وجود

... loading ...

وجود

طالبان کے روس کے ساتھ بات چیت کے خفیہ اشارے

پیر 23 نومبر 2015 طالبان کے روس کے ساتھ بات چیت کے خفیہ اشارے

mullah-umar

(گزشتہ دنوں العربیہ نیوز چینل کے نامہ نگار وں نے افغان دارالحکومت کابل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ایک ٹی وی کے پروگرام کے لیے کچھ اہم شخصیات کے انٹرویو کیے اور دو دستاویزی فلمیں بھی تیار کیں۔ انہوں نے اپنے دورہ کابل میں وہاں موجود طالبان قیادت سے ملاقات بھی کی۔ محمود الورواری نے دو سال قبل فوت ہونے والے طالبان لیڈر ملا محمد عمر کی زندگی کے بارے میں کئی ایسی باتیں بھی معلوم کی ہیں جو آج تک پردہ راز میں تھیں۔یہ ایک اہم ترین کاوش ہے جس میں افغانستان کے موجودہ حالات کی ایک جھلک بھی ہےاور ماضی میں طالبان تحریک کے کردار کی ایک تصویر بھی سامنےآتی ہے۔اس کے علاوہ ملاعمر کی زندگی کے بعض گوشے بھی اس سے واضح ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی بالواسطہ طور پر داعش کے پس پردہ امریکی کھیل کا ایک پہلو بھی منکشف ہوتا ہے۔اس تحریر میں روس کے علاقے میں بڑھتے ہوئے کر دار کی بھی ایک جھلک صاف نظر آتی ہے۔ اور عرب دنیا کا ان حالات کو دیکھنے کا تناظر بھی واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “وجود ڈاٹ کام” اس روداد کو جوں کا تُوں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہے۔ )


نامہ نگاروں کی ملاقات طالبان دور کے وزیرخارجہ اور ملا محمد عمر کے پرنسپل سیکرٹری مولوی احمد متوکل سے ہوئی۔ مولوی متوکل ایک سلجھی شخصیت ہیں اور نہایت محتاط انداز میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ملاعمر کی زندگی کے بعض گم نام گوشوں سے بھی پردہ اٹھایا۔ طویل عرصے تک ملاعمر کی رفاقت کے باعث مولوی متوکل جانتے ہیں کہ ملاعمر اورالقاعدہ کے مقتول رہ نما اسامہ بن لادن کے درمیان کس نوعیت کے تعلقات قائم تھے۔

ملا عمرکی وفات کے دو سال گزرجانے کے باوجود ان کی موت کی خبر کو چھپائے رکھنے میں کیا راز تھا؟ اس سوال کے جواب میں مولوی متوکل نے کہا ہے کہ ہم جانتے تھے کہ ملاعمر مجاہد فوت ہو چکے ہیں۔ اگر ہم ان کی وفات کی خبر فورا مشتہر کر دیتے تو اس کے نتیجے میں طالبان کی صفوں میں پھوٹ پڑنے کا اندیشہ تھا۔ طالبان کو باہم متحد رکھنے کے لیے ملا عمر کی وفات کی خبر خفیہ رکھی گئی۔

اس انٹرویو کی ایک حیران کن بات یہ ہے کہ مولوی احمد متوکل نے ملا عمرمحمد عمر مرحوم کی جوانی کی ایک یاد گار تصویر بھی مہیا کی جو اُن کی مروجہ تصویر سے بالکل مختلف ہے۔

محمد الورواری نے جب مولوی متوکل سے ملاعمر کی گھنی داڑھی اور ایک آنکھ کے بغیر انٹرنیٹ پر مشہور ہونے والی تصویر کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تصویر جعلی ہے۔ طالبان کی جانب سے اس تصویر پر اس لیے اعتراض نہیں کیا گیا کیونکہ اصل تصویر سامنے آنے سے سیکورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔ امریکی انٹیلی جنس ادارے بھی ملا عمر کا تعاقب کر رہے تھے۔

العربیہ کے نامہ نگار نے مولوی متوکل کو ایک فوٹیج دکھائی جس میں ملاعمر کو کندھے پر “آرپی جی” راکٹ اٹھائے دکھایا گیا ہے۔ الورواری نے اس کی تصدیق چاہی تو متوکل مسکرائے مگراس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

محمود الورواری کے کابل میں مشاہدات

العربیہ کے نامہ نگار نے کابل میں جس بھی اہم شخصیت یا دانشور سے ملاقات کی اس سے بات چیت میں دولت اسلامی کہلوانے والی تنظیم “داعش” کے حوالے سے سوال و جواب ضرور ہوئے۔ افغانستان میں “داعش” کے حوالے سے مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ اسے روس پر رعب اور خوف طاری کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ “داعش” افغانستان کی شمالی سرحدودں سے گزر کر سوویت یونین کی سابقہ ریاستوں میں دراندازی اور انتشار پھیلانے کے لیے کوشاں ہے۔ داعش کا بڑھتا ہوا خوف محض خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

چند ماہ قبل داعش نے انٹرنیٹ پر روسی زبان میں ایک ویڈیو فوٹیج پوسٹ کی تھی جس میں ایک دس سالہ بچے کے ہاتھوں قازقستان کے دو شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے دکھایا گیا تھا۔ اس فوٹیج کا مقصد بھی روس کو یہ پیغام دینا تھا کہ داعش اس کے پہلو میں پہنچ چکی ہے۔ داعش کی جانب سے سابق سوویت یونین کی ریاستوں اور افغانستان سے متصل وسطی ایشیائی ملکوں میں سرگرم ہونا ماسکو کی شام میں مداخلت کا رد عمل بھی ہو سکتا ہے۔

ملا متوکل نے کہا کہ ملاعمر نے اسامہ کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چاہے ہم اسامہ کو ملک بدر کریں یا واشنگٹن کے حوالے کریں۔ امریکیوں نے افغانستان پر ہرصورت میں قبضے کا تہیہ کر رکھا ہے

اس ضمن میں ایک روسی عہدیدار زامیر کابولوف کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ داعش شمالی افغانستان میں اپنی قوت مجتمع کر رہی ہے، جہاں وسطی ایشیائی ریاستوں کے جنگجو اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے شمال مشرقی افغانستان میں داعشی جنگجووؤں کی تعداد کا اندازہ پانچ ہزار بتایا۔ مسٹر کابلوف کی یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ داعش جنگجو افغانستان میں امریکی اور دوسری غیرملکی فوج سے نہیں لڑتے اور نہ ہی انہیں کسی جگہ افغان فورسز سے برسرپیکار دیکھا گیا ہے۔

داعش افغانستان میں امریکی اور افغان فوج کے خلاف نہیں لڑ رہی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم اس علاقے میں صرف روس کے خلاف جنگ چھیڑنے کی خواہاں ہے۔ افغانستان میں روس کے خلاف وہی لوگ متحد ہو رہے ہیں جنہوں نے 1980ء کے عشرے میں افغانستان سے روسی فوج کو مار بھگایا تھا۔

روس اور طالبان

افغانستان میں داعش کے بڑھتے خطرات کے بعد یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روسی حکومت اپنی سابقہ دشمن طالبان تحریک کے ساتھ داعش کے خلاف گٹھ جوڑ کرنا چاہتی ہے۔ داعش کی جانب سے افغانستان میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کے باعث طالبان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان بھی اپنی بقاء کے لیے مشوش دکھائی دیتے ہیں۔ داعش جس تیزی کے ساتھ عسکری سازوسامان اور مالی وسائل تک رسائی حاصل کر رہی ہے وہ طالبان کے لیے خطرے سے کم نہیں۔

امریکی ویب سائیٹ”ڈیلی بیسٹ” کے مطابق افغان تحریک طالبان نے سابق سوویت یونین کی بعض پڑوسی ریاستوں کے ساتھ بھی روابط بڑھانا شروع کیے ہیں۔ یہاں تک کہ 1989ء میں افغانستان سے نکالے جانے والے روس کے ساتھ بھی طالبان کی خفیہ بات چیت کےاشارے ملے ہیں۔

مولوی متوکل نے کہا کہ ہم اُسامہ کو کسی مسلمان ملک کے حوالے کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس پر کوئی مسلمان ملک راضی نہ ہوا

