... loading ...
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانیت کی تذلیل جاری تھی کہ بھارت کی موجودہ انتہا پسند ہندو حکومت نے بھارتی مسلمانوں کے گرد ایک مرتبہ پھرگھیرا تنگ کرنے کا عمل تیزی کے ساتھ شروع کردیا ہے۔ ممکن ہے اس صورتحال میں مزید اضافہ ہوتا لیکن افغانستان میں امریکا کے پاؤں اکھڑ جانے کی وجہ سے بھارت کی پاکستان کے خلاف اپنی دال گلنا مشکل ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر خاکم بدہن امریکا افغانستان میں افغان طالبان کو دبانے میں کامیاب ہوجاتا تو یہ پاکستان کے لئے بلکہ خطے میں موجود دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے زبردست قسم کی خطرے کی گھنٹی ہوتا۔
پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ کارروائیاں، کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی پشت پناہی، اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جس طرح انتہا پسندگروہوں کو پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے خلاف بھارت استعمال کرتا رہا ، وہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی بھارتی مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں جاری ہیں گزشتہ پون صدی کے دوران جو بھی بھارتی حکومت آئی اس نے اپنے مقاصد کے لئے مسلمان ووٹوں کو استعمال کیا اور پھر انہیں ہندوؤں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا ۔اس میں چاہے نام نہاد سیکولر جماعت کانگریس ہو یا اعلانیہ انتہا پسند جنتا پارٹی مسلمانوں کا حال ہمیشہ بُرا رہا ہے۔یہ وہ حالات ہیں جب پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے دورہ امریکاکیا ۔ اس دورے کو بھی بھارتی لابی کے واشنگٹن میں متحرک ہونے کے تناظر میں دیکھنا ہوگا کیونکہ امریکا اس دورے کے دوران پاکستان پر جہاں جوہری معاملات کے حوالے سے دباؤ بڑھانا چاہتا تھا وہاں اس کی کوشش ہے کہ پاکستان اپنے شارٹ رینج میزائل نصب نہ کرے جبکہ لانگ رینج میزائلوں کی تنصیب پر اسے اعتراض نہیں ہے۔ اس سارے معاملے کا پس منظر اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے شارٹ رینج میزائلوں سے سب سے زیادہ خطرہ بھارت کو ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لانگ رینج میزائلوں کو راستے میں انٹر سپٹ کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ شارٹ رینج کے میزائلوں کو راستے میں تباہ کرنا تقریبا ناممکنات میں سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت تاحال پاکستان کے خلاف کسی بھی بڑی جارحیت سے رکا ہوا ہے۔ امریکا اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر بھارت پاکستان کی عسکری تکنیکی مہارت کی وجہ سے حالت خوف میں رہا تو وہ اس سے خطے میں ’’بڑا کام‘‘ نہیں لے سکے گا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف صاحب امریکا کو اس حوالے سے کسی بھی قسم کی یقین دہانی کرانے کی قوت نہیں رکھتے تھے کیونکہ یہ تمام معاملات عسکری اداروں کے ہاتھ میں ہیں لیکن بحیثیت وزیر اعظم اس قسم کی صورتحال کا سامنا نواز شریف کو ہی کرنا تھا اس لئے اس دورے کے کوئی زیادہ اچھے نتائج نکلتے نظر نہیں آئے۔
دوسری جانب اس وقت پاکستان میں جس قسم کے حالات نظر آرہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدرت ہر اس فرد کو بے نقاب کرنے پر تلی ہوئی ہے جس نے کسی بھی طور اس ملک کے سیاسی اور فکری معاملے میں اپنا منفی حصہ ڈالا ہے۔اس میں سیاستدان ، حکومت، اپوزیشن ، عوام ، عسکری اور سول ادارے سب شامل ہیں۔ وطن عزیز کی پون صدی پر محیط تاریخ میں کبھی ایسا وقت نہیں آیا کہ تمام کے تمام ادارے اپنی تمام تر کمزوریوں، نااہلیت اور کرپشن کے الزامات کے ساتھ زبان زدعام ہوئے ہوں۔اس تمام صورتحال میں ایک بڑا سبق ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی بھی سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔جن معاشروں میں یہ صورتحال پیدا ہوجائے تو عوامل ایک بے رحم احتساب کی جانب اشارہ کرنے لگتے ہیں۔
جہاں تک افغانستان کی صورتحال کا معاملہ ہے تو اس میں شک نہیں کہ افغان طالبان نے قندوز پر ’’علامتی‘‘ قبضہ جماکر وہاں موجود بین الاقوامی قوتوں کو بھرپور انداز میں یہ پیغام دے دیا تھا کہ افغان طالبان جب چاہیں اور جہاں چاہیں حالات کو اپنے حق میں کرسکتے ہیں اس کے بعد قندوز میں امریکا کی بمباری کی وجہ سے جوافسوسناک صورتحال پیدا ہوئی، اس نے امریکا پر پھر ایک مرتبہ تنقید کی بارش کروا دی۔ طالبان قندوز میں اپنی مرضی سے داخل ہوئے تھے اور مقاصد حاصل کرنے کے بعد خود ہی انہوں نے یہ علاقہ خالی کردیا تھا۔ یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ ہلمند کے بعد اب افغان طالبان کابل کا آہستہ آہستہ گھیرا تنگ کررہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ دسمبر تک کابل پر قبضہ کرلیا جائے۔ اسی صورتحال کو دیکھ کر صدر اوباما نے امریکی فوج کے قیام کو مزید بڑھا دیا ہے جبکہ دوسری جانب افغان طالبان کے امیر ملا منصور اخترکے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ ہر بڑی عسکری کارروائی کی قیادت خود کررہے ہیں تاکہ دشمن تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ طالبان کی عسکری مہارت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ان حالات کے حوالے سے بھی میاں نواز شریف سے امریکا میں سوالات ہوئے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن سوالوں کا جواب خود امریکی حکومت کے پاس نہیں اسے پاکستانی وزیر اعظم کیسے دے سکتے ہیں۔۔۔!! اس لئے امریکی انتظامیہ کی کوشش تھی کہ اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے سارا نزلہ پاکستان پر گرایا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی انتظامیہ کی کوشش تھی کہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا کوئی بندوبست کیا جائے۔ لیکن افغانستان میں امریکا کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اہداف پورے نہیں ہوئے جو وہ چاہتا تھا۔اس کے علاوہ پہلے افغان طالبان کے ساتھ بات چیت میں امریکا پاکستان کو لا تعلق رکھنا چاہتا تھا یہ صرف اسی کا مطمع نظر نہیں بلکہ اسرائیل اور بھارت بھی اس کا خوہاں تھے اور برطانیا اس میں امریکی معاون کا کردار ادا کررہا تھا۔ یہی وہ مقاصد تھے جن کی بارآوری کے لئے امریکا اور برطانیا نے مشرف کے ذریعے ایک این آر او ڈیل کروائی تھی اور اسی ڈیل کے نتیجے میں ایک بدنام زمانہ سیاسی گروہ اس ملک اور قوم پر مسلط کردیا گیا تھاجس نے اپنے دور حکومت کے دوران اس ملک کے باسیوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا۔ اس سارے کام میں اس ملک کا حکمران اتحاد ہی شامل نہیں بلکہ جس نام نہاد اپوزیشن کا ذکر ملتا ہے وہ بھی اس میں پوری طرح شامل ہے۔جمہوریت کے نام پر اس قوم کے ساتھ جو دغا کیا گیا ہے وہ کسی طور بھی سانحہ سقوط ڈھاکا سے کم نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے دفاعی اداروں کو سب سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکا وطن عزیز میں اپنے حواریوں کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے کہ اس ملک کے محافظوں کو الجھا کر ان کا سب سے قیمتی اثاثہ یعنی اس کے جوہری ہتھیار اُچک لیے جائیں۔ ایسا کرنا امریکیوں کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ اسی میں آئندہ اسرائیل کی بین الاقوامی سیادت کا دارومدار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک جانب پاکستان میں سیاسی افراتفری پیدا کی جاتی ہے تو دوسری جانب پاکستان کے اس تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے تحت اسلام آباد سے مقبوضہ بیت المقدس تک امت کے رشتے کی ایک زنجیر بندھی ہوئی ہے۔ اس زنجیر کو توڑنے کے لئے بعض نجی چینلوں اور کالم نگاروں کی حد تک یہ کام کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے تمام امت کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا اسے صرف اپنی فکر کرنی چاہئے۔لیکن ان سے پوچھا جائے کہ تمام اسلام دشمن قوتوں کو پاکستان ہی کی کیوں فکر ہے؟
اس وقت مشرق وسطی میں کھیلا جانے والا تمام کھیل اسرائیل کی بین الاقوامی سیادت کے قیام کے لئے ہے۔ امت مسلمہ کی دو بڑی قوتیں صہیونی سامراج کے راستے کی بڑی رکاوٹ سمجھی جارہی ہیں ایک ترکی کا ابھرتا ہوا اسلامی تشخص، پاکستان کے جوہری ہتھیاراور پراکسی وار میں اس کی مہارت۔ دوسری جانب پاکستان میں عوام اورمحب وطن سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ پاک فوج کی پشت پر کھڑے ہوجائیں۔ کیونکہ موجودہ حکمران اتحاد نے بدعنوانی اور بے پناہ کرپشن کی وجہ سے جس قسم کے حالات پیدا کردیئے ہیں اس سے تمام فائدہ امریکا اور عالمی صیہونیت اٹھانا چاہتے ہیں۔ جس انداز میں اداروں کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا گیا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں کس کے ایجنڈے پر کام کیا گیا ہے اور جب پاکستان کی تاریخ کے اس مہلک ترین حکمران اتحاد پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں تو یہ جمہوریت کا واسطہ دے کر ان قوتوں کو آواز دینے لگتا ہے جنہوں نے بدنام زمانہ این آر او کروا کر اس ملک اور قوم کا مستقبل گروی رکھ دیا تھا۔ دنیا میں کسی ملک کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے ایسا نہیں ہوتا کہ وہاں کے سیاستدان کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر جاکر سیاسی سودے بازیاں کریں۔
بھارت، امریکا ، برطانیا اور اسرائیل کی پاکستان کے خلاف سازشوں کے آگے بند باندھنے کے لئے چین اور روس کو مزید قریب کرنا ہوگا۔ کیونکہ امریکا اور مغربی صیہونی قوتیں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی کے سامنے بھارت کو ایک رکاوٹ کے طور پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب اسرائیل روس کی پڑوسی ریاستوں میں ناکامی کے بعد مشرقی یورپ خصوصا پولینڈ کی سرزمین کو روس کے خلاف بڑے مورچے میں تبدیل کرنا چاہتا تھا جس میں اسے بری طرح ناکامی ہوئی ہے ۔یہی وہ قوتیں ہیں جو پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے درپے ہیں اگر پاکستان میں قومی سوچ کی حامل کوئی حکومت ہوتی تو وہ روس اور چین کے ساتھ ایک اتحاد قائم کرکے ان سازشوں کا مقابلہ کرسکتی تھی اس لئے اب پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو چاہئے کہ وہ مستقبل قریب میں عالمی صیہونی سازشوں کے مقابلے کے لئے چین کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ بھی قریبی اقتصادی اور عسکری تعلقات استوار کرے۔کیونکہ امریکہ نے قندوز کے حالات کو سامنے رکھ کر افغانستان میں قیام بڑھانے کا اعلان کیا ہے لیکن بعض ذرائع کے مطابق امریکا افغانستان میں افغان طالبان اور داعش کے درمیان خونریز معرکہ چاہتا ہے یہ بالکل ایسا ہی ہوسکتا ہے جس طرح سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا اور اس کے صیہونی حواریوں نے افغان مجاہدین کے درمیان خانہ جنگی کروا دی تھی ۔ ذرائع کے مطابق داعش کا وجود افغانستان میں امریکی ترکش کا آخری تیر ہے جسے چلا کر وہ افغان طالبان کی قوت کو کمزور کرنا چاہتا ہے ۔ دوسری جانب داعش افغانستان میں اتنی قوت نہیں رکھتی صرف طالبان کے چند چھوٹے گروپ ہیں جنہوں نے داعش کا روپ دھارا ہے لیکن ان کے انتہا پسندانہ خیالات کو نہ تو پاکستان برداشت کرسکتا ہے اور نہ ہی افغان عوام اور افغان طالبان کے لئے یہ قابل قبول ہیں اس کے ساتھ ساتھ داعش جس نام نہاد خلافت کا دعوی کرتی ہے شرعی طور پر وہ اس کا ایک تقاضا بھی پورا نہیں کرتی۔ لیکن امریکا کی خواہش ہوگی کہ جس طرح شام اور عراق میں داعش اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کے درمیان جنگی صورتحال پیدا ہوئی اسی طرح افغانستان میں طالبان اور داعش کے درمیان ہو ۔ مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ داعش کو ٹھکانے لگانے کے لئے خطے کی دیگر قوتیں طالبان کی پشت پر آجائیں گی۔۔۔؟
ریپ کیپیٹل کے نام سے مشہور بھارت میں خواتین مسلسل جنسی زیادتیوں اور ہراسگی کا شکار ہو رہی ہیں، روزانہ 86 خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی بھارتی خواتین کی ایک طویل داستان بن گئی، ریپ کیپیٹل کے نام سے مشہور بھارت میں خواتین ...
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر اپیل پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔وفاق...
بھارت میں مارکیٹ پر غلبے کیلئے ناجائز ہتھکنڈوں کے استعمال کے الزام میں گوگل پر 161 ملین ڈالر (13 ارب بھارتی روپے) کا جرمانہ عائد کردیا گیا۔ کمپیٹیشن کمیشن آف انڈیا نے بیان میں الزام عائد کیا کہ گوگل اپنے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے متعدد اسمارٹ فونز، ویب سرچز، برازنگ اور ویڈیو ہوسٹ...
سلطنت عمان نے اسرائیلی سویلین طیاروں کو دنیا کے مشرقی حصے تک پہنچنے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔عبرانی اخبار نے اسرائیلی سول ایوی ایشن کمپنی کے اگلے دو ماہ میں ہندوستان کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی وجہ سلطنت ع...
افغان طالبان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ امریکی حکام نے بھی طالبان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں کسی عسکری گروہ کی مالی امداد نہیں کریں گے۔ افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے دوحہ میں امریکی حکام س...
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے درمیان کابل میں دو دن قبل مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں، ممکن ہے پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں، مذاکرات ناکام ہوئے تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان ...
پاکستان نے آئی سی سی کی تازہ ترین ون ڈے رینکنگ میں ایک درجہ مزید ترقی کرتے ہوئے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی۔ گزشتہ روز سری لنکا نے دوسرے ایک روزہ میچ میں آسٹریلیا کو 26 رنز سے شکست دے کر 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر کردی تھی، سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد آسٹ...
امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت ق...
افغان طالبان نے ملک بھر کے تمام سرکاری دفاتر پر امارات اسلامیہ افغانستان کا سفید رنگ کا پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سرکاری حکم نامے میں کہا گیا کہ افغانستان کے تین رنگوں والے پرچم کی جگہ امارات اسلامیہ افغانستان کا پرچم لہرایا جائے۔ یاد رہے کہ طالبان کے افغ...
داعش نے ابو الحسن الہاشمی القریشی کو اپنا نیا سربراہ مقرر کیا ہے جن کے بارے میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ ماہ داعش کے سربراہ ابو ابراہیم القریشی نے اپنے ٹھکانے پر امریکی حملے کے وقت خاندان سمیت خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس کے بعد اب د...
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...
بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...