکے الیکشن میں شکست اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تحریک میں پیدا ہونے والی تیزی نے بھی مودی سرکار کواپنے رویہ پر نظر ثانی پر مجبور کیا ہے۔

یہ کہاجاسکتاہے کہ دونوں ممالک کی موجودہ لیڈرشپ پاک بھارت مسائل کے حل میں نمایاں بہتری لانے کی پوزیشن میں ہے۔پاکستان میں ایک بھی ایسی بڑی سیاسی جماعت نہیں جو پاک بھارت تعلقا ت میں بہتری کی مخالف ہو۔بھارت کی حزب اختلاف کی قیادت بالخصوص کانگریس بھی پیش رفت کی حامی ہے۔حال ہی میں سابق کانگریسی رہنما سلیمان خورشید نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور وزیراعظم نوازشریف کی کوششوں کو سراہا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو پاکستان سے تعلقات میں کشیدگی کا ذمہ دار قراردیا۔

مسلسل فروغ پزیر انتہا پسندی، دہلی کے بعد بہار کے الیکشن میں شکست اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تحریک میں پیدا ہونے والی تیزی نے بھی مودی سرکار کو اپنے رویہ پر نظر ثانی پر مجبور کیا ہے۔علاوہ ازیں انہیں توقع تھی کہ بھارت کے بے لچک رویہ سے پاکستان خوف زدہ ہوجائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔پاکستان میں زیادہ اتحاد اور یکجہتی پیدا ہوئی۔شورش پسندوں کے جاری آپریشن میں زبردست کامیابیاں ملیں اور داخلی طور پر پاکستان مستحکم ہوتاگیا۔

بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی اورتناؤ میں کمی پاکستان کے اپنے حق میں ہے۔اس طرح پاکستان کو داخلی معاملات سدھارنے کا موقع ملتاہے۔بلوچستان میں شدت پسندوں کو ملنے والی بیرونی آشیر باد میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔قبائلی علاقہ جات اور کراچی میں جاری تخریبی کارروائیوں میں بھی جو بیرونی ہاتھ ہے وہ مذاکراتی عمل کے دوران کم ازکم وقتی طور پر ہی حمایت سے دستکش ہوجاتا ہے۔

افغانستان بھی ایک ایسا مدعا ہے جہاں دونوں ممالک کو تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیاجاسکے۔آج کل عالم یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔نتیجتاً افغانستان میں سیاسی اور سماجی استحکام پید انہیں ہورہا جس کے منفی اثرات پورے خطے پر مرتب ہوتے ہیں۔

بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنے سے پاکستان میں جمہوری اداروں میں بھی استحکام پیدا ہونا شروع ہوجاتاہے۔منتخب حکومت کے اختیارات اور طاقت میں نمایاں اضافہ ہوجاتاہے۔بجٹ کا بڑا حصہ ترقیاتی کاموں اور انسانی وسائل کی ترقی پر خرچ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔دوسری صورت میں وسائل کا بہت بڑا حصہ محض امن وامان برقرار رکھنے پر خرچ ہوتاہے۔گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ جناب حفیظ الرحمان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حیرت انگیز اور دردناک انکشاف کیا کہ گلگت بلتستان میں امن وامان کو برقرار رکھنے پر سالانہ بارہ ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔پیش نظر رہے کہ اس علاقے کا کل بجٹ اکتیس ارب روپے ہے۔یہی حال باقی علاقوں کا بھی ہے۔یہ وہ اخراجات ہیں جو فوج کے مستقل اخراجات کے علاوہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔پاکستان اور بھارت کے مابین ماضی میں ہونے والے مذاکرات میں کئی ایک مشکل مسائل پر معقول حد تک پیش رفت ہوچکی ہے۔سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے

Neither a hawk nor a doveکے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں ان نکات کی وضاحت کی ہے جن پر دونوں ممالک مفاہمت کے قریب پہنچ چکے تھے۔اسی مفاہمت کی بنیاد پر دونوں ممالک مذاکرات کی میز سجا سکتے ہیں او رتیزی سے پیش رفت کرسکتے ہیں۔

دونوں ممالک کو جامع مذاکرات کی کامیابی کے لیے موجودہ کشیدہ ماحول سے باہر نکلنا ہوگا جو کہ کوئی سہل کام نہیں۔عالمی برادری ، پاکستان اور بھارت کے اندر موجود اعتدال پسند عناصر اور شخصیات کو دونوں ممالک کی مدد کرنا ہوگی تا کہ وہ کشیدگی اور محاذ آرائی سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرسکیں۔


متعلقہ خبریں


افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش محمد انیس الرحمٰن - بدھ 13 جولائی 2016

امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش

امریکی وفد کا چار روزہ دورہ پاکستان: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کردار کی تعریف وجود - پیر 04 جولائی 2016

پاکستان کے چار روزہ دورے پر آئے امریکی وفد کے سربراہ جان مکین نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کردار کی تعریف کرتے ہوئےشمالی وزیرستان اور اس کے اطراف کے علاقوں کی سلامتی کی صورت حال کو اطمینا ن بخش قرار دیا ہے۔امریکی سینیٹر جان مک کین نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران سیاسی و عسکری قیاد...

امریکی وفد کا چار روزہ دورہ پاکستان: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  پاکستان کردار کی تعریف

سرتاج عزیز اور حسین حقانی آمنے سامنے: ایک دوسرے پر ناکامیوں کے الزامات وجود - بدھ 22 جون 2016

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پاکستان میں انتہائی متنازع حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے نوازشریف کی حکومت مسلسل خارجہ پالیسی کی ناکامیوں پر تنقید کی زد میں ہے۔انتہائی اہم عالمی واقعات کے ہنگام پاکستان ایک مستقل وزیر خارجہ سے محروم ہے۔ جبکہ ایک مشیر...

سرتاج عزیز اور حسین حقانی آمنے سامنے: ایک دوسرے پر ناکامیوں کے  الزامات

این ایس جی میں رکنیت، بھارت کا پاکستان کے لیے پھر نرم رویہ، چین کا حمایت سے انکار وجود - پیر 20 جون 2016

بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے اپنی سفارتی ناکامی کو چھپاتے ہوئے مودی حکومت کی دوسالہ کارکردگی پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نیوکلئیر سپلائر گروپ میں پاکستان سمیت کسی ملک کی شمولیت کی مخالفت نہیں کرے گا۔ سشما سوراج نے امید ظاہر کی کہ بھارت رواں برس کے اختتام تک نیوکل...

این ایس جی میں رکنیت، بھارت کا پاکستان کے لیے پھر نرم رویہ، چین کا حمایت سے انکار

سیاسی حکومت بھار ت کی چاپلوسی کے باوجود مذاکرات بھی بحال نہیں کراسکی! وجود - جمعرات 28 اپریل 2016

پاکستان کی سیاسی حکومت بھارت سے ہرقیمت پر مذاکرات کی خواہاں دکھائی دیتی ہے، اس کے لیے حکومت نے بھارت کی پاکستان میں عریاں مداخلت پر بھی کوئی ٹھوس موقف اختیار کرنے سے گریز کیا تاکہ مذاکرات کا ماحول خراب نہ ہو ں۔ یہاں تک کہ را ایجنٹ کل بھوشن کی گرفتاری پر بھی نواز حکومت نے زیادہ لب...

سیاسی حکومت بھار ت کی چاپلوسی کے باوجود مذاکرات بھی بحال نہیں کراسکی!

پاک-بھارت خارجہ سیکریٹری ملاقات اگلے ماہ متوقع وجود - اتوار 24 جنوری 2016

پٹھان کوٹ حملہ کے بعد موخر ہونے والی پاک-بھارت خارجہ سیکریٹریز ملاقات اگلے ماہ متوقع ہے۔ پاکستان اور بھارت کے امن مذاکرات کا عمل دو سال قبل لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔ لیکن چند ماہ قبل پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی پیر...

پاک-بھارت خارجہ سیکریٹری ملاقات اگلے ماہ متوقع

پٹھان کوٹ حملہ: سیاسی حکومت کے طرز عمل پر پاکستانی حلقوں میں شدید بے چینی پیدا ہونے لگی! باسط علی - جمعه 15 جنوری 2016

پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملے کے بعد بھارت کی جانب سے جو معلومات پاکستان کو مہیا کی گئی تھی، وہ کسی بھی اقدام کے لئے انتہائی ناکافی اور نامکمل تھیں ۔ وجود ڈاٹ کام کو انتہائی ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو فون کے بعد اُنہو...

پٹھان کوٹ حملہ: سیاسی حکومت کے طرز عمل پر پاکستانی حلقوں میں شدید بے چینی پیدا ہونے لگی!

بھارت نے پاکستان کے ساتھ اعلی سطحی مذاکرات ملتوی کردیے وجود - جمعرات 14 جنوری 2016

پاک-بھارت تعلقات کی فوری بحالی کی امید پیدا ہوتے ہی پٹھان کوٹ حملے نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر مذاکراتی عمل سے فرار کی راہ دکھا دی ہے۔ بھارت نے کل یعنی جمعے سے شروع ہونے والے مذاکرات ملتوی کردیے ہیں اور ان کی کوئی آئندہ تاریخ بھی نہیں تھی۔ گزشتہ ماہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مود...

بھارت نے پاکستان کے ساتھ اعلی سطحی مذاکرات ملتوی کردیے

سچائی کی طاقت ارشاد محمود - جمعرات 31 دسمبر 2015

چند دن قبل دبئی میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔تپاک سے ملے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ آپ کی تحریریں پڑھتے ہوئے زمانہ گزرگیا لیکن سمجھ نہیں آتی کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں یا تحریک انصاف کے۔کبھی آپ وزیراعظم نوازشریف کی مدح سرائی فرماتے ہیں اور کبھی عمران خان کے حق میں زمین وآسمان کے ق...

سچائی کی طاقت

اب گولی نہیں بولی چلے گی! ارشاد محمود - پیر 28 دسمبر 2015

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے...

اب گولی نہیں بولی چلے گی!

یقین نہیں آتا! ارشاد محمود - اتوار 20 دسمبر 2015

رمضان کا تیسرا عشرہ تھا ۔ بھائی نزاکت محمود رات گئے گھر تشریف لائے۔سفر، تھکاوٹ اور کچھ کاہلی کے سبب گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بجائے گلی میں پارک کردی۔سحری کے وقت گاڑی موجود نہ پا کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ہمارا گھر ائیر پورٹ سے تین اورمقامی تھانہ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر ہ...

یقین نہیں آتا!

پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھارتی جوہری معاہدے کی مخالفت نہ کرکے بھارت کو فائدہ پہنچایا۔ضمیر اکرم کا انکشاف وجود - هفته 19 دسمبر 2015

پاکستان کے جو ہری پروگرام اور بھارتی جوہری پروگرام کے حوالے سے مختلف پہلو مسلسل بے نقاب ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تازہ ترین انکشاف اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل سفیر ضمیر اکرم کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے امریکی دباؤ میں کس طرح بھا...

پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھارتی جوہری معاہدے کی مخالفت نہ کرکے بھارت کو فائدہ پہنچایا۔ضمیر اکرم کا انکشاف

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر