... loading ...
چند دن قبل فرانس کے شمال مشرقی شہرا سٹراس برگ کے ایک وسیع وعریض ہال میں یورپی پارلیمنٹ کے چار ارکان سمیت کوئی ایک سو بیس کے لگ بھگ مندوبین جمع تھے۔ پاکستان میں ’’چین:انسانی حقوق کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات‘‘ موضوع سخن تھا ۔اس مجلس میں جاوید محمد خان نامی ایک شخص نے بلوچستان کا مقدمہ پیش کیا جو اپنے آپ کو بلوچستان ہاؤس نامی کس گمنام تنظیم کا ڈپٹی ڈائریکٹر بتاتاہے۔ کانفرنس کا انعقاد انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ڈیفنڈرزاور یورپی یونین کے ارکان پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر کیا۔مقررین کے نام دیکھ کر گمان گزرا کہ بہت ہی سنجیدہ معاملات زیربحث آئے ہوں گئے لیکن کانفرنس کی روداد پر نظر ڈالی تو ماتھا ٹھنکا کہ مجلس میں ہونے والی گفتگو کا بڑا حصہ غیر معمولی طور پر حقائق کا منہ چڑارہاتھااور یکطرفہ پروپیگنڈا تھا۔
یورپی پارلیمنٹ کے نائب صدر ریزارڈ چارنیکی فرماتے ہیں: آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں چین کی تعمیراتی کمپنیاں متعدد ڈیم،بجلی گھراور سڑکیں تعمیر کررہی ہیں ۔ وہ اپنے تعمیراتی منصوبوں میں مالیاتی قواعد کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔چینی اداروں کی تعمیراتی سرگرمیوں کی بدولت خطے کا ماحول بری طرح تباہ ہوچکاہے۔ کچھ منصوبے چینی کمپنیوں اور مقامی آبادی کے مابین تنازع کا سبب بن رہے ہیں۔
گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے حقوق کے ایک اور علمبردار رکن یورپی یونین البرٹو سری اونے اپنے خطاب میں زبردست شگوفے چھوڑے۔کہتاہے کہ چین نے اپنے تعمیراتی ماہرین کی حفاظت کے بہانے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کردیا ہے جو اس خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہے۔وہ سوال کرتاہے کہ پاکستان مغربی اتحادیوں کو تو اس علاقے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتالیکن چینیوں کو یہاں کھلی چھوٹ کیوں ؟موصوف نے سب سے حیرت انگیزانکشاف یہ کیا کہ چین اس خطے میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوادے رہاہے۔یہ شخص دہائی دیتاہے کہ کوئی ایسا میکانزم وضع کیا جانا چاہیے جو اس خطے میں چین کی فوجی موجودگی کے مضمر ات کی جانچ کرے ۔ایک اور رکن یورپی پارلیمنٹ محترمہ پیٹریسیاسولین جس محفل میں ہوں اور بے پرکی نہ اڑائیں تو انہیں سکون کی نیند نہیں آتی۔فرماتی ہیں کہ حکومت نے چینی کمپنیوں کو اس علاقے میں معدنیات کی تلاش کے اجازت نامے دے رکھے ہیں جو مقامی آبادی کو معدوم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔وہ یورپی یونین سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ اس معاملے کا بغور جائزہ لے اور حکومت پاکستان کو مجبور کرے کہ وہ چینی او رپاکستانی کمپنیوں کی سرگرمیوں کوروکے۔
بلوچستان کی نمائندگی کے دعوےٰ دار جاوید محمد خان نے پاکستان کے سرکاری اداروں کی خوب خبر لی اور انہیں بلوچستان کی تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار قراردیا ۔
یہاں یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں یورپی پارلیمان کے صدرشولٹز کو جناب ریزارڈ چارنیکی کا خط موضول ہوا جس میں گلگت بلتستان میں چینی سرمایہ کاری منصوبوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ خط میں کہاگیا :گلگت بلتستان میں چین بڑے ڈیموں کی تعمیر، ٹیلی مواصلاتی رابطوں اور کان کنی کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ یہ بات علم میں آئی ہے کہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مقامی آبادیوں میں ماحولیات پر پڑنے والے منفی اثرات پر کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ بڑی سرمایہ کاری کے اِن منصوبوں کو سنبھالنے اور چلانے سے وابستہ اداروں کو حکومت نے ماحولیاتی پہلو پر دھیان رکھنے کی ہدایت نہیں کی۔ مزید لکھتے ہیں کہ کام کے لیے بیشتر سامان اْن گاڑیوں کے ذریعے لایا جا تا ہے جو فضائی آلودگی کا سبب بنتی ہیں اور ان منصوبوں کے نتیجے میں انسانی صحت پر بڑے مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ منصوبوں کی تعمیر کے دوران مشینری اور سازوسامان لے جانے والی گاڑیوں سے پیدا ہونے والی آوازخطے میں مقیم لوگوں کے لیے مضر اثرات رکھتی ہے۔ اس لیے یورپی پارلیمان کو فوری طور پر گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہریوں کے خدشات پر نظر ڈالنی چاہیے۔
کیا ایسے سیمینار زاور مذاکروں کے پس منظر میں کوئی قوت کارفرماہے یا یورپی یونین کے ارکان کوخودبخود اور اچانک گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی یاد ستانے لگی۔چند ماہ قبل وزیراعظم نوازشریف اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے ہی والے تھے کہ محض ایک دن قبل آزادکشمیر کے بارے میں معروف بھارتی ٹی وی چینل سی این این- آئی بی این نے ایک دستاویزی فلم چلائی۔مظفرآباد میں ایک جلوس کو دکھایاگیاجو بھارت کے حق میں مظاہرہ کررہاتھا اور پولیس اس پر تشدد کررہی تھی ۔تحقیق کی تو پتہ چلا کہ محض مختلف نیوز کلپس جوڑکرایک من گھرٹ کہانی گھڑی گئی ہے۔اس جعلی ویڈیو کو اتنی شہرت ملی کہ بھارت کے کئی ایک مرکزی وزراء نے اس پر بیانات جاری کئے اور وزیراعظم پاکستان کو اپنے گھر کی خبر لینے کا طعنہ دیا۔
