وجود

... loading ...

وجود

توہین کی تعظیم

بدھ 09 دسمبر 2015 توہین کی تعظیم

arm-wrestling

وہی روز کی توُ توُ میں میں، اور غوروفکر کا لگا بندھا اَمرِت دھارا!کاش ہمیں کچھ غوروفکر کرنے والے لوگ میسر ہوتے، جو ہمارے معمولات اور قیمتی اوقات پر بے وقعت تصرّف نہ کرپاتے۔

شاہ زیب خانزادہ نے سینیٹر سعید غنی سے ایک عجیب سوال پوچھا:

’’اگر رینجرز کے اختیارات سے تجاوز کا مسئلہ ہے تو اختیارات سے تجاوز سیاست دان بھی تو کرتے ہیں۔سیاست دانوں کو مینڈیٹ (انتداب) بدعنوانیوں کا تھوڑی ملتا ہے۔ ‘‘

بظاہر یہ سوال نک سک سے بالکل درست لگتا ہے، مگر کیا درست بھی ہے؟سوال ایک دوسرا بھی ہے۔ شاہ زیب خانزادہ سیاست دانوں کی طرف سے اختیارات اور بدعنوانیوں پر اُن کی جس طرح توہین کر سکتے ہیں، ویسی ہی توہین کیا وہ اختیارات سے تجاوز کرنے والی رینجرز کی بھی کر سکتے ہیں؟ اگر یہ ایک ہی جیسے مسئلے ہیں،تو کیا دونوں فریقین کے خلاف ایک ہی جیسے سوالات اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً ذرا تصور کیجئے! ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر سے شاہ زیب خانزادہ یہ سوال کچھ یوں کر رہے ہوں کہ ’’اگر سیاست دانوں کے اختیارات سے تجاوز کا مسئلہ ہے تو اختیارات سے تجاوز تو آپ بھی کرتے ہیں، آپ کو اختیارات قانون کے نفاذ کے ملتے ہیں ، قانون سے تجاوز کے تو نہیں؟‘‘کیا شاہ زیب خانزادہ یہ سوال اپنی جگمگاتی ٹیلی ویژن کی جلوہ گاہ پر یوں ہی کر سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر دونوں طرف سے اختیارات کے تجاوز کا معاملہ ویسا نہیں ہے ، جیسا کہ سوال میں اُبھارا گیا۔ شاہ زیب خانزادہ یہ سوال کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ دراصل پاکستان کے ایک بنیادی مسئلے سے جڑا ہوا سوال ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور سماجی بُنت (انجینئرنگ) دراصل طاقت کے مزاج پر ہے۔ یہاں سچائی طاقت نہیں بلکہ طاقت سچائی ہے۔ اس اُصول کوسطح شعور پر کوئی بھی مانتا نہیں مگر اس اُصول پر سطح لاشعور میں سب ہی عمل پیرا رہتے ہیں۔ کمزور لوگوں کو طاقت ور صرف ذہین ہی نہیں دیانت دار بھی لگتے ہیں۔ جس طرح بندگانِ حرص وہوس اگر پی ایچ ڈی بھی کر لیں تو اُنہیں سیٹھ سے زیادہ ذہین اور ایماندار کوئی نہیں لگتا ۔ پاکستان میں آمریت اسی مزاج کے راستے حملہ آور ہوتی ہے۔

طاقت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قانون سے بے پرواہ ہوتی ہے۔ اُس کی نہاد میں قانون کی تحقیر ہوتی ہے۔ چنانچہ پاکستانی معاشرہ جو مکمل طاقت کے رحم وکرم پر ہے ، وہاں تمام فریقین کی طرف سے ایک عجیب وغریب لڑائی طاقت کے حصول کی ہو رہی ہے

طاقت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قانون سے بے پرواہ ہوتی ہے۔ اُس کی نہاد میں قانون کی تحقیر ہوتی ہے۔ چنانچہ پاکستانی معاشرہ جو مکمل طاقت کے رحم وکرم پر ہے ، وہاں تمام فریقین کی طرف سے ایک عجیب وغریب لڑائی طاقت کے حصول کی ہو رہی ہے۔ سیاست دان جو کسی بھی اُصول سے اُتنے ہی گریزاں ہیں اور ہمارے تصورات میں موجود بدعنوانیوں سے بھی کہیں زیادہ بدعنوان ہیں، اب ایک اور محاذ پر خود کو سرگرم کر چکے ہیں۔ اُنہیں اپنی بقا کا مسئلہ دراصل اجتماعی طور پر لاحق ہو چکا ہے اور وہ ایک دوسرے کو بچاتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ اُنہیں اندازا یہ ہو چکا ہے کہ اُنہیں کسی بھی وقت طاقت سے روندا جا سکتا ہے۔ چنانچہ وہ طاقت کے متبادل ذرائع کے تحت خود کو متحد کرنے کے جتن کر رہے ہیں۔اور بلاخوف ِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاست دان اس معاملے میں زیادہ ذہانت کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ اور نری طاقت پر انحصار کرنے والی قوتیں اس کھیل میں پسپائی کی طرف دھکیلی جا رہی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیاست دان یہ جنگ اتنی مہارت سے لڑ رہے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے کھلے گھناؤنے جرائم کے لئے بھی عوامی ہمدردیاں سمیٹ لی ہیں۔ اس کا سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سماج سے بے خبری اور نری طاقت پر انحصار کا متکبرانہ رویہ ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی مثال سامنے کی ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈاکٹر عاصم حسین کے مسئلے کو جس طرح برتا ہے اُس نے ڈاکٹر عاصم حسین کے تمام مکروہ اعمال کو پیچھے دھکیل کر اُن کے حوالے سے ایک ہمدردی پیدا کردی ہے۔ یہ حسُن اتفاق سے زیادہ حُسن انتظام لگتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت جب پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ، کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر گورنر ہاؤس کراچی میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ملک کی اعلیٰ ترین سول قیادت کے ساتھ شریک تھے تو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے منتظم منصف نعمت اللہ پھلپوٹو کے سامنے ڈاکٹر عاصم حسین پھٹ پڑے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تو ابھی اُن پر کوئی فردِ جرم (چارج شیٹ) عائد نہیں کر سکے، مگر اُنہوں نے اُن پر ایک زبردست فردِ جرم عائد کردی۔اُنہوں نے کہا کہ’’ اُن (رینجرز اور عسکری اداروں ) کا جھگڑا کسی اور (آصف زرداری) سے ہے اور پھنسایا مجھے جا رہا ہے،اگر میں مر گیا تو الزام اس نظام پر ہوگا۔ مجھے قتل کرنا ہے تو مار دیں ، میرا انکاونٹر کر دیں۔کبھی مجھے لولی پاپ دیا جاتا ہے اور کبھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عاصم حسین مسلسل بولتے گئے اور اُن کا ایک ایک لفظ ہر جگہ سند ِ اعتبار پاتا رہا۔ ایک ذراسی دیر میں اس خبر نے پہلی خبر کی حیثیت حاصل کر لی اور جس اجلاس میں ملک کی فوجی اور تمدنی قیادت سر جوڑے بیٹھی تھی ، وہ دوسری خبر بن گئی ۔ اس معاملے نے ڈاکٹر عاصم حسین پر عائد اُن سنگین الزامات کو پیچھے دھکیل دیا جو ابتدا میں اُن کے خلاف ملک بھر میں باعثِ نفرت بن چکے تھے۔

یہ واقعہ دراصل اداروں کے طاقت پر انحصار اور خود کو بے قید سمجھنے کی نفسیات کے خلاف ایک تازیانۂ عبرت ہے۔ کوئی سو دن کے قریب ڈاکٹر عاصم حسین کو اپنی تحویل میں رکھنے کے باوجود رینجرز نے کسی بھی قابل ذکر معاملے کو قانونی انجام دینے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ یہ فراموش کر گئی کہ مریض کے آپریشن میں تاخیر آپریشن کی ناکامی کا شک پید اکرتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین ہی نہیں رینجرز اور اداروں نے اب تک جتنے بھی مسائل پر ہاتھ لگائے ہیں اُن میں سی کسی بھی مسئلے کو اب تک کسی قانونی انجام سے دوچار نہیں کیا۔ ہر جگہ شکوک کی ایک تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ اور ایک طویل خاموشی طاقت کے آگے سجدہ ریز ہونے کے باعث پائی جاتی ہے۔اختیارات سے تجاوز سب ہی کرتے ہیں کیونکہ سیاسی اور عسکری تمام قوتیں قانون کے سائے میں نہیں طاقت کی مچان میں خود کو رکھتے ہیں۔ ان قوتوں کی ساری جدوجہد ملک کو قانون کے زیر سایہ لانے کی نہیں بلکہ خود کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنانے کی ہیں۔ یہ ساری بدکاریاں اور بداعمالیاں اسی طاقت کے مدار میں گردش کے باعث ہیں۔ اس میں کسی بھی فریق کے لئے صحیح اور غلط کی بحث سرے سے ہی غیر متعلق ہے۔ ایسی بحث اور سوالات دراصل توہین کی تعظیم کرنے کے مترادف ہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن، ڈاکٹر عاصم کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر وجود - جمعه 18 فروری 2022

سندھ یونائٹیڈ پارٹی نے ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سرچ کمیٹی کا مجوزہ سربراہ بنانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔ سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سینئرنائب صدرروشن برڑو کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیاہے کہ ڈاکٹر عاصم پہلے بھی دو مرتبہ چیئر...

چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن، ڈاکٹر عاصم  کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر