... loading ...
پرانے وقتوں میں انگریزی لغت میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی تھی جسے False Flags Attack کہا جاتا تھا پرانے زمانے میں بحری جنگی جہاز لکڑی کے ہوا کرتے تھے جب ایک جہاز دشمن ملک کے جہاز پر حملہ کرنے لگتا تو وہ اپنے ملک کا جھنڈا اتار کر دشمن ملک کا جھنڈا لہرا دیا کرتا تھا تاکہ دیکھنے والے دھوکہ کھا جائیں۔ دوسرا جہاز اسے اس وجہ سے قریب آنے دیتا تھا کہ وہ اسی کے ملک کا جہاز ہے لیکن قریب آتے ہی دھوکے سے اس پر اچانک حملہ کردیا جاتا تھا۔ بعد میں اپنے سیاسی مخالفین اور کمزور دشمن ملکوں پر حملوں کے لئے یہ طریقہ واردات استعمال کیا جانے لگا کہ خود ہی اپنے مفادات پر حملہ کرکے اس کا الزام دشمن ملک پر لگا دیا جاتاتاکہ اس پر فوج کشی کا جواز حاصل کر لیا جائے۔ آج بھی یہ واردات پوری شدومد سے ڈالی جاتی ہے بس اس کے طریقہ کار تبدیل کردیئے گئے ہیں
اس قسم کی کارروائی کی معلوم تاریخ میں ہمیں اولین مثال روم کی ملتی ہے جب 19جولائی 64 عیسوی میں سلطنت روما کا دارالحکومت روم کا دو چوتھائی حصہ آگ میں جل کر خاکستر ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے ایک ضرب المثل بھی مشہور ہوئی کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ لیکن درحقیقت اس کے پس پردہ عوامل کچھ اورتھے۔ رومی شہنشاہ نیرو رومی دارالحکومت روم میں 300 ایکٹر پر مشتمل ایک نیا شاہی کمپلکس بنانا چاہتا تھا جس میں نئے عالی شان محلات اور دیگر عمارتیں شامل ہوتیں اور اس کمپلکس کو ’’نیروپولس‘‘ کا نام دیا جانا تھا۔ اس مقصد کے لئے جب اس نے رومی سینیٹ سے منظوری کے لئے کہا تو سینیٹروں نے صاف انکار کردیا۔ جس کے بعد ایک روز اچانک روم میں پراسرار طور پر آگ بھڑک اٹھی اور روم کا دو چوتھائی حصہ جل کر صاف ہوگیا۔ روم کے چودہ میں سے چار ڈسٹرکٹس زمین کے ساتھ مل گئے جبکہ باقی سات کو بری طرح نقصان پہنچا۔ اس حادثے کا الزام عیسائی اقلیت پر لگا دیا گیا اور اس کے بعد انہیں ہولناک سزائیں دی گئیں۔ سینٹ پیٹر (پطرس) کو مصلوب کردیا گیا اور سینٹ پال (پولس) کی گردن مار دی گئی۔ عام عیسائیوں کو رومی اسٹیڈیم میں درندوں کے سامنے ڈال دیا گیا اور آخر میں نیرو نے اپنی مرضی کی تعمیرات بھی کروا لیں یوں ایک تیر سے کئی شکار کھیلے گئے جبکہ روم کا عام شہری بھی اس بات سے واقف تھا کہ روم کی آگ نیرو نے خود لگوائی تھی۔۔۔
معلوم نہیں کیوں نائن الیون کے بعد پیرس کے موجودہ حملے بھی اور صرف داعش پر الزام تراشی کا معاملہ آسانی سے دنیا کو ہضم ہوتا محسوس نہیں ہورہا۔ فرانسیسی صدر اولاندو نے داعش کے اعتراف سے پہلے ہی داعش کی جانب انگلی اٹھا دی تھی اس طرح نائن الیون کا وہ واقعہ یاد آگیا جب نائن الیون حملوں سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے صدر بش کو تعزیتی فیکس کردیا تھا ۔۔۔۔۔!!
پیرس حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے ایک مرتبہ پھر یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کو نئے چیلنجوں سے دوچار کردیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ حملے انسانیت کے خلاف حملے تصور کئے جائیں گے لیکن اس آگ کو پیرس تک پہنچانے میں کن عناصرکا زیادہ کردار ہے اس جانب زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب پیرس حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کرلی ہے یہ وہ دولت اسلامیہ ہے جو آج سے پہلے داعش کہلاتی تھی یعنی ’’دولت اسلامیہ عراق اور شام‘‘ لیکن اب یہ اپنے آپ کو عراق اور شام سے بھی ماوراء لے آئی ہے اس لئے اب نئے پیغامات میں داعش کی بجائے دولت اسلامیہ کا نام استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ شام اور عراق میں برطانیہ سے بڑے رقبے پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کے بعد یہ تنظیم اب مزید تیزی کے ساتھ پیش قدمی کررہی ہے۔ عرب ذرائع کے مطابق اس وقت امریکا اور امریکا سے زیادہ یورپ میں اس کے ’’خوابیدہ سیلز‘‘ زیادہ متحرک ہورہے ہیں تو دوسری جانب اس کے قدم افغانستان تک آگئے ہیں۔ دولت اسلامیہ کے عزائم اور اس کی صورت گیری میں کیا عوامل شامل ہیں اس پر بعد میں بات کرتے ہیں لیکن پہلے پیرس حملوں کا دولت اسلامیہ کے بعد کون سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے اس جانب آتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ یورپ کے ساحل پر ایک ننھے شامی بچے کی لاش نے دنیا میں گویا کہرام مچا دیا تھا جس کے بعد چار و ناچار بہت سے یورپی ممالک کو اپنی سرحدیں شامی مہاجرین کے لئے کھولنا پڑیں۔ اس کے فورا بعد یورپ کے میڈیا میں اس قسم کے تجزیے بھی آنا شروع ہوگئے کہ ان مہاجرین کی آڑ میں بہت سے انتہا پسند بھی مغرب میں داخل ہورہے ہیں جن سے یورپ کے سلامتی کے امور متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ دوسری جانب غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف بھی یورپ میں عوامی سطح پر سخت ردعمل پایا جاتا تھا اور یورپی یونین میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بل بھی پیش کرنے کی بات چل نکلی تھی جس میں فرانس نے بھی حمایت کی تھی اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فرانس کو دھمکی دی تھی کہ فلسطینیوں کی حمایت فرانس کو مہنگی پڑے گی۔۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ پیرس حملوں کے نتیجے میں اسرائیل فرانس سمیت یورپ کے دیگر ممالک کی دوبارہ ہمدردیاں سمیٹنے کی تیاری کررہا ہے۔ تیسری جانب وہ مغربی صیہونی قوتیں ہیں جو چاہتیں تھیں کہ دیگر مغربی ممالک شام کی عسکری مہم میں داعش کو کچلنے کی آڑ میں اپنا زیادہ حصہ ڈالیں اپنے مقاصد میں زیادہ کامیاب ہوتی محسوس ہورہی ہیں۔ کیونکہ فرانس نے سب سے پہلے شام میں عسکری کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی بھرپور کوشش ہے کہ روس کے شامی جنگ میں شامل ہونے کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کے اندر دولت اسلامیہ کی جانب سے سخت ردعمل دکھایا جائے جیسا کہ چند برس قبل ماسکو اور روس کے دوسرے بڑے شہروں میں چیچن جنگجوؤں کے ہاتھوں ہوتا رہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں روسی لقمہ اجل بنے تھے۔اس حوالے سے مغربی میڈیا یہ بھی دعوی کررہا ہے کہ دولت اسلامیہ کی جانب سے فرانس کے علاوہ روس اور برطانیا کو بھی اس قسم کی دھمکیاں ملی ہیں۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو امریکا، یورپ اور اسرائیل کا ریکارڈ کافی خراب ہے کہ وہ ماضی میں اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے حصول کے لئے خود ایسے حملے کرواتے رہے ہیں اور ان کا الزام ایسے ملک پر ڈالتے رہے ہیں جن کے خلاف کارروائی کرنا مقصود ہو۔
اس کی چند مثالیں اس طرح ہیں کہ سوویت لیڈر خروشیف نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ 1939ء میں سوویت فوج نے روسی گاؤں مینلا پر حملہ کرکے اس کا الزام فن لینڈ پر لگایا تھا جس کے نتیجے میں ’’ونٹر وار‘‘ لڑی گئی تھی بعد میں روسی صدر بورس یلسن نے بھی اس اعتراف کو صحیح قرار دیا تھا۔ موجودہ روسی صدر پوٹن، روسی پارلیمنٹ اور سابق سوویت لیڈر گورباچوف نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ سابق سوویت لیڈر اسٹالن نے 1940ء میں بائیس ہزار پولیش فوجی افسروں کو قتل کروایا تھا تاکہ اس کا الزام نازی جرمن پر لگایا جائے۔برطانوی حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ 1946ء سے 1948ء کے درمیان فلسطین جانے والے یہودیوں کے پانچ جہازوں پر اس نے حملے کروائے تھے تاکہ اس کا الزام فلسطینیوں پر لگایا جاسکے اور یہودیوں کو عالمی ہمدردیاں مل سکیں۔ اسرائیل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ 1954ء میں اس نے مصر میں ایک دہشت گرد گروپ تشکیل دیا تھا جس کا کام امریکا، برطانیا اور عرب ملکوں کے مفادات کے خلاف حملے کرنا تھا تاکہ اس کا الزام اخوان المسلمون پر لگایا جاسکے۔ امریکی سی آئی اے نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے بہت سے ایرانیوں کو بھرتی کرکے انہیں کمیونسٹ انتہا پسندوں کے روپ میں ایران میں امریکا اور برطانیا کے مفادات کے خلاف کارروائیاں کروائیں تاکہ اس کا الزام اس وقت کی سوویت نواز قوم پرست مصدق حکومت پر لگا کر انقلاب کی راہ ہموار کی جائے۔
گزشتہ صدی کے شروع تک ہسپانوی ایمپائر بلا شبہ دنیا کی سب سے بڑی گلوبل ایمپائر تصور کی جاتی تھی جس کے اقتدار کا اثرورسوخ فلپائن سے لیکر امریکا کے جغرافیائی پہلو کیوبا تک تھا۔کیوبا میں تمباکو، لوہے اور چینی کی صنعت امیر امریکیوں کے ہاتھ میں تھی جبکہ یہاں بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بھی امریکی ہی تھے۔جس کی مالیت اس وقت 50ملین ڈالر کے قریب تھی جو آجکل تقریبا 1.2بلین ڈالر کے مساوی ہے۔ 1898ء تک ہسپانوی ایمپائر کے لئے اپنی دوردراز کی کالونیوں پر قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا تھایہی صورتحال کیوبا کی تھی جہاں پر ان حالات میں کئی چھوٹے انقلاب بھی آئے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرہ امریکی سرمایہ داروں کو ہوا اس لئے امریکہ نے ہسپانیہ کی عالمی چولیں ہلانے کا منصوبہ بنایا تاکہ کیوبا کو اپنے رسوخ میں لیا جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکی میڈیا نے (جو اس وقت اخبارات تک محدود تھا) ایک اودھم مچا دیا جس میں ہسپانیہ کی حکومت کو انسان دشمن حکومت قرار دیا جانے لگا اس کے مقبوضات میں انسانیت سوز ی کے جھوٹے واقعات بیان کئے جانے لگے۔ اس سلسلے میں اس وقت کے دوبڑے اخباری مالکان اور اخبار نویس Joseph Pulitzer اور William Randolph Hearst پیش پیش تھے جنہوں نے کیوبا کے بارے میں بھی فرضی کہانیاں گھڑیں کہ کیوبا میں خانہ جنگی ہورہی ہے۔ ہسپانیوں حکومت نے ظلم کا بازار گرم کررکھا ہے لیکن جب انہی اخبار مالکان کا ایک رپورٹر Frederick Remington کیوبا جاتا ہے تو وہ پہلی رپورٹ وہاں سے یہ ارسال کرتا ہے کہ’’ یہاں تو کوئی جنگ نہیں ہے!! ہر طرف حالات معمول کے مطابق ہے‘‘ اس کے جواب میں اس کے مالکان یہ مشہور جواب ارسال کرتے ہیں ’’ تم وہاں کی تصویر کشی کرتے جاؤ ہم یہاں جنگ کی راہ ہموار کرتے ہیں‘‘ اس طرح دھوکے پر مبنی رپورٹوں کی بنیاد پر امریکا کی مالیاتی مافیاز نے اس وقت کے جنگ مخالف امریکی صدر William McKinley پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا کہ کیوبا میں ہماری بے پناہ سرمایہ کاری کو تحفظ دیا جائے جس پر مجبور ہوکر امریکی صدر نے امریکی جنگی بحری جہاز USS Maine کو کیوبا میں ہوانا کی بندرگاہ کی جانب روانہ کردیا ۔اپنی آمد کے تین ہفتے بعد یعنی15فروری 1898ء میں امریکی جنگی بحری جہاز USS Maine پراسرار دھماکے سے تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 266امریکی میرین مارے گئے۔بعد میں آزادانہ تحقیقات سے ثابت ہوگیا کہ اس واقعے میں ’’اندر کا ہاتھ‘‘ ملوث ہے لیکن اس وقت امریکا کے مرکزی اخبارات نے اس کا الزام ہسپانیہ پر لگا کر طبل جنگ بجا دیا ۔اپریل کے مہنے میں اس وقت کے امریکی صدرMcKinley نے کانگریس کی جنگی قرارداد پر دستخط کردیئے۔ اس جنگ کے اخراجات میں مدد کے لئے امریکی کانگریس نے زیادہ فاصلے کی ٹیلی فونک کالوں پر تین فیصد ’’عارضی‘‘ ٹیکس لگا دیا۔ بنیادی طور پر یہ ٹیکس امیر امریکیوں پر لگایا گیا تھا کیونکہ 1898ء میں ٹیلی فون 1300امریکیوں کے زیر استعمال تھا ۔ بہرحال امریکا ہسپانیہ جنگ 1898ء میں ہی ختم ہوئی لیکن یہ ’’عارضی ٹیکس‘‘ 2005میں ختم کیا گیا،یوں اس 107سال پرانے ٹیکس سے امریکا کی صیہونی انتظامیہ نے 94بلین ڈالر کمائے جو اس وقت کے جنگی اخراجات سے 230گنا زیادہ تھے۔ کیوبا کے مسئلے پریہ جنگ ہسپانیہ کے عالمی اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔یوں اس جنگ سے نہ صرف کیوبا بلکہ فلپائن، جزائر ہوائی، پورٹو ریکو اور گویام پر بھی امریکی تسلط قائم ہوگیا۔۔۔
سابق اطالوی صدر، پارلیمنٹ، انٹیلی جنس چیف اورایک جج نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ نیٹو نے امریکی سی آئی اے اور پینٹاگون کی مدد سے اٹلی میں دہشت گردی کی بڑی وارداتیں کروائی تھیں تاکہ ان کا الزام فرانس اور اٹلی کی کمیونسٹ پارٹیوں پر لگایا جائے اور آئندہ انتخابات میں انہیں شکست دی جاسکے، اس سلسلے میں بی بی سی کی ایک سپیشل رپورٹ میں بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ سی آئی اے، نیٹو اور اطالوی انٹیلی جنس نے کمیونسٹوں کو بدنام کرنے کے لئے فرانس، ڈنمارک، جرمنی، یونان، ہالینڈ، برطانیا، ناروے اور پرتگال میں دہشت گردی کی وارداتیں کروائی تھیں۔1960ء میں ایک امریکی سینیٹر جارج سماتھر نے امریکی حکومت کو خفیہ مشورہ دیا تھا کہ کیوبا پر حملے کے لئے ضروری ہے کہ گوانٹانامو بے میں امریکی مفادات پر حملہ کروا دیا جائے۔حال ہی میں امریکی خفیہ دستاویزات کے افشاء ہونے پر معلوم ہوا ہے کہ 1962ء میں امریکی چیف آف آرمی اسٹاف نے ایک پلان پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ اس پلان کے مطابق ایک امریکی ایئر لائن کا جہاز فضا میں تباہ کرنا مقصود تھا۔ اس کے ساتھ ہی امریکی سرزمین پر دہشت گردی کی وارداتیں کروا کر اس کا الزام کیوبا پر لگانا تھا تاکہ کیوبا پر امریکی حملے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ انہی دنوں امریکی وزارت دفاع کی جانب سے ایک اور پلان بنایا گیا تھا جس کے مطابق فیڈل کاسترو کی کابینہ کے اہم وزیر کو رشوت دے کر اس بات پر تیار کرنا تھا کہ وہ کاسترو پر دباؤ ڈال کر امریکی سرزمین پر حملے کے لئے فضا ہموار کرے۔ امریکا کے ادارے برائے سماعتی جاسوسی NSAکے سابق عہدیدار نے اعتراف کیا تھا کہ 1964ء میں جان بوجھ کر خلیج ٹنکن میں ہونے والے واقعات کے بارے میں جھوٹ بولا گیا تھا تاکہ ویت نام پر امریکی حملے کی راہ ہموار کی جاسکے۔اسرائیلی موساد کے ایک ایجنٹ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 1984ء میں موساد کسی نہ کسی طرح لیبیا کے لیڈر قذافی کے کمپاؤنڈ میں ایک ٹرانسمیٹر نصب کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی پھر اس کے بعد اس ٹرانسمیٹر کے ذریعے یورپ کی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے قائم کئے جاتے تھے تاکہ دنیا میں یہ ثابت کیا جاسکے کہ قذافی یورپ میں دہشت گردی کی وارداتوں کے لئے خود احکامات دیتا ہے۔ اس کارروائی کے بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے لیبیا پر بمباری کا حکم دے دیا تھا۔