ماسکو اور طالبان کے درمیان روابط کے حوالے سے بے شمار سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں تاجکستان سے قریب افغان صوبہ قندوز پر طالبان جنگجووؤں کا قبضہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا اس قبضے میں طالبان کو کسی بیرونی طاقت کی مدد حاصل تھی یا نہیں؟

میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں ماہ افغانستان کے نائب صدر اور تاجک رہ نما جنرل عبدالرشید دوستم نے ماسکو اور گروزنی کا دورہ کیا۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے طالبان کے حوالے سے زیادہ سخت لہجہ اختیار نہیں کیا مگر داعش پر کڑی تنقید کی۔ گروزنی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جنرل دوستم نے کہا کہ دولت مشترکہ کے تمام ممالک “داعش” کی سرکوبی کے لیے ہمارے ساتھ مل کر لڑنے کو تیار ہیں۔

اسی دوران افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماسکو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کابل کے ساتھ تعاون کو تیار ہے۔ انہوں نے امریکی صدر باراک اوباما سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فوجیں مزید دو سال تک افغانستان میں رہنے دیں۔ کیا افغان حکومت کی طرف سے امریکی فوجوں کے انخلاء کو روکنے کا مطالبہ صرف داعش کے خلاف جنگ ہے یا کابل کو ایک بار پھر روس کی مداخلت کا بھی اندیشہ ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے۔

داعش اور افغانستان

افغانستان میں العربیہ کے نامہ نگار سے ملاقات کرنے والے اہم عہدیداروں کو افغانستان میں “داعش” کی موجودگی کے سوال کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم سب کا ایک ہی جواب تھا کہ “داعش” کا خطرہ جتنا میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اتنا نہیں ہے۔ تاہم داعش کے وجود سے انکار بھی ممکن نہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں نسبتا امن قائم ہے اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی “القاعدہ ۔ طالبان” نے کہا ہے کہ دولت اسلامی “داعش” افغانستان میں تیزی کے ساتھ اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ داعش افغانستان کے جنگجووؤں میں تیزی کے ساتھ مقبول بھی ہو رہی ہے۔یو این کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند تنظیم”داعش” کے افغانستان کے 25 صوبوں میں مسلح گروپوں کے ساتھ روابط ہیں۔

ایک افغان عہدیدار نے اسی حوالے سےبات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورت حال نہایت پیچیدہ ہے۔ افغان حکومت ہی نہیں بلکہ طالبان بھی داعش کو یہاں انڈے بچے دینے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ داعش طالبان کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہوئے ان سے برسرجنگ ہے۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی “القاعدہ ۔ طالبان” کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کی صفوں میں موجود 10 فی صد جنگجو داعش کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو طالبان کی صفوں میں یا تو نئے شامل ہوئے ہیں یا ان کے طالبان کی مرکزی قیادت کے ساتھ اختلافات ہیں۔ داعش کی حمایت کرنے والے طالبان جنگجو اپنی ایک الگ شناخت کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان کے روایتی انداز سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔

عبدالحکیم مجاہد

العربیہ کے نامہ نگار محمود الورواری نے اپنے دورہ افغانستان کے دوران دارالحکومت کابل میں تحریک طالبان کے بانی رہ نما اور معتدل شخصیت ملا عبدالحکیم مجاہد سے ملاقات کی۔ ملا عبدالحکیم 1990ء کے عشرے میں طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ میں افغانستان کے مندوب مقرر کیے گئے تھے۔ چونکہ اقوام متحدہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا اس لیے انہیں نیویارک میں ‘یو این’ کے صدر دفتر میں جگہ نہیں مل سکی۔ انہوں نے امریکا ہی میں اپنا دفتر بنایا۔ 2001ء میں نائن الیون کے واقعے سے قبل ملا عبدالحکیم مجاہد طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے لیے کوشاں رہے۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد جب امریکا نے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو اسامہ کی امریکیوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرنے والوں میں عبدالحکیم مجاہد بھی پیش پیش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری ملت کو قربان کرنے کے بجائے ایک شخص کی قربانی دینا زیادہ بہتر ہے۔

کابل میں ملاعبدالحکیم مجاہد کی رہائش گاہ سے متصل افغانستان کی امن کونسل کا صدر دفتر واقع ہے۔ یہ کونسل سابق افغان صدر حامد کرزئی نے 2010ء میں قائم کی تھی جس کا مقصد ملک کے ناراض گروپوں بالخصوص طالبان کے ساتھ مصالحتی کوششوں کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ کونسل اور اس کا دفتر آج بھی موجود ہیں مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔

مولوی احمد متوکل کے مطابق ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان تحریک کمزور ضرور ہوئی ہے مگر ثابت قدم ہے۔طالبان تحریک داعش کے خلاف جنگ میں کسی دوسرے ملک سے کسی قسم کا اتحاد نہیں کرے گی

ملا عبدالحکیم نے العربیہ کے نامہ نگار سے معتدل انداز میں بات کی۔ ان کی گفتگو سے افغانستان میں قیام امن کی خواہش نمایاں دکھائی دے رہی تھی۔ مہمان نواز عبدالحکیم مجاہد کی گھنی داڑھی میں سفیدی نہیں آئی اور نہ ہی ان کے چہرے پر بڑھاپے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے العربیہ سے نہایت ہلکے پھلکے اور مزاحیہ پیرائے میں باتیں کرتے ہوئے کئی سنجیدہ سوالوں کے جوابات دیے۔اُنہوں نے کہا کہ جب امریکا نے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو میں نے اس وقت کے طالبان وزیرخارجہ اور ملا عمر کے ترجمان ملا احمد متوکل سے درخواست کی کہ آپ اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ملاعمر سے مشورے کے بعد اس کا جواب دوں گا۔ چند روز بعد ملا متوکل نے کہا کہ ملاعمر نے اسامہ کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چاہے ہم اسامہ کو ملک بدر کریں یا واشنگٹن کے حوالے کریں۔ امریکیوں نے افغانستان پر ہرصورت میں قبضے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

ملا عبدالحکیم مجاہد عربی سمجھ لیتے ہیں مگر بول نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ میں واپس افغانستان آیا تو ملا احمد متوکل سے ملاقات کی۔ مزاح مزاح میں ان سے کہا کہ طالبان مجھے اغواء کرنا چاہتے تھے۔ میں خود ہی چل کر آپ کے پاس آ گیا ہوں۔

ملا حکیم میڈیا کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ زیادہ تر فارسی یا پشتو میں بات کرتے ہیں۔ انگریزی بولنے پر قدرت رکھتے ہیں مگر اس میں بات نہیں کرتے۔ محمود الورواری کو کہنے لگے”جو شخص میرے گھر میں داخل ہو گیا وہ محفوظ ہو گیا”۔

اسامہ بن لادن کی حوالگی اور ملا متوکل

العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان دور کے وزیرخارجہ ملا احمد متوکل نے بتایا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو 2001ء میں امریکا کے حوالے کیوں نہ کیا۔ محمود الورواری نے استفسار کیا کہ جب ملا عبدالحکیم مجاہد نے آپ سے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کی گزارش کی تھی تو آپ نے انہیں ملا عمرسے مشورے کے بعد آگاہ کرنے کا کہا تھا۔ ملا عمرنے کیا مشورہ دیا تھا۔

ملا احمد متوکل نے بتایا کہ میں اس وقت وزیرخارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ بن لادن کی امریکا حوالگی کا مطالبہ صرف ملا عبدالحکیم کی طرف سے نہیں بلکہ کئی عرب اور مسلمان ملکوں کی طرف سے بھی کیا جا رہا تھا۔ ہم اُسامہ کو کسی مسلمان ملک کے حوالے کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس پر کوئی مسلمان ملک راضی نہ ہوا۔ ہم مسلمان ہیں اور افغانستان میں اسلامی حکومت قائم تھی۔ اس لیے ہم بن لادن کو کسی غیرمسلم ملک کے بجائے مسلمان ریاست کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔اس حوالے سے ابھی ہم کوئی فیصلہ کر ہی نہیں پائے تھے کہ امریکیوں نے افغانستان پر جنگ مسلط کر دی۔ ملا عمر حقیقی معنوں میں بن لادن کا معاملہ حل کرنا چاہتے تھے مگر ہمیں اس کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

انٹرویو کے دوران ملا متوکل سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی ملا عمر دو سال قبل انتقال کر گئے تھے تو انہوں نے ہاں میں سرہلایا اور کہا کہ اس کی خبر اس لیے پوشیدہ رکھی گئی تاکہ طالبان کی صفوں کو متحد رکھا جا سکے۔ ملا عمرکی وفات کی خبر تحریک طالبان میں ایک زلزلہ بپا کر سکتی تھی اور اس کے نتیجے میں تحریک کی ٹوٹ پھوٹ کے خدشات تھے۔ یہ خبر اسامہ بن لادن کے قتل سے بھی زیادہ بھاری ثابت ہونا تھی۔ اس لیے اسے چھپا کر رکھا گیا۔

ملا عمر کی تصویر

العربیہ کے نامہ نگار”محمود الورواری” نے ملا احمد متوکل سے ملا عمر مرحوم کی تصویر کی شناخت کے بارے میں پوچھا اور ساتھ ہی ان سے ملا عمر کی کوئی صاف اور واضح تصویر دینے کی بھی درخواست کی۔

پہلے تو انہوں نے بات نہیں مانی، تاہم بعد ازاں میرے اور ملا متوکل کے ایک مشترکہ دوست کی مدد سے موبائل کے ذریعے ملاعمر کی ایک تصویر ارسال کی۔ یہ تصویر حیران کن ہے۔ ہم سب کے ذہنوں میں ملاعمر کی ایک آنکھ والی تصویر تھی مگر ملا متوکل کی جانب سے دی گئی تصویراس سے بالکل مختلف نکلی۔ ملاعمر کی نیلی آنکھیں ہالی وڈ کے کسی فلمی ہیرو کی طرح خوبصورت ہیں۔

طالبان داعش سے طاقتور

ملاعمر کے دست راست مولوی احمد متوکل سے افغانستان میں سرگرم دولت اسلامی “داعش” کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ “داعش” کا طالبان سے کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان داعش سے زیادہ طاقتور ہیں۔ داعش جس تیزی کے ساتھ اٹھی ہے اسی سرعت کے ساتھ زوال کا شکار ہو گی جب کہ طالبان افغان عوام میں اپنی گہری اور مضبوط جڑیں رکھتے ہیں۔داعش مخالف جنگ میں طالبان اور روس کے درمیان اتحاد کو خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے ملا متوکل نے کہا کہ ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان تحریک کمزور ضرور ہوئی ہے مگر ثابت قدم ہے۔ داعش کے خلاف جنگ میں کسی دوسرے ملک سے کسی قسم کا اتحاد نہیں کرے گی۔

تحریک طالبان کی شروعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملا احمد متوکل ماضی میں چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان دراصل دینی مدارس کے طلباء کی ایک تحریک تھی جس کا آغاز جنوب مغربی افغانستان کے صوبہ ننگر ہار سے ہوا۔ پاکستان کی سرحد سے متصل صوبے میں یہ تحریک 1994ء میں ملا عمر نے قائم کی۔ ابتدامیں اس تحریک کا مقصد ملک میں غیراخلاقی مظاہر اور لوٹ مار کا خاتمہ تھا۔ بعد ازاں ملک میں قیام امن کے لیے مساعی بھی تحریک کا حصہ بن گئیں۔ دینی مدارس کے طلباء نے تحریک کو مضبوط کیا۔اور 1994ء اور 1996ء کے عرصے میں طالبان نے افغانستان کے وسیع وعریض علاقے پر اپنا سکہ جما لیا تھا۔

2001ء میں جب امریکی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو طالبان دور کے وزیرخارجہ ملا متوکل نے خود کو امریکی حکام کے حوالے کر دیا۔ امریکا نے انہیں دو سال تک بگرام جیل میں قید رکھا۔ سنہ 2004ء میں رہائی کے بعد وہ حامد کرزئی کے قریب رہے۔ اب بھی افغانستان میں انہیں سیاسی حلقوں میں نہایت ادب واحترام سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کے پاس تحریک طالبان کا کوئی عہدہ نہیں مگر ان کے دل میں طالبان کے لیے محبت اب بھی موجود ہے۔

(ابل ۔ محمود الورواری)

بشکریہ العربیہ نیوز


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر