... loading ...
چیف جسٹس کے خیالات سنے تو جالب یاد آیا ۔ اس نے کہا تھا ….
بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا عدالتی نظام آزمودہ اور مستند ہے ، اس میں کوئی بڑی خامی نظر نہیں آتی لیکن ملک کو آج تک ایسی قیادت نہیں ملی جو لوگوں کے ہجوم کو ایک قوم بنا کر آگے لے جاتی، اسی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں ۔کس کی مجال ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کی رائے سے اختلاف کرے مگر نادان شاعر کا ’’نوٹس برائے طلبیٔ توجہ‘‘ ملا حظہ ہو ۔
جس عدالتی نظام میں برطانیا کے ہائی کمشنر دستاویزات کے ’’ٹوکر ے‘‘گاڑی میں لدواتے ٹی وی پر دکھائے جائیں اور آصف زرداری ثبوت نہ ہونے پر ’’باعزت‘‘بری کر دئیے جائیں، ائیرپورٹ کے احاطے میں لاکھوں ڈالرز لئے پکڑی جانے والی ماڈل ایان کی رقم کو مسجد کی تعمیر کا چندہ سمجھ کر اسے ضمانت دے دی جائے ، ایفی ڈرین کیس کی فائلوں کو دیمک لگ جائے مگر فیصلے نہ ہو سکیں، رانا مشہود کی کرپشن کی ٹیپ اصلی ثابت نہ ہو سکے، عدالت کے روبرو مقتول بیٹیکی ماں کہے کہ انصاف اﷲ سے لوں گی اس عدالتی نظام میں کوئی خامی ہی نہیں دکھائی دے رہی ۔ حیرت ہے جناب ِوالا۔
جناب جسٹس انور ظہیر جمالی نے مزید فرمایا کہ ارباب اختیار کو چاہیے کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات کریں ۔ انہیں وضاحت کر دینی چاہیے تھی کہ یہ صرف ایک مشورہ ہے ورنہ خدشہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس میں کہیں پھر ہنگامہ کھڑا نہ ہو جائے اور محمود خان اچکزئی ’’دو شریفوں‘‘ کے درمیان اپنی ترجیحات کے اعلان کردہ دائرہ کار کو مزید وسیع نہ کردیں۔
اس خطاب کے اگلے روز ملک میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دئیے گئے ان کے ریمارکس بھی نمایا ں طور پر اخبارات کی زینت بنے۔ انہوں نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں پیش رفت کے دعوؤں پر مبنی صوبائی حکومتوں کی رپورٹس کومسترد کیا۔ وہ تب زیادہ برہم ہوئے جب ڈی جی ماحولیات خیبر پختونخواہ نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ صوبے میں سیوریج ٹریٹمینٹ پلانٹس لگائے گئے تھے مگر ان میں سے چند فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں ۔یہ منصوبہ ایشائی ترقیاتی بینک کی معاونت سے جاری تھا ۔ چیف جسٹس نیکہا کہ پہلے منصوبوں کی تکمیل کیلئے قرض لیا جاتا ہے پھر ان کو چلانے کے لئے بھی قرض لیا جاتا ہے ، اے ڈی بی کب تک ہمیں قرضہ دیتا رہے گا ،ملک قرضوں پر چلایا جا رہا ہے ،کیا ہمیشہ بھیک مانگ کر ہی گزارہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کراچی میں جا بجا لگے کچرے کے ڈھیروں کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ کراچی میں روزانہ کچرے کے ڈھیروں کو آگ لگائی جاتی ہے۔ آج تک کسی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی،بلدیاتی اداروں میں گھوسٹ ملازمین کی بھر مار ہے ،بڑی مچھلیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا ۔ان ریمارکس کے بعد کیس کی مزید سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی ۔
نجانے اب کتنے جنوری آئیں گے اور گزر جائیں گے ، کچروں کے ڈھیر جلتے رہیں گے اور سردی کے مارے ان پر ہاتھ تاپتے رہیں گے ۔
یہ مقدمہ پہلے ہی 2003ء سے زیر التواء ہے ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مقدمات اتنا طول کیسے پکڑتے ہیں ، یوں لگتا ہے جیسے یہ ایک باقاعدہ ’’سائنس‘‘ ہے ، کچھ درد کے ماروں کا تو مشورہ ہے کہ اب ایل ایل بی کے نصاب میں ’’قانونی اخلاقیات ‘‘ کے حوالے سے بھی کوئی مضمون اُسی طرح شامل کر لینا چاہیے جیسے طب کے شعبے کو انحطاط سے بچانے کیلئے ’’میڈیکل ایتھکس‘‘ یعنی طبّی اخلاقیات کو شامل کیا گیا ہے۔ تاکہ وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے خواہشمند وں کو اپنے مؤکلین کے مقدمات جلد از جلد نتیجے تک پہنچانے کی ترغیب دی جائے ۔
