... loading ...
اگرچہ تاریخ لمحات میں بدل جاتی ہے، ثانیے حالات کو بدل کر انقلاب آشنا کردیتے ہیں۔ اور لمحات صدیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ، مگر پھر بھی صرف ۱۶۰سیکنڈ میں ایسا کیا ہو سکتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ۶۸ برسوں کے ۸۱۹ مہینوں اور چوبیس ہزار ۵۷۰ دنوں میں نہیں ہو سکا۔پاک بھارت وزرائے اعظم کی فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر ایک سو ساتھ سیکنڈ کی ملاقات نے اگر چہ وقتی طور پر پاک بھارت کی ماحولیات میں ایک خوشگوار تاثر پیدا کیا ہے۔ مگر تاریخ کا سبق بالکل دوسرا ہے۔ جس طرح عالمی ماحولیات پر کانفرنسوں نے عالمی ماحولیات کے مسئلے کو حل نہیں کیا اس طرح پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقاتوں نے بھی ان ممالک میں کوئی بنیادی نوعیت کا فرق پیدا نہیں کیا۔
روسی شہر اوفا میں۱۰ جولائی کو نواز مودی ملاقات میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں رواں برس ۲۳ اور ۲۴؍ اگست کو مشیروں کے مابین ملاقات طے ہوئی۔مگر پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کو بھارت بلا کر محض اس لئے ملنے سے انکار کردیا گیا کہ اُنہوں نے کشمیری قیادت سے ملاقات کیوں کی؟ بھارت نے اس تنازع کو آخری حد تک ہوا دی تھی۔اس دوران میں بھارت نے سرحدوں کو مسلسل تناؤ اور کشیدگی کی حالت میں رکھا۔ بھارتی ریاستوں میں انتخابات کو ہندو انتہا پسندی کے فروغ کے ساتھ جیتنے کی کوشش کی گئی۔ اور بھارت نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ سمیت ہر معاملے میں کنارہ کشی کی راہ اختیارکی۔ نجم سیٹھی اور شہریار خان بھارت جاکر بے عزتی کے ساتھ واپس لوٹا دیئے گیے۔ اگرچہ ان دونوں افراد کو اپنی بے عزتی سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا مگر پاکستانیوں نے اسے ایک قومی توہین کے طور لیا ۔ ہمیں اپنے اعلیٰ ترین اور نہایت ’’قابل عزت‘‘ ان کرکٹ حکام سے ابھی بھی ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ پاکستان کو اپنی عزت نہیں فائدہ دیکھنا چاہیے۔ اس کے برعکس بھارت کے ہندو انتہا پسند اداکار بھی پاک بھارت تعلقات پر ہرزہ سرائی سے باز نہیں رہے۔ انوپم کھیر کا بیان ابھی دوروز قبل کا واقعہ ہے۔یہ ایک اسی فضا تھی جس کے باعث قبل ازیں ستمبر میں اقوام متحدہ کے ۷۰ ویں اجلاس میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ایک دوسرے سے فاصلے پر رہے۔دونوں رہنماوؤں نے اس ملاقات میں ہاتھ دکھانے یا دور سے ہاتھ ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔ظاہر ہے اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھنا بالکل بجا ہے کہ اب پیرس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان اوفا کی طرز پر بات چیت کا نیا راستاکھولنے کا نیا مطلب کیا ہوگا؟
اگرچہ اس ملاقات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ایک غیر رسمی ملاقات تھی جو پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ مگر انڈین ڈیفنس ویکلی سے وابستہ راہول بیدی نے انکشاف کیا ہے کہ اس ملاقات سے قبل گزشتہ دوتین ہفتوں سے دبئی اور بینکاک میں بیک چینل ڈپلومیسی کے تحت دونوں ممالک میں بات چیت جاری تھی۔ یہ بات چیت بنیادی طور پر ایٹمی مسائل پر مرتکز تھی۔ یہ اس معاملے کا خطرناک پہلو ہے۔ جو پاکستان کے اندر عوامی بداعتمادی میں ہی اضافہ نہیں کرے گا بلکہ عسکری اور سیاسی قیادت کے تنازع میں بھی حدت لاسکتا ہے۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی قیادت بھارت کے مرہونِ منت رہ کر تعلقات کی اس جابرانہ مساوات کو فروغ دینے کی کوشش میں کیوں ہلکان ہورہی ہے؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے پاس کسی بھی معاملے میں پیش قدمی کی یا پہل کاری کی کوئی قوت نہیں۔ ایک آزاد ریاست کے طور پر یہ معاملہ ہمارے قومی وقار کو مجروح کرتا ہے۔ کرکٹ کے تعلقات سے لے کر قومی سلامتی کے مشیروں تک اور اوفا سے لے کر پیرس تک بات چیت کی پہل ، ہاتھ ہلانے یاملانے کی سبقت یا پھر مذکرات کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے سب کچھ بھارت کی پہل کاری پر منحصر ہیں۔ پاکستان اس معاملے میں صرف اپنی خواہشات اور شکایات کو بیان کرنے سے زیادہ قدروقیمت بڑھانے کے لیے تیار ہی نہیں۔ میاں نوازشریف نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد بھارت سے تعلقات کو فروغ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس کے باوجود تاحال اُن کے ہاتھ میں کچھ نہیں آ سکا۔ میاں نوازشریف نریندرمودی کی تقریب ِ حلف برادری میں جس طرح کشاں کشاں گیے اور بھارت میں اپنی سرگرمیوں کو جس بے احتیاطی سے جاری رکھا ، اس نے پاکستان کے قومی وقار کو مجروح کیا تھا۔ دو حریف ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت قومی وقار اور باہمی تاریخ کے تناظر میں تشکیل پاتی ہے۔ افسوس اس نوع کا تدبر قومی قیادت میں کسی بھی سطح پر معدوم ہے۔ اس ضمن میں بھارت کے ساتھ رابطوں کے لیے کچھ ریاستی آداب کو طے کرنے کی ضرور ت ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ملاقات اوباما اور پوٹن کے درمیان بھی تو ہوئی ۔ مگر یہ ملاقات کیسے تھی؟ کیا یہ ون ٹو ون تھی؟ مترجمین کی صورت میں دوسب سے بڑے ملکوں کے درمیان بھی کسی نہ کسی کی موجودگی یقینی رکھی جاتی ہے۔ پاک بھارت تعلقات سرگوشیوں کی نذر نہیں کئے جاسکتے۔ پاکستان کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ بھارت اس وقت جن حالات سے گزررہا ہے، اگر اُس سے پاکستان گزررہا ہوتا ، تو بھارت کیا کرتا؟
بھارتی تاریخ یہ ہے کہ وہ ایک جبر کے ماحول میں پاکستان کے ساتھ تعلقات آگے بڑھا تا ہے اور پھر اس سے نجات پاکر اپنے تمام وعدوں سے منحرف ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی حکمت عملی پاکستان کو تھکانے کی ہے۔ بھارت اب جب دنیا میں ایک کردار کے لیے کوشاں ہے اور اُسے اندرون ملک بدترین ہندو انتہا پسندی کا سامنا ہے تو پاکستان کو ایک بار پھر بھارت کو اس متضاد صورتِ حال سے نکالنے کی یکطرفہ اور بے نتیجہ مشق سے دور رہنا چاہیے۔ پاکستان کو ملاقات سے بھاگنا نہیں چاہیے مگر اپنے موقف اور حکمت عملی کو ترک بھی نہیں کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف اس عرصے میں خود پر اس اعتماد کو گنوا چکے ہیں۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...