وجود

... loading ...

وجود

رشتہ

پیر 16 نومبر 2015 رشتہ

paris-attack

دہشت گرد ، دراصل سفاک اور بدمعاش ریاستوں کی بن بیاہی داشتائیں ہیں۔ اُن کے درمیان ایک نامیاتی رشتہ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف ، مگر شعوری طور پر ایک دوسرے کے ضامن ہیں ۔ کیونکہ یہ اپنے وجود کے لئے خود اپنے حریف سے ضمانت اور جوازِ حیات پاتے ہیں۔ مسئلہ دہشت گردوں کا نہیں، جو بظاہر اپنے سچے جھوٹے جھنڈے لے کر اپنی مضحکہ خیز ویڈیوز کے ذریعے ایک خود کار عمل کے تحت اپنی سفاکانہ کارروائیوں کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔ بلکہ زیادہ باریک بینی سے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ دہشت گرد کارروائیاں دراصل مغربی ممالک کے کون سے اقدامات کوجواز فراہم کرنے میں آسانی فراہم کرتے ہیں۔ بدترین غلامی کی شکار ذہنیت کے لئے بنیادی حوالہ بھی مغربی درکار ہوتا ہے۔یہ ہمارے ذہنی تناظر کی خامی ہے ، جسے مغربی مفکرین کے تصورات کی خوراک درکار ہوتی ہے۔ پھر کیوں نہ بیس سے زائد کتابوں کے مصنف ، علمِ سیاسیات کے ماہر پروفیسر اور امریکی مورخ ہاورڈ ذن ( Howard Zinn) سے رجوع کیا جائے، جس نے نوگیارہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی قیادت میں جاری دہشت گردی کی جنگوں کا مشاہدہ کیااور سچی گواہی دی:

“How can you have a war on terrorism when war itself is terrorism”

(تم کیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کر سکتے ہو، جبکہ جنگ بجائے خوددہشت گردی ہے۔)

برطانوی سیاست دان ٹونی بین کے خیالات کم اہم نہیں، جو 14؍مارچ 2014ء کو اپنی تاریخِ وفات تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا گہرا مشاہدہ کرتا رہا۔ اور 1950ء سے 2001ء کے درمیانی عرصے میں وہ سینتالیس برس برطانوی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوتا آیا۔

“There is no moral difference between a Stealth bomber and a suicide bomber. They both kill innocent people for political reasons.”

(اسٹیلتھ بمبار (مراد امریکا اور اتحادی)اور خود کش بمبار کے درمیان کوئی اخلاقی فرق نہیں ، دونوں معصوم لوگوں کا سیاسی وجوہات
کی بناء پر قتل کرتے ہیں۔)

جب کالم نگار اور تجزیہ کار ایک ہی جیسے دہشت گردی کے ان واقعات کی جمع وتفریق کو الگ الگ زاویوں سے کرتے ہیں تو وہ دراصل ایک خطرناک کھیل کے شعوری یا غیر شعوری آلۂ کار بن کر،کرتے ہیں۔ تہ بہ تہ انتہائی مضمرات کے حامل اس خطرناک کھیل کا یہ محض ایک پہلو ہے کہ جس میں حریف اپنے حریف کی ہی مرضی کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ پیرس حملے کوئی مختلف سائنس نہیں رکھتے۔

فرانسیسی صدر نے جب اعلان کیا کہ دہشت گردی کی ان سفاکانہ کارروائیوں کی ذمہ دار داعش ہے، تو وہ ہماری معلومات میں کچھ بھی اضافہ نہیں کر رہے تھے۔ اس کا اعلان تو خود داعش نے فرانسیسی صدر اولینڈے سے بھی زیادہ سُرعت سے کیاجیسے وہ ایک دوسری کی سچائی کی گواہی دے رہے ہو۔ داعش تو اس کی دھمکی بھی ایک دو دنوں سے نہیں، بلکہ ایک سال قبل نومبر2014ء سے ایک ویڈیو کے ذریعے دیتے آرہے تھے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہ حملے داعش نامی ایک تنظیم کر رہی ہے جو بظاہر مسلم شناخت کی حامل شام اور عراق میں کارگزار ایک مسلم مسلّح تنظیم ہے اور جس کے بارے میں ٹھوس شواہد ہیں کہ اِسے کسی اور نے نہیں خود امریکا نے قائم کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس تنظیم کے بارے میں ہماری کل معلومات کے تمام ذرائع خود مغربی ہیں۔ داعش کے متعلق مسلم دنیا کی اپنی معلومات بھی مغربی ذرائع ابلاغ کے مرہونِ منت کیوں ہیں؟یہاں تک کہ خود داعش دنیا سے رابطے کے لئے جتنے بھی ذرائع استعمال کرتی ہیں، اُس پر کُل کا کُل تصرف مغربی ممالک کا ہے۔ اس صورت میں خود داعش کی طرف سے کسی بھی دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے کا آخر مطلب کیا ہوتاہے؟ اس کا جواب مسلم ذہنوں کو مغرب کی اُس دہشت ناک تاریخ میں ڈھونڈنا ہو گا جو وہ دنیا کی اپنی من چاہی تشکیل میں عام طور پر ایک طریقۂ واردات کے طور پر برتتے آئے ہیں۔ یہ اس معاملے کا کوئی اجنبی پہلو نہیں۔ یہ مغربی ممالک کی قابل ِ اعتبار اور تسلیم شدہ تاریخ سے نکلتا ہے۔

پال کریگ رابرٹس 15؍ اپریل 2013ء کو’’ بوسٹن میراتھون بومبنگ کی طرح پیرس کے حالیہ حملوں کو بھی جھوٹے پرچم تلے مغربی ممالک کی کارستانی قرار دیتا ہے۔

جسے متعصّب مسلمانوں نے نہیں بلکہ خود مغرب کے باضمیر دانشوروں نے اہمیت دے کر اجاگر کیا ہے۔ تاریخ کی گرد آلود کتابوں کی خاک جھاڑنے کے بجائے قریب سے دیکھتے ہیں ۔ ریگن انتظامیہ میں اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرنے والے مشہور امریکی ماہر معاشیات اور بارہ کتابوں کے مصنف پال کریگ رابرٹس(Paul Craig Roberts) نے داعش کی طرف سے پیرس کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود اپنی تازہ ترین تحریر کا عنوان ہی یہ بنایا کہ ’’ ایک اور جھوٹے پرچم تلے پیرس حملہ۔‘‘یعنی (Another Paris False Flag Attack?)۔۔ کسی بھی ابہام کے بغیر مکمل مضمون اس کے عنوان سے ہی عیاں ہو جاتا ہے۔ پال کریگ رابرٹس 15؍ اپریل 2013ء کو’’ بوسٹن میراتھون بومبنگ‘‘کی طرح پیرس کے حالیہ حملوں کو بھی جھوٹے پرچم تلے مغربی ممالک کی کارستانی قرار دیتا ہے۔ پال کے بقول مغربی ممالک اپنے ہی شہریوں کے قتل کی ایک لمبی تاریخ رکھتے ہیں جسے وہ ہر دور کے مشہور کئے گئے اپنے دشمنوں سے منسوب کرتے آئے ہیں۔ اُس نے اپنی تازہ ترین تحریر میں سرد جنگ کے زمانے میں’’ آپریشن گلاڈیو‘‘(قیام :نومبر 1956ء )کے دہشت گرد واقعات کو پھر تازہ کیا ہے۔ جس کے تحت سی آئی اے اور اطالوی انٹیلی جنس ادارہ مل کر اطالویوں شہریوں کو قتل کرتے تھے ۔ اور اس کی ذمہ داری یورپ کی کمیونسٹ جماعتوں کے سر ڈالتے تھے۔ اس نوع کے واقعات کا بہاؤ بہت پُرانا ہے، جس کا نمایاں ترین اظہار 1931ء میں اُس وقت سے ہونا شروع ہوا، جب جاپان نے اپنی ہی ریلوے کی پٹریوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کیا اور اس کا تمام الزام چین کے اوپر عائد کرنا شروع کیا۔ تاکہ 18؍ ستمبر 1931ء کوچینی علاقے منچوریا پر اپنے دھاوے کو باجواز بنا یا جائے۔ مغرب کے باضمیر دانشور جب بھی کوئی تازہ حملہ ہوتا ہے تو پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ’’Was It a False Flag?‘‘ ؟؟ پیرس حملوں میں بھی پوچھنے اور بُوجھنے کا پہلا سوال یہی ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر