... loading ...
شام میں روس ترکی حالیہ تنازع کے تناظر میں گزشتہ دنوں دو اہم بیانات خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک بیان سعودی نائب ولی عہد کی جانب سے دیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا کے عراق سے انخلاء کے بعد جب عراقی امور ایران کے ہاتھ میں آئے، اس وقت سے داعش کا ظہور ہوا۔ دوسرا بیان چیچنیا کے حریت پسندوں کی جانب سے ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہم روس کو جواب دینے کے لیے اپنے قائد طیب اردگان کے حکم کے منتظر ہیں‘‘۔ بادی النظر میں دوسرا بیان علاقے میں بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں خاصا اہم ہے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ شام کی جنگ کاجنوب سے زیادہ اب شمال کی جانب پھیلنے کا زیادہ احتما ل ہے۔اس بیان کے بعد بہت سے عرب ذرائع کو اب شامی جنگ کے شعلے ماسکو میں اٹھتے نظر آرہے ہیں۔
شام کے معاملے میں روس پر بھاری وقت اس وقت آیا جب مصر کے صحرائے سینا میں اس کا ایک مسافر بردار طیارہ دھماکے سے اڑا کر تباہ کردیا گیا تھا۔ شرم الشیخ سے پرواز بھرنے والے اس طیارے کی تباہی نے روس کو بری طرح جھنجھوڑ دیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ یہ شام میں روس کی مسلح مداخلت کا جواب کہا جارہا تھا۔ ابھی یہ مسئلہ تحقیق طلب تھا کہ کس طرح اس طیارے کو تباہ کیا گیا کہ ترکی نے اپنی سرحدی خلاف ورزی پر روسی لڑاکا طیارہ مار گرایا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اس کے ساتھ ہی ماسکو اور انقرہ کے درمیان سخت بیانات کی سرد جنگ کا آغاز ہوگیا۔
لیکن اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ روسی صدر کے ترکی کے خلاف سخت ردعمل کے باوجودروس ترکی کے خلاف کوئی بھی عسکری کارروائی سے گریزاں رہے گا اور شام میں ہی اس کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپ کو سپلائی ہونی والی ساٹھ فیصد گیس براستہ ترکی یورپ سپلائی کی جاتی ہے اگر ترکی اس سپلائی کا سوئچ آف کردے تو ایک طرف یورپ کے چولہے ٹھڈے ہونے کا خطرہ ہے تو دوسری جانب گیس کی اس فروخت سے روس کو ہونے والی بڑی آمدنی بھی رک جانے کا خطرہ ہے۔ اس لیے فی الحال روس ترکی براہ راست ٹکراؤ کا خطرہ فی الحال محسوس نہیں ہورہا۔ روس کا طیارہ جس علاقے میں گرایا گیا ہے وہ ترکی سے متصل ترکی کے حمایت یافتہ ترکمان کردوں کا علاقہ ہے جن پر بمباری کے لیے روسی طیارہ آیا تھا، یہ بالکل ایسا ہے کہ شام کی پراکسی جنگ میں ترکی کے مفادات پر حملہ کردیا جائے جس کا سخت جواب ترکی کی جانب سے آیا۔ امریکا اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ روس ترک تنازع کو ہوا دے کر اس جنگ کو ماسکو کی جانب پھیلایا جائے تاکہ روس شام سے لیکر وسطی ایشیا اور قفقاز کے علاقے تک ایک نہ سنبھلنے والی جنگ میں پھنس کر رہ جائے۔یہ بات اسرائیل اور کسی حد تک امریکا وبرطانیا کے حق میں جاتی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ روس کو قفقاز میں ردعمل کی جنگ میں الجھا کر شمالی عراق وشام میں کردستان کی آزاد ریاست کی راہ ہموار کی جائے۔
گزشتہ برس تل ابیب میں روسی سفیر سیرگی یعقوبییف نے اسرائیلی انتہا پسند صیہونی جماعت لیکوڈ سے تعلق رکھنے والے نائب وزیر برائے علاقائی تعاون ’’ایوب قرا‘‘ سے خفیہ ملاقات کی تھی اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ شام میں اگر بشار الاسد کی حکومت ختم کردی گئی تو اس کی جگہ وہاں کی اسلامی تحریکیں جگہ بنا لیں گی اور اسرائیل کے حق میں ان اسلامی تحریکوں سے زیادہ بشار الاسد کی حکومت بہتر ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر سے شکوہ بھی کیا کہ اسرائیل کی جانب سے شامی مظاہرین کو خوراک اور دواؤں کی شکل میں بھیجی جانے والی امداد آگے چل کر خود اسرائیل کے حق میں بہتر نہیں رہے گی۔عرب ذرائع کے مطابق اسرائیلی وزیر ’’ایوب قرا‘‘ کا کہنا تھا کہ شامی مظاہرین کو امداد اسرائیلی حکومت کی جانب سے نہیں دی جارہی بلکہ اسرائیل میں مقیم عرب باشندے ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے تحت یہ سامان شام ارسال کررہے ہیں۔ سبحان اللہ۔۔ ذرا اندازا لگائیں کہ اسرائیل میں مقیم عرب باشندے مقبوضہ فلسطین کے محصور علاقوں جنین اور غزہ کے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو ایک اسپرین کی گولی تک تو ارسال نہیں کرسکتے لیکن اسرائیلی حکومت کی مرضی کے خلاف وہ شامی عوام کے لیے ’’انسانی ہمدردی‘‘کے تحت خوراک اور دوائیں ارسال کرسکتے ہیں۔۔۔!! دوسری جانب ریاض میں مقیم چین کے سفیر ’’لی چینگ‘‘ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ چینی حکومت نے اپنے سفارتی ذرائع سے بشار الاسد حکومت سے رابطہ قائم کرکے شامی مظاہرین کے خلاف طاقت کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کہا تھا جبکہ بیجنگ میں شامی اپوزیشن کے ایک وفد نے بھی چینی حکام سے ملاقات کی تھی۔۔۔ دوسری جانب روسی صدر پوٹن نے اس وقت عالمی میڈیا کے سامنے یہ اعلان کیا تھا کہ روس کا بشار الاسد سے تعلق صرف اس نوعیت کا ہے جس نوعیت کا برطانیہ کا ہوسکتا ہے۔ جبکہ وہاں مظاہرین کے خلاف ہونے والے طاقت کے بے دریغ استعمال کو ہم پسند نہیں کرتے۔بعد میں تل ابیب میں روسی سفیر اور اسرائیلی نائب وزیر برائے علاقائی تعاون کی خفیہ ملاقات کا بھانڈا بھی جان بوجھ کر پھوڑا گیا تھاتاکہ شامی حکومت مخالف عرب میڈیا کی توپوں کا رخ ایک مرتبہ پھر روس کی جانب ہوسکے۔
جہاں تک روسی سفیر کے اسرائیل کے ساتھ اس شکوے کا تعلق ہے کہ اگر بشار کو حکومت سے ہٹا دیا گیا تو اسلام پسند قوتیں اقتدار پر قابض ہوجائیں گی جو بشار الاسد سے زیادہ اسرائیل کی مخالف ہیں تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس بات کا ادراک اسرائیلیوں کو روسیوں سے زیادہ ہے اور اسی وجہ سے وہ انقلابات کے نام پر شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں ایسی تبدیلیاں لا رہے ہیں جو بظاہر اسرائیل کے خلاف نظر آئیں لیکن آگے چل کر وہ انہی تبدیلیوں کو عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کرے اور عربوں پر کاری ضرب لگا کر نصف سے زیادہ مشرق وسطی پر قابض ہوجائے۔ اس لیے شام میں خانہ جنگی کروانے کی ٹائمنگ بھی بہت دیکھ بھال کر منتخب کی گئی تھی۔عرب ذرائع کا دعوی ہے کہ شام میں جیسے ہی بشار الاسد کا اقتدار ختم ہوگاتو وہاں کی سیاسی اسلامی تحریک تیونس، مصر اور لیبیا کی طرح اس خلا کو پر کرنے آگے آئیگی جس سے اردن کی اسلامی تحریک کو اس سے زبردست تقویت حاصل ہوگی اور وہاں بھی ’’طے شدہ‘‘ منصوبے کے تحت مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس میں ممکن ہے داعش بھی اپنے اقتدار کو شمالی شام اور عراق کے علاقوں میں مزید مستحکم کرسکے۔ جبکہ دوسری جانب اردن کی کٹھ پتلی امریکا اسرائیل نواز بادشاہت کے خلاف زبردست ہنگامے شروع ہوجائیں گے۔ یہ اسرائیل کے ’’بڑے دجالی صیہونی منصوبے‘‘ کے لیے آئیڈیل صورتحال ہوگی۔اس وقت صیہونی سرمایہ داروں کا کارپوریٹیڈ میڈیا شور مچائے گا کہ اسرائیل کو چاروں طرف سے انتہا پسند مسلمان حکومتوں نے گھیر لیا ہے جو کسی وقت بھی اسرائیل پر حملہ کرکے اس کا وجود مٹا دیں گی۔قطر کے دارالحکومت دوحہ جہاں پر امریکا کی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر ہے وہیں پر ’’عالم عرب کا نمائندہ نیوز چینل الجزیرہ‘‘ بڑھ چڑھ کر اسلامی تحریکوں کی کامیابیاں بیان کرے گا۔یوں تمام دنیا میں اسرائیل کے حق میں ایک فضا پیدا کردی جائے گی۔۔۔اس فضا کوبرقرار رکھتے ہوئے دو بڑے مراحل طے کرنا ابھی باقی ہوں گے۔ اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ڈالر کو کس کے سہارے اس وقت تک کھڑا کیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ڈالر عملًا زوال پذیر ہوچکا ہے لیکن یہ اب صرف تیل کے سہارے کھڑا ہے جو لوگ اور حلقے ’’پیٹرو ڈالر‘‘ کا مطلب سمجھتے ہیں وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یعنی اگر تیل کا لین دین ڈالر میں کرنا بند کردیا جائے تو ڈالر کی حیثیت سگریٹ جلانے والے کاغذ سے بھی کم رہ جائے گی۔ کیونکہ اصل زر سونا ہے کاغذ کی کرنسی نہیں اور یہ بات اللہ کے آخری رسول ﷺ نے چودہ سو برس پہلے فرما دی تھی کہ ’’ایک وقت آئے گا جب دینار (سونا) اور درہم (چاندی) کے سوا تمام چیزیں وقعت کھو دیں گی۔‘‘ امریکا نے مشرق وسطی پر اپنا تسلط جماکر تیل کی قیمت ڈالر سے وابستہ کردی تھی جسے بعد میں پیٹرو ڈالر کا نام دیا گیا۔ یعنی اصل زر کی شکل سونے کے بعد تیل اختیار کرگیا تھا کیونکہ سب سے زیادہ عالمی مارکیٹ میں سونے کے بعد تیل کی مانگ ہے۔ اب اگر تیل بیچنے والے ممالک ڈالر کی بجائے سونے کی شکل میں قیمت وصول کرنے لگیں گے تو ڈالر کہاں جاکر کھڑا ہوگا سب کو اچھی طرح معلوم ہے۔ اس لیے بھی اسرائیل اس صورتحال کو اپنے عالمی اقتدار کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گااور امریکا کو معاشی زوال سے ڈرا کرمشرق وسطی میں اسلامی تحریکوں کے مقابل لانے کی کوشش کرے گا۔اس قسم کی صورتحال نے امریکیوں کو نہ صرف امریکا بلکہ افغانستان تک میں زچ کرکے رکھ دیا ہے۔عرب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک جانب لیبیا کے بعد اب الجزائر اور مراکش میں عوامی ردعمل کا سلسلہ سامنے آسکتا ہے تو دوسری جانب شام میں بشار الاسد کے جاتے ہی اردن کو زبردست مظاہرے اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں اور اس حوالے سے مراکش اور اردن کے شاہی خاندانوں میں نہ صرف تشویش پائی جاتی ہے بلکہ یہ شاہی خاندان جو نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے اپنے عوام پر مسلط ہیں سرمایہ تیزی کے ساتھ مغرب میں منتقل کررہے ہیں۔
ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ پاکستان کی حفاظت کے ضامن اداروں کو مشرق وسطی کی صورتحال پر بھرپور نظر رکھنا ہوگی کیونکہ پاکستان میں اصل ہدف پاکستان کے جوہری اثاثے ہیں اور عالمی صیہونی عسکری اتحاد کبھی اسے نظر انداز نہیں کرے گا کیونکہ سب سے آخر میں پاکستان کے جوہری اثاثے ہی اسرائیل کی عالمی سیادت میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ا س وقت ان اثاثوں کی محافظ پاک فوج کا مورال گرانے کے لیے سازشیں کی جارہی ہیں۔ پی پی اور نون لیگ کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی معاشی کرپٹ اداروں کے راستے میں پوری طرح روڑے اٹکانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت ایک بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوچکا ہے۔ افغانستان میں اسے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور بھارت کو یہ بھی باور کرا دیا گیا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں اگر پاکستان کا پلہ بھاری رہا تو امریکی فوج کے انخلا کے بعد سب سے زیادہ شامت بھارت کی آئے گی۔اس مقصد کے لیے شمالی علاقوں میں فرقہ ورانہ فسادات، خیبر پی کے میں دہشت گردی کی وارداتیں اور بلوچستان میں قومیت کی بنیاد پر فتنے کھڑے کرنے کا مقصد ہی یہ تھا۔ اس ساری صورتحال میں پاکستانی سیاستدانوں اور حکمران ادارے بری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیشن شو میں بچوں کو بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا،دوسری جانب لاکھوں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور ہزاروں بچوں کے والدین کی شہادت کے باعث وہ یتیم و بے آسرا ہوچکے ہیں شام میں صدر بشار الاسد کے آبائی صوبے لاذقیہ میں شامی وزارت سیاحت کے زیر نگرانی ایک ہفتے پر مشتمل فیشن شومنعقد...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
شام کے صدر بشار الاسد نے امریکا اور روس کی مدد سے ہونے والی جنگ بندی سے چند گھنٹے پہلے پورے شام کو دوبارہ اپنی سرکار کے زیر نگیں لانے کا عزم ظاہر کیا۔ قومی ٹیلی وژن نے دکھایا کہ اسد دمشق کے نواحی علاقے داریا کا دورہ کر رہے تھے کہ جو بہت عرصے سے باغیوں کے قبضے میں تھا اور گزشت...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا ہے کہ ترکی اب دہشت گردی کے خلاف کھلی جنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ جمعے کو کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی جانب سے حملے میں 11 افراد کی ہلاکت کے بعد اپنے بیان میں وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ترکی میں دہشت گردی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کریں گے۔ "کوئ...
شام کے شمالی علاقوں میں داخل ہونے کے ایک روز بعد ترک فوجی دستوں کے منبج شہر کے گرد امریکا کے حمایت یافتہ کرد جنگجوؤں کے خلاف حملے جاری ہیں۔ گو کہ ان حملوں کا آغاز جرابلس کے قصبے سے داعش کو نکالنے کے لیے ہوا تھا لیکن ترک حکام نے واضح کیا ہے کہ اس آپریشن کا بڑا مقصد کردوں کو کچلنا ...
چین بھی شام تنازع میں شامل ہونے کے قریب ہے۔ بیجنگ دمشق کے ساتھ قریبی فوجی تعلقات کا خواہشمند ہے اور اس بحران میں "اہم کردار ادا کرنا چاہ رہا ہے۔" چینی تربیت کاروں کی جانب سے شامی اہلکاروں کی تربیت پر گفتگو ہو چکی ہے اور اس امر پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے کہ چینی افواج شام کو ان...
روس نے پہلی بار شام میں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے لیے ایران میں موجود فضائی اڑے استعمال کیے ہیں، اور یوں مشرق وسطیٰ کے معاملات میں اپنی مداخلت کو مزید توسیع دے دی ہے۔ تہران کے ساتھ ماسکو کے تعلقات کس نہج تک پہنچ گئے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سک...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...