... loading ...
بوڑھا درویش شام ڈھلے گاؤں میں داخل ہوا کچے پکے راستوں پر چلتا ہوا گاؤں کے مرکزی چوراہے پر برگد کے پرانے درخت کے نیچے جا کھڑا ہوا ، وہاں کچھ لوگ چارپائیاں ڈالے حقّے گڑ گڑا رہے تھے، گرما گرم چائے کی چسکیاں لی جا رہی تھیں ، چند ایک مالشیئے بھی مصروف کار تھے ، درویش نے قدم جمائے اور گاؤں والوں پر ایک گہری نگاہ ڈالی اور چند لمحے توقف کیا تاکہ تمام افراد اس کی طرف متوجہ ہو جائیں پھر اپنی لال لال آنکھیں نکالتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا ’’فوراًمیرے کھانے پینے کا بندوبست کرو ورنہ تمھارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو پچھلے گاؤں والوں کے ساتھ کرکے آیا ہوں‘‘۔یہ دھمکی سن کر سب ڈر گئے اور دوڑ بھاگ کر اپنے اپنے گھروں سے جو کچھ ملا اٹھا لائے ۔ درویش نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور زور دار ڈکار لی ۔ گاؤں والوں نے جب درویش کو شکم سیر دیکھاتو انکی جان میں جان آئی اور پوچھنے لگے ۔’’ سائیں آپ کو کھانا تو پسند آیا نہ ‘‘۔درویش نے اثبات میں سر ہلا یا ۔ پھر انہوں نے پوچھا’’سائیں آپ نے پچھلے گاؤں والوں کے ساتھ کیا کیا ؟‘‘ درویش نے مسکین سی صورت بنائی اور بولا ۔’’بابا میں نے ان سے بھی کھانا مانگا تھا انہوں نے کھانا دیا نہ پانی میں نے کہا نہیں دیتے تو نہ دو۔ میں بھی ان پر لعنت بھیج کہ ادِھر چلا آیا ‘‘۔
سندھی ادب کی لوک داستانوں میں یہ واقعہ وتایو فقیر سے منسوب ہے ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے ایوانِ بالا میں کئے گئے خطاب کی قومی اخبارات میں شائع شدہ سرخی دیکھ کر وتایو کی شدت سے یاد آئی۔جناب عالی قدر نے فرمایا ’’پارلیمنٹ کرپشن روکنے کیلئے کردار ادا کرے‘‘یوں لگا جیسے میٹھی سی وارننگ دے رہے ہوں کہ ’’نہ روکو تو ہمیں کیا ، بھاڑ میں جاؤ‘‘۔انہوں نے مزید فرمایا کہ غیر موثر ہو تو کسی بھی اچھے سے اچھے قانون کا کوئی فائدہ نہیں ۔ قوانین پر عملدر آمد نہ ہو تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے ، ہمیں قوانین کے نفاذ کے معاملے میں بحران کا سامنا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عوامی نمائندے عوام کو جوابدہ ہیں ہم نہیں ، ہم کسی فرد کے نہیں قانون کے تابع ہیں ۔چیف جسٹس سینیٹ کے چیئر مین رضا ربانی کی درخواست پر اراکین سے خطاب کرنے گئے تھے اور 3نومبر کو ہونے والا یہ خطاب ملک کی 67سالہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا ۔ اس سے قبل کی ایسی کوئی نظیر دستیاب نہیں ۔ چیف جسٹس کے اس خطاب کو سننے کیلئے ایوان میں صرف 50فیصد اراکین ہی موجود تھے جنکی اکثریت اونگھتی رہی، شاید اس ملک میں رائج نظامِ انصاف سے انہیں کوئی دلچسپی ہے ہی نہیں اور کیوں ہو یہ انکا مسئلہ بھی تو نہیں ۔چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں ’’جرگہ سسٹم‘‘ پر شدید تنقید کی ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 80فیصد تنازعات کے تصفیوں کیلئے جرگہ سے رجوع کیا جاتا ہے ، یہ صورتحال ریاست کی عملداری پر سوالیہ نشان ہے ۔جسٹس انور ظہیر جمالی کے خطاب کے تمام نکات اہم ہیں، اس سے انکار ممکن نہیں ۔ یہ درست ہے کہ ہماری کتابیں خوش نما پالیسیوں ، عمدہ قوانین اور شاندار ضابطوں سے بھری پڑی ہیں مگر عمل کا چٹیل میدان بھائیں بھائیں کرتا ہے ، دولت کے پہاڑوں پر چڑھے بیٹھے چند افراد ، اقتدار پر قابض گروہوں ، وڈیروں، جاگیرداروں ، شاہوں، پیروں، مخدوموں اور افسر شاہی کے سامنے سارے قوانین زیر دست ہیں ۔ چیف جسٹس نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ انصاف سے محرومی امن و امان کی خرابی کا سبب ہے گویا انہوں نے ریاست کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض کی تشخیص کر ڈالی مگر علاج کون کرے گا یہ معلوم نہیں ۔
ملک میں رائج عدالتی نظام کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ ایک عام آدمی کی نگاہ میں عدالت سے رجوع کرنا وقت اور پیسے کے ضیاع سے زیادہ کچھ نہیں ۔پاکستان میں عدالتوں کے روبرو پیش ہو نے والے مقدمات میں سے اکثریت کا تعلق قتل، جائیداد اور خاندانی جھگڑوں سے ہیں۔ ان مقدمات میں عدالتوں سے رجوع کرنے والے فریقین کو پولیس کی زیادتیوں ، سیاسی اثرو رسوخ اور ناقص تفتیش کا خوف لاحق رہتاہی ہے جبکہ سینکڑوں پیشیاں ہو جانے کے باوجود بھی مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اسی لئے گاؤں دیہات میں لوگ پنچائیت اور جرگوں سے رجوع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ حالانکہ ان جرگوں کی اہلیت سب ہی جانتے ہیں۔ جون 2011ء میں ضلع خیر پور میں ایک جرگے کے فیصلے کی روشنی میں ایک بوڑھی عورت کو الف ننگا کرکے پورے گاؤں میں پھرایا گیا کیونکہ جرگے کے سامنے اس کا بیٹا زنا کا مرتکب پایا گیا تھا۔ مختاراں مائی سے کون واقف نہیں ،جرگے نے جس کے بھائی کی خطا کی سزا اسکا گینگ ریپ کروا کر دی تھی۔
پاکستان کا عدالتی نظام آج بھی بالکل انہی خطوط پر استوار ہے جن پر برصغیرکی تقسیم سے قبل اسے تاج ِبرطانیا نے استوار کیا تھا ، انگریزی زبان میں ہونے والی تمام تر کارروائی سے عوام کی اکثریت ویسے بھی لاتعلق ہی رہی ہے اور روپے پیسے کا بے جا دخل انہیں اس سے علیحدہ وبیزار کئے رکھتا ہے ، جو پڑھے لکھے افراد عدالتوں سے رجوع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں بھارتی فلم کا ڈائیلاگ’’تاریخ پر تاریخ‘‘ ازبر ہو جاتا ہے، خود وکلاء مقدمات کو نمٹانے کے بجائے تاریخ پر تاریخ لینے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ججز کیلئے تو تاریخ مانگنا’’آئیڈئل سیچویشن‘‘ہوتی ہے ۔ معمولی معمولی مقدمات میں پہلی پیشی کے حاصل کردہ حکم امتناع کو فریقین سالہا سال کھینچے جاتے ہیں اور ججز کو کبھی اس پر تشویش نہیں ہوتی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ سمیت ملک کی دیگر عدالتوں میں مجموعی طور پر تیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر ِالتواء ہیں ۔ وفاقی شریعت کورٹ میں 1903، لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ 24 ہزار 587، سندھ ہائی کورٹ میں 36ہزار612،پشاور ہائی کورٹ میں 9ہزار776اور بلوچستان ہائی کورٹ میں 5ہزار 619مقدمات زیر التواء ہیں اور یہ سب مقدمات درحقیقت نچلی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف کی گئی اپیلیں ہیں یا پھر آئینی درخواستیں ۔دوسری جانب ضلعی عدالتوں کا حال اس سے بھی بُرا ہے جبکہ یہی وہ فورم ہے جہاں ایک عام آدمی کا بنیادی طور پر عدالتی نظام سے پہلا واسطہ پڑتا ہے۔ ضلعی عدالتوں کے حوالے سے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق صرف پنجاب کی نچلی عدالتوں میں 8لاکھ95ہزار 213مقدمات ، سندھ میں ایک لاکھ3ہزار899مقدمات، کے پی کے میں 9ہزار721مقدمات اور بلوچستان کی ماتحت عدالتوں میں 7ہزار 461مقدمات زیر التواء ہیں اور یہ سب ایسے مقدمات ہیں جنکا فیصلہ تسلّی بخش طریقے سے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حد سے حد تین سماعتوں میں بآسانی کیا جا سکتا ہے مگر عالم یہ ہے کہ اکثر اوقات مدعی یا مدعا علیہ انصاف کو ترستے اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور مقدمہ جاری ہی رہتا ہے ، کئی دیوانی یا سول مقدمات اور رقوم کے لین دین کے تنازعات میں دیکھا گیا کہ مقدمات نے اتنا طول پکڑا کہ فریقِ اوّل یا دوئم کا پتہ بھی تبدیل ہو گیا یا وہ فیملی سمیت بیرون ملک منتقل ہو گیا یا پھر اس نے وہ متنازع کاروباری شعبہ ترک کرکے کوئی اور کاروبار شروع کردیا مگر مقدمے کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ انصاف کی مسند پر بیٹھے قاضی’’ورک اوورلوڈ‘‘ کی شکایت کرتے ہیں اور یہ شکایات بھی ناجائز نہیں ، صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کی ضلعی عدالتوں کی کل 2365اسامیوں میں سے 1193خالی پڑی ہیں، سندھ میں 446میں سے 81،کے پی کے میں 450میں سے 112اور بلوچستان میں 273میں سے 89نشستیں خالی پڑی ہیں جبکہ اسلام آباد میں بھی ماتحت عدلیہ کی 101نشستوں میں سے 48خالی ہیں۔اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام ضلعی عدالتوں میں تقرریوں ، تبادلوں او ر تعیناتیوں کے اختیارات ہائی کورٹس جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے تمام اختیارات خود سپریم کورٹ کے پاس ہیں اور اس سلسلے میں صرف ایگزیکٹو یا انتظامیہ کو مکمل قصور وار قرار دینا بجائے خود نا انصافی ہے۔
چیف جسٹس کی جانب سے انتظامیہ اور مقننہ کو جھنجھوڑنے کی کوشش قابل ِ تحسین ہے مگر حضورآپ کو اپنی اداؤں پر بھی غور کرنا ہو گا ۔ حدّ ِادب ، گستاخی معاف،اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ماتحت عدلیہ سے لیکر ہائی کورٹس کے ججز تک کی تقرری کا نظام اور اسکے معیارات خود کرپشن اور سیاسی مفادات کی علّت سے خارج نہیں۔ ہمارا عدالتی نظام معاشرے میں کیا بو رہا ہے شاید ججز کو اسکا درست طریقے سے اندازا بھی نہیں ، ماڈل ایان علی کا مقدمہ ہو یا مصطفی کانجو کے ہاتھوں ملک عدم کوچ کرنے والے زین کا ، ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ کا مقدمہ ہو یاعبدالقادر گیلانی کی گاڑی کے ٹائروں تلے کچلے جانے والے دیہاتیکا ، عدالتوں سے انصاف ہو تا ہوا کم از کم دکھائی نہیں دیا۔ کتاب ِ ماضی کے اوراق پلٹتا چلوں تو ججز کے اپنے فیصلوں کے حوالے سے معیارات مزید واضح ہو سکیں گے ، ہے تو پچھلی صدی کا قصّہ ، زیادہ پرانی بات پھر بھی نہیں، جب اس ملک کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق چلتا دیکھنے کے خواہشمندوں نے سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مامون قاضی کے فیصلے پر اپنا سر دھنا تھا ، انہوں نے غنویٰ بھٹوکی درخواست پر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تیسری ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس سے قبل یہی معزز جج ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کے قتل کے معاملے میں دوسری ایف آئی آر درج کرنے کے حوالے سے دائر درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر چکے تھے کہ ایک ہی واقعے کی دو ایف آئی آر ز درج نہیں ہو سکتیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا یہ بات بحث سے بالا تر ہے اور پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ اس ملک میں حاکمیت ِ اعلیٰ اﷲ رب العّزت کی ہے لہذا محترم رئیس القضاء کی خدمت میں امیر المومنین حضرت علی ؓ کے اس خط کے چند نکات پیش کرتا چلوں جو انہوں نے مصر کے گورنر مالک بن الحارث الاشتر کو لکھا تھا ۔ اس خط کے مندرجات دنیا میں انسانی حقوق کی پہلی دستاویز سمجھے جانے والے معاہدے’’میگنا کارٹا‘‘ پر کئی سو گنا برتری کے حامل ہیں ،جس کے تسلسل میں برطانوی عدالتی نظام بعد ازاں وضع کیا گیا ۔انہوں نے لکھا’’لوگوں میں انصاف کرنے کیلئے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا جو تمھاری نظر میں سب سے افضل ہوں، جب حق بات سمجھ میں آجائے تو اسے قبول کرنے میں احتراز نہ کریں، وہ ایسے ہوں جنہیں بے جا تعریف بے خود نہ کرے نہ چاپلوسی حق سے دور کرے، یاد رکھو ایسے لوگ بہت کم ہیں اس لئے کثرت سے ان کے فیصلوں کی جانچ پڑتال بھی کرتے رہنا‘‘۔ چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ اﷲ کے آخری پیغمبر ﷺ نے جو کہا وہ آپکی توجہ چاہتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا’’تم سے پہلے قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ سزا کا اطلاق با اثر لوگوں پر نہیں کرتے تھے اور اگر وہی جرم کوئی مجبور کرتا تو حد جاری کر دیتے۔ قسم ہے اﷲ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔
محترم چیف جسٹس ایوان بالا میں اپنے افکار کی گونج چھوڑ کر چل دئیے ،آگے لوگ انکی آواز پر کتنا کان دھریں گے معلوم نہیں مگر ایوانِ بالا میں بیٹھے یہ لوگ ان ’’پچھلے گاؤں والوں‘‘سے قطعاً مختلف نہیں جن سے وتایو فقیر کا واسطہ پڑا تھا ،حکومت کچھ کرے نہ کرے امید ہے کہ جسٹس انور ظہیر جمالی کم از کم وہ نہیں کریں گے جو وتایو فقیر نے کیا تھا ۔
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...
طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...
ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...
اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔ ’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘ بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ...
ایک نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کر سکتا ہے ، اسکی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کیلئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، نشئی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء ...
فیض حیات ہو تے تو کہتے .... آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہا...
یہ کہانی اسلام آباد کے میلوڈی پارک سے شروع نہیں ہوتی۔ یہ لاہور کی زنانہ جیل کے ڈیتھ سیل سے بھی شروع نہیں ہوتی البتہ اس جیل کا صدر دروازہ وہ مقام ضرور ہے جہاں سے کہانی میں’’ ٹوئسٹ‘‘ آیا۔ کہانی شروع ہو تی ہے لاہور سے 30میل دور پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے نواحی علاقے’’اِتا...
بعض لوگ جب بھی بولیں احساس شدید تر ہو جاتا ہے کہ خاموشی اس سے کہیں بہتر تھی، شاید بعض صوفیاء اسی لئے خاموشی کو عبادت بھی قرار دیتے آئے ہیں واقعہ مگر کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ الفاظ کی حرمت تب ہی مقدم ہے جب ادا کنندہ کا اپنا عمل ان کے مفاہیم سے تال میل رکھتا ہو ۔وزیر اعظم نے ایک بار...
نیو یارک شہر کے علاقے مین ہٹن میں ٹائم اسکوائر کے نزدیک بیالیسویں ایونیو(42nd) پر گیارہ بائی چھبیس فٹ کی ایک گھڑی نصب ہے پہلے یہ سکِستھ(6th)ایونیوپر نصب تھی ۔ یہ گھڑی سب سے پہلے 1989ء میں نصب کی گئی، اس وقت اسکی لاگت ایک لاکھ ڈالرز آئی تھی اور اسکی تیاری و تنصیب کے تمام اخراجات ا...
مارک ہینبری بوفوائے (Mark Hanbury Beaufoy) ایک برطانوی سیاستدان تھا ، وہ انتہائی مشاق نشانے باز اور اپنے زمانے کا مشہور شکاری تھا وہ دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے آتشیں اسلحے کے مضمرات سے تحفظ کے اصول وضع کئے ، اس کا تحریر کردہ مسوّدہ 1902میں شائع ہوا جسکا عنوان تھا A Father's Advis...