... loading ...
وہ اکثر محافل میں زیادہ بات چیت نہیں کرتا ۔ہاں البتہ اپنے بے تکلف دوستوں اور اپنے والد مبارک احمد مرحوم کے بزرگ دوستوں کی منڈلیوں میں خوب چہکتا اور محفل میں رنگ جماتا ہے۔
اس نے کہا کہ مجھے پھر ایک سرکاری ادارے سے فون آیا کہ اپ اپنا بائیو ڈیٹا ، شناختی کارڈاورایک عدد تصویر بھیج دیں ۔اور ہاں اس کام میں دیر نہ لگائی جائے جتنی جلدی یہ کام کر دیں ہماری سہولت کے لیے بہتر ہو گا۔ اس سات کتابوں کے مصنف نے کہا کہ بھائی وہ سب تو ٹھیک ہے مگر اونے پونے اتنی جلدی کاہے کی اور کس مقصد کے لیے آپ مجھے اتنی جلدی ڈال رہے ہیں ۔سرکاری ملازم نے کہا کہ آپ کا نام پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے اسلام آباد بھیجناہے اور پلیز اس بات کا ذکر کسی سے نہ کیجیے گا۔اس نے کہا کہ میں نے ایساکیا کیا ہے کہ آپ کو میں ہی نظر آیا ہوں ۔ملازم نے پھر درخواست کی کہ سر آپ کا نام ہی یہاں سے فائنل ہوا ہے آپ فور اً مطلوبہ فائل بھیج دیں تا کہ اگلی کارروائی کے لیے فائل روانہ کی جائے۔ اس نے پہلے والی ہٹ دھرمی سے کہاکہ میری محفل میں ادبی خدمت کرنے والوں میں مجھ سے کہیں زیادہ سینئرز موجود ہیں کیا آپ کو وہ نظر نہیں آتے۔سرکاری کارندے نے عاجز انہ انداز میں کہا کہ سر جی بہر حال آپ کو اطلاع کرنا مقصود تھا ،آپ نظر ثانی کر لیں ۔میرے عزیزو!آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر وہ کون سر پھرا شخص ہوسکتا ہے جسے کسی سول ایوارڈ کی آفر ہو اور وہ اپنی ذات پر اپنے سینئردوستوں کو ترجیح دے رہا ہو ۔۔۔۔۔۔اس سے ملیے ،یہ ہے ایرج مبارک۔یاد رہے کہ ایرج مبارک معروف شاعر مبارک احد کا فرزندارجمند ہے جو خود بھی افسانہ نگار اور شاعر ہے۔اپنے باپ کا اتنا مودب بیٹا شاید ہی کسی نے دیکھا ہو جو اپنے باپ کے مرنے کے بعد باپ کے دوستوں کو وہی مقام دے رہا ہو جو باپ نے دے رکھا تھا۔بتاتی چلوں کہ اس کے باپ کے دوستوں میں انتظار حسین،مسعود اشعر،اکرام اﷲ،زاہد ڈاروغیرہ ہیں۔ایرج مبارک حلقہ ارباب فنون لطیفہ کے تحت ماہانہ ادبی تقریب سجاتا ہے اور اس میں یہ ادب کی اربعہ چٹانیں محفل کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں ۔جونیئر لکھنے والوں کو ان کی موجودگی سے اعتماد اور حوصلہ ملتا ہے۔اور ان کے زیر سایہ ایک تحفظ کا بھی احساس ہوتا ہے۔شہر میں اگر چہ ادبی محافل کی کمی نہیں مگر حلقہ فنون و ادب نہایت سفسٹیکیٹد ادبی محفل ہوتی ہے جس میں فنون لطیفہ سے متعلقہ موضوع طے کیا جاتا ہے پھر اس پر محفل برپا کی جاتی ہے۔اکثر اوقات گپ شپ ہوتی ہے جس میں موجودہ حالات پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور محفل کا صدر جو عموماً انتظار حسین ہی ہوتا ہے تقریب میں اپنا صدارتی خطاب کرتا ہے۔یہ محفل اصل میں خود سے ملنے کا بہانہ ہی ہوتی ہے جہاں ہم اپنا وقت خود کو دے رہے ہوتے ہیں ورنہ تو ساری زندگی دوسروں کے لیے بِتا دیتے ہیں۔مجھے یہاں مبارک احمد کے کچھ اشعار یاد آ گئے ۔ وہ کہتے ہیں:
جو اپنی قدروں ریتوں رسموں کو ساتھ لے کر چلتاہے وہ تو پرانا ہی ہوتا ہے ۔پرانا ہونے پر ہمیں فخر ہے کیوں کہ اسی کو ثبات ہے ۔ بزرگ کہا کرتے تھے تو ٹھیک ہی کہا کرتے تھے کہ ’’نوا نو دن پرانا سو دن‘‘( نیا صرف نو دن رہے گا اور پرانا سو دن تک چلتا ہے )
بات ہو رہی تھی ایرج مبارک کی ۔تو دوستو ! یہ اپنے باپ کا وہ سپوت ہے جوبزرگوں کے احترام میں اور رشتوں کی پالنا میں تو اقدار کی انگلی تھام کر چلتا ہے مگر ادب میں اس نے اپنے بزرگوں سے ہٹ کر کچھ غیر محسوس طریقے سے تخلیقی تجربے کیے ہیں ۔یہ تجربے اس کی نثر میں زیادہ نکھر کر سامنے آئے ہیں مگر اپنی نظم میں بھی وہ انفرادیت رکھتا ہے۔منیر نیازی کی طرح کبھی کبھی تو انتہائی مختصر نظم میں کوئی بڑا جہان مقید کر دیتا ہے ۔منیر نیازی مختصر نظم میں جب جہان قید کرتا ہے تو ایک خاص دائرے میں رہتا ہے ۔بس نشان دہی کرتا ہے ، دائرے کو توڑنے یا تبدیل کرنے کی بظاہر کوئی لائن نہیں کھینچتا۔وہ اسی دائرے میں رہتے ہوئے تمام بات اسی جہان کی کرتا ہے ۔گرچہ اس کے مخالفین سر دھنتے رہ جاتے ہیں ،تلملاتے رہ جاتے ہیں مگر اس نے جتنا کہنا ہوتا ہے وہ من مانی کرتا ہے مثلا وہ جب کہتا ہے کہ
یعنی اس نظم میں وہ شہروں میں بسنے والے لوگوں کی بے حسی ،بے بسی اور خوف کی بات کرتا ہے تو باقی بات وہ اپنے قارئین پر چھوڑ تا ہے کہ وہ اس کرب اور دکھ کو خود محسوس کریں یا اس کا خاتمہ کریں ۔وہ ولی کی طرح بس نشاندہی کرتا ہے ۔ وہ پرے ہو کے تماشا دیکھتا ہے۔نہ تو کوئی سرزنش کرتا ہے اور نہ ہی حکم صادر کرتا ہے۔نہ کوئی مشورہ دیتا ہے نہ ہی دلیل چاہتا ہے ۔ایرج کی شاعری میں ایک نئی بات یہ ہے کہ وہ اپنی مختصر نظم میں نئی جرات دیتا ہے چاہے وہ ادب کی روایت توڑے ،چاہے وہ ادب کی ریاست میں نئی اینٹ لگائے مگر وہ اپنی بات کہنے سے گریز پا نہیں ہوتا۔ اس کی ایک نظم دیکھیے جس کا نام ہے’’شرط ِتحّرک‘‘:
نڈر تو منیر نیازی بھی بہت تھا ۔اس نے خوف وتحّیر کو ایک طاقت کے طور پر استعمال کیا اس نے شاعری میں اپنے منفرد اسلوب سے خود کو منوایا۔ ایرج مبارک نہ تو مشاعرے پڑھتا ہے اور نہ ہی اس نے کبھی شاعر ہونے دعویٰ کیا ہے مگر اس کی شاعری میں جرات اور دلیری اور منفی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنا ، چیلنج کرنا اور مقابلہ کرنا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی نظم ’’ناٹکِ کردار‘‘ میں کہتا ہے کہ
میں جوہر کار ہوں
حلقہ ء ارباب نظر
جوہر شناس
تم کون ہو؟؟؟؟؟؟
گویا روایت و جدت کے ہمراہ چلنا پسند کرتا ہے ۔اور مخالف قوتوں کو چِت کرنے سے پہلے موازنے کے لیے اپنی شفاف و متبرک اقدار کا تعارف دیتا ہے پھر اگلے کا شجرہ چیلنج کرتا ہے۔لڑتا ہے مگر اصول کے ساتھ۔جیسے ڈاکٹر اختر شمار کہتے ہیں :
ایرج اپنے اصولوں کو صرف تحریر کی حد تک محدود نہیں کرتا بلکہ یہ چیز اس کی عملی زندگی میں بھی نمایاں ہیں۔ کہ محفل میں اگر سامنے انتظار حسین ،مسعود اشعر ، اکرام اﷲ اورزاہد ڈار ہوتے ہیں تو ان کے سامنے والی کرسیوں پر شفیق ؔاحمد خان، ڈاکٹر غافر ؔشہزاد،جمیل احمد عدیل ؔوغیرہ ہی ہوتے ہیں ۔جہاں ایسی محافل میں ایک جنریشن دوسری جنریشن سے محو کلام ہوتی ہے تو وہاں تخلیقی سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے۔ایرج مبارک اپنے باپ مبارک احمد کی طرح دوست دار آدمی ہے۔وہ زندگی میں بہت حساس واقع ہوا ہے، اپنے لیے کم مگر اپنے ابا حضور کے دوستوں کے لیے زیادہ۔یہ اس کی اخلاقیات ہے جو نا خلفوں کے لیے مشعل راہ ہے۔جو اپنے بڑوں کا احترام نہیں کرتا پھر تاریخ بھی اس کا نام کبھی بہتر حروف میں نہیں لیتی۔
دعوے کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ثابت ہو گیا تو دعویٰ کرنے والا معتبر اور اگر بد قسمتی سے دعوے دار اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام ہو جائے تو نہ صرف اس کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں بلکہ لوگ اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔اسے صدیوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کا نہ پورا ہ...
ہم روز رونا روتے ہیں کہ فلاں جگہ اتنے بے گناہ مارے گیے ۔ فلاں جگہ ڈاکو اتنی نقدی اور طلائی زیورات لے کر گھر والوں کوایک کمرے میں بند کر کے چلے گیے ۔ محلے داروں نے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر دروازہ توڑااور لٹیروں کے ہاتھوں برباد ہونے والے یر غمالیوں کو رہائی دلوائی۔چھوٹے بچوں ک...
دوزخ نامہ بنگالی زبان میں لکھا جانے والا شاہ کار ناول ہے جس میں پہلی بار منٹو بہ مکالمہ غالب دکھایا گیا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نام دوزخ نامہ اور گفتگو منٹو اور غالب کی۔۔۔جی ہاں! تو جنابِ والایہ دونوں کردار اس ناول میں جہنم میں محو کلام ہیں ۔اس سے قبل بھی اس عظیم ناول نگا ر،ربی س...