وجود

... loading ...

وجود

ترکی میں انتخابات کی مختصر تاریخ

اتوار 01 نومبر 2015 ترکی میں انتخابات کی مختصر تاریخ

first-ottoman-parliament

ترکی چھ ماہ میں آج اپنے دوسرے اور اہم ترین انتخابات کے مرحلے سے گزر ے گا۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک کئی بحرانوں کا سامنا کررہا ہے، یہ انتخابات ترکی کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ملک میں انتخابات کی تاریخ بہت پرانی ہے بلکہ تمام مسلم اکثریتی ممالک میں سب سے پہلے جدید انتخابات ترکی ہی میں ہوئے۔

موجودہ ترکی میں پہلے جدید انتخابات 1840ء میں اس وقت ہوئے جب یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ گوکہ اس کی صورت جدید دور سے کچھ مختلف تھی کیونکہ اس میں مقامی اراکین پارلیمان کو دیہی علاقوں میں مقرر کیا گیا تھا تاکہ وہ انتظامی اور امن و امان کے مسائل کا خیال رکھیں ۔ اس میں اجلاس مقامی گورنر یا ضلعی سربراہ کے ماتحت ہوتے تھے اور اس میں مقامی آبادی کے اراکین بھی شامل ہوتے تھے۔ نصف اراکین کا انتخاب مسلمانوں میں سے جبکہ نصف کا غیر مسلم آبادی سے ہوتا تھا۔ مزید برآں، غیر مسلم برادری کے دنیاوی امور کی نگرانی کے لیے کونسل بھی انتخابات کے ذریعے ہی منتخب ہوتی تھی۔

چند مورخین کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں اقلیتوں کو جو حقوق حاصل تھے، اس وقت کے یورپ میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔

پھر 1876ء میں ایک جدید آئین تشکیل دیا گیا اور سلطنت عثمانیہ ایک آئینی بادشاہت میں بدل گئی۔ منتخب اراکین کی پارلیمنٹ استنبول میں طلب کی گئی۔ بعد ازاں سلطان عبد الحمید ثانی نے پارلیمان کو معطل کردیا اور آئندہ انتخابات کا بھی خاتمہ کردیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ 1877ء کی ترک-روس جنگ میں شکست کا سبب پارلیمان تھی۔ بہرحال، وہ 30 سال تک مطلق العنان بادشاہ کی حیثیت سے برقرار رہے یہاں تک کہ 1908ء میں فوجی افسران کی بغاوت کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر آئینی بادشاہت بحال ہوئی اور ملک کا اقتدار جمعیت ِ اتحاد و ترقی نامی جماعت نے سنبھالا۔

سلطان عبد الحمید 1908ء میں آئین بحال کرنے پر مجبور ہوئے اور یوں ترکی میں عثمانیوں کے اقتدار کا حتمی زوال شروع ہوگیا

سلطان عبد الحمید 1908ء میں آئین بحال کرنے پر مجبور ہوئے اور یوں ترکی میں عثمانیوں کے اقتدار کا حتمی زوال شروع ہوگیا

عثمانی تاریخ کی پہلی باضابطہ پارلیمان کل 130 اراکین پر مشتمل تھی جن میں سے 80 مسلمان اور 50 غیر مسلم تھے لیکن 1908ء کی اس پارلیمان میں غیر مسلم اراکین کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا حالانکہ پارلیمان کے اراکین کی کل تعداد 280 ہوگئی تھی۔

نئے انتخابات میں سلطنت کے ان مردوں کو ہی ووٹ دینے کا اختیار حاصل تھا جو محصول دیتے تھے یا ملک میں جائیداد رکھتے تھے۔ اس میں ایک رکن 50 ہزار افراد کی نمائندگی کرتا تھا جس کے لیے انتخاب کا عمل دو مرحلوں میں ہوتا تھا۔ پہلے مرحلے میں ہر 500 ووٹر ایک ثانوی مختار کو چنتے تھے جبکہ دوسرے میں ثانوی مختار مل کر پارلیمان کے اراکین کا انتخاب کرتے تھے۔ دو مرحلہ انتخابات کا یہ نظام 1946ء تک امریکا میں نافذ العمل رہا بلکہ یورپ میں بھی لگ بھگ اسی طرح انتخابات ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ محصولات ادا نہ کرنے والے یا ملکیت نہ رکھنے والوں کو یورپ میں بھی ووٹ دینے کا اختیار نہیں تھا۔ یعنی “انتخابی کھیل” صرف صاحبانِ ثروت اور شاہی خاندان کے افراد ہی کھیل سکتے تھے۔

بہرحال، 1908ء سے سلطنت عثمانیہ میں جدید سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آنے لگا۔ 1912ء کے انتخابات سے قبل جمعیت اتحاد و ترقی نے کافی عوامی حمایت کھوئی لیکن اپنا ووٹ بچانے کے لیے اس نے عوام پر مختلف طریقے سے دباؤ ڈالا یہاں تک کہ مخالفین کو ووٹ دینے کے خواہشمند افراد کو جمعیت کے افراد نے مارا پیٹا بھی۔ یوں 1912ء کے انتخابات سے ملک واحد جماعت کی آمریت کے چنگل میں پھنس گیا۔ ترک تاریخ میں انہیں “ڈنڈا بردار انتخابات” کہا جاتا ہے۔

جب 1918ء میں جمعیت کو حکومت کا تختہ الٹا گیا تو ایک مرتبہ پھر انتخابات ہوئے۔ عثمانی سلطنت کے بچے کچھے حصے اب ایک کثیر جماعتی جمہوریت تھے، جس میں ایک سوشلسٹ جماعت تک شامل تھی۔ آزاد خیال فکر جڑیں پکڑ چکی تھی لیکن انقرہ سے اٹھنے والی قوم پرست تحریک نے اپنے پیروکاروں کے علاوہ کسی کو 1919ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا۔ سلطنت عثمانیہ کی آخری جنرل اسمبلی 23 اپریل 1920ء کو انقرہ منتقل ہوئی کیونکہ استنبول دشمن کے قبضے میں تھا۔ جب مصطفیٰ کمال کو اندازہ ہوا کہ وہ ترکی کے بارے میں اپنے بڑے وژن کو ایک نسبتاً جمہوری پارلیمان کے ساتھ پورا نہیں کرسکتے تو انہوں نے 1923ء میں پارلیمان ہی معطل کردی۔ انہوں نے اپنے ہی منتخب کردہ نائب اراکین کے ساتھ مل کر نئی پارلیمان تشکیل دی اور خود صدر بن بیٹھے۔ ترکی میں جمہوریت کا قیام اور دیگر “انقلابی” تبدیلیاں اسی پارلیمان کے ہاتھوں رونما ہوئیں۔

اتاترک کا عہد مطلق العنان جمہوریت کی زریں مثال تھا

اتاترک کا عہد مطلق العنان جمہوریت کی زریں مثال تھا

نئے اراکین جمہوری خلق پارٹی کے رکن تھے، جس کی قیادت خود مصطفیٰ کمال کے ہاتھ میں تھی۔ انتخابات ضرور ہوئے لیکن کوئی مخالف جماعت تھی ہی نہیں۔ سب کو انہی افراد کو ووٹ دینا تھا، جنہیں حکومت نے منتخب کیا تھا۔ بالفاظ دیگر یہ صدر کے منتخب کردہ افراد کے لیے عوامی تصدیق حاصل کرنے کا عمل تھا۔ اسے آپ سوویت یونین کے سیاسی ماحول جیسا کہہ سکتے ہیں۔ 1935ء میں ترکی میں عورتوں کو بھی حق رائے دہی دیا گیا اور حکومت کی منتخب کردہ 17 خواتین پارلیمان میں پہنچیں۔

مخالفین کو خوش کرنے کے لیے حکومت نے 1943ء میں ہر صوبے میں اضافی امیدوار بھی کھڑا کیا۔ لیکن یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ ترکی نے عالمی جنگ میں حصہ تو نہیں لیا تھا لیکن غربت نے ملک کو جکڑ لیا تھا اور امریکی امداد کے حصول کے لیے جمہوری خلق پارٹی کے صدر عصمت انونو کو ایک کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ انہیں جمہوری انتخابات پر رضامندی دکھانی پڑی حالانکہ وہ خود جمہوریت پسند نہیں تھے۔

1945ء میں جمہوری خلق پارٹی کے مخالف کے طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن 1946ء کے انتخابات ہو بہو 1912ء جیسے ہی تھے۔ جمہوری خلق پارٹی کے مقررہ گورنر، ضلعی سربراہ، میئر اور صوبائی سربراہان نے جمہوری خلق پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے عوام پر دباؤ ڈالا۔ کئی مقامات پر ہنگامے پھوٹے۔ فاتح کا تعین پہلے سے کیا جاچکا تھا، اس لیے ووٹ گننے تک کی نوبت نہ آئی۔ اس کے باوجود یہ بدترین انتخابات ملک کی جمہوری تاریخ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئے کیونکہ یہ پہلے انتخابات تھے جہاں عوام نے براہ راست اراکین کا انتخاب کیا۔ پھر جمہوری خلق پارٹی کی حرکتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1950ء کے بعد سے یہ جماعت کبھی اکثریت کے ساتھ اختیار حاصل نہیں کرسکی۔

ترکی میں 1979ء کے انتخابات سیاہی والے انتخابات کہلاتے ہیں

ترکی میں 1979ء کے انتخابات سیاہی والے انتخابات کہلاتے ہیں

بارہا فوج اور افسر شاہی کی مداخلت کے باوجود انتخابات ترکی کے سیاسی منظرنامے کا اہم حصہ بن چکے تھے۔ 1961ء میں انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوئے۔ جس کے تحت ہر سیاسی جماعت کو پارلیمان میں اتنی نمائندگی ملی، جتنے اس نے انتخابات میں ووٹ حاصل کیے۔ اس نظام میں اتحاد ناگزیر ہوگیا۔ پھر 1980ء کی فوجی بغاوت کے بعد ایسا نظام ترتیب دیا گیا جو اتحادوں اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کو پارلیمان میں داخل ہونے سے روک دے۔ سیاسی جماعتیں جو 10 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرتیں، ان کو آج بھی پارلیمان میں نمائندگی نہیں دی جاتی۔

بار بار ووٹ بھگتانے والے عناصر کی سرکوبی کے لیے 1979ء کے انتخابات میں رائے دہندگان کے ہاتھوں ایسی سیاہی استعمال کی گئی جو کئی دنوں تک نہیں مٹتی تھی۔ اس لیے یہ انتخابات ترکی میں “سیاہی والے انتخابات” کے طور پر مشہور ہیں۔

ماضی قریب میں انتخابات میلے ٹھیلے اور جنگ کا سا سماں پیش کرتے تھے، گو کہ اب وہ پہلی والی رونقیں نہیں لیکن موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں ترکی کے ان انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

turkey-elections-2015


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر