وجود

... loading ...

وجود

کیکڑے کی چال

جمعه 27 نومبر 2015 کیکڑے کی چال

Mamnoon Hussain, PML-N presidential candidate

کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخ کر اُنہیں بتائے کہ خاموشی میں کتنی فضیلتیں بولتی ہیں۔ افسوس! صدرِمملکت پھر بولے!یہ ضروری نہیں کہ آدمی بڑے منصب پر فائز ہو تو وہ بات بھی بڑی کرنے پر قادر ہو جائے۔ اتنا ہی نہیں آدمی کی قامت کا اندازہ اُس کے منصب سے نہیں ہوتا۔ اب دیکھئے تو سہی ! صدرِ مملکت نے فیصل آباد ایکسپورٹ ایکسیلینس ایوارڈ کی تقریب سے خطاب میں کیا ارشاد فرمایا : علمائے کرام ہاؤس بلڈنگ قرضے پر سود کی گنجائش پیدا کرے، کیونکہ یہ مجبوری ہے کوئی اور راستا نہیں۔ ‘‘معلوم نہیں صدرِ مملکت کس ذہنی حالت میں تھے؟ کیونکہ وہ جن علمائے کرام سے اﷲ کے براہِ راست حکم کو تبدیل کرنے کے خواہش مند تھے ، خود اُن ہی علمائے کرام کے بارے میں وہ یہ رائے دینے سے بھی نہیں چُوکے کہ ’’جہاں جج انصاف نہ دیں اور علمائے کرام نوجوانوں کو گمراہ کریں وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔‘‘ اب ایک ایسے معاشرے میں جہاں علمائے کرام خود صدرِ مملکت کے خیال میں نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے مرتکب ہیں، وہاں وہ اُن ہی علمائے کرام سے سود کی گنجائش پیدا کرانے کے خواہش مند ہیں۔ بآلفاظِ دگر صدر مملکت ممنون حسین نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے علماء تک کو گمراہ کرنے کی جرأت دکھا رہے ہیں۔ حکایت اس کیفیت کی کتنی شاندار وضاحت کرتی ہے۔

کیکڑے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اُلٹا چلتا ہے۔ ایک دن کیکڑے کی ماں نے اپنی بیٹی سے کہا :
’’اے بیٹی! اُلٹی چال چھوڑ اور سیدھی چال چل ، جیسے دوسرے جانور چلتے ہیں۔‘‘

اس نے جواب دیا:
’’اے ماں! میں تو اچھی طرح چلنے کی ہی کوشش کرتی ہوں ۔ اگر تجھے میری چال غیر مناسب نظر آتی ہے تو مجھے چل کر بتا ،تاکہ
میں بھی اُسی طرح چلوں۔۔‘‘

دراصل جب سے مذہب کو دیکھنے کا ایک سیاسی تناظر پیدا ہوا ہے،اُس نے ایک ایسی ذہنیت پیدا کی ہے جو ہر دینی مقصد کو پامال کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ اس ذہنیت میں سیاسی مقصد بالا اور مذہبی مقاصد پست ہو چکے ہیں۔

صدرِ مملکت نے جو چال چل کر دکھائی ہے وہ وہی کیکڑے کی ماں والی چال ہے۔ جو بیٹی کی چال سے بالکل الگ نہیں۔ بلوچ کہا وت ہے کہ آدمی اپنی غلطیوں کو دیکھنے میں اندھا ہوتا ہے۔ بآلفاظ دگر وہ اپنی چال دیکھنے کے معاملے میں کیکڑے کی ماں ہوتا ہے۔ تاریخ بھی ایک ہی بہاؤ میں کیسے کیسے لوگ پالتی چلی جاتی ہے۔ حکیم الامت اشرف علی تھانوی ؒ کی خدمت میں بھی ممنون حسین ایسے کچھ لوگ کچھ ایسے ہی الفاظ میں یہی درخواست لے کر آئے تھے۔ حکیم الامت سے کہا کہ دنیا کی معیشت اب دوسری طرح کی بنتی جارہی ہے، جس میں سود کے بغیر گزارہ ہی نہیں ۔ بس اب آپ سود کی حِلَّت (جائزہونے) کا فتویٰ عنایت فرمادیجئے۔ حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے کہا کہ

’’یہ دین اشرف علی کا دین نہیں۔ اگر اشرف علی سود کی حِلَّت کا فتویٰ دے گا ، تو مسئلہ اپنی جگہ رہے گا ۔مگر
اشرف علی اپنی جگہ نہیں رہے گا۔ ‘‘

دراصل جب سے مذہب کو دیکھنے کا ایک سیاسی تناظر پیدا ہوا ہے، اُس نے ایک ایسی ذہنیت پیدا کی ہے جو ہر دینی مقصد کو پامال کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ اس ذہنیت میں سیاسی مقصد بالا اور مذہبی مقاصد پست ہو چکے ہیں۔ اس ذہنیت کے تحت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ’’ صحیح‘‘ کیا ہے اور’’ غلط ‘‘کیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ’’ ممکن ‘‘کیا ہے اور’’ ناممکن ‘‘کیا ہے۔ممکنات کے اِسی کھیل میں مذہب کو سیاسی مقاصد کی تحویل میں رکھ کر سوچاپرکھا جانے لگا ہے۔ یہ ایک ہی طرح کی ذہنیت ہے جب افغانستان کی جنگ میں اسلام کی ضرورت تھی تو جنرل ضیاء الحق کی شکل میں مردِ مومن اور مردِ حق دستیاب تھا۔ جب اُسی افغانستان میں ایک اور طرح کا ماحول میسر تھا۔ تو جنرل پرویز مشرف کی شکل میں ایک ایسا آدمی دستیاب تھا جو کتے بانہوں میں بھر کر تصاویر کھنچواتا تھا۔ یہی کچھ تماشا ہم میاں نوازشریف کے اندازِ سیاست میں بھی دیکھتے ہیں۔جب پنجاب میں مذہبی روایت کے تحت سیاسی رجحانات کی تشکیل کا دور تھا تو شریف خاندان علماء کی جوتیاں سیدھی کرتا تھا۔ آج کل مریم نواز کی سرپرستی میں کام کرنے والی سائبر فورس اُن ہی علمائے کرام کو جوتیاں مارتی ہیں۔ اسی طرح میاں نوازشریف کے لئے جب سیاسی اختیارات کا حصول مذہبی ماحول میں حاصل کرنے کا ذرا بھی امکان پیدا ہوا تو وہ ۹۹۔ ۱۹۹۸ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے امیر المومنین بننے کے لئے تیار تھے۔ اور اب جب اُن کا واسطہ ایک ایسی دنیا سے ہے جس میں مذہب کے لئے ایک مصنوعی تنگی پیدا کی جارہی ہے تو وہی نوازشریف اب عوام کا مستقبل ’’لبرل پاکستان ‘‘ میں دیکھتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر صحیح اور غلط کی میزان پر معاملات کو تولنے والی نفسیات نہیں بلکہ ممکن اور ناممکن کی بنیاد پر مفید اور غیر مفید کے ذہنیت کی کارگزاری ہے۔ صدر ممنون حسین کے طرزِ گفتگو میں اسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

اب جس مسئلے میں مفتی عبدالقوی سے بھی گنجائش نہ نکل سکے وہ حرام بھی کیسا حرام ہوگا؟ صدرِ مملکت اس کا اندازہ خود ہی لگا سکتے ہیں۔

صدر ممنون حسین نے سود کی گنجائش نکالنے کی درخواست بھی جس عالم دین سے ماشاء اﷲ کی ہے وہ کوئی اور نہیں مفتی عبدالقوی ہیں ۔ یہ وہ صاحب ہیں جو ایک محفل میں خود اپنا تعارف اس طرح کراتے پائے گئے کہ وہ ٹیلی ویژن پر وینا ملک کے ساتھ آتے ہیں۔ ممنون حسین کو اندازہ ہونا چاہئے کہ ہر معاملے میں گنجائش نکالنے والے بیچارے مفتی عبدالقوی نے بھی اُن کی اس درخواست پر تقریباً ہاتھ ملتے ہوئے یہ کہا کہ’’ اس میں گنجائش نہیں نکل سکتی کیونکہ قرآن پاک کا واضح حکم ہے کہ سود حرام ہے۔‘‘اب جس مسئلے میں مفتی عبدالقوی سے بھی گنجائش نہ نکل سکے وہ حرام بھی کیسا حرام ہوگا؟ صدرِ مملکت اس کا اندازہ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ البتہ اگر کبھی دوبارہ میاں نوازشریف کے لئے امیر المومنین بننے کی گنجائش پیدا ہوئی تو صدر مملکت کی خواہش کے مطابق شاید سود کے لئے بھی کوئی گنجائش نکل آئے۔ آخر کیکڑا بھی تو اپنی چال چلتا ہے ۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر