... loading ...
معروف وکیل عاصمہ جہانگیر کے بنگلہ دیشی رہنماؤں کی پھانسی پر پاکستانی ردِ عمل پر تنقید نے ایک دلچسپ بحث کا آغاز کر دیا ہے۔انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور وکیل عاصمہ جہانگیر نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے حالیہ بیان کو ہدفِ تنقید بنایا ہے ، جس میں چوہدری نثار نے بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس پر عاصمہ جہانگیر نے اپنے ردِ عمل میں پاکستانی حکومت کی تنقید کو دُہرا معیار اور انتہائی غیر مناسب رویئے سے تعبیر کیا ہے۔
عاصمہ جہانگیر پاکستان کے عوامی حلقوں میں انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستانی فوج پر اُن کے مخصوص طرزِ فکر کے باعث وہ اکثر شوشل میڈیا میں منفی تبصروں کی زد میں رہتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اس مرتبہ بنگلہ دیشی حزب اختلاف کے دورہنماوؤں کی پھانسیوں پر ایک ایسا موقف اختیار کیا ہے جس میں انتہائی باریک کاریگری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ
“ہم اس بات کی اُمید کرتے ہیں کہ حکومت برابر کا رویہ اختیار کرے گی‘ ان لوگوں کے لیے بھی جن کو بین الاقوامی مخالفت کے باوجود پاکستان میں پھانسی دی جارہی ہے۔”
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر خود پاکستان میں ہونے والی پھانسیوں پر دُہرے معیار کی مرتکب کیوں ہورہی ہیں اور تمام پھانسیوں پر یکساں سوال اُٹھانے کے بجائے وہ محض اُن پھانسیوں کو کیوں زیربحث لارہی ہیں جس پر صرف بین الاقوامی مخالفت موجود ہے؟ یاد رہے کہ پاکستان میں جنہیں عسکریت پسند سمجھ کر پھانسیاں دی جارہی ہیں اور جو دیگر جرائم میں پھانسیاں پارہے ہیں ، اُن سب کے لئے ایک ہی جیسے قانونی مسائل موجود ہیں مگر انسانی حقوق کے قومی اور عا لمی ادارے خود دُہرے معیار کے شکار ہو کر اُن پھانسیوں کو موضوع تنقید بناتے ہیں جو دیگر جرائم سے متعلق ہوتی ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے اپنے تنقیدی تیر کو صرف بین الاقوامی کمان میں رکھ کر چلایا ہے۔ یہ بجائے خود دُہرا معیار اور انتہائی غیر مناسب رویئے کے زمرے میں آتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر تنقید کا اُسلوب بھی عجیب وغریب اختیار کیا ہے۔ اُن کا اس پر مؤقف یہ ہے کہ “بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں کی وجہ سے وہاں مزید تقسیم پیدا ہوگی اور اس سے مستقبل میں سیاسی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔”
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں کے مکمل غیر قانونی ہونے کے سوال کو نظر انداز کرکے بنگلہ دیش میں اس کے ردِ عمل سے کیوں پریشان ہیں؟ بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی تقسیم اور وہاں کی سیاسی بے چینی کے معاملے میں تو وہ فکر مند دکھائی دیتی ہیں مگر خود اُن کے موقف سے پاکستان میں پیدا ہونے والی تقسیم اور ایک مستقل سیاسی بے چینی پر اُن کا دھیان کیوں نہیں جاتا؟
عجیب بات یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر نے بجائے اس پورے مقدمے کی قانونی حیثیت پر سوال اُٹھانے کے صرف ملزمان کو صفائی کا موقع نہ ملنے پر بات کی ہے۔ پوری دنیا میں یہ مقدمات اپنی پوری قانونی بحث میں ہدفِ ملامت بنے ہوئے ہیں۔ مگر عاصمہ جہانگیر نے اس معاملے کو بھی مدہم کرتے ہوئے محض اِسے صفائی کا موقع نہ ملنے تک محدود کر دیا ہے۔ پھر اِس کے لئے جو اُسلوب اختیار کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے ملزمان کو صفائی کا موقع نہ ملنے والے معاملے پر اپنی رائے دینے کے بجائے یہ کہا ہے کہ
” ملزمان کے ٹرائل کو مانیٹر کرنے والے انسانی حقوق کے تمام رضا کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ملزمان کو صفائی کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔”
اس طرح عاصمہ جہانگیر نےصرف ملزمان کو صفائی کا موقع نہ ملنے تک محدود رہتے ہوئے بھی کی جانے والی انتہائی پوپلی تنقید کو دوسروں یعنی انسانی حقوق کے رضاکاروں کی رائے سے منسلک کر دیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی بنگلہ دیش کے معاملے میں اس درجہ احتیاط پاکستان کے کسی بھی معاملے میں نظر کیوں نہیں آتی؟
انھوں نے یہ بھی کہا کہ “ہم نے اس کی مذمت کی ہے اور اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے فوری رد عمل کی درخواست کی ہے۔”
سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش پر تنقید کے لئے اس قدر احتیاط کا مظاہرہ خود کیوں کر رہی ہیں ؟ اصل میں عاصمہ جہانگیر کا اصل مسئلہ بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیاں نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کا اصل مسئلہ پاکستان میں ا س کا ردِ عمل ہے۔ اس لئے اُنہوں نے پھانسیوں پر پاکستانی ردِ عمل سے پہلے کسی قسم کی کوئی لب کشائی نہیں کی۔ اُنہوں نے اس پر جوبھی موقف اختیار کیا وہ پھانسیوں پر وفاقی وزیر داخلہ کے تاخیر سے آنےو الے ردِعمل کے بعد کیا ۔ چنانچہ اُن کا یہ مسئلہ “برائے وزن بیت” بنگلہ دیش پر عالمی اداروں کے اعتراض کے اظہار کے ساتھ بے نقاب ہو جاتاہے جب وہ یہ کہتی ہے کہ
” بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر خدشات کا اظہار کرنے سے پہلے حکمران پاکستان میں ہونے والی سزاؤں اور سعودی عرب میں پاکستانیوں کو دی جانے والی سزاؤں کے حوالے سے بات کریں۔”
یہ عجیب وغریب موقف بھی عاصمہ جہانگیر کی پیچیدہ اور پُرتضاد شخصیت کا پورا عکاس ہے۔ ایک طرف وہ پاکستانی حکومت پر یہ اعتراض اُٹھا رہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے بجائے اپنے گھر کی فکر کرے اور دوسری طرف وہ اُسی سانس میں یہ مشورہ دے رہی ہیں کہ پاکستان سعودی عرب میں ہونے والی سزاؤں پر بات کرے۔ جو اُصول یعنی “پہلے گھر میں دیکھنے کا ” بنگلہ دیش کے حوالے سے لاگو ہوتا ہے ، وہی اُصول سعودی عرب پر بات نہ کرنے کے لئے کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ گویا عاصمہ جہانگیر کو بنگلہ دیش میں ہونے والی سزاؤں پر تو اس لئے اعتراض ہے کہ گھر کی فکر نہیں مگر سعودی عرب میں گھر کی فکر نہ کرتے ہوئے بات کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اس عجیب وغریب اور پراز تعصب ملغوبہ ذہنیت کے باعث ہی وہ پھر یہ سوال اُٹھاتی ہے کہ
“کیا یہ دو بنگلہ دیشی ان لوگوں سے زیادہ اہم ہیں جو پاکستان میں رہتے ہیں اور اس کا جواب اگر ہاں میں ہے تو حکومت جواب دے کہ کیوں اور آخر کب تک؟”
بس یہی سوال اُن سے سعودی عرب کے مسئلے پر جوں کا توں پوچھا جاسکتا ہے۔ مگر اب یہ کون پوچھے؟
عاصمہ جہانگیر نے تسلیم کیا کہ “سزائے موت دیئے جانے والے دونوں افراد کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، لیکن ایسے ہی ٹرائل کا سامنا پاکستان کی فوجی عدالتوں میں اُن افراد کو بھی کرنا پڑتا ہے جن پر دہشتگردی کے الزامات ہیں۔ ہم سزائے موت اور غیر منصفانہ ٹرائل کے خلاف ہیں، چاہے وہ پاکستان میں ہو یا بنگلہ دیش میں ہو۔”
عاصمہ جہانگیر کا یہ موقف ایسا ہے جو خود عاصمہ جہانگیر کے شدید ترین مخالفین بھی دبے لفظوں میں اپنی اپنی محفلوں میں رکھتے ہیں۔ مگر آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد پیدا ہونے والے مخصوص ماحول کے باعث اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ پاکستان کے عوامی حلقوں میں اس ضمن میں بعض ٹھوس سوالات پائے جاتے ہیں ، جن پر سرکاری اور فوجی دونوں حلقوں میں سنجیدہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کوئی بھی مطلب غیر قانونی اقدامات کاسرکاری لائسنس نہیں ہے۔ پوری دنیا میں اس پر بات ہورہی ہیں مگر افسوس ناک طور پر پاکستان کے اندر اس پر غور کا کوئی ماحول پیدا نہیں ہورہا۔ لہذا عاصمہ جہانگیر نے یہ بات کسی بھی نیت سے کہی ہو مگر اس حد تک قابل ِ غور ہے کہ ” اگر پاکستانی حکومت سزائے موت اور ٹرائل کے غیر منصفانہ طریقہ کار کے خلاف ہے تو اسے فوجی عدالتوں کے ٹرائل کی جانب بھی دیکھنا چاہیے۔”
