... loading ...
عاصمہ جہانگیر، اُف خدایا ! یہ کون خاتون ہیں؟ کیا ہم اسے پوری طرح جانتے ہیں؟ دانشور نے جب یہ کہا تھا ، تو اُس کے ذہن میں کیا رہا ہوگا!
ــ’’عورت اوج کو بھی عروج دے دیتی ہے مگر اُسی وقت زوال کو بھی پاتال میں لے جاتی ہے۔ ‘‘
نٹشے کا تجربہ بھی کیارہا ہوگا جو اُس نے کہا کہ ’’میٹھی سے میٹھی عورت بھی تُرش ہوتی ہے۔‘‘ مگر اُس نے یہ نہیں کہا کہ تُرش سے تُرش عورت کیا ہوتی ہے؟ شاید اُسے ٹالسٹائی کی طرح کے کچھ تحفظات لاحق ہو۔ نامور روسی ادیب نے کہا کہ
’’میں عورت کے بارے میں اپنی سچی رائے کا اظہار تب کروں گا جب میرا ایک پاؤں قبر میں
ہو گا۔ پھر جب میں اپنی رائے کا اظہار کر سکوں گاتو تابوت میں کود کر اس کا ڈھکنا بند کر لوں گا اور اندر
سے پکاروں گا، اب میرے ساتھ جو چاہو کر لو۔‘‘
کیا ہم عاصمہ جہانگیر کے بارے میں کسی بھی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں؟ یہ کام عورت کے بارے میں رائے دینے سے زیادہ مشکل ہے۔ دنیا میں ہر شخص دوسرے سے مختلف ہے، فارسی مثل حقیقت بیان کرتی ہے کہ ’’دستار ، رفتا، گفتار جدی جدی‘‘ مگر سچ تو یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر سب سے مختلف مثال ہے۔ امریکا کے بانیوں میں شامل نامور مصنف فرینکلن کے الفاظ زیادہ خوب صورت تشریح کرتے ہیں کہ
’’عورت کی زبان اُس کی تلوار ہے، جسے وہ کبھی زنگ آلود نہیں ہونے دیتی۔‘‘
عاصمہ جہانگیر کی اسی تلوار نما زبان نے قومی روح کو گھائل کر دیا ہے۔ ہمارے دلوں کو چرکے لگائے ہیں۔ کیا واقعی بنگلہ دیش کا معاملہ پاکستان جیسا ہے؟
آدمی مبہوت ہو جاتا ہے جب وہ عاصمہ جہانگیر کو نریندر مودی کے ساتھ دیکھتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے ضمیر پر گجرات میں مسلم کشی کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔ وہ گجرات میں مسلمانوں کو زندہ جلادینے والے مودی سے ۹؍ مارچ ۲۰۰۸ء کو ملتی ہیں۔ تب بھارت کی باضمیر دانشور ارون دھتی رائے اُسے گجرات کے قاتل کے طور پر مخاطب کرتی ہیں۔ مگر افسوس عاصمہ جہانگیر مودی سے مل کر مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتی ہیں ۔ وہ گاندھی آشرم جاتی ہے۔ کہیں زعفرانی لباس پہنتی ہیں۔پھر بال ٹھاکرے سے اُس لباس میں ملتی ہے جو ہندو انتہاپسند اپنی مذہبی روایت کے تحت زیب تن کرتے ہیں۔ یہ ملبوس دراصل ہندوانتہاپسندی کو عریاں کرتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ عاصمہ ملاقات کے بعد جب ذرائع ابلاغ سے بات کرتی ہیں تو وہ بال ٹھاکرے کا موقف ایسے بیان کرتی ہیں جیسے وہ اُس کی ترجمان ہو۔
پاکستان کے کسی بھی تاریخی اور روایتی نقطۂ نظر کو لے لیجئے ، عاصمہ جہانگیر اس کے خلاف کھڑی نظر آئے گی۔ معمولی سی معمولی باتوں پر لب کشائی کی شوقین عاصمہ جہانگیر نے کبھی کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر کوئی بات نہیں کی۔ باضمیر ہندو دانشور چیختے ہیں۔ مگر عاصمہ جہانگیر چپ سادھے رہتی ہیں۔بنگلہ دیش کا معاملہ بھی کوئی مختلف نہیں ۔ عاصمہ جہانگیر ، سلیمہ ہاشمی اور حامد میر نے اپریل ۲۰۱۳ء میں بنگلہ دیش جاکر ’’فرینڈز آف لبریشن وارایوارڈ‘‘ ہی وصول نہیں کئے تھے۔ یہ اس سے کچھ بڑھ کر تھے۔ یہ بنگلہ دیش میں پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والوں کو پھانسی دینے سے پہلے پاکستان کو اس کے تاریخی نظریئے کے ساتھ ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کرنے کی نفسیات تھی۔ عاصمہ جہانگیر کی ویڈیو موجود ہے، جب وہ اسٹیج پر پہنچی تو کس طرح بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے اُسے گرمجوشی سے گلے لگایا تھا۔ پھر کیا ہوا تھا؟ ایک بنگلہ دیشی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں عاصمہ جہانگیر اور حامد میر مدعوتھے۔ حامد میر نے اُس پروگرام میں مشرقی پاکستان میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلاکر اُنہیں سزا دینے کا مطالبہ کیا جس کی عاصمہ جہانگیر تائید کرتی رہیں۔ اُنہیں تب جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے عالمی قوانین کی کوئی پروا نہیں تھیں ۔
مگر اب وہ وفاقی وزیرداخلہ کی جانب سے بنگلہ دیش میں صلاح الدین قادر اور چوہدری احسن علی مجاہد کی پھانسیوں پر دیئے گئے ناکافی اور معمولی سے بھی کم ردِ عمل سے مشتعل ہیں۔ اور بین الاقوامی مخالفت کا خیال رکھنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ عاصمہ نے بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر پاکستانی ردِ عمل کو دُہرا معیار اور انتہائی غیر مناسب روّیے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ
’’ہم اس بات کی امید کرتے ہیں کہ حکومت برابر کا رویہ اختیار کرے گی، اُن لوگوں کے لئے بھی جن کو بین الاقوامی
مخالفت کے باوجود پاکستان میں پھانسی دی جارہی ہیں۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر خود پاکستان میں ہونے والی پھانسیوں پر دُہرے معیار کی مرتکب کیوں ہیں اور تمام پھانسیوں پر یکساں سوال اُٹھانے کے بجائے وہ محض اُن پھانسیوں کو کیوں زیربحث لارہی ہیں جس پر بین الاقوامی مخالفت موجود ہے؟پاکستان میں جنہیں عسکریت پسند سمجھ کر پھانسیاں دی جارہی ہیں اور جو دیگر جرائم میں پھانسیاں پارہے ہیں ، اُن سب کے لئے ایک جیسے قانونی مسائل اور ایک جیسے قانونی سوالات ہیں۔ مگر انسانی حقوق کے ادارے خود دُہرے معیار کے شکار ہو کر صرف اُن پھانسیوں کے متعلق سوالات اُٹھاتے ہیں جو دیگر جرائم سے متعلق ہوتی ہیں۔کیا عاصمہ جہانگیر اس دُہرے معیار کو انتہائی غیر مہذب رویہ نہیں سمجھتیں؟ کیا حسینہ واجد سے ایوارڈ لے کر اس موضوع پر بات کرنا اُن کے لئے کسی طرح موزوں ہیں؟ یہ کیسا رویہ ہے؟ عاصمہ جہانگیر! اُف خدایا!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...