وجود

... loading ...

وجود

دورہ

پیر 23 نومبر 2015 دورہ

Raheel-Sharif-John-Kerry

جنرل راحیل شریف کا دورۂ امریکا ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب پاکستان کے اندر اور باہر خاص نوعیت کے رجحانات تشکیل پارہے تھے۔ ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کی تشکیل کا مغربی قوتوں کا منصوبہ روس اور چین بھانپ چکے ہیں۔ اور خود مشرقِ وسطیٰ کی پرُانی طاقتیں اس کی مزاحمت کے لئے خود کو تیار کر رہی ہیں۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب سمیت یہ قوتیں اپنے پُرانے امریکی محور کو بقدرِ ضرورت ترک کرکے روس اور چین کے مدار میں گردش کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گی؟ اس اہم ترین گردش کے ممکنہ اثرات کے ادراک کی معمولی صلاحیت بھی پاکستان کے جمہوری حکمرانوں میں نظر نہیں آتی۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اس کا ادراک پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے ہوا۔ جنہوں نے نہایت خاموشی سے روس اور چین سے خاص نوعیت کے تعلقات کو گہرائی دینے کے لئے دورے کئے اور ایک زبردست قسم کا ہمہ وقتی مواصلاتی رابطہ ماسکو ، بیجنگ اور پاکستانی جی ایچ کیو میں قائم کر دیا۔ ظاہر ہے امریکا ان بڑھتے ہوئے تزویراتی نوعیت کے تعلقات کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس عرصے میں جب روس اور سعودی عرب نے باہمی تعلقات میں اعتماد سازی کے لئے اقدامات اُٹھانے شروع کئے تو مشرقِ وسطیٰ میں فکر ونظر کا ایک نیا تناظر تخلیق پانے لگا۔ جنرل راحیل شریف نے اِسی ماحول میں سعودی عرب کا ایک سربراہِ ریاست کے طور پر دورہ کیا۔ میاں نوازشریف جو سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو شخصی تحویل میں رکھنے کی پُرانی نفسیات میں مبتلا ہیں ، یمن کے بحران پر اپنے اعتماد کو کھو چکے تھے اور پاکستانی ریاست پر اپنے اثر کے حوالے سے ریاستی حکمرانوں کو ایک منفی تاثر دے چکے تھے۔ سعودی عرب پر بھی امریکا کی طرح یہ واضح ہو چکا تھا کہ پاکستان میں قوت کے مراکز اب بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ اور کوئی بھی بات کرنی ہو تو کس سے کی جانی چاہئے؟ اگر شریف خاندان نے جنرل راحیل شریف کے دورۂ سعودی عرب کا اپنی پرانی عادتوں کے ساتھ بُرا منایا ہے تو یہ عین قرین از قیا س ہے۔ مگر وہ دراصل یہ پڑھنے میں ناکام رہے کہ یہ دورہ اُن کے ساس بہو والے انداز ِ بے رخی سے زیادہ مضمرات کا حامل تھا۔ جنرل راحیل شریف کے دورۂ امریکا سے قبل دورۂ سعودی عرب دراصل اِس پورے عمل کے بہاؤ کو افغانستان کے تناظر سے زیادہ بڑا پس منظر مہیا کرتا ہے۔

جنرل راحیل شریف نے حالیہ دورۂ امریکا میں جس طرح کا برتاؤ کیا ہے ۔ اس کی مثال ستمبر ۱۹۵۳ء کے پاکستان سے ملتی ہے۔ جب جنرل ایوب خان نے آگے بڑھ کر تمام خارجہ اُمور اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے

جنرل راحیل شریف نے حالیہ دورۂ امریکا میں جس طرح کا برتاؤ کیا ہے ۔ اس کی مثال ستمبر ۱۹۵۳ء کے پاکستان سے ملتی ہے۔ جب جنرل ایوب خان نے آگے بڑھ کر تمام خارجہ اُمور اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے۔ یہاں ایک آسانی پہلے سے موجود تھی ۔ پاک فوج ملکی سلامتی سے متعلق ممالک کے ساتھ سیاسی معاملات کو آگے بڑھا نے کے اُمور پر بھی اپنی سخت نگرانی کی اب ایک اچھی یا بُری تاریخ بھی رکھتی ہے۔ اگر چہ جنرل راحیل شریف نے امریکا کا دورہ پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف سے ذرا بعد میں کیا مگر جنرل ایوب خان نے ستمبر ۱۹۵۳ء میں پاکستانی سربراہ اور وزیر خارجہ سے پہلے امریکا کا دورہ خود کیا۔ تب حالات دوسرے تھے، پاکستان کو فوجی امداد کی سخت ضرورت تھی۔ اور امریکا ایک دُہرا کھیل کھیلنے میں مصروف تھا۔ سابق سفیر اور انتہائی اہم کتابوں کے مصنف ڈینس ککس (Dennis Kux) نے اپنی ایک کتاب “The United States and Pakistan, 1947-2000” میں جنرل ایوب خان کے دورے کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تب امریکا پاکستان کی فوجی امداد کے لئے رضامند نہیں ہورہا تھا۔ چنانچہ جنرل ایوب امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی ایشیائی امور کے نگران کے دفتر ’’بغیر اطلاع دیئے‘‘ چلے گئے۔ جنرل ایوب خان نے وہاں جو کچھ کہا ، کتاب کے تیسرے باب میں اس کی تفصیلات موجود ہے۔ ایک موقع پر ایوب خان نے کہا کہ

For Christ’s sake, I did not come here to look at the barracks. Our army can be your army if you want us. But let’s make a decision.

(حضرت عیسیٰ کے لئے! دیکھیں میں یہاں پر بیرکیں دیکھنے کے لئے نہیں آیا، اگر آپ چاہیں تو ہماری فوج آپ کی فوج ہو سکتی ہے۔ مگر پہلے ہم کوئی فیصلہ تو کر لیں)

ظاہر ہے کہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورے میں یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ مگر غیر متوقع طور پر جنرل راحیل شریف کے دورے سے قبل وائس آف امریکاکی ایک خبر نے جنرل ایوب خان کے اس دورے کا پس منظر یادداشتوں میں اُجاگر کر دیا۔ وائس آف امریکا کی ایک خبر میں کہا گیا کہ’’ جنرل راحیل شریف اپنی خواہش پر امریکا کا دورہ کر رہے ہیں اور پینٹاگون کے عہدیدار جنرل راحیل سے ان کی درخواست پر ملاقات کریں گے۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ جنرل راحیل شریف کے اہم ترین دورے کو ایک منفی رنگ دینے کی کوشش تھی۔ اب عسکری ذرائع سے یہ خبریں مل رہی ہیں کہ اس دورے کو منفی رخ دینے کی کوششیں کرنے والے لوگوں کا پتا چلا لیا گیا ہے۔

اس سے قطع نظر جنرل ایوب خان کے مذکورہ دورے کا ایک نتیجہ جو نکلا تھا ، وہ ٹائم میگزین کے نومبر ۱۹۵۴ء کے سرورق پر چمکا ، جس میں پاکستان میں آنے والی تبدیلیوں کا احاطہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ بیان کیا گیا کہ

’’کسی بڑے خون خرابے کے بغیر پاکستان ایک غیر مستحکم مغرب نواز جمہوریت سے مستحکم مغرب نواز فوجی آمریت میں تبدیل ہو گیا۔‘‘

جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکا ایک مختلف سیاق وسباق میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے پاکستان پر آئندہ دنوں میں نہایت دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ جہاں تک پاکستان کا افغانستان کے حوالے سے کردار کا تعلق ہے تو یہ اب ایک ایسا بڑا معاملہ نہیں رہا جو جنرل راحیل کے دورے پر منتج ہوتا۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان اس معاملے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایک منظم نظام موجود ہے۔ اور یہ ان دنوں اُن پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہے جو چین اور روس کی حالیہ دلچسپیوں کے باعث مختلف محاذوں پر پیش آسکتی ہیں، یا آرہی ہیں۔ طالبان کی طرف سے قطر دفتر کھولنے کے اشارے بھی اسی دورے کے دوران آچکے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اس معاملے کا کوئی اتنا ناقابل حل قضیہ نہ تھا۔ جنرل راحیل شریف کی امریکا میں ہونے والی ملاقاتوں پر ایک نظر ڈال لینے سے ہی اندازا ہوتا ہے کہ یہ دورہ اس سے بڑھ کر تھا ۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی نائب صدر سے بھی ایک غیر معمولی ملاقات کی ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی تبدیلیوں کے علاوہ حالیہ پیرس حملے میں کچھ مخصوص خبروں کا موضوع بنتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ ایک بساط اُلٹنے پلٹنے والے دورے کی نوعیت رکھتا ہے۔ چاہے یہ گہرے سمندروں کے اندر خاموشی سے ہونے والا ہو ، یا طوفانوں کی طرح شور پیدا کرنے والا ہو۔ اگلے چند ہفتوں میں اس دورے کی تشریح عملی واقعات سے کرنا زیادہ آسان ہو گا۔ تب تک خواجہ آصف اور چوہدری نثار کی وضاحتوں سے کام چلاتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر