وجود

... loading ...

وجود

کتاب لکھنے کا نسخہ

هفته 07 نومبر 2015 کتاب لکھنے کا نسخہ

book

چار برس پہلے باب وڈورڈنے ’’اوبامازوارز‘‘نامی تہلکہ خیز کتاب لکھی تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بھونچال سا آگیا کہ کیا کسی صحافی کو خفیہ معلومات تک اس قدر رسائی بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ کتا ب کو The Pulitzerانعام بھی ملا۔یہ ایوارڈ ایسے مصنفین کو ملتاہے جو کوئی غیر معمولی تحقیقی یا ادبی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔

مصنف نے ایسے کتاب لکھی جیسے کہ وہ قعات کا چشم دید گواہ ہو۔وہ بتاتے ہیں کہ پالیسی سازافراد اور اداروں کے مابین کن امور پر اختلافات تھے ۔ کس طرح خفیہ ادارے اور دفتر خارجہ ایک دوسرے کی کاوشوں کو ناکام بنا تے۔کتاب پر دنیا بھر اور پاکستان میں بہت تبصرے ہوئے لہٰذا ایک اور تبصرے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔کتاب کے جس پہلو نے میری توجہ خاص طور پراپنی جانب مبذول کرائی وہ ہے وڈورڈ کا کتاب لکھنے کا نسخہ اور پھر بلاجھجک قارئین کو اپنا رازداں بنانا ہے۔

چونکہ باب وڈورڑ1971ء سے واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ ہیں لہٰذا اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ انہیں اقتدار کی راہداریوں میں رسائی حاصل رہی ہے۔ باب وڈورڈ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب تنہا نہیں لکھی بلکہ دوساتھیوں نے ان کی معاونت کی۔ بلکہ اگر ان دوافراد کی مدد میسرنہ ہوتی تو غالباًیہ کتاب منظرعام پر نہ آتی۔

سب دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکی حکومت نے باب وڈورڈ سے کچھ بھی چھپایا نہیں ۔بلکہ اسے نیشنل سیکورٹی کونسل کی حساس دستاویزات ، امریکی پالیسی سازی کے امور میں شریک ایک سو اہم افراد کے سرکاری اور ذاتی نوٹس،سرکاری یادداشتوں،خطوط، ای میلز،ڈائریوں اورنقشوں تک رسائی فراہم کی، حتیٰ کہ حکومت نے اُنہیں آڈیوویڈیو ریکارڈ بھی فراہم کر دیا ۔یہ جان کرتو میں چونک گیا کہ کوئی حکومت کسی صحافی پر اتنا اندھا اعتماد بھی کرسکتی ہے۔ہمارے ہاں تو ریٹائرڈ سرکاری افسروں تک پر اعتماد نہیں کیاجاتا کہ مبادا وہ دشمن کے ہتھے نہ چڑھ جائیں یا حقیر مفادات کی خاطر بک نہ جائیں۔

کتاب کی تیاری کے دوران بے شمار سرکاری اور نیم سرکاری شخصیات سے انٹرویوز کیے گئے۔انہوں نے وڈورڈ کوکھلے دل سے اپنے تجربات اور مشاہدات میں شریک کیا۔البتہ شرط لگائی کہ وہ ان معلومات کو کسی سے منسوب کیے بغیر لکھ سکتے ہیں تاکہ سرکاری پوزیشن یا موقف متاثر نہ ہو۔وڈورڈ کہتے ہیں کہ میں نے بعض اعلیٰ شخصیات سے پانچ پانچ بار بھی انٹرویوز کیے ۔کیونکہ بعض نکات تشنہ رہ جاتے یا پھر مزید معلومات کی ضرورت پیش آجاتی۔سوائے چند افراد کے اکثر لوگوں نے انٹرویوز ریکارڈ کرنے کی اجازت دی۔ان انٹرویوز کو کمپیوٹرپراتارا گیا تو تین سو صفحات کی ضخیم جلد بن گئی۔وائٹ ہاؤس کے افسروں نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا اور وڈورڈ کو بتایاکہ سرکاری اجلاسوں سے پہلے کیا تیاری کی جاتی تھی۔اجلاس سے قبل کیا سیاست چلتی اور بعدازاں کس طرح فالو اپ ہوتا۔بعض اوقات سرکاری افسر اور مختلف وزارتیں ایک دوسرے کو ناکام کرنے کے لیے کیا کیا حربے اختیار کرتیں۔کتاب کی منفرد بات یہ ہے کہ مصنف کوصدر اوباما نے ایک گھنٹے پندرہ منٹ تک انٹرویو بھی دیا۔

سب سے مزیدار بات جو پاکستان کے سینئر صحافیوں اور ایڈیٹروں کی توجہ اور عمل کی متقاضی ہے کہ با ب وڈورڈ کس طرح اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کا تعارف کراتاہے اور ان کی دل کھول کرستائش کرتاہے۔وہ کہتاہے کہ یہ میری خو ش قسمتی تھی کہ جوزف بوہک جیسے شہ دماغ نوجوان کی خدمات مجھے میسر آئی۔یہ نوجوان بلاکا ذہین اور حافظے کا مالک ہے۔افغانستان کی جنگ کی تمام تر معلومات ہی نہیں بلکہ جزیات تک اسے ازبر ہیں حالانکہ سیاست یا حربی امور اس کا کبھی موضوع نہیں رہے۔وڈورڈ کہتے ہیں کہ وہ میرے دماغ کا ایک حصہ بن گیا بلکہ دماغ کا بہترین حصہ۔بسااوقات مجھے یقین ہوجاتاکہ وہ سب کچھ جانتاہے یاجو کچھ وہ نہیں جانتاوہ چند لمحات میں تلاش کرسکتاہے۔میں نے کتاب کی تیاری میں اس پر بہت انحصار کیا۔وہ مجھے کام پر اُکساتااور میں اُسے ۔ہم دونوں کے مابین اعتماد کا ایک اٹوٹ رشتہ قائم ہوگیا۔

وڈورڈ کے ساتھ ایک پچیس سالہ نوجوان خاتون ایونلی نے بھی کام کیا۔وڈورڈ اس خاتون کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اتنی کم عمر میں وہ جادہ گرنی کی طرح کام کرتی ۔علمی معاملات میں رہنمائی کرتی ۔انٹرویوز کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کا ادق کام سرانجام دیتی۔ صدر اوباما سے لے کر خفیہ اداروں کے حکام اور افغان گوریلاکمانڈروں تک کی شخصیت کی باریکیوں کے بارے میں معلومات کے بیان پر اسے ملکہ حاصل تھا۔قدرت نے اسے اعلیٰ پائے کی نثر لکھنے سے بھی مالامال کررکھا ہے۔

پاکستان افغان جنگوں کا مرکز رہا لیکن ایک بھی ڈھنگ کی کتاب کوئی پاکستانی مصنف نہ لکھ سکاکیونکہ معلومات کے خزانے پر اسٹیبلشمنٹ سانپ بن کر بیٹھی ہوئی ہے۔

’’اوبامازوارز‘‘ پڑھ کر دوباتیں مجھے کھٹکیں۔پاکستان افغان جنگوں کا مرکز رہا لیکن ایک بھی ڈھنگ کی کتاب کوئی پاکستانی مصنف نہ لکھ سکاکیونکہ معلومات کے خزانے پر اسٹیبلشمنٹ سانپ بن کر بیٹھی ہوئی ہے۔وہ معلومات شیئر کرتی ہے اور نہ آزاد علمی کاموں کو پسند کرتی ہے ۔

دوسرانکتہ جو دل میں چبھا وہ ہے نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا ۔تین چار بڑے اردو اخبارات میں لکھنے والے اکثر کسی نہ کسی گروہ،جماعت یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے تصورکیے جاتے ہیں۔رفتہ رفتہ اپنی مرضی اور دانش سے لکھنے والوں کے لیے جگہ بنانا مشکل کام بن گیا ۔ سینئر صحافی اورایڈیٹرز نے نوجوانوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کا سلسلہ عملاً ترک ہی کردیاہے بلکہ اکثر انہیں اپنی نوکری کے لالے پڑے رہتے ہیں۔

اس کے برعکس مغرب میں ہر ایڈیٹر اور لکھاری کے گرد شاگردوں کی ایک پوری ٹیم ہوتی ہے۔جن کی وہ سرپرستی کرتاہے اور ساتھ لے کر چلتاہے۔سرکاری ادارے انہیں معلومات میں شریک کرتے ہیں لیکن ایجنٹ نہیں بناتے۔نوجوان رپورٹنگ سے کام شروع کرتے ہیں۔چند برسوں بعدمصنف بن جاتے ہیں۔ پھر کسی بڑے پالیسی ساز ادارے میں ملازم ہوجاتے ہیں ۔تھنک ٹینکس میں خدمات سرانجام دینے والے سفارت کار بن جاتے ہیں یا بعض اوقات وہ حکومت میں بھی شریک ہوجاتے ہیں۔امریکا میں خاص طورپر حکومت بدلتی ہے تو سابق وزراء اور افسروں کی ایک پوری فوج ملازمت سے فارغ ہوجاتی ہے جو تعلیمی اورعلمی اداروں کا رخ کرتی ہے۔وہاں بیٹھ کرکتابیں لکھتی ہے۔لیکچرزدیتی ہے اور نوجوان طلبہ اور طالبات کو اپنے تجربات اورمشاہدات میں شریک کرتی ہے۔اس طرح مغرب علمی محاذ پر اپنی نئی نسل کی تیاری کا سلسلہ جاری رکھتاہے اور دنیا پر اپنی دھاک بیٹھتاہے۔


متعلقہ خبریں


سچائی کی طاقت ارشاد محمود - جمعرات 31 دسمبر 2015

چند دن قبل دبئی میں ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔تپاک سے ملے اور ہمدردی سے کہنے لگے کہ آپ کی تحریریں پڑھتے ہوئے زمانہ گزرگیا لیکن سمجھ نہیں آتی کہ آپ نون لیگ کے حامی ہیں یا تحریک انصاف کے۔کبھی آپ وزیراعظم نوازشریف کی مدح سرائی فرماتے ہیں اور کبھی عمران خان کے حق میں زمین وآسمان کے ق...

سچائی کی طاقت

اب گولی نہیں بولی چلے گی! ارشاد محمود - پیر 28 دسمبر 2015

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا لاہور تشریف لانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہی نہیں بلکہ پا ک بھارت تعلقات میں نئے باب کا اضافہ بھی کرسکتا ہے اور لگ بھگ ستر برس تک تنازعات میں گھرا یہ خطہ امن اور علاقائی تعاون کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سفارت کاری بالخصوص پاکستان کے...

اب گولی نہیں بولی چلے گی!

یقین نہیں آتا! ارشاد محمود - اتوار 20 دسمبر 2015

رمضان کا تیسرا عشرہ تھا ۔ بھائی نزاکت محمود رات گئے گھر تشریف لائے۔سفر، تھکاوٹ اور کچھ کاہلی کے سبب گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بجائے گلی میں پارک کردی۔سحری کے وقت گاڑی موجود نہ پا کر سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ہمارا گھر ائیر پورٹ سے تین اورمقامی تھانہ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر ہ...

یقین نہیں آتا!

سرتاج عزیز اور سشما سوراج کا مصافحہ ارشاد محمود - هفته 12 دسمبر 2015

اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج سے پرجوش مصافے نے دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ،لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔سشما سوراج اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز نے اتفاق کیا ہے کہ نہ صرف ماضی میں کئے جانے والے مذاکرات او...

سرتاج عزیز اور سشما سوراج کا مصافحہ

اس پروپیگنڈے کا کیاکریں؟ ارشاد محمود - هفته 28 نومبر 2015

چند دن قبل فرانس کے شمال مشرقی شہرا سٹراس برگ کے ایک وسیع وعریض ہال میں یورپی پارلیمنٹ کے چار ارکان سمیت کوئی ایک سو بیس کے لگ بھگ مندوبین جمع تھے۔ پاکستان میں ’’چین:انسانی حقوق کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات‘‘ موضوع سخن تھا ۔اس مجلس میں جاوید محمد خان نامی ایک شخص نے بلوچستان کا م...

اس پروپیگنڈے کا کیاکریں؟

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ارشاد محمود - اتوار 22 نومبر 2015

پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے واشنگٹن کے پے درپے دورے بے سبب نہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے صدر بارک اوباما نے پاکستان کے حوالے سے لچک دار پالیسی اختیار کی۔افغانستان میں اس کے نقطہ نظر کو ایک حد تک قبول کیا۔اس کے خلاف عالمی بیان بازی جو معمول بن چکی تھی کو روکا گیا۔پاکستان کا جوہری پ...

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ارشاد محمود - هفته 17 اکتوبر 2015

اگرچہ حکمران نون لیگ کے امیدوار سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کی نشست پر فتح یاب ہوچکے ہیں لیکن اس ضمنی الیکشن نے پارٹی کے اندر جاری انتشار اور پنجاب میں مسلسل حکمران رہنے کے باعث درآنے والی کمزوریوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔پارٹی کے اند ر بالائی سطح پر پائی جانے والی کشمکش نے عوامی ف...

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر