... loading ...
کیا یہی ہمارا مقدر تھا؟ میاں نواز شریف اور اُن کا خاندان؟ اب اُن کے خیالات بھی اس ملک پر حملہ آور ہیں۔یہ اُن کی حکومت بھگتنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ہر طرف بکھرے ہوئے موضوعات میں یہ خواہش کبھی نہ تھی کہ میاں نواشریف کو ایک موضوع کے طور پر کبھی ترجیحاً اختیار کرنا پڑے، اُن کے دستر خوانی قبیلے کے دانشوروں کو خود اُن کی تحریروں کا آئینہ دکھانا پڑے،وزیراعظم میاں نواشریف کے تضادات کو بے نقاب کرنا پڑے، جن کے خیالات سے لے کر روایات تک سب اقتدار کے دروازے سے بہ صورتِ بارات نکل کر بہ طرزِ طلاق ٹوٹتے پُھوٹتے اور بکھرتے چلے جاتے ہیں۔ جن کے نظریئے، سوچ کے سرچشمے اور فکر ونظر کے چولے طاقت کے مراکز کے آگے سجدہ ریز ہوکر بھیس بدل لیتے ہیں۔
اب میاں نوازشریف نے ایک نئی پھلجڑی چھوڑی ہے کہ عوام کا مستقبل ’’لبرل پاکستان‘‘ ہے۔ اگر چہ اُن کا پورا بیانیہ ہی اعتراضات کے طوفان اُٹھا تا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ڈھائی سال میں ترقی کے تمام اہداف حاصل کر لیے، عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے۔‘‘ معلوم نہیں کیوں میاں نوازشریف نے ترقی کے جو اہداف حاصل کئے ہیں، اُس کا پتا ابھی تک دستر خوانی قبیلے کے دانشوروں کو نہیں چلا، وگرنہ وہ ڈھول باجے کے ساتھ یہ راگ اب تک کتنی ہی بار جھومتے جھامتے گا، گُنگُنا چکے ہوتے۔ مگر یہ موضوع یہاں موزوں طور پر زیربحث ہی نہیں۔ یہاں تک کہ اس بیانئے میں عوام کے مستقبل کی آمریت نما جمہوریت کے ساتھ وابستگی بھی موضوع بحث نہیں۔ یہاں پر اس پورے بیانئے کا محض ایک جز یعنی’’عوام کامستقبل لبرل پاکستان ہے ‘‘کو زیر غور لانا مقصود ہے۔
لبرل پاکستان کی بات میاں نواشریف نے اُسی دن کی ہے جس دن وزیرمملکت سائرہ افضل تارڑ نے جنرل پرویز مشرف کو سینیٹ میں ’’رول ماڈل‘‘ کہہ کر چیئرمین سینیٹ رضاربانی سے ایک جوابی سوال کی صورت میں ڈانٹ کھائی۔ اب محترمہ نے وضاحت بھی فرما دی ہے۔ میاں نواز شریف نے اگر چہ نام نہیں لیا مگر لبرل پاکستان کی اصطلاح کی ساری گونج گمک مشرف کے عرصۂ اقتدار میں ہی پیدا ہوئی۔ ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ نامی حیا باختہ حسینہ نے بھی اُسی دور میں اپنی چھب دکھلاکر قیامتیں ڈھائی تھیں۔ تب پاکستان کو امریکی مقاصد کی ڈھب پر لانے کے لیے ایک ذہنی غسل دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ایک افغان جنگ میں جب لڑائی کے لیے بنیادی ہتھیار کے طور پر اسلام کی ضرورت تھی، تو جنرل ضیاء الحق کی اسلام پسندی امریکی باجگزاری کے کام آئی، مجاہدین امریکا کے بانیوں کے ہم پلہ سمجھے گئے۔ اُن کی قبائلی روایات کبھی اعتراض کا موجب نہ بنیں۔ اُن کے معاشرے میں عورت کا مقام تب کبھی زیرِ بحث نہ آیا۔ افغان معاشرے میں کبھی جھانک کر نہ دیکھا گیا کہ اُن کی بچیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہور ہی ہیں یا نہیں۔ پھر اچانک دور تبدیل ہوا۔ اور امریکی مقاصد بدل گئے۔جنرل ضیاء قرآنی آیات پڑھتے تھے، نیا جنرل مشرف کتوں کو بانہوں میں بھر کر تصویریں اُتارتا نظر آنے لگا۔ اب وہی مجاہدین یک بیک دہشت گرد ہو گئے۔ یہ میاں نوازشریف کے دستر خوانی قبیلے کے ہی دانشور تھے، جو پاکستان کی فضاوؤں سے اڑان بھرتے طیاروں کی گنتی گنتے اور افغانوں کے بہتے خون کا روز حساب کرکے قوم کو بتا تے تھے کہ جرنیلی اقتدار نے مسلمانوں کا خون کتنا ارزاں کر دیا۔ ڈرون کے فتنے نے کیا کیا قیامتیں ڈھائیں۔ زیادہ پُرانی بات نہیں تب ہی روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرل پاکستان پر تنقید کے طوفان میں مشرف کے چہرے کو گم کرنے کے جتن کئے گئے تھے۔
میاں نواز شریف جب عوام کے مستقبل کو لبرل پاکستان کے ساتھ منسلک کر رہے تھے تو معلوم نہیں، اُن کے قریب کھڑے کسی وزیر مشیر نے اُن کے کان میں سرگوشی کی یا نہیں کہ حضور یہ پرویز مشرف کے دور کے جنتر منتر ہیں۔ لبرل پاکستان کے ساز پر تب امریکیوں سے سازباز کر کے جمہوریت کے خلاف آمریت کے لیے سندِ جواز حاصل کیا گیا تھا۔ لبرل پاکستان کی ہی دُھن پر روشن خیال اعتدال پسندی کی رقاصہ اپنے بدن کے زاویئے بُنتی تھی۔ اور اس حال میں خود ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ زن بھی گلاس سر پر رکھ کر ہاتھ پاؤں ہِلاتا اورٹھمکے لگاتا تھا۔ یہ بڑا ہی معرِکَہ آرا دور تھا۔ تب کی اپنی داستانیں تھیں۔اُس دور کے لبرل پاکستان کی اپنی نورجہائیں تھیں۔ اور اپنے معرکہ روح وبدن تھے۔ جو دن بہ دن بڑھتے پھیلتے ہی چلے گئے تھے۔ تب عتیقائیں محفل آرا تھیں اور عافیائیں امریکی جیلوں میں بھیج دی گئی تھیں۔ معلوم نہیں کسی نے میاں نوازشریف کے کان میں سرگوشی کی تھی یا نہیں کہ تب آپ جدہ کے سرور پیلیس میں تھے۔ اور آپ کے ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں، یہی بیچارے عوامل لبرل پاکستان کے نام پر اپنے دانتوں سے کھول رہے تھے۔
یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ جب میاں نوازشریف یہ فرما رہے تھے کہ لبرل پاکستان عوام کا مستقبل ہے، تو کسی نے اُن کے کان میں کہا کہ حضورِ ذی وقار یہ مستقبل، ماضی میں بھگتایا جا چکا ہے، جس کے اثرات کی بہار میں بگرام کی ایک قیدی نمبر ۶۵۰ کا ذکرِ خیر بار بار، بتکرار، بصد اصرار کیا جاتا تھا۔ ہم آپ کے نمک خوار تو اِسے لبرل پاکستان کے خلاف ایک مقدمہ بنا کر پیش کرتے تھے اور صورِ اسرافیل پھونکتے تھے۔تب آپ کے رخِ انور پر بھی اُن کا ذکر درد کی سلوٹیں اُبھار دیتا تھا۔ ہم نے اُسے بہن کہا، بیٹی کہا، حضور کچھ رحم نما توجہ فرمائیں۔ اپنے نمک خواروں کو رسواکرنے کا اہتمام تو نہ کریں۔ ہم نے کبھی ایک عیسائی بنیاد پرست، کیلی فورنیا کے امریکی شہری گیری فالکنر سے عافیہ صدیقی کا موازنہ کرکے اس حکومت کو کیا کیا کوسنے نہیں دیئے تھے۔تب شہابی آنکھوں، گلابی گالوں اور سنہری بالوں والی افغان بچیاں ہمارے سربلند قلم میں سیاہی بھرنے کے کام آتی تھی۔ تب بش کی جلائی گئی آگ کو ہم نے کروسیڈ کے نام سے لبرل پاکستان والے مشرف کے خلاف ایک مذہبی جذبہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
مشرف کے خلاف طرح طرح کے نکات پیدا کرنے والے اس دستر خوانی قبیلے کے کسی دانشور نے اب تک یہ نکتہ میاں نوازشریف کے گوش گزار کیا یا نہیں کہ جب بش اس جنگ کو کروسیڈ کہہ رہا تھا تو پاکستان کو لبرل بنانے کی جدوجہد بھی ایک ساتھ شروع ہوئی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لبرلزم کی تکرار میں ایک نامیاتی رشتہ ہے۔اس رشتے کی وضاحت اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی لوگوں کے خون بہانے سے ہوتی ہے۔ جو دونوں طرف سے ایک مذہبی عقیدے کے تحت جاری ہے۔ مگر جس کی وضاحت کے لیے ایک لبرل نظریہ بھی درکارہے۔ اس لبرل ازم کی اپنی علمیات اور مابعد الطبیعات ہے۔ جو ایک مستقل موضوع ہے، اسے کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ سائرہ افضل تارڑ کی وضاحت اپنی جگہ مگر میاں نواز شریف کے لبرل پاکستان کا تصور مشرف کے لبرل پاکستان سے کس طرح مختلف ہو گا؟ یہ اصطلاح تو اپنی اصل میں ایک ہی طرح کے نتائج پیدا کرتی ہے۔ تو کیا اقتدار کے لیے نوازشریف کے جسم میں مشرف کی روح حلول کر جائے گی؟ یوں بھی مشرف آج کل وہ گفتگو فرما رہے ہیں جو بے اقتدار نوازشریف کبھی فرمایا کرتے تھے، تو کیا اس ملک کے مفادات کے لیے ہماری تہذیب ہماری اقدار اور ہماری اصطلاحات حزب اختلاف کے خزاں رسیدہ موسموں کے لیے ہی کارآمد ہے؟کیا یہ بھی لبرل ازم کی ہی ایک قسم ہے؟
جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...
(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...