بدقسمتی سے عاصمہ جہانگیر اپنے مخصوص طرزِ فکر کے باعث وسیع تر عوامی حلقوں میں ایک ایسی منفی شخصیت کے طور پر لوگوں کے تجربے میں ہیں کہ اُن کے جزوی طور پر کسی درست موقف کو بھی اُن کی مجموعی نیت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی سمجھا جاتا ہے ۔ تاہم بنگلہ دیش کے تناظر میں جن پھانسیوں کے حوالے سے وہ کچھ زیادہ بولنے کو تیار نہیں اور پاکستان کے اندر ہونے والی پھانسیوں پر وہ مشتعل ہیں ، اُس کے حوالے سے اُن پر ایک جائز سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اُنہوں نے بنگلہ دیش میں اسی تنازع سے الجھے ایک ایوارڈ کو اپریل 2013ء میں وصول کیا تھا اور اس ایوارڈ کو وصول کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد سے نہایت گرمجوشی سے گلے بھی ملی تھی، تب عاصمہ جہانگیر اور حامدمیر ایک بنگلہ دیشی ٹیلی ویژن پر ایک ساتھ مدعو تھے، اُس ٹیلی ویژن انٹرویو میں حامد میر بنگلہ دیشی حکومت کو نہایت شرمناک طور پر مشرقی پاکستان کے دور میں تب کے اُن رہنماوؤں کو سزا دینے اور جنگی مقدمات میں سزا دینے کا پرجوش مطالبہ کر رہے تھے، تو انسانی حقوق کی اس علمبردار اور معروف وکیل عاصمہ جہانگیر نے وہاں چپ کیوں سادھے رکھے تھیں؟کیا عاصمہ جہانگیر اِسےبھی ایک انتہائ غیر مناسب رویئے سے تعبیر کریں گی؟
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے شہر قائد میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ کیا اور دوست ممالک کی فعال شرکت کو سراہا ہے ۔پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 ...
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے وفاقی دارالحکومت میں 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جس کے تحت کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی اجتماع پر پابندی ہوگی جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو شہر میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ۔تفصیلات کے مطابق دفعہ 144 کے تحت اسلام آباد میں 5 یا 5 سے زائد...
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دے دی ہے ۔اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے طویل ملاقات ہوئی، 24نومبر بہت اہم دن ہے ، عمران خان نے کہا کہ ...
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملکی سیکیورٹی میں رکاوٹ بننے اور فوج کو کام سے روکنے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے ۔وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے ، کوئی یونیفارم میں ...
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست خارج کردی۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔پاک فوج کے سربراہ جنرل...
برطانوی وزیر مملکت خارجہ برائے جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطی ہمیش فالکنر پاکستان پہنچ گئے ۔ذرائع کے مطابق یہ کسی بھی برطانوی حکومتی شخصیت کا 30 ماہ بعد پہلا دورہ پاکستان ہے ، ایئرپورٹ پر برطانیہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر محمد فیصل نے مہمان خصوصی کا استقبال کیا۔برطانوی وزیر کا دورہ پ...
عمران خان نے کہا ہے کہ میڈیا کا گلہ گھونٹ دیا گیا ، وی پی این پر پابندی لگا دی،8فروری کو ووٹ ڈالا، انہوں نے آپ کو باہر نکال کر چوروں کو پارلیمنٹ میں بٹھا دیا، آپ اب غلام بن چکے ہیں، علیمہ خانم عمران خان کی رہائی کے بغیر واپس نہیں آئیں گے، ورکز اجلاس میں وزیراعلیٰ کے پی علی امین ...
وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں الجہاد الجہاد کے نعرے لگ گئے ۔ورکرز اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے جب کہا کہ ہم نے عمران خان کی رہائی بغیر واپس نہیں آنا تو کارکنوں نے نعرے لگانا شروع کردیے ۔پی ٹی آئی کارکنان کافی دیر تک ’’سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد اور انق...