اب سنیے ایک اور اندوہناک خبر۔برطانوی پارلیمنٹ میں باب بلیک مین نے ایک قرارداد پیش کی جس میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ آزادکشمیر سے اپنا فوجی انخلاء کرے۔کنزرویٹو پارٹی کے اس لیڈر کا کہنا ہے کہ وہ آزادکشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کرتاہے۔ اس قرارداد میں پاکستان سے تحریک آزادی کی حمایت سے بھی دستکش ہونے کا مطالبہ کیاگیا ۔
سطور بالا میں جو کچھ پیش کیاگیا یہ تو محض ایک ٹریلر ہے ۔پاکستان کی معاشی ترقی اور استحکام کے خلا ف اصل فلم چلناباقی ہے۔علاقائی ماحول تبدیل ہورہاہے۔پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹ چکاہے جو اغیار کو گوارانہیں۔چین نہ صرف خطے کی ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے جو پاکستان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی ہوچکی ہے۔اس کے برعکس زوال پزیر اور قوت نمو سے محروم مغربی ممالک میں یہ استعداد ہی نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرسکیں یا بڑے معاشی منصوبے شروع کرسکیں۔لہٰذا وہ پاکستان کو ایک ایسے ہتھیار سے مارنا چاہتے ہیں جس کا وہ مقابلہ نہیں کرسکتا۔ماحولیاتی مسائل، انسانی حقوق، چائلڈ لیبر اورمختلف خطوں کے لوگوں کے معاشی حقوق جیسے معاملات ایسے پہلو ہیں جن سے پاکستان کو خوب پیٹاجاسکتاہے۔
اس طالب علم کوگلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں باربار اور مسلسل جانے اور شہریوں سے تبادلہ خیال کا موقع ملتا رہا۔شہریوں کی بھاری اکثریت مسرور ہے کہ خطے میں تعمیراتی منصوبے شروع ہورہے ہیں۔کچھ انفراسٹرکچر بننے گا۔صدیوں کی محرومیوں اور مایوسیوں سے چھٹکارا پانے کا وقت قریب ہے لیکن پاکستان کے مخالفین ہر روزعالمی فورمز پر ایک نیا قصہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔پروپیگنڈے کا ایک نیا محاذ کھڑا کردیاجاتاہے ۔چین کے روایتی مخالف یورپی ممالک اور ان کے سیاستدان بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔وہ نہیں چاہتے ہیں کہ چین اور پاکستان کا اشتراک ہو۔غربت مٹے اور پاکستانیوں کے چہرے اور گھر خوشیوں سے جگمگائیں۔
چند دن قبل دبئی میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔تپاک سے ملے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ آپ کی تحریریں پڑھتے ہوئے زمانہ گزرگیا لیکن سمجھ نہیں آتی کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں یا تحریک انصاف کے۔کبھی آپ وزیراعظم نوازشریف کی مدح سرائی فرماتے ہیں اور کبھی عمران خان کے حق میں زمین وآسمان کے ق...
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے...
رمضان کا تیسرا عشرہ تھا ۔ بھائی نزاکت محمود رات گئے گھر تشریف لائے۔سفر، تھکاوٹ اور کچھ کاہلی کے سبب گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بجائے گلی میں پارک کردی۔سحری کے وقت گاڑی موجود نہ پا کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ہمارا گھر ائیر پورٹ سے تین اورمقامی تھانہ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر ہ...
اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج سے پرجوش مصافے نے دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ،لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔سشما سوراج اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز نے اتفاق کیا ہے کہ نہ صرف ماضی میں کئے جانے والے مذاکرات او...
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے واشنگٹن کے پے درپے دورے بے سبب نہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے صدر بارک اوباما نے پاکستان کے حوالے سے لچک دار پالیسی اختیار کی۔افغانستان میں اس کے نقطہ نظر کو ایک حد تک قبول کیا۔اس کے خلاف عالمی بیان بازی جو معمول بن چکی تھی کو روکا گیا۔پاکستان کا جوہری پ...
چار برس پہلے باب وڈورڈنے ’’اوبامازوارز‘‘نامی تہلکہ خیز کتاب لکھی تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بھونچال سا آگیا کہ کیا کسی صحافی کو خفیہ معلومات تک اس قدر رسائی بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ کتا ب کو The Pulitzerانعام بھی ملا۔یہ ایوارڈ ایسے مصنفین کو ملتاہے جو کوئی غیر معمولی تحقیقی یا ادبی...
اگرچہ حکمران نون لیگ کے امیدوار سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کی نشست پر فتح یاب ہوچکے ہیں لیکن اس ضمنی الیکشن نے پارٹی کے اندر جاری انتشار اور پنجاب میں مسلسل حکمران رہنے کے باعث درآنے والی کمزوریوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔پارٹی کے اند ر بالائی سطح پر پائی جانے والی کشمکش نے عوامی ف...