وجود

... loading ...

وجود

بنگلہ دیش میں مسلم لیگی کی پھانسی

جمعرات 26 نومبر 2015 بنگلہ دیش میں مسلم لیگی کی پھانسی

Ali Ahsan Mohammad Mujahid

اتوار کے دن جیسے ہی بازار سے خریداری کر کے لوٹا توذاتی اور پیشہ ورانہ حوالے سے ایک دم تین چار خبریں دھڑام سے سوشل میڈیا اور موبائل فون کے ذریعے مجھ پر آن گریں ، اس قدر گراں کہ طبیعت شدید کبیدہ خاطر ہوگئی ، انا ﷲ و انا الیہ راجعون پڑھا ۔ لیکن ان میں سب سے بھاری خبر سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں ـ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے والے دو مجاہدوں کی شہادت تھی۔

آنکھوں سے آنسو بہے اور بہتے ہی چلے گئے، اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ہمارے پاس تو یہی سوغات ہے ان راہِ حق کے مسافروں کے لئے۔ ایسا خون جو پاکستان کے لئے بہہ رہا ہے اور پاکستان میں ہی اجنبی ہے۔ عبدالقادر ملا کی شہادت سے شروع ہونے والا سفر جاری ہے ، اﷲ نہ کرے یہ جاری رہے کہ ہم میں ہمت نہیں۔

رحم میرے مولا رحم! ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈال جس کے ہم متحمل نہیں۔

یہ وہ قیمتی لوگ تھے جنہوں نے پٹ سن کے دیس میں اپنے خون سے ایک مرتبہ پھر دوقومی نظرئیے کی گواہی دی تھی اور ان کے جنازوں پر اُمڈ کر آنے والے بنگالیوں نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی تھی۔ آنسو جب نہ تھمے تو ہم گھر میں اپنی آماجگاہ میں جا کر چھپ گئے اور سوشل میڈیا کھول لیا۔ ہر طرف راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا، کسی کو اس بات پر ذرا بھی ملال نہیں تھا کہ پاکستان زندہ باد کہنے کے جرم میں ، ہزاروں میل دور آج دو اور مردِ قلندر ابدی عمر پا چکے ہیں۔

اسی دوران پروفیسر عمران ملک صاحب نے روایت کیا کہ ان شہداء کا نمازِ جنازہ مسجدِ شہدا ء کے باہر چار بجے ادا کیا جائے گا۔ اپنے دونوں بچوں سے گذارش کی کہ وہ بھی ساتھ چلیں، مقصد یہ تھا کہ انہیں بھی پتہ چلے کہ یہ بے موت مارے جانے والے دونوں کون لوگ تھے۔

انہوں نے جنازے پر چلنے کی تجویز پرپہلے تو ناک بھوں چڑھائی لیکن باپ کے احترام میں طوہاً و کرہاً ساتھ چل دئیے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی سوچا کہ ان کو آج کا مقصد سمجھایا جائے ۔ عرض کیا بیٹا ہم جن لوگوں کے جنازے میں جا رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے سابق مشرقی پاکستان میں بھارتی حملہ آورفوجوں کے مقابلے میں اپنی پاک آرمی کا ساتھ دیا تھا، آج ان کو اسی پاداش میں قتل کیا گیا ہے اور ہم اس بات کی گواہی دینے جا رہے ہیں کہ وہ نا حق قتل کئے گیے ہیں اور وہ شہید ہیں۔

اس پر بڑے نے فرمایا ، ابو جی، بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا ٹھیک ہوا تھا، ہم نے وہاں بہت ظلم کئے تھے ، اور ہماری فوج نے وہاں پر عورتوں کی عصمت دری کی تھی، یہ جماعت اسلامی والے فوج کے ساتھ تھے ، ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے، یہ عورتوں کو مارتے ہیں، انہیں ووٹ نہیں ڈالنے دیتے۔

لیکن بیٹا یہ باتیں تمہیں کس نے بتائی ہیں؟ میں نے ٹوکتے ہوئے پوچھا۔

جی وہ ہمارے ا سکول کی ہسٹری کی ٹیچر نے بتائی ہیں اور ہماری کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہیں، وہ بات جاری رکھتے ہوئے بولا اور ا ن میں سے سب سے بُرا بھٹو تھا،یحییٰ ٹھیک آدمی تھا اس نے آخری وقت تک ملک کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کی، اگر اُسے صدر منتخب کر لیتے تو کیا حرج تھا؟

میں نے دوبارہ سڑک پر دیکھنا شروع کر دیا۔ بیٹے نے باپ کی بولتی ہی بند کر دی تھی۔ وہ یہ کس طرف چل پڑا تھا۔ پھر اُسے کچھ محسوس ہوا اور اس نے باپ کے جذبات کا احساس رکھنے کے لئے کہا، ابا جی آپ کو یہ باتیں بُری تو لگی ہوں گی کیوں کہ آپ جماعت اسلامی کو پسند کرتے ہیں ، لیکن میں تو دادا ابو کی پارٹی کے ساتھ ہوں ، اپنی مسلم لیگ، شیرہمارا، جو ہر انتخاب میں دھڑلے سے جیت بھی جاتا ہے، آپ کی جماعت اسلامی نے تو کبھی جیتنا نہیں ہے، تو میں کیوں ایک ہارنے والی پارٹی میں جاؤں؟

میں نے اُسے یاد دلایا کہ کچھ دن پہلے تو وہ پاکستان تحریکِ انصاف کا حامی تھا ، کیوں کہ ا سپیکر پنجاب اسمبلی کے ایک رشتہ دار بچے نے اس کے ساتھ ا سکول میں متھا بھی لگایا تھا جس پرا سپیکر کے سرکاری گارڈز نے گڈ گورننس کے زیر سایہ ا سکول میں آ کر ہوائی فائرنگ کر کے نویں کلاس کے ان طلباکی اس بہت بڑی لڑائی کو نمٹایا تھا؟

اس پر وہ بولا چھوڑیں ابو جی، خان تو اب ریحام سے طلاق کے بعدکیا رہ گیا ہے اور وہ بچہ ویسے بھی اب میرا دوست بن گیا ہے اور اُس کے گارڈز اب میرے کہنے پر فائرنگ کرتے ہیں ۔ (دھت تیرے کی)

اف میرے خدایا یہ ان بھاری فیسوں والے ا سکولوں میں بچوں کو کیاکچھ پڑھایا اور کرایاجا رہا ہے؟ پھر سوچا کہ اُسے ایسا ہی کرنا چاہیے، ہم نے کون سی اپنے ابا کی بات مانی تھی؟ جب ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ کو اپنی جان ِ عزیزبنایا تھا، تویہ مکافاتِ عمل تھا۔ تاریخ کا یہ جبر ٹھیک تیس سال بعد میرے سامنے کھڑا تھا۔

میں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے کہا بیٹا لیکن یہ کیا بات ہوئی؟ یہ دونوں لوگ تو بنگلہ دیش کو ایک حقیقت اور ایک ملک کے طور پرقبول کر چکے تھے، اُس کے آئین کے ساتھ وفاداری کا عہد کر چکے تھے اسی لئے یہ وہاں کی پارلیمنٹ میں منتخب ہو کر وہاں کے وزیر بھی رہ چکے تھے، اب ان کو چالیس سال پرانے قضیے پر یوں بغیر کسی باقاعدہ عدالتی عمل کے قتل کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟

اس پر چھوٹا بولا لیکن اباجی وہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا ہے ناں، یہ ووٹ تولے نہیں سکتے ایسے ہی اسلامی انقلاب کا نعرہ لگا کر ہمارا راستہ خراب کرتے رہتے ہیں۔

اب میں نے ترپ کا پتہ پھینکا۔ عرض کیا بیٹا لیکن صلاح الدین قادر کا تعلق تو بنگلہ دیش کی نیشنل پارٹی سے تھا، وہ تو جماعت اسلامی کا بندہ نہیں تھا۔

چھوٹے نے عینک کے پیچھے سے گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے سوال کیا کہ ، اچھا تو وہ بنگلہ دیش کی کیا ہوگی ؟پھر خود ہی بولا ، پی ٹی آئی؟

عرض کیا نہیں وہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے تووہاں کی مسلم لیگ کہلائے گی۔ میں نے تھوڑی سی بددیانتی کرتے ہوئے کہا۔

تو پھر یہ وہاں کا جاوید ہاشمی یا احسن اقبال ہو گا، وہ تُرت بولا۔
میں نے کہا ہاں کچھ یوں ہی سمجھ لو۔تو اس پر وہ بولا

چنگا مسلم لیگی تھا، وہ حسینہ واجد کی پارٹی میں شامل کیوں نہ ہو گیا؟ جان بھی بچ جاتی اور عہدہ بھی مل جاتا۔

عرض کیا بیٹا یہ خیال تمہارے ذہن میں کیوں آیا۔

تو کہنے لگا ابو جی یہ جو مسلم لیگ والوں نے مشرف کی پارٹی میں شامل ہو کر اپنی جانیں بچا ئی تھیں، وہ اچھے نہیں رہ گئے؟جیسے ہی نواز شریف واپس آیا ہے وہ واپس اپنی پارٹی میں چلے آئے ہیں اور انہیں وہی عہدے بھی مل گئے اور وزارتیں بھی۔ اور میاں نواز شریف بھی ان سے خوش ہیں اور انہیں ساتھ ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ آپ دیکھیں ناں وہی لوگ اب وزارتوں کی عیاشی کر رہے ہیں۔ (اس بیٹے نے سیاسیات کا مضمون چن رکھا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرونِ ملک جانے کا ارادہ رکھتا ہے)

سوچا کہ ا ن بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، زمانہ خود ہی ان کو اچھے برے کی تمیز سکھا دے گا۔ ہمارے بزرگوں نے ہم پر اپنے سیاسی نظریات نہیں تھوپے، اب ان کو بھی اس امر کی آزادی ہونی چاہیے۔ اتنی دیر میں مسجدِ شہدا ء میں پہنچ گئے۔ گاڑی سے اترے، گڈ گورننس کا کمپیوٹرائزڈ ٹوکن لگوایا اور نمازِ جنازہ میں کھڑے ہو گئے۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی کے اس شہر میں پاکستان سے محبت میں بے موت مارے جانے والے ان دو شہدا کو اظہارِ یکجہتی کے لئے چند ہزار بندے ہی دستیاب ہو سکے تھے۔

واپسی کے سفر میں بڑے نے بڑی سوچ و بچار کے بعد کہا، ابا جی! یہ لوگ پاک فوج کے ساتھ مل کر لڑے تھے ناں؟
عرض کیا ہاں۔

تو اس پر پاک فوج خاموش کیوں ہے ؟ ملک میں ٹانگے ریڑھی کی ٹکر ہو جائے تو ان کا ٹویٹ آجاتا ہے، لیکن اس واقعے پر انہیں چُپ کیوں لگی ہے؟

میرے پاس نئی نسل کے اس نمائندے کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ آپ کے پاس ہو تو اپنے بچوں کو ضرور بتائیے گا۔ہو سکے تو ٹوئٹ کیجئے گا!


متعلقہ خبریں


انٹربینک میں ڈالر مزید سستا وجود - منگل 02 نومبر 2021

انٹر بینک میں ڈالر 1.29روپے سستا ہو گیا۔فاریکس ڈیلرزایسوسی ایشن کے مطابق 1.29روپے قیمت کم ہونے کے بعد انٹربینک میں ڈالر170 روپے29 پیسے کا ہو گیا ۔26 اکتوبرکوڈالرکی قیمت نے تاریخی بلندی 175 روپے27 پیسوں کوچھولیا تھا۔26 اکتوبرسے تک ڈالرکی قیمت میں 4 روپے98 پیسوں کی کمی ریکارڈ کی گئ...

انٹربینک میں ڈالر مزید سستا

انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

انٹربینک میں ڈالر 173.24 روپے کا ہو گیا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، خام تیل کی عالمی قیمت میں اضافے سے درآمدی بل اور مہنگائی میں مزید اضافے جیسے عوامل کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز ڈالر کی اونچی اڑان کے نتیجے میں انٹربینک نرخ 173 روپے سے بھی تجاوز کرگئے او...

انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا

شوکت ترین وزیراعظم کے مشیر خزانہ و ریونیو مقرر، نوٹیفکیشن جاری وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

شوکت ترین کو ایک مرتبہ پھر مشیر خزانہ وریونیو تعینات کردیا گیا۔ شوکت ترین کی تقرری کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردیا گیا ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر شوکت ترین کی تقرری کی منظوری دی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق شوکت ترین...

شوکت ترین وزیراعظم کے مشیر خزانہ و ریونیو مقرر، نوٹیفکیشن جاری

حکومت کی نئی پریشانی، تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافے سے تجارتی خسارے کا سامنا وجود - پیر 18 اکتوبر 2021

ملک کے تیل کی درآمد کا بل رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 97 فیصد سے بڑھ کر 4.59 ارب ڈالر ہو گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 2.32 ارب ڈالر تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی اضافے کی وجہ بنی ہے۔تیل کے درآمدی بل میں مسلسل ...

حکومت کی نئی پریشانی، تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافے سے تجارتی خسارے کا سامنا

آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کے لیے مستثنیٰ اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس کی شرط وجود - جمعه 15 اکتوبر 2021

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے قرض پروگرام بحال کرنے کیلئے پاکستان کے سامنے نئی شرط رکھ دی ہے۔ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے سخت شرط رکھی ہے جس کے تحت حکومت نے جن اشیا پر ٹیکس چھوٹ دے رکھی ہے ، ان پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانا ہوگا۔آئی ایم ایف کی نئی شرط کے تحت ...

آئی ایم ایف کی قرض فراہمی کے لیے مستثنیٰ اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس کی شرط

لبنان قحط کے دہانے پر، لوگ فیس بک پراعضا فروخت کرنے لگے وجود - منگل 12 اکتوبر 2021

عرب دنیا کے پیرس کہلانے والے لبنان میں گزشتہ کچھ عرصے سے معاشی حالات اس تیزی کے ساتھ ابتر ہوئے ہیں کہ ملک قحط کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ عوام کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے اور سنہ 2019 کے اختتام کے بعد سے معاشی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کوروز مرہ ایندھن ، ادویات ...

لبنان قحط کے دہانے پر، لوگ فیس بک پراعضا فروخت کرنے لگے

مرکزی بینک آف انڈیاا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

مرکزی بینک آف انڈیا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مقروض ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ممبر قومی اسمبلی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، قیام پاکستان کے وقت پاکستان چھو...

مرکزی بینک آف انڈیاا سٹیٹ بینک آف پاکستان کا 45 کروڑ 60 لاکھ کا مقروض نکلا

ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے نکلا وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ڈائریکٹر ایف آئی اے ناصر محمود ستی نے انکشاف کیا ہے کہ ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہنڈی اور کرنسی کاروبار میں گرفتار ملزمان کے کیس کی پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی ے نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں 54 افراد ا...

ڈالر مافیا کے 54 افراد میں سے 37 کا تعلق خیبر پختون خوا سے نکلا

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

شوکت ترین سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا فیصلہ،مشیر خزانہ کے طور پر کام کریں گے وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

حکومت نے شوکت ترین سے وزارت خزانہ واپس لے کر انہیں مشیرخزانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق 16 اکتوبرکوشوکت ترین سے وفاقی وزیرکا عہدہ واپس وزیراعظم کے پاس چلا جائیگا۔ آئین کے تحت وزیراعظم کسی غیرمنتخب شخص کو 6 ماہ کے لیے وفاقی وزیر بنا سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق شوکت ترین بطور...

شوکت ترین سے وزارتِ خزانہ واپس لینے کا فیصلہ،مشیر خزانہ کے طور پر کام کریں گے

بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات بڑھ گئیں وجود - جمعرات 07 اکتوبر 2021

ڈیجیٹل ادائیگیوں، ای کامرس اور آن لائن بینکاری کی سہولت کے استعمال کے ساتھ بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بینکنگ محتسب کو گزشتہ سال جنوری تا دسمبر 2020کے دوران بینکوں سے متعلق صارفین کی 24750شکایات موصول ہوئی تھیں تاہم رواں سال پہلے ...

بینک صارفین کی بینکوں کی خدمات سے متعلق شکایات بڑھ گئیں

کوئلہ مہنگا،سیمنٹ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کھپت 12 فیصد کم وجود - منگل 05 اکتوبر 2021

کوئلہ مہنگا، اضافی کرایہ اور روپے کی گرتی قدر نے سیمنٹ کی پیداواری لاگت بڑھا اور کھپت 12 فیصد گھٹا دی۔آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی کھپت 45 لاکھ 89 ہزار ٹن رہی، جو ستمبر 2020 کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے۔رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی مق...

کوئلہ مہنگا،سیمنٹ کی پیداواری لاگت میں اضافہ کھپت 12 فیصد کم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر