... loading ...
اگر برطانیا پُرشکوہ تہذیب و اقدار کے وارث کے طور پرآج بھی ایک عظیم ملک ہے تو دس برس تک اُس کے وزیراعظم رہنے والے ٹونی بلیئر کون ہیں؟ کیا عظیم تہذیبیں اپنی زندگی اور عظیم اقدار اپنی فعالیت کے اوج وعروج پر ایسے لوگ پید اکرتے ہیں؟ برطانوی وزیراعظم نے سی این این کے نمائندے فرید زکریا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے عین اس وقت عراق جنگ پر معذرت چاہی ہے، جب خود برطانیا میں عراق جنگ کے اسباب کا تعین کرنے والے تحقیقاتی کمیشن کی ’’چلکوٹ روداد ‘‘ کو منظرعام پر لانے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔ عراق جنگ کے زمانے میں امریکا کے ایک ’’پوڈل‘‘ کی شہرت پانے والے ٹونی بلیئر نے مانا ہے کہ اُنہیں غلط معلومات فراہم کی گئی اور داعش کے وجود میں آنے کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری اُن کے اُس وقت کے فیصلوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ تاہم وہ جنگ کے فیصلے کو مجموعی طور پر درست سمجھتے ہیں اور صدام حسین کوبذریعہ جنگ اقتدار سے ہٹانے کے فیصلے کو جائز سمجھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ٹونی بلیئر کی اس معذرت کاآج کوئی مطلب بھی ہے؟
مغربی تہذیب اپنے حکمرانوں کی ’’ معذرت ‘‘ کو بھی تقدیس کے ایک ہالے میں پیش کرتی ہے جسے سرمایہ پرست جمہوریت کے منتر پر چلنے والے ذرائع ابلاغ بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر یہ معذرت راہِ عزیمت پر چلتے ہوئے نہیں بلکہ راہِ رخصت میں ایک آخری چارۂ کار کے طور پر ہوتی ہے۔ جس کا واحد مقصد اس فریب کار نظام پر مغربی عوام کے متزلزل اعتماد کو برقرار رکھنا ہوتاہے۔ کیا بلیئر کی یہ معذرت کسی احساسِ جرم کی پید اوار ہے یا محض ایک حکمت عملی کی آئینہ دار؟ اس کا جواب مغربی نظامِ حکومت اور مغربی تہذیب کو عیاں و عریاں کردیتا ہے۔
سب سے پہلے دیکھئے بلیئر نے معذرت کس چیز پر کی ہے؟ بلیئر کی معذرت دراصل عراق جنگ کے فیصلے پر نہیں بلکہ اس امر پر ہے کہ اُنہیں ’’غلط انٹلیجنس ‘‘فراہم کی گئی۔ اس طرح وہ اپنے فیصلے کی ذمہ داری اُٹھانے کے بجائے اِسے نہایت چالاکی سے تقسیم کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت کیا ہے؟ عراق جنگ کا فیصلہ کسی بھی وجہ کے بغیر بہت پہلے سے امریکی منصوبے کا حصہ تھا ۔ بلیئر امریکی منصوبے کے تحت بروئے کار آیاتھا۔ جس میں جنگ کرنے کا فیصلہ جنگ کے کسی بھی سبب کے بغیر پہلے سے موجود تھا۔ بش کے امریکی صدر بننے سے پہلے ہی عراق پر امریکی حملے کی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔ یہاں جنگ کے جواز کی تو کوئی بحث ہی نہیں ہے۔ دی پراجیکٹ فاردی نیو امریکن سنچری (PNAC) نامی ایک ادارے نے ڈیڑھ سوصفحات پر مشتمل ایک مفصل منصوبہ ترتیب دیا تھا جو ڈک چینی ، ڈونلڈ رمزفیلڈ، پال ولفووٹز اور جارج بش کے بھائی جیب بش کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ بش کے یہ تمام نیو کنزرویٹو ساتھی مذہبی نفسیات کے حامل تھے اور یہ تمام حضرات تیل کے عالمی کاروبار سے کسی نہ کسی صورت وابستہ تھے۔ بعدازاں بش کے امریکی صدر بننے کے بعد یہ تمام لوگ اُن کی حکومت کے اہم ترین مناصب پر فائز ہوئے۔اس کی تمام تفصیلات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد کے زیراہتمام ثروت جمال اصمعی کی کتاب ’’دہشت گردی اور مسلمان‘‘میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اورقابلِ ذکر حوالہ خود برطانیا کے سابق وزیر ماحولیات مائیکل میچیئرکا موجود ہے ۔ اُنہوں نے ۶؍ستمبر ۲۰۰۳ء کو برطانوی اخبار گارجین میں اپنے ایک مضمون
’’This war on terrorism is bogus‘‘ میں لکھا ہے کہ عراق اور افغانستان کو جارحیت کا ہدف بنانے کا منصوبہ پہلے تیار کر لیا گیا تھااور ان ملکوں پر فوج کشی اور قبضے کے لیے درکار جواز اور بہانے بعد میں بقدرِ ضرورت گھرے گئے تھے۔اس پورے تناظر میں بلیئر کو ’’غلط انٹلیجنس ‘‘ کی فراہمی کا تو سرے سے کوئی سوال ہی نہیں اُٹھتا تھا۔ یہاں تو حکومتوں کی طرف سے جنگ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے خود انٹلیجنس اداروں کو مخصوص اطلاعات گھڑنے کے احکامات دیئے گئے تھے۔
بلیئرپھر یہ کیوں دیکھتے کہ امریکا نے پہلے سے موجود ایک منصوبے کو عملی جامہ پہننانے کے لیے جھوٹ گھڑے ہیں ۔ وہ خود بھی ایک ایسی ہی تاریخ کے وارث تھے۔ یاد کیجیے برطانوی وزیراعظم چرچل نے کیا ،کیا تھا؟ چرچل نے جرمنی کے خلاف منصوبہ بندی نازیوں کی سوویت یونین پر قبضے سے بہت پہلے شروع کر دی تھی۔۱۹۴۱ء کا یہ واقعہ باسٹھ برسوں بعد امریکا نے دُہرایا تھا۔ تب چرچل کے منصب پر برطانیا میں بلیئر بیٹھا تھا۔ ایک جیسی تاریخ کے حامل یہ دونوں ملک انسانیت کے جسم میں گہرے گھاؤ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
رابرٹ فسک نے بلیئر کی جانب سے سی این این کو دیئے گئے انٹرویو سے ایک زیادہ پریشان کن نکتہ نکا لا ہے کہ اس میں یہ تاثر مستحکم کیا گیا ہے کہ دراصل مشرقِ وسطیٰ میں کبھی امن وامان قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ بدامنی اور شورش پسندی کی سرزمین ہے۔ افسوس ناک طور پر جس سرزمین سے امن ِ عالم کے الہامی نغمے گونجے تھے، مغربی استعمار نے اِسے شورشوں کی سرزمین بنا کر رکھ دیا ہے۔ رابرٹ فسک کا سوال بالکل بجا ہے کہ اگر عراق میں امن قائم ہی نہیں ہونا تھا تو وہ اپنے کردار (بجاطور پر منافقانہ) پر معذرت کس چیز کی طلب کر رہے ہیں؟ اس طرح اُنہوں نے جوکچھ کیا اگر وہ نہ کرتے تو کوئی اور کرتا۔ راقم کے نزدیک یہ بات اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کو مستقل شورش پسندی کی سرزمین باور کرانے کا مطلب استعمار کے ماضی کے کردار کو باجواز بنانے کے لیے ہی نہیں یہ مستقبل میں بھی مغرب کے اسی دہشت گردانہ کردار کو مستقل جواز فراہم کر نے کے لیے ہے۔ یہ زہر میں بجھا ایک ایسا تیر ہے جسے پھر مستقل عرب سرزمین میں پیوست رہنا ہے۔ اس طرح کے منظم بیانئے مشرقِ وسطیٰ میں مغربی استعمار کے مستقل کردار کو مستحکم کرنے کے جواز فراہم کرتے ہیں ۔ اگر اس انٹرویو کے مندرجات پر غور کیا جائے تو یہ بلیئر کی معذرت نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں مغربی استعمار کے بھیانک کردار کا ایک نوعی ابلاغ ہے۔ جو بلیئر کی اس ضرور ت کو بھی پورا کر دیتا ہے جو انہیں چلکوٹ رپورٹ سے قبل ایک خاص طرح کے ہمدردانہ ماحول کی صورت میں درکار ہے۔ چنانچہ امریکی ٹیلی ویژن کو دیئے گئے اس انٹرویو کے ذریعے اب برطانوی ذرائع ابلاغ میں یہ چرچے کیے جارہے ہیں کہ سابق برطانوی وزیراعظم چلیں غلطی تو تسلیم کرنے پر آگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس غلطی کا آج کوئی مطلب بھی ہے؟ اور یہ غلطی کسی احساس جرم کی پیداوار بھی ہے؟ اگر ٹونی بلیئر کا یہ انٹرویو سن کر دوچار اور عراقی داعش میں شامل ہو جائیں تو کم ازکم مجھے تو اس پر کوئی حیرت نہیں ہوگی۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو دیا گیا سر کا خطاب واپس لینے سے متعلق عراق جنگ کے معاملے پر جاری پٹیشن پر ایک ملین سے زائد افراد نے دستخط کردیے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق ملکہ برطانیہ نے ٹونی بلیئر کو اعلی ترین اعزاز آڈر آف دا گارٹر سے تحفتاً نوازا تھا۔ اعزاز کیخلاف درخواست سا...
پنڈورا پیپرز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے وسطی لندن میں 67 لاکھ پونڈ کی جائیداد خریدی مگر 3 لاکھ 12 ہزار پونڈ اسٹیمپ ڈیوٹی ادا نہیں کی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق پنڈورا پیپرز میں انکشاف کیا گیا کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے وسطی لندن م...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...