... loading ...
دہشت گرد ، دراصل سفاک اور بدمعاش ریاستوں کی بن بیاہی داشتائیں ہیں۔ اُن کے درمیان ایک نامیاتی رشتہ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف ، مگر شعوری طور پر ایک دوسرے کے ضامن ہیں ۔ کیونکہ یہ اپنے وجود کے لئے خود اپنے حریف سے ضمانت اور جوازِ حیات پاتے ہیں۔ مسئلہ دہشت گردوں کا نہیں، جو بظاہر اپنے سچے جھوٹے جھنڈے لے کر اپنی مضحکہ خیز ویڈیوز کے ذریعے ایک خود کار عمل کے تحت اپنی سفاکانہ کارروائیوں کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔ بلکہ زیادہ باریک بینی سے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ دہشت گرد کارروائیاں دراصل مغربی ممالک کے کون سے اقدامات کوجواز فراہم کرنے میں آسانی فراہم کرتے ہیں۔ بدترین غلامی کی شکار ذہنیت کے لئے بنیادی حوالہ بھی مغربی درکار ہوتا ہے۔یہ ہمارے ذہنی تناظر کی خامی ہے ، جسے مغربی مفکرین کے تصورات کی خوراک درکار ہوتی ہے۔ پھر کیوں نہ بیس سے زائد کتابوں کے مصنف ، علمِ سیاسیات کے ماہر پروفیسر اور امریکی مورخ ہاورڈ ذن ( Howard Zinn) سے رجوع کیا جائے، جس نے نوگیارہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی قیادت میں جاری دہشت گردی کی جنگوں کا مشاہدہ کیااور سچی گواہی دی:
“How can you have a war on terrorism when war itself is terrorism”
(تم کیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کر سکتے ہو، جبکہ جنگ بجائے خوددہشت گردی ہے۔)
برطانوی سیاست دان ٹونی بین کے خیالات کم اہم نہیں، جو 14؍مارچ 2014ء کو اپنی تاریخِ وفات تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا گہرا مشاہدہ کرتا رہا۔ اور 1950ء سے 2001ء کے درمیانی عرصے میں وہ سینتالیس برس برطانوی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوتا آیا۔
“There is no moral difference between a Stealth bomber and a suicide bomber. They both kill innocent people for political reasons.”
(اسٹیلتھ بمبار (مراد امریکا اور اتحادی)اور خود کش بمبار کے درمیان کوئی اخلاقی فرق نہیں ، دونوں معصوم لوگوں کا سیاسی وجوہات
کی بناء پر قتل کرتے ہیں۔)
جب کالم نگار اور تجزیہ کار ایک ہی جیسے دہشت گردی کے ان واقعات کی جمع وتفریق کو الگ الگ زاویوں سے کرتے ہیں تو وہ دراصل ایک خطرناک کھیل کے شعوری یا غیر شعوری آلۂ کار بن کر،کرتے ہیں۔ تہ بہ تہ انتہائی مضمرات کے حامل اس خطرناک کھیل کا یہ محض ایک پہلو ہے کہ جس میں حریف اپنے حریف کی ہی مرضی کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ پیرس حملے کوئی مختلف سائنس نہیں رکھتے۔
فرانسیسی صدر نے جب اعلان کیا کہ دہشت گردی کی ان سفاکانہ کارروائیوں کی ذمہ دار داعش ہے، تو وہ ہماری معلومات میں کچھ بھی اضافہ نہیں کر رہے تھے۔ اس کا اعلان تو خود داعش نے فرانسیسی صدر اولینڈے سے بھی زیادہ سُرعت سے کیاجیسے وہ ایک دوسری کی سچائی کی گواہی دے رہے ہو۔ داعش تو اس کی دھمکی بھی ایک دو دنوں سے نہیں، بلکہ ایک سال قبل نومبر2014ء سے ایک ویڈیو کے ذریعے دیتے آرہے تھے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہ حملے داعش نامی ایک تنظیم کر رہی ہے جو بظاہر مسلم شناخت کی حامل شام اور عراق میں کارگزار ایک مسلم مسلّح تنظیم ہے اور جس کے بارے میں ٹھوس شواہد ہیں کہ اِسے کسی اور نے نہیں خود امریکا نے قائم کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس تنظیم کے بارے میں ہماری کل معلومات کے تمام ذرائع خود مغربی ہیں۔ داعش کے متعلق مسلم دنیا کی اپنی معلومات بھی مغربی ذرائع ابلاغ کے مرہونِ منت کیوں ہیں؟یہاں تک کہ خود داعش دنیا سے رابطے کے لئے جتنے بھی ذرائع استعمال کرتی ہیں، اُس پر کُل کا کُل تصرف مغربی ممالک کا ہے۔ اس صورت میں خود داعش کی طرف سے کسی بھی دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے کا آخر مطلب کیا ہوتاہے؟ اس کا جواب مسلم ذہنوں کو مغرب کی اُس دہشت ناک تاریخ میں ڈھونڈنا ہو گا جو وہ دنیا کی اپنی من چاہی تشکیل میں عام طور پر ایک طریقۂ واردات کے طور پر برتتے آئے ہیں۔ یہ اس معاملے کا کوئی اجنبی پہلو نہیں۔ یہ مغربی ممالک کی قابل ِ اعتبار اور تسلیم شدہ تاریخ سے نکلتا ہے۔
جسے متعصّب مسلمانوں نے نہیں بلکہ خود مغرب کے باضمیر دانشوروں نے اہمیت دے کر اجاگر کیا ہے۔ تاریخ کی گرد آلود کتابوں کی خاک جھاڑنے کے بجائے قریب سے دیکھتے ہیں ۔ ریگن انتظامیہ میں اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرنے والے مشہور امریکی ماہر معاشیات اور بارہ کتابوں کے مصنف پال کریگ رابرٹس(Paul Craig Roberts) نے داعش کی طرف سے پیرس کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود اپنی تازہ ترین تحریر کا عنوان ہی یہ بنایا کہ ’’ ایک اور جھوٹے پرچم تلے پیرس حملہ۔‘‘یعنی (Another Paris False Flag Attack?)۔۔ کسی بھی ابہام کے بغیر مکمل مضمون اس کے عنوان سے ہی عیاں ہو جاتا ہے۔ پال کریگ رابرٹس 15؍ اپریل 2013ء کو’’ بوسٹن میراتھون بومبنگ‘‘کی طرح پیرس کے حالیہ حملوں کو بھی جھوٹے پرچم تلے مغربی ممالک کی کارستانی قرار دیتا ہے۔ پال کے بقول مغربی ممالک اپنے ہی شہریوں کے قتل کی ایک لمبی تاریخ رکھتے ہیں جسے وہ ہر دور کے مشہور کئے گئے اپنے دشمنوں سے منسوب کرتے آئے ہیں۔ اُس نے اپنی تازہ ترین تحریر میں سرد جنگ کے زمانے میں’’ آپریشن گلاڈیو‘‘(قیام :نومبر 1956ء )کے دہشت گرد واقعات کو پھر تازہ کیا ہے۔ جس کے تحت سی آئی اے اور اطالوی انٹیلی جنس ادارہ مل کر اطالویوں شہریوں کو قتل کرتے تھے ۔ اور اس کی ذمہ داری یورپ کی کمیونسٹ جماعتوں کے سر ڈالتے تھے۔ اس نوع کے واقعات کا بہاؤ بہت پُرانا ہے، جس کا نمایاں ترین اظہار 1931ء میں اُس وقت سے ہونا شروع ہوا، جب جاپان نے اپنی ہی ریلوے کی پٹریوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کیا اور اس کا تمام الزام چین کے اوپر عائد کرنا شروع کیا۔ تاکہ 18؍ ستمبر 1931ء کوچینی علاقے منچوریا پر اپنے دھاوے کو باجواز بنا یا جائے۔ مغرب کے باضمیر دانشور جب بھی کوئی تازہ حملہ ہوتا ہے تو پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ’’Was It a False Flag?‘‘ ؟؟ پیرس حملوں میں بھی پوچھنے اور بُوجھنے کا پہلا سوال یہی ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...