... loading ...
انگریزی کہاوت ہے کہ
“fools rush in where angels fear to tread”
(بے وقوف لوگ وہاں جا گھستے ہیں، جہاں فرشتے بھی قدم رکھنے سے گھبراتے ہیں)
مگریہ پھر بھی بے وقوف لوگ نہیں ۔ ہم پر ایک دباؤ یہ بھی ہے کہ میاں نوازشریف کو اب اس ملک کے سیاست دانوں میں نہیں مدّبروں میں شمار کیا جانے چاہئے! جی ہاں ! مدبر وزیراعظم کا یہ ارشاد اب اپنے کاندھوں پر ایک صلیب کی طرح اُٹھائے اُٹھائے پھرنا ہے کہ اس ملک کے عوام کا مستقبل لبرل پاکستان سے وابستہ ہے۔ معلوم نہیں مدبر کے کُنجِ دَہن سے پھوٹنے والی یہ مبارک اصطلاح اپنی تاریخ وتفہیم میں اُن کے نہاں خانۂ ذہن وقلب پر کیا وارداتیں کر چکی ہیں مگر اس اصطلاح کا بوجھ بہت بڑا ہے، اسے سیاست دان تو کجا مدّبر بھی اُٹھانے کی کم کم ہی جسارت کرتے ہیں۔
ادھورے دانشوروں ، ناپختہ تجزیہ کاروں کی طرح جب ہمارے سیاست دان لبرل ازم کی بات کرتے ہیں تو وہ اس کی علمیات اور مابعدالطبیعات(عقائد) سے کماحقہ آگاہ نہیں ہوتے۔ وہ اِسے ایک تاثراتی سطح پر رکھ کر دیکھتے ہیں۔ یا پھر مضبوط عالمی سیاسی نظام کی تحویل میں خود کو فدویانہ یا غلامانہ حیثیت میں خود ہی پہنچا کر دیکھتے ہیں۔ لبرل ازم کا انسان اپنا خدا بھی خود ہی ہے۔ وہ اپنی الوہیت کے اظہار کا آپ ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ جدیدیت اس نظام فکر کے تصورِ انسان ، تصورِ خیر اور تصور و محورِ حیات کو کسی بھی ’’دوسرے ‘‘کی چھیڑ چھاڑ سے مکمل آزاد اور ہر انسان کی اپنی کامل آزادی کے مرہونِ منت رکھتی ہے ۔ پھر یہ ’’دوسرا‘‘ چاہے خدا ہی کیوں نہ ہو۔ جدید علمیات کی رو سے یہ لبرل ازم ہے۔ سولہویں صدی میں اپنے آغاز سے انقلابِ فرانس میں اپنے فروغ کے بعد یہ آج کے مغرب پر اپنا غلبہ مکمل کر چکا ہے۔ اور امریکا کو اس عقیدے کی پرستش کا اصل مندر سمجھا جاتا ہے۔ اس بحث کو ابھی چھوڑ دیجیے کہ آج کا مغرب لبرل ازم کی وحشت سے بیزار ہوکر اس کی علمی وعملی بنیادوں کو اب کہاں کہاں سے چیلنج کر رہا ہے۔ یہاں تو صرف اس کے عملی نتائج کا ذکر کرنا مقصود ہے کہ ایک لبرل ملک کا عملی مطلب کیا ہوتا ہے؟
ایک لبرل ملک کے طور پر ذہنوں میں موجود آدرش امریکا میں کیا ہوتا ہے؟ کسی ملک کے لبرل ہونے کا مطلب ریاست کی سطح پر ایک ذمہ دار ی اور معیار سازی بھی ہے۔ جس کا اشارہ امریکی مورخ جیرڈ ڈائمند(Jared Diamond)نے اپنی اہم ترین کتاب
’’Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed‘‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ لبرل امریکا میں ریاست ایک اوسط عمر جینے والے ہر امریکی پر پانچ ملین ڈالر خرچ کرتی ہے۔ میاں نوازشریف کا ممکنہ لبرل پاکستان چار ہزارروپے سالانہ بھی خرچ نہیں کرتا ۔ سرکاری کاغذوں میں موجود چند ہزار روپے بھی ان ہی سیاست دانوں اور مدبروں کی جیبوں میں کسی نہ کسی طرح چلے جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے لبرل پاکستان میں ۳۶ فیصد افراد پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے۔ زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی تازہ تصویریں مدبر کے لبرل پاکستان کا نقشہ کھینچتی ہے جن کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے پورے کپڑے تک نہیں۔ منصفِ اعلی نے سینیٹ سے اپنے حالیہ خطاب میں ارشاد کیا ہے کہ ۸۰ فیصد مقدمات کے فیصلے جرگوں میں طے ہوتے ہیں۔ اور بیس فیصد مقدمات عدالتوں میں آتے ہیں۔ مملکت کے اداروں پر عوام کے اعتما دکا یہ حال ہے۔
میاں نوازشریف نے عوام کا مستقبل جس لبرل پاکستان سے وابستہ کیا ہے۔ اس کی قیمت لبرل ملک کے طور پر پانچ ملین ڈالر ایک شہر ی پر خرچ کرنے والاامریکا پھر کیا ادا کرتا ہے؟ اس کا ایک جائزہ صورتِ حال کی اصل وضاحت کرتا ہے۔
امریکا میں کسی بھی جگہ پر پولیس کو پہنچنے میں صرف تین منٹ لگتے ہیں ۔اس کے باوجود امریکا میں دنیا کے سب سے زیادہ مجرم جیلوں میں ہیں۔ ستمبر 2014ء میں یہ تعداد چوبیس لاکھ تھی جو اب نومبر 2015ء تک بڑھتے بڑھتے چھبیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔اگر سترہ بڑی انٹلیجنس ایجنسیوں کو شامل کرکے امریکا میں مجموعی طور پر ایجنسیوں کی تعداد پر تو جہ کی جائے تو یہ 2212 بنتی ہے ۔(مدبر وزیراعظم سے اپنے لبرل پاکستان میں’’انگلی والی سرکار نامی‘‘ ایک ایجنسی بھی برداشت نہیں ہورہی۔)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لبرل ملک کے طور پر آدرش امریکا میں جب اتنی ساری ایجنسیاں ہیں، جب پولیس کسی بھی جرم کے ارتکاب کے صرف تین منٹ پر موقع پر پہنچ جاتی ہے، جہاں قوانین کی بھرمار ہے اور ریاست بھی ایک شہری پر اوسطاً پانچ ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کردیتی ہے تو پھر دنیا کے سب سے زیادہ مجرم امریکی جیلوں میں کیوں ہیں؟اس لیے کہ لبرل ازم دنیا کی ہر چیز انسان کو دیتا ہے مگر اُسے انسان نہیں رہنے دیتا۔ وہ تربیت کو آزادی میں مداخلت سمجھتا ہے۔ اس مذہب میں نفس کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے مگر اس کی اصلاح پر اُس کا کوئی یقین نہیں ۔ چنانچہ جب ایک نفس دوسرے نفس کی آزادی پر حملہ آور ہوتا ہے تو یہ اُس کاعلاج قانون سے کرتا ہے۔ چنانچہ امریکا وہ ملک ہے جہاں قوانین بھی ڈھیڑوں ہیں۔ مگر جرائم بھی ان گنت ہیں۔ کیونکہ لبرل ازم کے فلسفے کے تحت نفس کی مکمل آزادی قانون توڑنے کا جو فطری رجحان پیدا کرتی ہے ، اُسے روکنا اس قانون کے بس کی بات ہی نہیں۔ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ امریکا میں کتے کے بھونکنے پر بھی قوانین ہیں۔ اور شادی شدہ مرد کے اپنی ہی بیوی سے آداب تعلقات میں بھی حد بندیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ اگر آپ کو ہنسی آئے تو براہِ کرم روک لیجیے ، یہ مزاق نہیں کہ امریکا میں سالانہ پانچ لاکھ طلاقیں ہوتی ہیں ۔ ان طلاقوں کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب سوتے ہوئے میاں بیوی کے خراٹے بھی ہیں۔ دونوں کو صبح کام کرنے کے لئے مشین کی طرح جاگنا ہے اور دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی نیند میں کسی نوع کی مداخلت نہ ہو۔ چنانچہ عورت مرد سے اور مرد عورت سے اس بناء پر طلاق لے لیتے ہیں کہ اس کے خراٹے میرے آرام میں مداخلت کرتے ہیں۔ یہ لبرل ازم ہے۔
اسی لبرل ازم کی اصل تصویر دیکھئے۔ امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وائٹ ہاؤس کی ٹاسک فورس نے ایک رپورٹ اپریل 2014ء میں ’’Protect Students From Sexual Assault‘‘کے نام سے جاری کی جس پر خود امریکی صدر نے 22؍ جنوری 2014ء کو دستخط کئے۔ رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی امریکی کالجوں میں نشانہ ٔ ہوس بنتی ہے۔ اس کی مختلف شکلوں پر رپورٹ میں کی گئی بحث چودہ طبق روشن کر دیتی ہے۔لبرل امریکا میں یہ رجحان اس قدر خطرناک ہے کہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے متعلقہ سیکریٹری نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اوباما یہ رپورٹ اس لیے جاری نہیں کررہے کہ وہ امریکی صدر ہیں بلکہ اس لئے بھی جاری کررہے ہیں کہ وہ دوبچیوں کے باپ بھی ہیں۔ اس سے بھی آگے سنئے جب امریکی صدر اپنی دوسری میعاد کے لئے منتخب ہوئے تو اُن سے پوچھا گیا کہ وہ امریکی صدر کے طور پر دوبارہ کیوں منتخب ہوئے، تو اُن کا ایک جواب یہ بھی تھا کہ میری بچیاں اب اگلے برسوں میں کالج جائیں گی۔ میں چاہتا ہوں کہ اُن کو مزید احساسِ تحفظ ملے۔ لبرل امریکا کے سب سے طاقتور صدر کا یہ حال ہے۔ مدبر وزیر اعظم کے نزدیک معلوم نہیں اس بات کی کیا اہمیت ہو؟
ہمارا واسطہ ایک ایسی حیا باختہ مخلوق سے ہے جنہیں دنیا کے ہر قسم کا جبر قبول ہے مگر مذہب کی پابندی قبول نہیں۔ جنہیں کتوں کے بھونکنے اور سوتے ہوئے خراٹوں کی مجبوری پر بھی پابندی قبول ہے، مگر اﷲ کی بنائی ہوئی حدودوقیود قبول نہیں۔جنہیں دنیا کی چکاچوندی کے عوض اپنے گھرانوں میں آتے ہوئے بے حیائی کے سیلاب بلا کی کوئی پروا نہیں مگر بینک کے باہر قطار میں کھڑے ہونے اور بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ کے قوانین کا جبر قبول ہے۔ علامہ نے کہا تھا کہ
مدبر وزیراعظم نے عوام کے مستقبل کو لبرل پاکستان سے وابستہ قرار دے کر پہلا کام جب یہ کیا کہ علامہ اقبال کے حوالے سے قومی تعطیل ختم کر دی تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر لبرل پاکستان کے کچھ تقاضے ہیں جو ریاست کی سطح پر افراد کی زندگیوں میں ایک خاص معیار سازی کرتے ہیں اور دوسری طرف اُن ہی افرادسے نفس کی پیروی میں قوانین شکنی کراتے ہیں۔ وزیراعظم اس کے لیے تیار رہیں،اور لبرل پاکستان میں ریاستی گرفت مضبوط کرنے کے لئے نئی نئی ایجنسیوں کے قیام کے لئے خود کو ابھی سے آمادہ کرلیں کیونکہ لبرل پاکستان کی ایک قیمت بھی ہے!!!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...