وجود

... loading ...

وجود

ایک ’’لاجواب‘‘ تحقیق

پیر 30 نومبر 2015 ایک ’’لاجواب‘‘ تحقیق

urdu words

عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا دلچسپ انکشاف کیا کہ جس کو شہر یعنی City کہا جاتا ہے، یہ دراصل عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’مہینہ‘ جیسے شہرِ رمضان۔ پہلے تو ہمیں گمان ہوا کہ وہ شاید اپنے پروگرام کی نسبت سے مزاح فرما رہے ہیں، لیکن پھر انہوں نے بڑی سنجیدگی سے شہر (مہینہ) اور شہر بمعنیٰ آبادی میں معنوی تعلق پر دلیلیں پیش کرنا شروع کردیں۔ ان کی ایک دلیل یہ تھی کہ ایک شخص ایک ماہ کا سفر کرکے بغداد پہنچا۔ اُس نے جگہ کا نام پوچھا اور بتایا کہ وہ ایک شہر (مہینہ) کا سفر کرکے پہنچا ہے۔ وہاں ایک تیسرا شخص کھڑا تھا (خدا جانے وہ کون تھا)، وہ سمجھا کہ اس جگہ کو شہر کہتے ہیں۔ بڑی عجیب سی دلیل تھی جس کو شاید وہ خود ہی سمجھے ہوں۔ یہ تیسرا شخص کون تھا اور اسے یہ غلط فہمی کیوں ہوئی؟ کیا وہ بغداد کا تھا یا مسافر کے ساتھ آیا تھا اور عربی سے واقف تھا جسے شہر (مہینہ) کا مطلب معلوم تھا۔

آفتاب اقبال کی اس ’’آفتابی‘‘ پر اُن کے تین ساتھی ہی لطف اندوز اور ہم حیران ہوتے رہے کہ کہاں کا لفظ کہاں ملا دیا!

آفتاب اقبال اپنی اس تحقیق کے بارے میں اپنے والد ہی سے مشورہ کرلیتے۔ ٹی وی چینل کے بزرجمہروں کے پاس بھی تحقیق، تصحیح اور ردوقبول کا خاصا وقت ہوتا ہے کیونکہ یہ پروگرام براہِ راست نشر نہیں ہوتے بلکہ پہلے سے ریکارڈ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ چینل کے سارے ہی چھوٹے بڑے یا تو اس آفتابی سے متفق تھے یا مرعوب تھے۔

برخوردار کو اتنا نہیں معلوم کہ شھر بمعنیٰ مہینہ اور شہر بمعنیٰ آبادی نہ صرف یہ کہ دو الگ الگ الفاظ ہیں بلکہ ان کا تلفظ بھی مختلف ہے۔ ایک عربی کا ہے اور دوسرا فارسی کا۔ شہر رمضان یا الف شہر میں ’ش‘ پر زبر ہے، اور ’ہ‘ یا ’ھ‘ پر جزم ہے، اور یہ ساکن ہے۔ یعنی ’’شھْر‘‘ یا ’’شَہْر‘‘۔ اور فارسی کے شہر (City) میں ’ہ‘ متحرک ہے، ساکن نہیں۔ فارسی اور اردو میں شہر کے تلفظ میں ’ش‘ زبر اور زیر کے درمیان نکلتا ہے جیسے نہر، لہر وغیرہ۔ اور عربی کے شھرْ کا تلفظ نحر ہوگا۔ بنیادی فرق تو یہی ہے کہ ایک لفظ عربی کا اور دوسرا فارسی کا ہے۔ فارسی کے شہر کا مطلب سبھی کو معلوم ہے یعنی بڑی آبادی، وہ جگہ جہاں بہت سے آدمی مکانات میں رہتے ہوں اور بلدیہ کے ذریعے انتظام ہوتا ہو۔ اس شہر کے لیے عربی میں ’بلد‘ کا لفظ موجود ہے۔ قرآنِ کریم میں مکہ مکرمہ کو ’’بلدالامین‘‘ یعنی امن کا شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس لفظ کے ہوتے ہوئے عربوں کو فارسی کے ’شہر‘ پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ فارسی میں شہر کے متعدد مشتقات ہیں مثلاً شہر آشوب، شہر بدر، شہر پناہ، شہر خموشاں (قبرستان)، شہر دار، شہر یار (بادشاہ، حکمران) اور بے شمار۔ یہ محاورہ تو سنا ہی ہو گا ’’شہر میں اونٹ بدنام‘‘۔ ایک مزے کی اصطلاح ہے ’’شہر شَملہ‘‘ یعنی اندھیر نگری ، ایسا شہر جہاں انصاف کی توقع نہ ہو، اس حوالے سے ایک شعر:

دوسرا تیسرا یہ حملہ ہے
ایسا کیا سمجھے شہر شَملہ ہے

واضح رہے کہ مشرقی پنجاب کے پُرفضا پہاڑی شہر شملہ میں ’ش‘ کے نیچے زیر ہے۔ حالانکہ شہر زبردست اور بلند ہے۔ برطانوی دورِ تسلط میں یہ انگریز حکمرانوں کا گرمائی صدر مقام تھا، جس طرح مغربی پنجاب کے حکمران گرمیوں میں مری کی طرف دوڑتے ہیں۔

شہر کے ضمن میں ایک ذکر ’’شہر آشوب‘‘ کا آیا ہے۔ جاننے والے تو اس آشوب سے بخوبی واقف ہیں، لیکن ممکن ہے ہمارے نوواردانِ صحافت بلکہ خود ہمارے بچے بھی اس اصطلاح سے واقف نہ ہوں، ویسے یہ ایک کالم نگار کے کالموں کا عنوان بھی ہے۔ شہر آشوب ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی شہر کی بربادی کا حال بیان کیا گیا ہو، یا شہر کے باشندوں کی ہجو یا تعریف، شہریوں کی پریشانی اور زمانے کی ناقدری کا ذکر ہو۔

آشوب کے لفظی معنی ہیں: فساد، فتنہ، شورغوغا، آنکھ کا درد اور سرخی، جسے آشوبِ چشم کہتے ہیں۔ ایک اور چیز ہوتی ہے ’’آشوبِ آگہی‘‘ یعنی عقل کا فساد، عقل کا پیدا کردہ فتور، فتنۂ عقل۔ آشوب فارسی کا لفظ اور مذکر ہے۔ آشوبِ آگہی کی ایک مثال پیش کی جاچکی ہے۔ عزیزم آفتاب اقبال کی اس آگہی پر اس لیے توجہ دلائی ہے کہ وہ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کررہے ہیں جس سے نجانے کتنے ناظرین و سامعین متاثر ہوں گے۔ مناسب تو یہ ہو گا کہ وہ خود اپنے پروگرام میں تصحیح کرلیں اور شہر کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے اس سے رجوع کرلیں۔

اسی پروگرام میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’غلیظ‘‘ کا مطلب مضبوط، صحت مند اور طاقت ور ہے۔ بے شک یہ لفظ کثیرالمعنیٰ ہے اور یہ عموماً گندہ، میلا، پلید، کثیف، گہرا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ایک مطلب مضبوط، موٹا، دبیز بھی ہے۔ کسی گندے، سندے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے: کتنا غلیظ ہے۔ البتہ مضبوط، موٹا، دبیزکے معنوں میں اس کا استعمال عام نہیں ہے۔ اس کا دوسرا مطلب جو عام ہے، وہ ہے ’’گاڑھا‘‘۔ ان معنوں میں یہ حکیموں کے ہاں زیادہ مستعمل ہے جو مختلف غذاؤں کے خواص کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ’’بھنڈی‘‘ غلیظ ہے ۔ یعنی اس سے بننے والا خون غلیظ یا گاڑھا ہوگا۔ غلیظ سے مغلظ اور مغلظات ہے، یعنی بڑی گاڑھی قسم کی گالیاں۔ مغلَّظ میں اگر ’ل‘ پر زبر ہو تو مطلب ہے گاڑھا…… اور زیر یعنی مغلِّظ ہو تو مطلب ہوگا: گاڑھا کرنا۔

چلتے چلتے شعروں میں محاوروں کے استعمال کی بات…… محترم ملک نواز احمد اعوان نے بھارت کے ایک ادیب ضیاء احمد بدایونی کا ایک موقر مضمون ’’محاوراتِ غالب‘‘ بھجوایا ہے۔ چنانچہ تحدیث کے طور پرچند نمونے:

دانت میں تنکا لینا، خس بدنداں گرفتن کا ترجمہ ہے اور فارسی دانان ہند کی ایجاد ہے۔ ہندوستان میں قاعدہ تھا کہ جو شخص مغلوب ہوتا وہ غالب کے سامنے دانت میں تنکا دباکر حاضر ہوتا، یعنی ہم تمہاری گائے ہیں (کیا گائے دانت میں تنکا لیے رہتی ہے؟) یہ اظہارِ عجز کا طریقہ تھا۔

نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا


متعلقہ خبریں


املا مذکر یا مونث؟ اطہر علی ہاشمی - هفته 13 اگست 2016

اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...

املا مذکر یا مونث؟

تلفظ کا بگاڑ اطہر علی ہاشمی - جمعه 05 اگست 2016

اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...

تلفظ کا بگاڑ

تلفظ میں زیر و زبر اطہر علی ہاشمی - پیر 01 اگست 2016

ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...

تلفظ میں زیر و زبر

گیسوئے اردو کی حجامت اطہر علی ہاشمی - هفته 23 جولائی 2016

علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...

گیسوئے اردو کی حجامت

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘ اطہر علی ہاشمی - پیر 11 جولائی 2016

مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...

’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘

’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘ اطہر علی ہاشمی - هفته 04 جون 2016

پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...

’’پیشن گوئی‘‘ اور ’’غتربود‘‘

اعلیٰ یا اعلا اطہر علی ہاشمی - اتوار 03 اپریل 2016

سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلی...

اعلیٰ یا اعلا

فِحش یا فحش؟ اطہر علی ہاشمی - پیر 22 فروری 2016

لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...

فِحش یا فحش؟

استیصال کا دلیرانہ استعمال اطہر علی ہاشمی - اتوار 07 فروری 2016

’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...

استیصال کا دلیرانہ استعمال

’’معاملات ٹھن گئے‘‘ اطہر علی ہاشمی - منگل 08 دسمبر 2015

عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...

’’معاملات ٹھن گئے‘‘

’’لیے‘‘ اور ’’لئے‘‘ کا آسان نسخہ اطہر علی ہاشمی - منگل 24 نومبر 2015

اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام ...

’’لیے‘‘ اور ’’لئے‘‘ کا آسان نسخہ

اردو میں لٹھ بازی اطہر علی ہاشمی - بدھ 11 نومبر 2015

چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا...

اردو میں لٹھ بازی

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر