... loading ...
کیا بلدیاتی انتخابات کے بعد سندھ میں ’’دھاندلی‘‘ والے الیکشن کے خلاف ہلچل مچنے والی ہے اور لوگ 1977 ء کو بھی بھول جائیں گے؟ اس حوالے سے سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جن سیاسی قوتوں نے مخالفانہ بیانات دے کر پیپلز پارٹی سندھ کو’’ہاٹ واٹر‘‘ تک پہنچایا ہے، وہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہیں گی یا دھاندلی سے خوفزدہ ہوکر چپ سادھ لیں گی۔ ممتاز بھٹو بابا کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ کا ماس (گوشت) نوچ کرکھاگئی ہے اب صرف ہڈیاں بچی ہیں جنہیں چبانے کی ذمہ داری زرداری صاحب اپنے ’’ناتواں‘‘ کاندھوں پر اٹھانا چاہتے ہیں۔ اندرونِ سندھ پیپلز پارٹی کے دورمیں سب سے بڑی سیاسی قوت پیر پگارا جیسی متحمل مزاج شخصیت نے بھی ’’گھن گرج ‘‘کے ساتھ کہا ہے کہ ’’اگرسند ھ‘‘ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں دھاندلی ہوئی اور پولیس کے ڈنڈے کو استعمال کیاگیا تو پھر ہم حُر فورس کو میدان میں لے آئیں گے۔ حُر فورس کا انہوں نے کھل کر نام نہیں لیا، انہوں نے اشارتا ًکہا لیکن ان کا اشارہ سو فیصد حُر فورس کی طرف ہی تھا بلکہ جب انہوں نے یہ بات کہی، اُس وقت ان کے دست راست کامران ٹیسوری نے اور بھی کھل کر کہا کہ ’’یہ پیرا‘‘ملٹری فورس ہے، اُن کو عسکری اہلکار ہی تربیت دیتے ہیں اور یہ ٹریننگ انہیں سندھ سے ملحق بھارتی سرحد پر نظر رکھنے کیلئے دی جاتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کو اونٹ پر بٹھا کر صحرائے تھر میں لڑایا جاتا ہے۔ پیر پگارا نے سندھ پر زرداری صاحب کے قبضے کے حوالے سے کہا کہ’’’یہ کامیابی ‘‘سیاسی نہیں بلکہ پولیس کی چڑھائی تھی۔ ہمارے مضبوط حلقوں میں پولیس نے چاربجے پولنگ پر قبضہ کر لیا اور اطلاعات آنے لگیں کہ بیلٹ بکس بھر گئے، یہ سنگین الزام تھا، ایسے الزامات 1977 میں لگے تھے جس کے نتیجے میں بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا، مارشل لا لگا اور پھانسی گھاٹ آباد ہو گئے۔ پیر پگارا نے اس موقع پر ایک اور خطرناک بات کہی کہ اگر ہم نے طاقت کا مقابلہ طاقت سے کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کا خوفناک نتیجہ نکلے گا ،ہر طرف آگ لگ جائے گی ،ہم ایک دوگھنٹے میں پورے سندھ کو مفلوج کر سکتے ہیں، کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند کر سکتے ہیں ،اس کا نتیجہ تباہی نکلے گا لیکن ہمیں ملک کا امن اور سلامتی بہت عزیز ہے، ہماری سیاست تخریب کاری نہیں لوگ جانتے ہیں کہ حُرفورس کو باہر نکالنا بہت آسان ہے لیکن ان کو واپس گھر بلانا سہل نہیں۔ واپسی کے اِس سفر میں سال ڈیڑھ لگ جائے گاپیر پگاراکی باتیں انتہائی خطرناک اور دل دہلادینے والی ہیں۔
سندھ کے بلدیاتی انتخابات ایک خوفناک موڑ کی طرف جا رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات نے سندھ کو چار حصوں یا قوتوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ان میں پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ فنکشنل، ایم کیوایم اورآزاد امیدوار شامل ہیں، جبکہ ذوالفقار مرزا لیاری کے طاقتور گروپ اور تحریک انصاف بھی اس دوڑ کا حصہ ہیں۔ہر نئی تقسیم اس وقت سندھ میں موجود ہے۔ اور یہ اگلے مرحلے پر پکنے والی ’’سیاسی کھچڑی ‘‘کا’’خام مال ‘‘(را مٹیریل )ہے۔ یہ سب چھپی ہوئی ’’بارودی سرنگیں ‘‘ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سی قوتیں اِس ’’دھماکہ خیر‘‘ مواد کو کب استعمال کرتی ہیں؟ اسلام آباد یا راولپنڈی والے کیا کریں گے؟ پیپلزپارٹی حالیہ تقسیم سے سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے یا خود ”سیاسی فساد کا شکار ہوتی ہے ؟
بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ’’قوت اخوت عوام ‘‘کی نفی کر رہا ہے۔ ان حیرت انگیز نتائج نے سندھ کو سیاسی طور پر منقسم کر دیا ہے، کوئی دھمکی دے رہا ہے، کوئی نتیجہ بدل رہا ہے اور کوئی بلدیاتی طاقت کے بل بوتے پر اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنا چاہتا ہے، کوئی مال بنائے گا، کوئی میئرشپ مانگے گا۔ کوئی چیئرمینی پر خوش ہو جائے گا اور کوئی لنگوٹ کس کر میدان میں آئے گا اور دھماچوکڑی مچائے گا تا کہ وہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن سکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد زرداری صاحب کا پیسہ کام کرتا ہے، رینجرز کا ڈنڈا جادو کا کھیل دکھاتا ہے یا ڈرائنگ روم پالیٹکس جیتتی ہے، بہر حال کچھ بھی ہو سیاسی جماعتوں کے لئے بلدیاتی انتخابات ”سوکن کا کردار ادا کریں گے اور وہی ہوگا جو ایک شادی شدہ خوش و خرم گھر کے اندر نئی دلہن کے آنے کے بعد ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنا حصہ مانگتی ہے۔ وہ بھی کچھ وعدے وعید منوا کر آتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ اسے بھی گھر میں حکومت کرنے کا موقع ملے… نئی دلہن غلامی کا طوق نہیں بلکہ حصہ داری کا ہار پہننا چاہتی ہے، بلدیاتی کونسلر اور چیئرمین گھروں میں نہیں بیٹھیں گے سیاسی جماعتوں کی ”رِٹ کو چیلنج کریں گے۔ ووٹ مانگیں گے گلی گلی لڑائی ہو گی اور پھر پاکستان کا آزاد میڈیا اِسے ’’لائیو ‘‘دکھائے گا اور پوری دنیا جمہوری ملک کا یہ ’’حُسن ‘‘بھی دیکھے گی لیکن یہ لڑائی بڑھتی جائے گی اور بقول غالب ع
کرپشن کے الزامات نیب احتساب اور رینجرز کے چھاپے۔ قابل ذکر پارٹیوں کے مضبوط رہنماؤں کی بیرون ملک’’چھپن چھپائی‘‘ پارٹی کے تنظیمی گروپ کو کمزور کر رہے ہیں جو بچ کر نکل گئے وہ مزے میں ہیں۔ پارٹی کے لوگ بھی کہتے ہیں ’’ہم بھی مال کما لیں‘‘ پتہ نہیں کب بھاگنا پڑے۔ اس قسم کی سوچ کی دلدل میں ڈوبے لوگ کس طرح عوام کی خدمت کریں گے ؟ اس سوال کا جواب پولیٹیکل سائنس کی کسی کتاب میں نہیں!
ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...
کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...
وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...
ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...
نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...
سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...
عید گزر گئی ۔۔۔۔۔کہا جارہا تھا کہ ’’کراچی آپریشن‘‘کی رفتار ’’بلٹ ٹرین‘‘کی طرح تیز ہوجائے گی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا لیکن ایسا ’’گرجدارآپریشن ‘‘فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ’’سیاسی آپریشن‘‘ہوگا۔۔۔۔۔ ا...
عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس...
کراچی میں دو دن بارش کیا ہوئی‘ سندھ حکومت کی کارکردگی ’’دھل‘‘ کر سامنے آگئی۔ برسوں سے بارش کو ترسے کراچی والے خوش تھے کہ بارش ہو گئی... شہر چمک جائے گا... آئینہ بن جائے گا‘ لیکن افسوس صد افسوس! عوام کے ارمان خاک میں مل گئے۔ بارش میں نہانے کے خواب... سیر و تفریح کے منصوبے... شاپنگ...
کبھی حکیم محمد سعید تو کبھی مولانا یوسف لدھیانوی، کبھی مفتی نظام الدین شامزئی تو کبھی علامہ حسن ترابی، کبھی چوہدری اسلم تو کبھی سبین محمود،کبھی پروین رحمن تو کبھی پروفیسر شکیل اوج، کبھی ولی خان بابر تو کبھی پروفیسر یاسر رضوی ،اور اب امجد فرید صابری کراچی کی سڑکوں پر رقص کرتی موت ...
لاوارث یتیم لاچار بے بس اور احساس محرومی کے شکار شہرکراچی کو ایک اور ''جھٹکادے دیا گیا۔سندھ کابجٹ تو آیا لیکن سرکاری ملازمین اور پینشنرز کے علاوہ اس میں کسی کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔۔۔نہ کوئی ترقی اور نہ ہی ترقیاتی بجٹ۔کراچی کے ساتھ سوتیلا سلوک ایک نئی توانائی کے ساتھ نہ صرف...