... loading ...
ریحام ،عمران طلاق کی بحث میں ایک نئے خط تفریق و تمیز کھینچنے کا معاملہ کھڑا ہوا کہ عوامی شخصیت یا عرف عام میں پبلک فگر کی نجی زندگی اور عوامی زندگی یعنی پبلک لائف اور پرائیویٹ لائف کی حدود کون ، کب اور کیسے متعین کرے بالخصوص ایسے خواتین و حضرات جو اپنی مقبولیت کی ہر سانس کابہی کھاتہ ٹوئٹر پر بھی کھولے بیٹھے ہیں، ان کی نجی زندگی کی خبر بھی جب وہ خود طشت از بام کرتے ہیں اور اس پر ناپسندیدہ جملے بازی کا طومار بندھنے لگتا ہے تو وہ نہ صرف منہ بسور کر بیٹھ جاتے ہیں بلکہ بعض مرتبہ تو سوال پوچھنے پر چراغ پا بھی ہوجاتے ہیں۔
ذرا رُکیے کیا آپ نے سوچا کہ ستائش کی تمنا دراصل تنقید کا خوف ہے ،شہرت کی بھوک گمنامی سے بچنے کا ایک تکلیف دہ دفاعی ردعمل ہے۔
بائبل کا بیانیہ ہے کہ چرخ کہن پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب یہودی اور رومی گورنر کے حکم پر سپاہی ا ن کے ایک حواری (عربی میں ساتھی کو کہتے ہیں) جوڈاس ایسکریایٹ کے ہمراہ گارڈن آف گیٹاسمنی پہنچ گئے۔سپاہیوں کو حضرت عیسیٰ ؑ کی شناخت کا مسئلہ درپیش تھا،جوڈاس نے ان سپاہیوں کو جنہیں حضرت عیسیٰ ؑ کی شناخت کا مرحلہ درپیش تھا ،اس نے کہا جب وہ اپنے مرشد محترم سے ملتے ہیں تو انہیں بوسہ دیتے ہیں۔گرفتاری کے وقت جوڈاس نے جو حضرت عیسی کا بوسہ لیا وہ ایک ایسا بوسۂ دغابازی تھا جسے اب انگریزی زبان میں دھوکہ دہی کے حوالے سے kiss of Judas کہتے ہیں اور جب سپاہی انہیں گرفتا رکرنے کے لیے آگے بڑھے تو ان کے ایک حواری پیٹر ذیبی ڈی نے تلوار سونت لی اس پر حضرت عیسیٰ ؑسے منسوب وہ شہرہ آفاق قول وجود میں آیا کہ
Smite not, those who live by the sword perish by the sword
(حملہ مت کرو جو تلوار کے سہارے جیتے ہیں وہ تلوار ہی کی وجہ سے مرتے ہیں)
یہی معاملہ اہل اثر و رسوخ اور نام چیں لوگوں کا ہوتا ہے ،شہرت کی طلب میں جیتے ہیں اور بدنامی کے خوف سے پیلے پڑجاتے ہیں۔
ایک اسکینڈل، کوئی بُری خبر اور بل کلنٹن کی طرح سب کس بل نکل جاتے ہیں۔
اصل میں سارا قصور کم بخت قلو پطرا کا ہے۔جس کی داستانِ دلربائی مصر کے ایوانِ الفت سے نکل کرروم کے کوچہ و بازار میں پھیلنے لگی۔ تو میڈیا کے پنڈت یہ فیصلہ کرنے میں جُت گئے کہ کیا یہ معاملہ کس حد تک نجی ہے اور اس کا کتنا تعلق اس شخص کی پبلک آفس سے ہے جو روم کی سلطنت عظمی کا علم بردار ہے۔بآلاخر جب رومی سینیٹ نے جو ہماری سینیٹ کی طرح ایوان ِخوابیدہ نہ تھا بلکہ امریکی سینیٹ کی طرح متحرک اور بااثر تھا یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ سیزر سے بزور ِخنجر ،جان چھڑائیں ۔ اگر سیزر اپنی وحشتوں کی ساتھی کے طور پر قلوپطرہ کے انتخاب کو درست جانتا ہے تو لازم نہیں کہ رومی اسٹیبلشمنٹ بھی اس جرمِ الفت میں بطور سہولت کار شامل ہو جائے۔ لہذا جب دوست بن کر ساتھ نہ نبھانے والے بروٹس نے پشت میں جنرل پرویز مشرف والا خنجر گھونپا اور جواب میں دہلی والوں کی طرح سیزر نے پلٹ کر پوچھا کہ ’’ارے آپ بھی بروٹس ‘‘ تو جواب ملا کہ ع
ہم کیا! ہماری بساط کیا! دور حاضر کے برطانیا کے شاہی خاندان کے بارے میں یہ خیال بہت عام ہے کہ وہ ایک عرصے تک بہت لیے دیئے رہتے تھے۔ چھت پر ٹانگے ہوئے فانوس کی طرح آراستہ اور پرے پرے مگر جگ مگ جگ مگ روشن روشن رہتے تھے ۔ان کی پبلک پرائیوٹ لائف تو اس وقت سے زبان زد عام رہنے لگی ،جب سن 1936 میں موجودہ ملکہ برطانیا کے تایا کنگ ایڈرورڈ ہشتم کو ایک امریکی مطلقہ سے عشق ہوا ،اور اس کی بھنک برطانوی وزیر اعظم اسٹینلے بالڈون کو پڑی تو کنگ ایڈرورڈ (جن کے نام پر پاکستان کا سب سے پرانا میڈیکل کالج ہے ) کے خلاف سارا برطانوی اسٹیبلشمنٹ اٹھ کھڑی ہوئی ۔ یہ شادی ان کے نزدیک قانونی، مذہبی اور سیاسی کس طور پر بھی قابل قبول نہ تھی۔کنگ ایڈورڈ نے تاج برطانیا کو ٹھکرایا اور اپنی نئی نویلی بیگم کے ساتھ پیرس میں آ باد ہوگئے۔
اس سلسلے میں پہلے تو ہمارے ہاں چونکہ ایک طویل عرصے سے شیر مادر میں عہدوں سے استعفیٰ دینے کی حمیت سرے سے مفقود ہوچکی ہے بلکہ نعم البدل کہ طور پر بازار میں دستیاب ڈبہ دودھ کی مختلف برانڈز بھی اس اعلیٰ انسانی وصف سے محروم ہیں۔ ورنہ حال ہی میں رومانیہ کے وزیر اعظم وکٹر پونٹا نے دارالخلافہ کے ایک نائٹ کلب (the Colectiv)میں آتش زدگی کے حادثے پر جس میں کل تیس ناچتی تھرکتی جوانیاں جل مریں ، نہ صرف خود مستعفی ہوئے ۔ بلکہ اُن کے ساتھ ان کے وزیر داخلہ اور شہر کے مئیر بھی گھر چلے گئے۔ وزیر اعظم پر الزامات تو کئی تھے مگر آتش زدگی کے حوالے سے بیس ہزار افراد کا احتجاجی مظاہرہ محاورتاً وہ آخری تنکا بن گیا جس سے اونٹ کی کمر ٹوٹ گئی۔اس مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس سے قبل درالخلافہ بخارسٹ میں لگ بھگ چوتھائی صدی سے کسی بھی قسم کا کوئی مظاہرہ نہ ہوا تھا۔ یہاں مظاہرین نے جو قومی پرچم اٹھائے ہوئے تھے ان میں علامتی طور پر سوراخ تھے۔
ہند و پاکستان کی تاریخ میں اگر ہم آزادی کی تحریک کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیں تو گاندھی جی کی زندگی کے بارے میں تو چہ مگوئیاں بہت پہلے سے ان کی زندگی میں ہی شروع ہوگئی تھیں ۔کانگریس کے دیگر لیڈر تو کفن کے لٹھے کی طرح بے لطف زندگی گزارتے تھے مگر گاندھی جی جن کا مقام ’’ Cult Leader ‘‘ سنت اور مہاتما کا تھا ،عمر کے آخری ایام میں انہیں دو عددنوجوان خواتین کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنے کی بُری عادت پڑگئی تھی یہ ان کی Walking Sticks یعنی عصائے پیری تھیں۔ بات ذرا اور آگے کی تھی مگر اس کا یہاں محل نہیں۔
جیڈ ایڈم کی کتاب ’’Naked Ambition‘‘ میں گاندھی کی جنسی زندگی کی بہت بھد اڑائی گئی ہے۔کتاب میں بنگالی قوم پرست سرلا دیوی چوہدری کے حوالے سے گاندھی جی کے عشق بے پناہ کے قصے بھی ہیں اور جو اُن کی تیرہ شبوں کی ساتھی تھی اور جسے وہ اپنی روحانی بیگم بھی کہتے تھے اور ڈنمارک کی ایک عیسائی راہبہ جوڈتھ فیئرنگ (جو ہندوستان میں تعینات تھی ) کے گاندھی جی کے آشرم کے دورے ،مونیکا لیونسکی کے اپنی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد وہائٹ ہاؤس کے دوروں کی طرح خاصے بدنام تھے۔مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد تو گاندھی جی اپنی مہاتما والی وقعت سے محروم ہوگئے ہیں مگر کتاب اور یہ قصے جب عام ہوئے تو کسی نے اسے نجی زندگی کا معاملہ بنا کر شور نہیں مچایا۔پاکستان میں معاملہ یوں ہے کہ سیاست دان اور دیگر نام چیں افراد جمہوریت چاہتے ہیں مگر احتساب سے اپنا دامنِ داغدار بچاکر رکھتے ہیں۔ اسی طرح شہرت کے گلشن ہر رنگ میں مقبولیت کے تو طلب گار ہیں مگر خارِ بدنامی کی چبھن برداشت کرنا نہیں جانتے۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہند کے گورنر جنرل کی اہلیہ سے نہرو جی کی کھلے عام کھلواڑ ہو یا پرنسس مارگریٹ کے معاشقے، لیڈی ڈائنا کی سچے پیار کی تلاش ہو ،کہ امریکی صدور کینیڈی اور کلنٹن کی مارلن منرو اور مونیکا لیونسکی کی میزبانی، یاپھر فرانس کے صدر متراں کی موت کے بعد کے بعد اس اسکینڈل کے سامنے آنے کا موصوف ایک غیر اعلانیہ صاحبزادی Mazarine, کے والد بھی تھے، صدر سرکوزی کی اپنی بعد کی منکوحہ کارلا برونی سے اٹھکیلیاں ہو یا موجودہ صدر اولینڈے کا اداکارہ جولیٹ گائت کا چوری چوری چپکے چپکے کسی سے ملنے جانے کا قصہ رنگین ہو،میڈیا توہر معاملے میں ہرجائی ہے ہر گھر میں اُتر جاتا ہے، ع
اس لیے نام و نمود کا وہ تمام متوالے جو عوام کے دل کی دھڑکن بن کر رہنا چاہتے ہیں اور اس بات کے تمنائی ہیں کہ ان کا ذکر ہمیشہ خیر و توصیف کے پیرائے میں ہوتا رہے و ہ شیشے کے گھر میں رہ کر لباس تبدیل کرتے وقت احتیاط کریں ، بے حد احتیاط۔
امریکی عوام کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ وہائٹ ہاؤس میں یا دیگر مقتدر مقامات پر فرشتے نہیں ڈھونڈتے مگر وہ اس بات پر بہت سختی سے کاربند ہیں کہ جنہیں وہ اپنے معاملات کی نگرانی سونپتے ہیں وہ جھوٹ اور بددیانتی سے کام نہ لیں۔اسی لیے نکسن، کلنٹن، جنرل اسٹینلے کرسٹل، جنرل پیٹریاس اور ہیلیری کلنٹن سب کے سب ان کے طاقتور اور براہ راست منتخب سینٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کے سامنے خاک پھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...