... loading ...
کچھ سال قبل محکمہ جنگلات کے ایک دفترمیں کباڑ (Un Serviceable articls ) کونیلام کیا گیا۔ تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پورٹریٹ اور بوسیدہ قومی پرچم کو بھی ایک ایک روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔اخبارات میں خبر کی اشاعت پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے بڑے غرور کے ساتھ کہا تھا کہ اگر ایسا ہو گیا ہے تو پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ خبر کی اشاعت سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔۔۔۔۔۔ اس افسر کا کہنا درست ثابت ہوا۔۔۔۔۔ کسی نے بھی اس’’ نیلامی ‘‘ کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔۔ لیکن قدرت کا قانون ضرورحرکت میں آیا۔ دونوں چیزیں نیلام کرنے والا آفیسر کسی وجہ سے معطل ہوا جبکہ دوسرا چھانگا مانگا کرپشن کیس میں جیل کی سیر کر چکا ہے۔کہاجاتا تھا کہ جب کبھی جنگل ہوا کرتے تھے تو محکمہ جنگلات نہیں تھا۔اب اگر محکمہ ہے تو جنگلات نظر آنے کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔میاں شہباز شریف کی قلمرو میں ہرے بھرے جنگلات چٹیل میدانوں کا رُوپ دھار چکے ہیں مگر محکمہ جنگلات قائم و دائم۔۔ وزیر جنگلات کے ٹھاٹ باٹ موجود اور سیکرٹری جنگلات کے کروفر سلامت ۔۔
ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے 25 فیصد رقبہ پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔پاکستان میں مجموعی طور پر جنگلات کا رقبہ بہت کم ہے ، پنجاب میں صرف دو فیصد رقبے پر جنگلات ہیں۔ گزشتہ دس سالوں سے پنجاب بھر میں جنگلات کی دولت کو انتہائی بے دردی اور بے رحمی سے لوٹاجا رہا ہے۔ صوبے میں جنگلات کی حالتِ زار دیکھ کر خادمِ اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی پر بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔پنجاب کے جن علاقوں میں جنگلات میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ان میں رحیم یار خان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، مری، مظفر گڑھ، لیہ ، بھکر، میانوالی، خوشاب، سرگودھا، چھانگا مانگا اور ڈفر کے فارسٹ نمایاں ہیں۔کچھ روز قبل ایک اخبار میں پنجاب کے سب سے بڑے مصنوعی جنگل ’’ چھانگا مانگا پلانٹیشن ‘‘ کے چٹیل میدان میں تبدیل ہونے کی خبر شائع ہوئی تھی ۔ خبر نگار کے بقو ل یہاں کچھ عرصہ قبل اسٹینڈرڈ سائز درختوں کی تعداد 75 ہزار تھی جو اب کم ہو کر پانچ ہزار رہ گئی ہے۔ اس فارسٹ ڈویژن میں کروڑوں روپے کی کرپشن اس سے سوا ہے۔ پنجاب کے دیگر تمام فارسٹ ڈویژنوں میں صورتحال اس سے بھی ابتر نظر آتی ہے۔پنجاب کے ہرے بھرے اور شاداب جنگلات کی تباہی وبربادی کی داستان کی ورک گردانی کی جائے تو دوسرے قومی اداروں کی طرح یہاں بھی ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘ والی صورتحال نظر آئے گی۔
اس محکمہ میں جنگل کا سب سے بڑا دشمن افسر مافیا ہے۔ جن کی زندگی کا واحد مقصد کرپشن کے سوا کچھ نہیں گزشتہ دو دہائیوں سے محکمہ جنگلات کا کوئی ایسا آفیسر سامنے نہیں آیا جس نے جنگلات کی ترقی یا موجودہ جنگلات کو بچانے کے لئے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہو جس کا ذکر کیا جا سکتا ہو۔ مری فارسٹ ڈویژن میں سرکاری جنگلات کے رقبہ پر لینڈ مافیا کی جانب سے ناجائز قبضے کا معاملہ سب سے سنگین ہے۔ یہ معاملہ آئے روز گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ سال قبل محکمہ جنگلات کے ایک ایس ڈی ایف او سمیت چند اہلکار قبضہ مافیا کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔ افسران نے ان کے مقدمات کی پیروی کرنے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرنے کی بجائے قبضہ ولینڈ مافیا سے معاملات طے کرنے کو ترجیح دی۔ اس محکمہ میں اب یہ بات راز نہیں رہی کہ نادرن زون کے دو سابق چیف کنزرویٹر ز لینڈ مافیا سے باقاعدہ ڈیل کے نتیجے میں اپنے عہدوں پر تعینات ہوئے تھے۔شمالی زون راولپنڈی میں شامل میانوالی ، بھکر ، خوشاب، چکوال، مری اور سرگودھا کی فارسٹ ڈویژنوں میں گزشتہ سات سالوں کے دوران بڑی تباہی ہوئی۔ اس عرصے کے دوران یہاں تعینات چیف کنزرویٹر صاحبان کی یہی کوشش رہی کہ معاملے کو دبایا جائے ۔ ان چیف کنزرویٹر ز نے معاملے سے صرفِ نظر اسلئے کیا کہ بطور کنٹرولنگ اتھارٹی وہ خود اس کے ذمہ دار تھے۔ نادرن زون میں نہ صرف فارسٹ پلانٹیشنین برباد ہوئیں بلکہ نہروں اور سڑکوں کے کنارے کھڑے قیمتی درخت غائب کر دئیے گئے۔ نہروں کے کنارے درختوں پر شب خون مارنے کے لئے Reports Enventry کا سہارا لیا گیا۔ جن جن فارسٹ ڈویژنوں میں درختوں کی انونٹری کروائی گئی وہاں درختوں کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ 1994 ء میں نہروں کے کنارے کھڑے درختان کینال سائیڈ پلانٹیشن سے محکمہ جنگلات کو بمعہ نمبریشن ریکارڈ ٹرانسفر کئے گئے تھے۔لیکن اب جہاں یہ قیمتی درخت غائب کر دئے گئے ہیں وہاں سابقہ ریکارڈ بھی غائب ہے۔
جنگلات کو ایک طرف ٹمبر مافیا اور چوربرباد کرتے ہیں تو دوسری طرف محکمہ کے افسران بھی ا پنا ہاتھ صاف کر تے ہیں۔ نیلامی کے نظام میں موجود خامیوں سے جنگلات دشمن افسران خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ پنجاب میں جنگلات کے تیزی سے صفایا کی ایک بڑی وجہ نیلامی کے عمل کا شفاف نہ ہونا ہے ۔ ٹھیکدار ہر نیلامی میں پول کرتے ہیں جس سے ان کے اور افسران کے وارے نیارے ہوتے ہیں جبکہ قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق ایک فارسٹ سرکل کے کنزرویٹر نے ایک لاٹ کو بذریعہ پول نیلام کرکے سرکاری کالونی میں مسجد کی تعمیر ِ نو کروائی اور پھر اُسے اپنے والد کے نام سے منسوب کر دیا ۔ خیر سے ان کے والد بھی محکمہ جنگلات کے ایک افسر ہی تھے۔ان صاحب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے سرکل کی فارسٹ ڈویژنوں کے Resorve Rates سابقہ نیلامی کی اوسط یا مارکیٹ ریٹ کی بجائے ٹمبر مافیا کی مرضی سے مقرر کیا کرتے تھے۔
جنگلات کے چٹیل میدانوں میں بدلنے کی بڑی وجہ بڑے پیمانے پر چوری کی وارداتیں ہیں لیکن اس کا ایک اہم سبب نئے جنگلات کا نہ لگنا بھی ہے۔ محکمہ جنگلات میں Regenration کے کام کے لئے ملنے والے فنڈز بندر بانٹ کی نذر ہوجاتے ہیں اور نئے جنگلات لگانے کے کام پر بمشکل بیس سے تیس فیصد رقم خرچ کی جاتی ہے۔ محکمہ جنگلات میں فنڈز کو پانچ سے سات حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ او ر ہر حصہ دار کو اس کے عہدے کے مطابق رقم پہنچائی جاتی ہے۔ ان حصہ داروں میں چیف کنزرویٹر، کنزرویٹر، ڈی ایف او، ایس ڈٖی ایف یا رینج آفیسر ، بلاک آفیسر اور فارسٹ گارڈ شامل ہیں۔جبکہ مشترکہ اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ حرام کے مال کو انتہائی ایمانداری سے ’’اوپر ‘‘ تک پہنچانے کے اس عمل کو ’’ سیونگ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیونگ سسٹم اس محکمے میں ایک ضابطے کی شکل میں رائج ہے۔
محکمہ جنگلات کے سرکاری فنڈز کو بٹوارے کا مال بنانے میں ڈائریکٹر بجٹ اینڈ اکاؤنٹس فارسٹ کے دفتر کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ پنجاب سے پورے صوبے کے فنڈز وصول کرنے کے بعد سارا سال یہ بجٹ کی تقسیم اور کانٹ چھانٹ کا عمل جاری رکھتے ہیں ۔ ڈائریکٹر بجٹ اینڈ اکاؤنٹس کا دفتر ڈویژنوں کی ضروریات کو مدِ نظر رکھنے کی بجائے ’’ پہلے آئیے اور پہلے پائیے ‘‘ کی بنیاد پر بجٹ تقسیم کرتا ہے گویا ’’ یہاں لگانے والے کو ملتا ہے ‘‘۔۔ ترقیاتی و غیر ترقیاتی فندز، تنخواہیں ، الاؤنسسز ، پنشن ،جی پی ایف اور دیگر تمام مالیاتی امو ر اس کے کنٹرول میں ہیں۔ موجودہ سسٹم میں اس دفتر کا وجود محکمہ کے لئے بالکل غیر ضروری ہو چکا ہے۔اگر اس دفتر کو ختم کرکے معاملات براہِ راست فنانس ڈیپارٹمنٹ کے کنٹرول میں اور تنخواہیں ضلعی اکاؤنٹس آفسسز کے کنٹرول میں دے دی جائیں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اس دفتر کی بے جا مداخلت اور فنڈز ریلیز کرنے میں تاخیری حربوں کے استعمال کے باعث پنجاب بھر میں محکمہ جنگلات کے ملازمین کو تنخواہوں کے لئے ہر ماہ خوار ہونا پڑتا ہے۔
اکثر فارسٹ ڈویژنوں میں جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں کو مزدوری ادا نہیں کی جاتی بلکہ انہیں جنگل سے لکڑیاں برائے فروخت لے جانے کی آزادی ہوتی ہے۔ جن پلانٹیشنوں میں سالانہ کٹائی ہوتی ہے تو وہاں جنگلات میں کام کرنے والے مزوروں کے خاندان کے خاندا ن اپنا پڑاؤ ڈال لیتے ہیں۔ درختوں کی کٹائی کے کام کے عوض یہ مزدور لکڑی بطور مزدوری یا بٹائی حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ لکڑی اور ٹمبر کی کٹائی کے بل پاس ہونے کی صورت میں افسران اور اہلکاروں میں بانٹ دئیے جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ جنگل میں کام کرنے والے عملے کو 200 روپے یومیہ مزدوری ملتی ہے اور ان کی مزدوری کے بل کئی کئی مہینے منظور نہیں ہوتے ۔ایسی صورت میں کسی مزدور کی جانب سے مزدوری کی ادائیگی کا مطالبہ سامنے نہیں آتا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بل واوچرز سب بٹوارے کا مال ہوتا ہے۔ٹرانزٹ پرمٹ پنجاب کے محکمہ جنگلات میں ہمیشہ سے جنگلات کی تباہی اور اہلکاروں کی کمائی کا ذریعہ رہا ہے ۔ سابق وزیر جنگلات اکرام اﷲ خان پائی خیل نے اس لعنت کو ختم کر دیا تھا مگر بعد میں دوبارہ یہ سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ٹرانزٹ پرمٹ چوری کی لکڑی کی نقل و حمل کے لیے ٹمبر مافیا بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔ ان دنوں بھی پنجاب کے جن اضلاع میں ٹرانزٹ پرمٹ رائج ہیں وہاں گڈز ٹرانسپورٹر اڈوں پر سرِعام یہ پرمٹ فروخت کرتے ہیں ۔
جنگلات کے فروغ کے لئے جتنی ڈیویلپمنٹ اسکیمیں گزشتہ بیس سالوں میں شروع ہوئیں یا پایہ تکمیل کو پہنچی ان کی مثال ماضی میں نہیں ملتی لیکن ان اسکیموں نے جنگلات کی دولت میں اضافے کی بجائے افسران اور عملے کے حالات سنوارے ہیں ۔ جنگلات کو ان کا خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا ۔ ان میں یو ایس ایڈ ، یواین ایچ سی آر ، فارم فارسٹری سمیت دیگر اسکیمیں جن میں ۔ENHANCEMENT OF TREE COVER THROUGH FARMERS ، کانا مسکٹ، ہائی ویز ماڈل نرسری، ماڈل پلانٹیشن اور نہروں کے کنارے درخت لگانے کی اسکیمیں شامل ہیں۔اربوں روپے کے فنڈز کی فراہمی کے باوجود چٹیل میدان کا منظر پیش کرتی ہیں؟ کسی غیر جانبدار اور ذمہ دار اتھارٹی سے مکمل تحقیقات کروانے کے ساتھ ساتھ ان کا احتساب بھی ضروری ہے جنہوں نے ان اسکیموں کی جانچ پڑتال کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق محکمہ جنگلات پنجاب میں نقصان کا ابتدائی تخمینہ دو ارب کے قریب ہے۔محکمہ کے چھوٹے ملازمین فارسٹ گارڈز اور فارسٹرز پر لاکھوں کروڑوں روپے کی ریکوریاں ڈالی جارہی ہیں۔ ملازمتوں سے برخواست کیا جا رہا ہے لیکن بڑے افسران نہ صرف آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ کھُل کر کھیل رہیں ۔پنجاب بھر کے جنگلات تباہ ہو چکے ہیں لیکن شاید ہی کسی ایس ڈی ایف او، ڈی ایف او ، کنزرویٹر اور چیف کنزرویٹر کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی ہو۔ درختوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے ملازمین کا صفایا کرنے کا عمل جار ی و ساری ہے۔ درخت معیشت کے ساتھ ساتھ ماحول کو معتدل رکھنے اور خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جانداروں کے لئے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔انسانی زندگی اور سماج کے لئے اس شعبے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ لیکن یہ شعبہ ہماری حکومت اور خصوصاً وزیر اعلیٰ کی توجہ سے محروم ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پنجاب پر حکمرانی کو اپنا استحقاق سمجھنے والے ’’ خادمِ اعلیٰ ‘‘ اس جانب کو ئی توجہ دیں گے۔ پنجاب کے لٹتے اور تباہ ہوتے جنگلات کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے۔
سندھ کے جزائر بڈو اور پنڈال کی قانونی ملکیت پر نئی بحث چھڑ گئی۔ سندھ کے2 جزائر پر 4 ادارے قانونی طور پر ملکیت کے دعوے دار بن گئے۔ سندھ حکومت ان جزائر کو محکمہ جنگلات کے حوالے کر چکی ہے۔میری ٹائم ایجنسی ان جزائر پر اپنا قانونی جواز پیش کر رہی ہے جب کہ پورٹ قاسم اتھارٹی نے 1974 قان...
سپنس سے متعلقہ تحریں مجھے اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتیں۔ خاص کر مرڈر مسٹری کی دلدادہ ہوں۔مطالعہ کا شوق ورثے میں ملا ۔ دس سال کی عمر میں میری ایگتھا کرسٹی کی تحریروں سے اس کے ناول ’’مرڈر از ایزی‘‘ کے ذریعے سے شناسائی ہوئی۔یہ جادوئی اثر تحریروں کی خالق ناول نگارہ سے میری اولین مگر ا...
موسمی پھل اور سوغات کے تحائف ایک دوسرے کو بھجوانا ایک قدیم روایت ہے۔ ماضی قریب میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان اپنے ذاتی باغات سے آموں کی پیٹیاں تحائف کی صورت میں سیاستدانوں اور صحافیوں کا بھجوایا کرتے تھے۔ ا س قسم کی مختلف روایات آج بھی جاری ہیں۔ بیورکریسی کے اعلیٰ افسران...
قصے کہانیاں، ماضی کے واقعات بیان کرنا انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے۔آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان گھنے جنگلوں اورغاروں میں رہتا تھا تو اس وقت بھی وہ کہانیوں اور قصوں کا دلدادہ تھا۔اس دور میں انسان کی تفریح کا واحد ذریعہ کہانیاں ہی تھیں۔انسان کا داستان گوئی سے تعلق ہمیشہ سے ہی رہا ہ...
آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر اندازہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبد...
ایک ننھا سا قطرۂ زہر رگوں میں پھیل کر روح کو جسم سے باہر دھکیلنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔زہر صدیوں سے قتل کے لئے استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ، زور آور ، اور قابلِ اعتبار ہتھیار ہے۔ گو زہر کتنا ہی جان لیوا کیوں نہ ہو میرا ماننا ہے کہ زہر سے بھی خطرناک زہریلی سوچ ہوتی ہے۔زہر کا ہتھی...