عدالت کا بنیادی تصور زمانہ قبل مسیح سے بنی نوع انسان کی معاشرت کا حصّہ ہے ، حضرت عیسی ؑ کی پیدائش سے 380سال قبل لکھا گیا افلاطون کا مکالمہ’’ریپبلک‘‘یعنی جمہوریہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ،اس طنزیہ مکالمے کا ایک کردار خود سقراط تھا جو شریک کرداروں سے انصاف کی درست تعریف پر مباحثہ کرتا ہے ۔ اس مکالمے کو قدیم یونانی فلسفے کا اہم ترین ستون تصور کیا جاتا ہے جس کے ذریعے مغرب کو انصاف کے سنہری اصولوں کا ادراک ہوا ، اس مکالمے کا پلاٹو یعنی افلاطون کے اپنے ہاتھوں سے تحریر کردہ اصل مسودہ آج بھی پیرس کے میوزیم میں حفاظت سے موجود ہے ۔ مغرب کو اس فکر کی رہنمائی میں آگے بڑھنے میں پھر بھی کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس لگے تب جاکر وہ 1215ء میں میگناکارٹا تک پہنچے جبکہ اشاعت ِ اسلام کے بعد قاضی کا ادارہ ساتویں صدی میں ہی قائم ہو گیا تھا اور یہاں انصاف کے وہ پیمانے مقرر ہوئے جن سے آگاہی حاصل ہونے پر دل عش عش کر اٹھتا ہے ۔
امیر المومنین حضرت علی ؓ کے روبُرو مقدمہ پیش ہوا ، دوفریقین حاضر ہوئے ، ایک کا دعویٰ تھا کہ دوسرے نے اسکا حق مارا ہے ، استفسار پر ماجرا کچھ ہوں معلوم ہوا کہ دونوں حالتِ سفر میں تھے کہ بھوک لگی دسترخوان بچھایا گیا ، اپنے اپنے ڈبّے کھولے گئے ، ایک کے پاس 3روٹیاں تھیں جبکہ دوسرے کے پاس 5۔ ابھی کھانا شروع بھی نہ کیا تھا کہ قریب سے ایک اجنبی مسافر گزرا ،دونوں نے اسے بھی شریک طعام ہونے کی دعوت دی سو وہ بھی شامل ہو گیا ،تینوں افراد نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور اﷲ کا شکر ادا کیا ، اجنبی مال دار تھا اس نے دونوں افراد کو تحفتاً 8دینار عطا کئے اور چل پڑا، جس کے پاس 5روٹیاں تھیں دینار اس کے ہاتھ میں تھمائے گئے۔ اس نے بخوشی 3دینار اپنے ساتھی کو دے دئیے مگر دوسرا اس پر راضی نہ تھا ، اس کا کہناتھا کہ ہم نے مسافر کو برابر برابر کھلایا ہے لہذاتقسیم مساوی ہونی چاہیے ، سو معاملہ قاضی کے روبرو جا پہنچا۔ امیر المومنین نے پوری بات سنی پھر گویا ہوئے۔
کھانا تم تینوں نے برابر کھایا؟
دونوں نے بیک زبان جواب دیا جی ہاں۔
مدینتہ العلم کے اس باب نے پھر فیصلہ صادرفرمایا ۔
’’تمہارے پاس کل 8روٹیاں تھیں جس میں تم نے تینوں نے کھایا یعنی ہر روٹی کے 3ٹکڑے، اس طرح کل 24ٹکڑے ہوئے اور ہر ایک کے حصّے میں 8ٹکڑے آئے ، اس حساب سے جس کی 3روٹیاں تھیں اس نے اپنی 3روٹیوں میں سے ہونے والے 9ٹکڑوں میں سے 8تو خود کھالئے اور مسافر کو صرف ایک ٹکڑا دیا جبکہ جسکی 5روٹیاں تھیں اس نے اپنی روٹیوں میں سے 7ٹکڑے مسافر کو کھلائے مگر یہ اس کا حسنِ ظن تھا کہ وہ ایک ٹکڑا کھلانے والے کو بھی 3دینار دے رہا تھا ، انصاف یہ ہے کہ ایک ٹکڑا کھلانے والے کو صرف ایک دینا رملے گا ۔‘‘
دونوں فریقین فیصلہ سن کر چپ ہولئے کیونکہ انصاف کا تقاضا کیا ہے دعویدار جان چکا تھا ، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتے ہوئے دِکھنا بھی چاہیے۔ مغرب نے تو یہ مقولہ بھی اختیار کیا کہ انصاف میں تاخیر خود نا انصافی ہے ۔ یہ مقولہ عثمانی شہنشاہ سلطان سلیمان کی ریاست کے ایک قاضی کی عدالت میں بطور مبصّر شریک ہونے والے ایک مغربی ملک کے سفیر نے اپنے بادشاہ کو لکھے گئے مکتوب میں تحریر کیا تھا ۔ وہ سفیر سلطان سلیمان کے عدالتی نظام کا جائزہ لینے کی غرض سے باضابطہ شاہی اجازت نامہ حاصل کرکے عدالتی کارروائی میں شریک ہوا اور ایک ہی روز میں ہر مقدمے کا حتمی فیصلہ ہوتے دیکھ کر دنگ رہ گیا ، اس نے اپنی ریاست کو لکھا کہ سلیمان دی گریٹ کا نظام ِ انصاف حیرت انگیز اور قابل ستائش ہے ۔ہمیں بھی اسکی تقلید کرنی چاہیے اور عدالتی کارروائیوں میں بے جا طوالت سے احتراز برتنا چاہیے۔ تنزلی دیکھئے آج مغرب کے تیز رفتار عدالتی نظام کو ہم رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہماری عدالتوں کی سیڑھیوں پر جوتیاں چٹخانے والوں کو دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ، ہمارے یہاں تو اکثر بڑے بوڑھے یہ جملہ ضرب المثل کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ ’’اﷲ کورٹ کچہری سے بچائے‘‘ پھر زور سے ’’آمین ‘‘ کہتے ہیں۔
چیف جسٹس کی نیت پر نون لیگ والوں اور محمود اچکزائی کے سوا کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے مگر بقول شاعر
چیف جسٹس کو اس عدالتی نظام میں کوئی خامی نظر نہیں آتی مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہماری عدالتوں کے احاطوں سے باہر آتا ہر طاقتور اور مالدار شخص مسکراتے ہوئے وکٹری کا نشان کیو ں بناتا ہے۔ امید ہے وہ اپنے اگلے کسی خطاب میں اس پر بھی روشنی ضرور ڈالیں گے ۔
افسوس ہمارا عدالتی نظام آج بھی ویسا ہی ہے جیسا ری پبلک کے کردار تھراسی میخوس نے سمجھا تھا ۔ اس نے کہا تھا
“Justice is the intrest of the strong, merely a name for what the powerful has imposed on the people”
گویا …’’انصاف محض اس شے کا نام ہے جو طاقتور لوگ اپنے مفاد میں عام لوگوں پر لاگو کرتے ہیں۔‘‘
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...
طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...
ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...
بالآخر ایک طویل اور تھکا دینے والے انتظار کے بعد چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن پر حکومتی درخواست کوایک نہایت موزوں جواب کے ساتھ حکومت کو واپس لوٹا دیا ہے۔عام طور پر حکومت کی طرف سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پر اعلی عدلیہ کے اعلی ترین شخصیت کی جانب سے ہمیشہ مثبت جواب دیا جاتا ہے۔...
عدالت عظمیٰ کے منصف اعلی انور ظہیر جمالی ترکی کے دورے کے بعد وطن واپس پہنچ گیے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کمیشن کے قیام کے لیے منصف اعلیٰ کے نام لکھے گیے خط پر اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں کوئی بھی فیصلہ متوقع ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے 22 اپریل کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کم...
پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل کی حکومتی درخواست پر فیصلہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی وطن واپسی کے بعد ہوگا۔ یہ اعلان قائم مقام چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی حلف برداری کے تقریب کے بعد کیا اور کہا کہ ان کے پاس عدالتی کمیشن بنانے کے اختیارات نہیں ہیں۔ کم...
اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔ ’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘ بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ...
ایک نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کر سکتا ہے ، اسکی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کیلئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، نشئی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء ...
فیض حیات ہو تے تو کہتے .... آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہا...
یہ کہانی اسلام آباد کے میلوڈی پارک سے شروع نہیں ہوتی۔ یہ لاہور کی زنانہ جیل کے ڈیتھ سیل سے بھی شروع نہیں ہوتی البتہ اس جیل کا صدر دروازہ وہ مقام ضرور ہے جہاں سے کہانی میں’’ ٹوئسٹ‘‘ آیا۔ کہانی شروع ہو تی ہے لاہور سے 30میل دور پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے نواحی علاقے’’اِتا...