... loading ...
یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ جب فاتحِ کارگل بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف صاحب نے ملک میں جمہوریت کے نازک پودے پر تازہ شب خون مارا تھا اور مشرف صاحب کے ساتھی اور ان کے(اب سابقہ) ادارے کے تمام ماتحت شعبہ جات ہر گلی محلے میں اس غیر آئینی اور غیر قانونی حرکت کے ’جواز ‘ کی تلاش میں گھوم رہے تھے ۔یہ ’جوازی‘ آپ کو ہر فائیو اسٹار محفل پی ٹی وی کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرامات کے علاوہ مختلف اخبارات کے نیوز روم میں مل جاتے تھے۔ اُس وقت یہ لوگ اس جواز کی تلاش میں کیا کیا مسخریاں کرتے پائے جاتے، اگر ان کی تفصیل کو مرتب کر لیا جائے تو ڈاکٹر یونس بٹ کی چھٹی ہو جائے اور مشتاق یوسفی مزید کچھ لکھنے سے توبہ کر لیں۔
بس ایک دانہ چکھ لیں تو آپ کو ان جوازیوں کی مبلغ اوقات کا پتہ چل جائے گا۔ ایک این جی او میں کام کرنے والے ایک جوازی جن کی ڈیوٹی ہم پر لگی ہوئی تھی، ان کا ایک قضیہ ہم نے ان دنوں ہی اپنے اخبار میں رپورٹ کیا تھا جس میں نے ان کی بیگم صاحبہ نے پولیس کو یہ شکایت کی تھی کہ ان کے شوہرِِ نامدار ان کی شبینہ سرگرمیوں میں دخیل ہیں ۔اس لئے ان کو گھر میں داخلے سے روکا جائے۔ آج کل یہ صاحب میاں نواز شریف کے دستِ راست لاہور کے ایک بڑے پراپرٹی ڈویلپر کے دفتر میں لوگوں کو دھمکانے کی ڈیوٹی پر متعین پائے جاتے ہیں ۔کیونکہ یہ ڈویلپر صاحب حسبِ وعدہ لوگوں کو مکانات بنا کر فراہم نہیں کر سکے اور نہ ان کا ارادہ ہے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
اُس وقت ان جوازیوں کی بریگیڈ کے فائیواسٹار نہیں تو فورا سٹار سربراہ لاہور کے ایک انگریزی ہفت روزہ رسالے کے ایڈیٹر ، جناب نجم سیٹھی صاحب بھی تھے ۔ جنہوں نے اپنے رسالے میں کمانڈو کی کتوں والی تصویر لگا کر اپنے لبرل ازم کا پرچار کرتے ہوئے ، مارشل لاء لگانے پر کمانڈو کی خوب خوب پیٹھ ٹھونکی اور نواز شریف اور عمران خان کے نام سے مزاحیہ کالم لکھ لکھ کر انگریزی صحافت میں ان کا مذاق بنا کر کمانڈو کو خوب خوب مدد فراہم کی۔
مگر ’’ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ‘‘کے مصداق امریکامیں نو گیارہ ہو گیا اور فاتح کارگل کو اقتدار میں رہنے کا جوا ز میسر آ گیا۔ اتنے کم عرصے میں کارگل کی جنگ میں ذلت آمیز شکست کے بعد بہادر کمانڈو نے امریکی صدر بش کی ایک فون کال پر ہتھیار ڈال کر فوجی تاریخ میں جب ’سنہرے ‘باب کا اضافہ کیا تو اس کے جوازیوں نے اسے قوم سے خطاب کا مشورہ دیا جس کے نتیجے میں فاتحِ کارگل، میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں اور مجھے سب پتہ ہے جیسے شاہکار بیانیوں کے خالق ،جناب بہادرکمانڈو نے قوم کو بتایا کہ ہم نے افغانستان کو تباہ کرنے میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ مفت میں نہیں کیا۔ اس کے جواب میں ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ امریکی صدر ذاتی طور پرمسئلہ کشمیر حل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور بھارت پر دباؤ ڈالیں گے(یعنی امریکی حکومت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوگا)۔ خطے میں بھارت کی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور یہ کہ افغانستان میں کسی بھی صورت میں پاکستان مخالف حکومت برسرِ اقتدار نہیں آئے گی۔
اگر دیکھا جائے تو ان میں سے کچھ بھی ایسے نہیں ہوا جیسے بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف صاحب نے قوم سے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا تھا۔اب پندرہ سال بعد بھارت 1999 ء کے مقابلے میں خطے کی زیادہ بالادست قوت ہے۔ اُس دن سے لے کر آج تک افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت ہی برسراقتدار ہے۔ بھلے ہم اپنا سر ہی کاٹ کر کیوں نہ پیش کر دیں، اور ابھی کل ہی امریکی دفترِ خارجہ نے یہ یاد دہانی کروانا ضروری خیال ہے کہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ ہے اور پاکستان اور بھارت کو یہ باہمی مذاکرات سے حل کرنا چاہیے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی دفترِ خارجہ کی طرف سے یہ یاد دہانی عین اُس وقت کروائی گئی ہے جب جنرل راحیل شریف صاحب امریکا کے دورے پر ہیں اور ان کے ساتھ جانے والے ان کے ترجمان نے سیاسی حکومت کو اس کی ’اوقات ‘یاد دلانے کے لئے گزشتہ روز ہی مسئلہ کشمیر پر زبان کھولنے کی جسارت کی ہے۔ امریکیوں نے جرنیل کی امریکامیں موجودگی کے دوران ہی حساب بے باق کرنا پسند کیا۔
اب آتے ہیں دوسرے صاحب کی طرف ۔ بھارت ،آسٹریلیا اور برطانیانے جب کرکٹ پر اپنی اجارہ دار ی قائم کرنے اور پاکستان کو اس کھیل میں مزید الگ تھلگ کرنے کے لئے بگ تھری کا فارمولا پیش کیا تو جنوبی افریقا سمیت دنیا کے باقی تمام کرکٹ کھیلنے والے ممالک نے اس کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے پاکستان کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ اُس وقت دو بندے ایسے تھے جن کا خیال تھا کہ پاکستان کو فوراً بھارت کے سامنے سجدہ کر دینا چاہیے ۔ اُن میں سے ایک توسابق کرکٹ کھلاڑی اور موجودہ کمنٹیٹر جناب رمیزراجہ تھے جن کی مجبوری سمجھ آتی تھی کہ وہ تاج انٹرٹینمنٹ نیٹ ورک نئی دہلی ، بھارت ، جو کہ ٹین ا سپورٹس کے نام سے کھیلوں کے ٹی وی چینل چلانے والی ایک کمپنی ہے، کے باقاعدہ تنخواہ دار ملازم تھے۔ لیکن دوسرے صاحب جناب نجم سیٹھی تھے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کی مجلسِ عاملہ کے سربراہ ہونے کے باعث ملک میں کرکٹ کے انتظامی معاملات پر پوری گرفت رکھے ہوئے تھے۔ ان کی طرف سے یہ مژدہ جان فزا سنایا گیا کہ ہم نے بہت باعزت معاہدہ کیا ہے اور بھارت اس معاملے پر ہماری مدد (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں ووٹ ) کے بدلے ہم سے 2022 ء تک چھ عدد کرکٹ سیریز کھیلے گا۔
جب پہلی سیریز کی باری آئی تو بھارت کی طرف سے آواز آئی کہ کیسی سیریز اور کیسا معاہدہ؟ ہاں اگر موڈ ہے تو ہماری طرف آ کر کھیل لو۔ دراصل کسی بھی پاک بھارت کرکٹ سیریز کا مطلب ہوتا ہے کہ بیسیوں ارب روپے کی آمدن ۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر یہ سیریز متحدہ عرب امارات میں ہوتی ہے تو اس کی ساری آمدن پاکستان کو ملے گی جو بلاشبہ دس ارب روپے سے زائد ہو گی ۔ اور اگر ہم یہ سیریز شاہد آفریدی جیسے عقلِ کل حضرات کے کہنے پر بھارت میں کھیلنے چلے جاتے ہیں تو بھارت میں کرکٹ بورڈ کے مروجہ اصولوں کے مطابق اس کی آدھی آمدنی تو وہاں کی مقامی کرکٹ ایسوسی ایشن کو چلی جائے گی اور باقی آدھے میں سے بھارتی کرکٹ بورڈ اپنا حصہ کی کٹوتی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو دے گا۔ ظاہر ہے بنیا گھاٹے کا سودا تھوڑا ہی کرے گا۔
آپ مشرف اور سیٹھی صاحب کے طریقۂ واردات کی یکسانیت دیکھیں کہ جب کمانڈو مشرف صاحب کی علاقائی اجارہ داری اور مسئلہ کشمیر والے جھوٹ کا پول کھلا تو انہوں نے ایک بیان دیا کہ ’’میں بھارت سے کہوں گا کہ دفع ہو جاؤ‘ (لے آف والا بیان تو آپ کو یاد ہی ہو گا) اور آپ کو یاد ہو گا کہ اس پر جوازی چمونوں نے کیا اچھل اچھل کر داد دی تھی۔ کچھ ایسا ہی نجم سیٹھی صاحب نے کیا ہے کہ جیسے ہی بھارت کی طرف سے کرکٹ سیریز سے انکار کا فون آیا توفوراً بیان داغ دیا کہ ’’پاکستا ن کو بھارت سے کرکٹ سیریز نہیں کھیلنی چاہیے‘‘۔ اور پاکستان قوم ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم کے مصداق اُس گیدڑ سنگھی کی تلاش میں ہے جس کے باعث میاں نواز شریف ایک وقت میں اپنے ناپسندیدہ ترین شخص پر ، اب تمام تر حکومتی اور ملکی وقار داؤ پر لگانے کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔
دیکھ لیں ہمارے ان دونوں سیکولر لبرل حضرات کے طریقۂ واردات میں کیا یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اور شاید یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بھی نہیں ہو رہا۔