... loading ...
تنہ نا ھا یا ھو
تنہ نا ھا یا ھو
گم ستاروں کی لڑی ہے
رات ویران پڑی ہے
آگ جب دن کو دکھائی
راکھ سورج سے جھڑی ہے
غیب ہے دل سے زیادہ
دید آنکھوں سے بڑی ہے
گر نہ جائے کہیں آواز
خامشی ساتھ کھڑی ہے
لفظ گونگوں نے بنایا
آنکھ اندھوں نے گھڑی ہے
رائی کا دانہ یہ دنیا
کوہ ساری یہ اڑی ہے
وقت کے پاؤں میں کب سے
پھانس کی طرح گڑی ہے
کتنی بدرو ہے یہ ، تھو تھو
تنہ نا ھا یا ھو
طرفہ دام و رسن ایجاد!
میں ہوں سیّاروں کا صیّاد
از فلک تا بہ زمیں ہے
گرم ہنگامۂ بے داد
آتشیں آہ یہ خورشید
اور افق ہے لبِ فریاد
چرخ کے شور میں رکھ دی
میں نے سناٹے کی بنیاد
کرۂ بود و عدم ہے
میرے چوگان کا ہم زاد
وحشت انباریِ دل ہے
دانہ دانہ شجر افتاد
آسماں میرا مصاحب
وقت ہے بندۂ ارشاد
پانی ہے پانی میں غرقاب
جال ہے جال سے آزاد
آگ ہے آگ میں ساکن
خاک ہے خاک سے آباد
دشت ہے آبلہ مقدار
عکس ہے آئینہ میعاد
آنکھ کی اصل ہے آنسو
تنہ نا ھا یا ھو
نہیں جو شعلہ بھی حرّاق
آگ کرتی ہے اسے عاق
رات رہنے نہیں دیتی
شمعِ کشتہ کو سرِ طاق
جیشِ قہارِ جنوں کا
ہے ہواؤں سے یہ میثاق
کسی آندھی سے نہ ہو گا
سرنگوں رایتِ عشاق
دشمناں تم کو بشارت
میں وہ سیّاف ہوں مشّاق
دستِ خوں ریز میں جس کے
زہرِ ہستی کا ہے تریاق
جس کا نیزہ ہے سپر دوز
جس کی شمشیر ہے برّاق
جس کا شب دیزِ بلا خیز
چابک و پر دم و سبّاق
جو ہے غارت گرِ آواز
خامشی کے لیے قزّاق
برگ جس کا چمن آہنگ
ذرہ ہے باد یہ مصداق
زور جس کا ہمہ امکاں
شور جس کا ہمہ اطلاق
ایک شعلے میں ہوا صرف
گلخنِ انفس و آفاق
دل ہوا درد پہ یک سو
تنہ نا ھا یا ھو
حاملِ لشکر و رایہ
میں ہوں طوفان کی دایہ
بادیہ گردوں کی میراث
جلتی دیوار کا سایہ
ہے میری چاہ پہ موقوف
دورِ دولابِ عنایہ
ہے میری پیاس کا مرہون
گردشِ چرخِ سقایہ
حضرتِ عشق سے مروی
ہے یہ دل اصلِ روایہ
روحِ طیار کی پرواز
ہے الیٰ غیر نہایہ
میرے دریا میں نہ ڈالو
کوزۂ کنز و ہدایہ
جذبِ سرشارِ فنا کا
مرگ ہے ایک کنایہ
میں ہوں قتال من و تو
تنہ نا ھا یا ھو
میری تنہائی سے ہشیار
اس کی گہرائی سے ہشیار
سب زمانوں کو منادی
لحظہ پہنائی سے ہشیار
غیب در غیب ہے اک شور
چشمِ سودائی سے ہشیار
چھپنے والے کو سنا دو
میری بینائی سے ہشیار
دشت کتنا ہی بڑا ہو
آبلہ پائی سے ہشیار
ماہیاں! چشمۂ دل کی
ہفت دریائی سے ہشیار
اے خدایانِ یم و رود
سیلِ صحرائی سے ہشیار
ہاں مبارز طلباں ! ہاں
میری پسپائی سے ہشیار
باز اشہب ہے میرا تیر
اس کی اونچائی سے ہشیار
بھاگو بھاگو میری چب سے
نیز گویائی سے ہشیار
میں بلا خیز بلا خو
تنہ نا ھا یا ھو
رختِ بینائی ہوئی آگ
آنکھ تک آئی ہوئی آگ
بانیِ نارِ جہنم
میری ٹھکرائی ہوئی آگ
دو جہاں پھونک چکی ہے
یہ میری لائی ہوئی آگ
میرے سینے سے نکلتے
دیکھو گھبرائی ہوئی آگ
شعلۂ نحس کا معدن
ایک پتھرائی ہوئی آگ
اے دُخاں زاد غنیمو!
تم ہو کجلائی ہوئی آگ
کرے حمام و غاگرم
وہ بھی مرجھائی ہوئی آگ
میرے آگے سے اٹھا لو
اپنی دنیائی ہوئی آگ
کم نہ ہو شعلہ برابر
میری رکھوائی ہوئی آگ
عرش تک دل کی پہنچ ہے
یہ ہے نپوائی ہوئی آگ
لوحِ تقدیر پہ ہے ثبت
میری لکھوائی ہوئی آگ
ہے مرا حرفِ مکرر
جیسے دہرائی ہوئی آگ
رکھتی ہے کشتِ فنا سبز
میری برسائی ہوئی آگ
اب ہے آنکھوں سے مخاطب
دل کو سنوائی ہوئی آگ
گنجِ ویرانۂ جاں ہے!
ایک دفنائی ہوئی آگ
اشکِ گرم آنکھ سے نکلا
یا کہ دھلوائی ہوئی آگ
آب شمشیر پہ دم کی
میں نے پڑھوائی ہوئی آگ
آگ ہے زخم کا دارو
تنہ نا ھا یا ھو
اندھیرے جو دل کو ظلمت خانہ بنا دیں وہ رات کو آتے ہیں اور جو ذہن کو تاریک کر دیں وہ دن کو پھیلتے ہیں۔ اندھیرے جو احوال بن جائیں وہ رات میں اترتے ہیں، اور ظلمت جو فکر بن جائے وہ دن کو بڑھتی ہے۔ آج دنیائے آفاق خود اپنے ایندھن سے اور انسانی کاوش سے روشن ہے۔ یہ دنیا انسان کا گھر تو ہے...
اگر اس قول زریں میں ”ذہانت“ کا مفہوم طے ہو جائے تو اشکال ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اشکال ذہانت کے حوالے سے ”علم“ اور ”جہل“ کی ہم منصبی سے پیدا ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ذہانت کا مفہوم کیا ہے یا درست تر معنی میں اس کی تعریف کیا ہے؟ علم کی عمارت دراصل تعریفات کی اینٹوں سے کھڑی ہوتی ہے۔ ای...
دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ اس سے احمق بلبلہ، اس سے نادان ذرہ، اس سے بے وفا لمحہ قابل تصور نہیں ہو سکتا۔ یہ اس مسخ شدہ، کارٹون نما بلبلے، ذرے اور لمحے کی کہانی ہے جو نہ خود سے وا...
"شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں!" جمال کے آتش پیرہن جلوے آب معانی میں بسنے پر راضی ہو جائیں تو شاعری پیدا ہوتی ہے، اور اس ”آبدار پانی“ کا جرعہ نصیب ہونا ذوق ہے۔ ہمارے ہاں شاعری پر جھگڑا نہیں، اور وہ جو عظیم المرتبت یونانی استاد شاگرد کا جھگڑا ہے، ا...
"بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں" بعض اوقات اصل بات اس قدر اہم ہوتی ہے کہ اسے براہ راست کہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس قول زریں کی تہہ داری ہمارے عصری حالات پر تبصرہ بھی ہے، اور اصل بات تک پہنچنے کے لیے مہمیز بھی ہے۔ اول تو اس قول میں ”بعض“ کا لفظ نہایت ...
سیکولرزم ایک سیاسی نظام کے طور پر دنیا میں عملاً قائم ہے، اور ایک فکر کے طور پر علوم اور ذہن میں جاری ہے۔ یہ ایک کامیاب ترین نظام اور موثر ترین فکر ہے۔ اب سیکولرزم دنیا کا معمول بھی ہے اور عرف بھی۔ عام طور پر یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات د...
ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی! اس قول زریں میں احمد جاوید صاحب نے علم پر مذہبی موقف کو سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے اس قول کی تہہ میں کارفرما موقف کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ علم کی ایسی تعریف کہیں میسر نہیں ہے، یعن...
اونچی لہر بڑھا دیتی ہے دریا کی گہرائی تیرے غیب نے دل کو بخشی روز افزوں بینائی سات سمندر بانٹ نہ پائے موتی کی تنہائی ناپ چکا ہے سارا صحرا میری آبلہ پائی مالک میں ہوں تیرا چاکر مولا! میں مولائی دل ہے میرا گیلا پتھر جمی ...