ایک الجزائری سفارتکار نے حال ہی میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 1990ء میں الجزائر کے فرانسیسی حمایت یافتہ جرنیلوں نے الجزائری عوام کا خفیہ طریقے سے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا اور اس کا الزام الجزائر کی سیاسی اسلامی جماعت اسلامک فرنٹ پر لگایا گیا۔بالی کے مشہور زمانہ حملے کے حوالے سے انڈونیشیا کے سابق صدر نے بیان دیا تھا کہ ’’اس کارروائی میں حکومت کا ہاتھ ہوسکتا ہے‘‘۔
بی بی سی، نیویارک ٹائم اور ایسوسی ایٹیڈ پریس کی مشہور رپورٹ کے مطابق میسوڈنیہ کے حکام نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے بے گناہ سات مسلمان تارکین وطن کو جان بوجھ کر اس لئے قتل کروایا تاکہ ان پر الزام عائد کیا جاسکے کہ انہوں نے ایک پولیس چوکی پر حملے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح میسوڈنیہ کی حکومت کو بھی عالمی سطح پر’’وار آن ٹیرر‘‘میں شامل کرلیا جائے گا۔ روس کے سینئر انٹیلی جنس حکام نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 1999ء میں روسی خفیہ ایجنسی KGB نے ایک بڑے روسی اپارٹمنٹ کو دھماکے سے اڑا دیا تھا تاکہ اس کا الزام چیچن مجاہدین پر لگا کر چیچنیا پر فوج کشی کی راہ ہموار کی جاسکے۔
امریکہ کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی ایف بی آئی نے اعتراف کیا ہے کہ 2001ء میں انتھراکس حملے درحقیقت انتہا پسندوں نے نہیں بلکہ امریکی انٹیلی جنس کے ادارے کے ایک سائنسدان کا کمال تھا تاکہ اس کا الزام القاعدہ پر لگایا جائے اور بعد میں وائٹ ہاؤس نے القاعدہ کو مورد الزام ٹھہرا دیا۔ایف بی آئی حکام نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی خواہش تھی کہ انتھراکس حملوں کو عراق کے ساتھ جوڑ دیا جائے تاکہ اسے وہاں حکومت کی تبدیلی کے کام لایا جاسکے۔
بہت سے امریکی حکام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نائن الیون کے ڈرامے کے بعد بہت سے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ان میں سے ایک یہ ہے کہ سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی نے الزام لگایا کہ القاعدہ اور صدام انتظامیہ کے درمیان قریبی روابط کے شواہد مل چکے ہیں لیکن اسے کبھی کسی عالمی فورم پر ثابت نہیں کیا جاسکتا، یہ بھی الزام لگایا گیا کہ نائن الیون کے ہائی جیکروں کا صدام حکومت کے ساتھ رابطہ تھا لیکن امریکی حکام اب اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اس الزام کو بھی کبھی ثابت نہیں کیا جاسکا۔اس کے بعد صدام پر ہلاکت خیز ہتھیار بنانے کا الزام عائد کیا گیا لیکن آج سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر خود دنیا کے سامنے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ عراق پر حملہ غلط معلومات کی بنا پر کیا گیا۔
2009ء میں لندن میں ہونے والی G9 کانفرنس میں ایک برطانوی پارلیمانی رکن نے دیکھا کہ برطانوی پولیس کے کچھ لوگ سادہ لباس میں پرامن مظاہرین کے ساتھ شامل ہیں اور یہ پولیس ارکان توڑ پھوڑ کررہے ہیں تاکہ مظاہرین کو طاقت کے ذریعے منتشر کرنے کی کارروائی ہوسکے۔ مصر کے بعض حکام نے اس بات کا الزام عائد کیا ہے کہ 2011ء میں تحریر اسکوائر میں مظاہروں کے دوران حکومتی ارکان نے قاہرہ میوزیم میں قیمتی نوادرات لوٹ لئے تھے تاکہ اس کا الزام تحریر اسکوائر کے مظاہرین پر لگایا جاسکے۔
ان چند مثالوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مغرب ان دہشت گردی کی کارروائیوں کو کس طرح اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اب ہم داعش کی ہیت ترکیبی کی جانب آتے ہیں ۔ جس وقت جھوٹے الزامات کی بنیاد پر امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحادیوں نے افغانستان کے بعد عراق پر لشکر کشی کی تو امریکیوں کا خیال تھا کہ صدام کی فوج اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی بلکہ اس کا استقبال کرے گی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ام القصر میں مختصر جنگ کے بعد لاکھوں کی تعداد میں صدام حسین کی فوج اچانک منظر سے غائب ہوگئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس فوج کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ اس میں عام عراقی فوج کے ساتھ ساتھ اعلی تربیت یافتہ دو لاکھ سے زائد عراقی نیشنل گارڈ بھی تھے جن کا کہیں پتہ نہیں چلا تھا۔ صدام دور کا زبردست قسم کا انٹیلی جنس نظام بھی اپنی جگہ سے غائب تھا۔ صدام کے زمانے کی فوج کا مطلب عراق کی سنی فوج ہے۔ داعش کے ظہور سے پہلے اس بات کا شبہ تک نہیں تھا کہ صدام دور کی فوج کا بڑا حصہ شمالی عراق اور شمالی کی جانب سے موصل سے اوپر کے قفقازی علاقوں میں خاموشی سے منتقل ہوگیا تھا ۔ اس سلسلے میں ہم بہت پہلے اس بات کا اظہار کرچکے تھے کہ بعض اہم عرب صحافتی ذرائع کے مطابق صدام کی فوج نے بھاری اور جدید اسلحے کے بڑے ذخائر عراق میں جگہ جگہ زیر زمین ڈمپ کردیئے تھے جس کی خبر کسی کو نہیں تھی۔اب جس وقت شمال کی جانب سے داعش کا ظہور ہوا تو دنیا کافی بعد تک اس بات سے بے خبر رہی کہ داعش کا آپریشنل سسٹم درحقیقت صدام دور کی فوج کے ہاتھ میں ہے جن کے ساتھ وسطی ایشیا اور قفقاز کی جہادی تنظیموں کی بہترین لڑاکا فورس بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت داعش نے شمالی سے جنوب کی جانب طوفانی مارچ کیا تو امریکاکی تربیت یافتہ عراقی فوج اور ایرانی فوج اور شیعہ ملیشیا کے پیر نہیں جم سکے۔ انہوں نے ایک طرف جنوبی عراق کا رخ کیا تو دوسری جانب شمال مغرب کی جانب شام کی راہ لی اور وہاں تیزی کے ساتھ علاقے فتح کرکے ’’دولت اسلامیہ‘‘ میں شامل کرنے لگے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور بعض عرب صحافتی ذرائع اس جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ دولت اسلامیہ نے جانب بوجھ کر وسطی عراق اور وسطی شام میں اپنی پیش قدمی روک کر اپنے مفتوحہ علاقوں کے انتظام کی جانب بھی توجہ کرنا شروع کردیاتاکہ ایک اسلامی مملکت کا تصور دنیا کے سامنے رکھا جائے۔بعد میں دولت اسلامیہ نامی اس تنظیم میں دیگر عرب ممالک کے افراد تیزی سے شامل ہونے لگے جن میں بڑی تعداد ان سنی عراقی لڑکوں کی تھی جو ہزاروں کی تعداد میں اردن کے کیمپوں میں پل کر جوان ہوئے تھے اور ایران کو اپنی شکست کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
دوسری جانب شام میں اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے بعض عرب ملکوں نے سیرین عرب آرمی اور جھبۃ النصرۃ نامی تنظیم کو مسلح کیا لیکن کئی تنظیموں کے اس مجموعے میں کئی تنظیمیں عرب اور مغربی ممالک کے ہاتھوں سے نکل کر واقعی’’ آزاد‘‘ ہوگئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے داعش سے بھی فکری اختلافات سامنے آنے لگے۔ ایک بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ داعش میں بیرونی طور پر سب سے زیادہ القاعدہ کے عناصر نے شمولت کی ہے۔ کیونکہ اسامہ بن لادن نے اپنی زندگی میں کبھی خلافت کا دعوی نہیں کیا تھا بلکہ ضرب لگاؤ اور بھاگو والی پالیسی اختیار کی تھی لیکن داعش نے برطانوی رقبے سے زیادہ رقبہ حاصل کرکے وہاں دولت اسلامیہ کے نام سے ریاست تشکیل دے کر خلافت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ اہل سنت والجماعت کے تصور کے مطابق خلیفہ کا ’’سامنے‘‘ ہونا ضروری ہے۔ دولت اسلامیہ کے اس پھیلاؤ نے امریکا ، اسرائیل اور مغربی ممالک کو بہت سے جواز بھی فراہم کردیئے ہیں۔ دولت اسلامیہ نے اسلام کے نام پر جس قسم کی گردن زدنی کی پالیسی اختیار کی اس سے نہ صرف مغرب بلکہ مسلم دنیا میں بھی دہشت بیٹھ گئی۔ ان کے نزدیک ایسا مسلمان جو ان کے مسلک سے تعلق نہیں رکھتا وہ اسلام کے نام پر خیانت کرتا ہے اس لئے واجب القتل ہے جبکہ غیر مسلم جزیہ دے کر ان کی ریاستی حدود میں رہ سکتا ہے۔ اس قسم کے مظاہرے انہوں نے افغانستان میں بھی کئے ہیں ۔داعش کا یہ جابرانہ تصور کسی طور بھی اسلام کے مصالحتی تصور سے میل نہیں کھاتااور ان کی یہی کارروائیاں مغرب کے اس سازشی صیہونی ذہین کو مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا ’’کھیل‘‘ گھڑنے کا موقع فراہم کررہی ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ بدنام کیا جاسکے۔ پیرس کے حالیہ حملوں میں کون سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے اس حوالے سے ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ حملہ آوروں کے جیب سے پاسپورٹ بھی برآمد ہوئے ہیں اور برسلز میں ایک کار پارکنگ کا ٹکٹ بھی!! یا للعجب۔۔ کیا یہ لوگ اتنے بے وقوف تھے کہ اپنی شناخت ساتھ لے کر گھوم رہے تھے؟ یہ بالکل ایسا ہی جیسے نائن الیون کے حملوں کے بعد کچھ نہیں ملا سوائے ایک ہائی جیکر کے پاسپورٹ کے۔۔۔۔۔ خود کش حملے میں جو دہشت گرد مارے گئے کیا ان کی باقیات ملی ہیں؟ ذرائع کہہ رہے ہیں کہ کئی حملہ آور حملے کے بعد روپوش ہوچکے ہیں۔۔۔ وہ کہاں سے آئے تھے اور کہاں گئے؟ کبھی اس سوال کا جواب ملے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ اصل’’ کھیل‘‘ کا مرکز اب شام ہے اور اس مرکز کے بطن سے جلد ہی مزید اور بہت سے کھیل جنم لینے والے ہیں۔۔ ۔ یہاں پھر اس بات کا اعادہ کروں گا کہ یہ سب کچھ اسرائیل کی عالمی سیادت کے لئے کیا جارہا ہے۔ تمام مزاحمتی قوتیں ایران اور عربوں سمیت شام میں بری طرح نچوڑ لی جائیں گی۔ اس ساری صورتحال میں ’’خلافت‘‘ کہاں کھڑی ہے؟
اس حوالے سے ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ اگر قرآن کریم اور صحیح اسلامی تعلیمات کے تناظر میں خلافت کے قیام کی تشکیل کا عمیق مطالعہ کریں تو کسی صورت موجودہ حالات میں خلافت کا قیام ممکن نہیں ہے۔ خلیفہ کی موجودگی میں امت کو سلامتی اور انصاف کی فراہمی لازمی ہے۔ کیا عراق میں موجود ’’خلیفہ‘‘ شام اور دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو امن اور سلامتی اور انصاف کی فراہمی کی ضمانت دے سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ خلیفہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا مانگتے تھے کہ یا اللہ مجھے اشیا کو ان کی اصل ہیئت میں دکھا۔ اس دعا سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتا۔حقیقت اور ظواہر دو الگ چیزیں ہیں اس میں حقیقت وہی لوگ دیکھ سکتے ہیں جو اللہ رب العزت کے نور سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ آئیں پہلے اپنے اندر یہ نور پیدا کریں پھر یہ تمام حقائق خود بخود کھل جائیں گے۔۔۔۔
داعش نے ابو الحسن الہاشمی القریشی کو اپنا نیا سربراہ مقرر کیا ہے جن کے بارے میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ ماہ داعش کے سربراہ ابو ابراہیم القریشی نے اپنے ٹھکانے پر امریکی حملے کے وقت خاندان سمیت خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے بعد اب د...
مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے قصوں سے جن کے پیٹوں میں مروڑ اٹھتی ہے، وہ یوکرین پر روسی حملے کو ذہنوں میں تازہ رکھیں۔ تیس برس ہوتے ہیں، سوویت یونین منہدم ہوگیا تھا۔ اس ملبے سے نکلنے والی ریاستیں ماضی کی اب بھی قیدی ہیں۔ ماضی کے یہ مزار، نوید ِ آئندہ بننا چاہتے ہیں۔ مگر اس کے لیے خود ...
٭داعش کا افغانستان میں محدود علاقے پر کنٹرول ہے جس نے مربوط حملے کرنے کی مسلسل صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے ٭طالبان نے ملک میں غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حال ہی میں اقتدار میں آنے وا...
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر عسکریت پسند گروہوں سے گٹھ جوڑ کا اشارہ دیدیا ہے۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 11 جنوری کو بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے مل کر بی این اے بنائی ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ بی این اے کوپس پردہ ...
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کا انتہائی مطلوب کمانڈر رفیع اللہ افغانستان میں مارا گیا۔غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں میں شدید اختلافات، پیسے اور اختیارات کی جنگ میں تیزی آگئی اور اب انتہائی مطلوب دہشت گرد کمانڈر رفیع اللہ مارا...
افغانستان میں ہلاک ہونے والا پاکستان دشمن کالعدم تنظیم کا کمانڈر داؤد محسود 9 سال تک کراچی پولیس میں ملازمت کرتا رہا۔ ذرائع کے مطابق داؤد محسود کا نام ریڈ بک میں بھی شامل ہے ،نامعلوم فائرنگ کے واقعے میں وہ چند روز قبل افغانستان کے صوبہ خوست کے علاقے گلاں کیمپ میں مارا گیا تھا۔ ذر...
افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ داعش کا نیٹ ورک جلد ختم کر دیں گے۔ افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ایک ماہ میں داعش کے 250 دہشت گرد گرفتار کیے ہیں اور گرفتار ہونے والے بیشتر دہشت گرد جیل توڑ کر ف...
داعش نے قندھار کی مسجد میں خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی،۔میڈیارپورٹ کے مطابق دہشت گرد تنظیم داعش نے افغانستان کے مغربی شہر قندھار میں گزشتہ روز نماز جمعہ کے دوران ہوئے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی جہاں 41 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق داعش ...
عراق کے وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے نام نہاد دولت اسلامیہ داعش کے مقتول سربراہ ابو بکر البغدادی کے نائب اور تنظیم کے بیرون ملک مالی امور کے انچارج سامی الجبوری کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔دوسری طرف عراقی فوج نے اس ہائی پروفائل گرفتاری کی مزید تفصیلات جاری کی ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق...
افغانستان کے شہر قندوز میں نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں ہونے والی ہلاکتیں ایک سو سے زائد ہو گئی ہیں جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔عالمی میڈیا کے مطابق افغانستان کے شہر قندوز میں ایک مسجد میں اس وقت زوردار دھماکا ہوا ہے جب وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی ...
افغانستان میں طالبان نے اپنی اسپیشل فورسز کو داعش کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے داعش کے جنگجوؤں کو چن چن کر نشانہ بنائیں۔جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے طالبان کے ایک ترجمان بلال کریمی کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان فورسز نے داعش کے متعدد اراکین...
داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی امریکی حملے میں ہلاک ہو گئے۔ امریکی اسپیشل فورسز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منظوری کے بعد ادلب میں آپریشن کیا۔ آپریشن میں ٹارگٹ کیا گیا گیا بڑا ہدف البغدادی ہی تھا۔ادھرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ کچھ دیر پہلے بہت بڑا واقعہ پیش آیا ہے۔روسی میڈیا...